میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا

مجھ جیسے کودن، غور و فکر سے عاری، سوشلائزیشن سے متنفر شخص کے لئے، جس کارپورٹنگ سے بھی کبھی کوئی لینادینا نہیں رہا، یہ زندگی کافی مشکل ہے کیونکہ نہ کوئی بات سمجھ آتی ہے نہ کسی بات کی کوئی خبر ہوتی ہے اس لئے ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہوں مثلاً مجھے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر متعلقہ، متاثرہ، فریق یا فریقین جرائم پیشہ نہیں اور ان کے دست و دامن بے داغ ہیں تو حدیبیہ کیس کے ری اوپن ہونے میں کیا تکلیف ہے؟ اگر آپ چور نہیں ہیں تو دوسری کیا، دسویں مرتبہ بھی کوئی یہ کیس کھولے گاتو منہ کی کھائے گا لیکن اگر آپ وارداتیئے ہیں، گھر کا نام ’’ہجویری‘‘ اور اصل کام ہیراپھیری ہے تو پھر یقیناً بردہ فرشوں کو اپنے اپنے منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے۔بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے ’’لیڈر‘‘بیچ کھائیں ہیں جو یوسف سی ’’رعایا‘‘ ہووےبردہ فروش تو اپنے پورے ’’کیریئر‘‘ میں چند سو یا چند ہزار انسانوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہوتا ہوگا، خائین حکمران تو کروڑوں انسانوں کی قسمتوں کی قیمتیں اِدھر اُدھر کر جاتے ہیں۔ عدیم ہاشمی یونہی نہیں چیخا تھا؎بوزنے ہیں تو ملے ہم کو ہمارا جنگلآدمی ہیں تو مداری سے چھڑایا جائےتسلیم کہ ہم بوزنے بندر ہیں تو پلیز ہمیں جنگلوں کے سپردکردو لیکن اگر ہم آدم زاد ہیں تو ہمیں ان مداریوں سے نجات دلائو جو ہماری وجہ سے خلیجی و مغربی ملکو ںمیں بیش قیمت اثاثے بناتے ہیں لیکن ہمیں نسل در نسل3 مرلوں کی چھت بھی نصیب نہیں ہوتی اور جسے ہو جاتی ہے وہ بھی ہمیں یوں بھول جاتا ہے جیسے اس کاہمارا ناطہ ہی کوئی نہ ہو۔قصور کسی اور کا نہیں، میرا پلّا ہی اتنا بوسیدہ اور پھٹا پرانا ہے کہ میرے پلّے کچھ نہیں پڑتا مثلاً مجھے یہ منطق بھی اپیل نہیں کرتی کہ قطری شہزادہ فیم برادر اسلامی قطر سے لائی گئی ایل این جی (LNG) کے معاہدوں کوبھی دُم یاگردن موڑنے، ٹینٹوا دبانے یعنی بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے تو میرے نزدیک اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ بہت بڑی واردات وہاں بھی ڈالی گئی ہے۔ نہیں تو کسی اور کا انتظار کیوں؟ سارے معاہدے، تمامتر دستاویزات خود ہی عام کردو ورنہ’’جنہاں کھادیاںگاجراں ڈھڈ اونہاں دے پیڑ‘‘ توہونی ہی ہے۔ مطلب یہ کہ جو لال لال رسیلی گاجریں کھائےگا اسے پیٹ درد توفیس کرنا ہی پڑے گا اور یہ تو وہ ہیں جنہوں نے گاجروں کے کھیت کھائے ہیں۔ مجھے تو آج تک یہی سمجھ نہیں آئی کہ اپنی ٹوٹی پھوٹی گلیاںبنانے سےپہلے موٹروے بنانے کی کیا تُک بنتی ہے؟ پرائمری سے فارغ ہوئے بغیر پی ایچ ڈی کرنے کے ان شوقینوں کی کون سی حرکت قابل فہم ہے اور کمال یہ کہ جن کارناموں پر ڈوب مرنا چاہئے، یہ ان پرفخر کرتے اور ان کا کریڈیٹ لیتے ہیں۔غالباً عثمان ڈار نام ہے سیالکوٹ کے اس سمارٹ سے نوجوان PTI لیڈر کا جسےٹی وی پر گفتگو کرتے سن کر میں حیران رہ گیا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ اس کا ایک گرائیں وزیر جو آج ارب پتی ہے، کبھی بنک میں بہت ہی معمولی اور ادنیٰ سا ملازم تھا۔ اک دوسرا وزیر با تدبیر شرمناک ترین شرائط سے مزین اقاما طوق کی طرح گلے میں لٹکائے پھررہا ہے۔ واقعی اجڑے باغاں دےگالڑ پٹواری اور للو پلٹن کا تاجا حوالدار۔مسلسل اعتراف کئے جارہا ہوں اور اس اعترافی بیان کے جواب میں وعدہ معاف گواہ بننے کی خواہش بھی نہیں کہ مجھے اس شہر آسیب کی کوئی بات سمجھ نہیںآتی اور ایسی بے شمارباتوں میں ایک بات ’’ووٹ کا تقدس‘‘ بھی ہے۔ کون سا ووٹ اور کیسا تقدس؟ کج فہمی اور کم عقلی کے باعث میرا خیال ہے کہ ’’ووٹ کے تقدس‘‘ سے مراد ہے ووٹر کا تقدس اور احترام تو اس کی جتنی پامالی ووٹ لینے والے ٹوٹ بٹوٹ کرتے ہیں، کوئی اور اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کھیل سے کسی اور کا تو کوئی تعلق ہی نہیں۔ ووٹر کی عزت اور عزت ِ نفس کی اس سے زیادہ پامالی کیا ہوسکتی ہے کہ اس دو ٹانگوں والے ’’چوپائے‘‘ کو پینے کاصاف پانی بھی نصیب نہیں اور ووٹ تو بھٹو، بینظیر بھٹو بلکہ زرداری کا بھی بہت بلکہ تم سے بڑھ کر تھا، تم نے خود ان کے ساتھ کیا کیا؟ خود عاشقی کرنی ہو تولڑکپن میں بھی مجنوں پر سنگ اٹھاتے ہوئے اپنا سر یاد کرلینا چاہئے تھا لیکن جزوی طور پر تم بھی سچے تھے کہ جب کوئی سرے محل سامنے آئے گا تو ووٹ کا تقدس سیدھا کوڑے دان میں جائے گا اور بالکل اسی طرح پاناما ہوگا تو پھر بھی یہ نام نہاد تقدس اس کی گہرائی میں غرق ہو جائے گا سو پہلے خود ووٹ یعنی ووٹر کے تقدس کا سبق سیکھو۔ حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب کی مہم کے دوران پورے پاکستان نے اس حلقہ کی زبوں حالی ٹی وی اسکرینوں پر دیکھی جس کا ’’ذاتی‘‘ وزیراعظم نااہل ڈیکلیئر کئے جانے تک پورے ملک میں ’’ترقی ترقی‘‘ چلاتا پھرتا تھا جبکہ اس کے اپنے حلقہ انتخاب میں قدم قدم پر خاک اڑ رہی تھی، گٹر ابل رہے تھے، کیچڑ بہہ رہا تھا، گلیاں ٹوٹی پھوٹی تھیں اور لوگ غلیظ پانی پینے پر مجبور تھے تو دراصل یہ تم خود ہو جوووٹ کے تقدس کو روندتے اور پامال کرتے ہو۔باتوں باتوں میں پیپلزپارٹی بھی بیچ میں آگئی تو سچی بات ہے مجھے ان کی بھی سمجھ نہیں آتی۔ چار ساڑھے چار سال سے تو میں اسے ’’مرحومہ مغفورہ‘‘ قرار دے رہا ہوں لیکن سمجھ نہیں آتی یہ پھر بھی ہاتھ پائوں مارنے سے باز کیو ںنہیں آتے؟ حلقہ 120میں ضمانت ضبط کرانے کے بعد بھی ان کا خبط بدستور برقرار ہے تو کوئی آصف زرداری صاحب کو کسی سیانے کا یہ قول سنائے کہ ’’جب کوئی پارٹی فلاپ ہوجائے تو اس میں جان ڈالنے کی سعی ٔ رائیگاں سے بہتر ہے آدمی نئی پارٹی بنا لے‘‘ لیکن پھر وہی بات کہ نہ انہیں میری سمجھ آئے گی نہ مجھے ان کی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے