برماکے مسلمان اور مسلم ریاستوں کی خاموشی؟

برما کے مسلمانوں کی موجودہ صورتِ حال پہ ہر آنکھ اشکبار ہے ۔مسلم و غیر مسلم ممالک میں بسنے والے ہر انسان نے ان کے قتلِ عام پہ گہرے دکھ اور غم کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ اپنے تئیں ممکنہ صورت میں ان کی مدد بھی کر رہے ہیں ۔

تعاون کی دو صورتیں ہیں، ایک صورت ان کے حق میں آواز اٹھانااور مالی مدد کرنا ،دوسری صورت اپنے ملک کے مقتدر طبقہ سے مطالبہ کہ وہ جس حد تک ہو سکے سفارتی ،سیاسی اور انسانی بنیادوں پر اس مسئلے پہ آواز اٹھائیں۔تما م اسلامی ممالک میں مسلم عوام اپنے حکمرانوں کی خاموشی اور سکوت پہ حیران ہی نہیں بلکہ ناراض بھی ہیں۔ ایسے حالات میں طیب اردگان ہیں جو مسلم عوام کی توقعات پہ پورا اترے اور برما پہنچے ۔ مسلم عوام کے حکمران خاموش کیوں ہیں، یہ خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ اس خاموشی کی وجہ سمجھنے کے لئے ،ہمیں ایک مختلف نقطہ نظر سے اس کا جائزہ لینا ہو گا۔

مجھے میرے ایک دوست نے مولانا وحید الدین خاں کا انگلش مضمون وٹس ایپ کیا جو برما کی صورتِ حال سے متعلق ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ”صدیوں سے اراکان کے مسلمان برما کے ساتھ پرامن طریقے سے رہ رہے تھے اور ان کے ہاں کوئی علیحدگی کے رحجانات نہیں تھے۔ جب 1947 ءمیں مشرقی پاکستان وجود میں آیا اس وقت کچھ جذباتی راہنماﺅں نے جہاں روہنگیا کے لوگ رہتے تھے وہاں ایک علیحدہ مسلم ریاست قائم کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے اس تحریک کو ”خودمختاری“کا نام دیا۔ یہ تحریک تیز ہوئی تو اس میں انتہا پسند مسلمان بھی شامل ہو گئے۔ میانمار کی مرکزی حکومت نے ان سرگرمیوں کو بغاوت تصور کیا۔درحقیقت یہ میانمار سے علیحدگی کی تحریک تھی ۔بغاوت سے پہلے روہنگیاکے مسلمان میانمار کے لوگوں کے ساتھ پرامن طریقے سے رہ رہے تھے لیکن علیحدگی پسند رہنماﺅں کی جذباتی تقاریر نے علیحدگی کے جذبات کو بھڑکا دیا۔ روہنگیا میں ان کی سرگرمیوں کوکچلنے کی خاطر میانمار حکومت نے ان کے خلاف مشکل قدم اٹھا یااور سخت اقدامات کیے جوروہنگیا کے لیڈرز کے مطابق ایک جابرانہ اور ظالمانہ فعل تھا۔1971ءمیں بنگلہ دیش کے وجود سے روہنگیا کے لیڈرز کے لئے یہ سیاسی صورت حال ایک لحاظ سے حوصلہ افزاءتھی۔ انہوں نے اپنی تحریک کو اورتیز کر دیا اس کے خلاف میانمار کی حکومت نے اپنے اقدام کوبھی تیز کردیا۔غالباً1966ءمیں ایک مسلم سکالر نے انہیں بتایا کہ وہ برما جا رہے ہیں تاکہ وہاں مسلم سٹیٹ قائم کی جائے۔ میں نے ان کے ساتھ جانے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کے اس عمل کی مخالفت کی وہ مجھ سے ناراض ہو کر چلے گئے“۔

مولانامزید لکھتے ہیں” صرف برمی انتظامیہ کو الزام دینا درست نہیں ہو گا۔ بیوقوف روہنگیا کے راہنماﺅں نے بھی صورتِ حال کو بگاڑنے میں ا پنا حصہ شامل کیا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ برما کے لوگ بہت اچھے ہیں وہ انہیں دوبارہ قبول کر لیں گےبشرطیکہ روہنگیا کے مسلمان اس بات کو قبول کریں کہ انہیں علیحدگی پسند لیڈروں کے ذریعے گمراہ کیا گیا تھااور اب وہ میانمار کے قابل اعتماد شہری بن کر رہنے کا فیصلہ کرچکے ہیں“۔

برما کے مسلمانوں کے ساتھ تمام انسانوں کی ہمدردیاں شامل ہیں لیکن اگر وہاں ایسے گروہ پیدا ہو چکے ہوں جیسے پاکستان ، ایران یاسعودی عرب میں پیدا ہو چکے ہیں توان کے ساتھ میانمار کی حکومت کوکیا سلوک روا رکھنا چاہئے؟۔یہ وہ اہم سوال ہے جس پہ ہمیں غورکرناچاہئے اوراسی وجہ سے ہمارے حکمرانوں کی زبانیں خاموش ہیں پاکستان خاص طور پر خاموش ہے کیونکہ وہ کسی طرح بھی چین سے اپنے تعلقات خراب نہیں کر سکتا۔

اس نقطہ نظر کے کسی پہلو سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اسی طرح کے حالات برما میں پیدا کیے گئے ۔ روہنگیا کے مسلمانوں کو جذباتی تقاریر کے ذریعے علیحدہ ”مسلم ریاست“کے خواب دکھائے گئے۔ فقط صورتِ حال یہاں تک نہ رہی بلکہ وہاں بم دھماکوں اور قتل وغارت کے ذریعے باقاعدہ ”جہاد“ کا آغاز بھی کر دیا گیا۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی خاموشی کی وجہ اپنے اپنے ممالک کی داخلی صورتِ حال ہے جہاں عسکری اورجہادی گروپوں کی موجودگی اور ان سے مسلسل برسرپیکار ہونا ہے۔ مثلاً پاکستان کی صورتِ حال یہ ہے کہ سابق وزیر داخلہ کے بقول ”پاکستان اس وقت مشکلات میں ہے جس کا علم مجھ سمیت صرف 4 یا5لوگوں کو ہے“۔ سعودی عرب کے اندرونی حالات ایسے ہیں کہ وہاں بھی داعش کا خطرہ لاحق ہے بلکہ سعودی عرب شدید معاشی بحران کابھی شکا ر ہے۔برماحکومت کے اقدامات کی برملا اورمطلقاًمخالفت درحقیقت اس صورتِ حال کی بھی حمایت ہے جس سے اس وقت خودمسلم ریاستیں گزر رہی ہیں اور وہ دہشتگردی اور عسکریت پسندی ہے۔ طیب اردگان سے ایک سوال کیا جا سکتا ہے کہ ترکی میں جب آرمی نے بغاوت کی آپ نے اس بغاوت کاخاتمہ کیسے کیا؟ صحافیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ فتح اللہ گولین کے حامیوں اوران کے تعلیمی اداروں کو بے دردی سے کیوں کچلا اور اداروں کو کیوں بند کر دیا ؟۔اُن سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ مسلم عوام کے دل جیتنے اورامداد و تعاون کے لئے برما تشریف لے گئے ۔ یہ اچھی بات ہے لیکن ایسے عسکری اور علیحدگی پسند گروہ آپ کے ہاں پیدا ہو جائیں تو آپ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟۔برما کی حکومت سے ایک مطالبہ جائز ہے جو ہر شخص اور حکومت کوکرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ امن پسند عوام اور عسکریت پسند افرادکے درمیان ہرلحاظ سے فرق کیا جائے اور مسلم عوام کا خون نا حق مت بہایا جائے۔

برما کے مسلمانوں کے ساتھ تمام انسانوں کی ہمدردیاں شامل ہیں لیکن اگر وہاں ایسے گروہ پیدا ہو چکے ہوں جیسے پاکستان ، ایران یاسعودی عرب میں پیدا ہو چکے ہیں توان کے ساتھ میانمار کی حکومت کوکیا سلوک روا رکھنا چاہئے؟۔یہ وہ اہم سوال ہے جس پہ ہمیں غورکرناچاہئے اوراسی وجہ سے ہمارے حکمرانوں کی زبانیں خاموش ہیں پاکستان خاص طور پر خاموش ہے کیونکہ وہ کسی طرح بھی چین سے اپنے تعلقات خراب نہیں کر سکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے