این اے 120کے معاملہ پر آرمی چیف انکوائری کروایں

گزشتہ سوموار کے روز قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دفاع سے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے ممبران کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی جس کےبارے میں میڈیا میں کافی مثبت رپورٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں کھل کر دونوں اطراف سے باتیں کی گئیں اور اس امید کا اظہار کیا گیا کہ سول ملٹری کے درمیان اس نوعیت کی بات چیت سے ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں پیدا نہیں ہوں گی بلکہ ایک دوسرے کو سمجھنے میں مددملے گی جو پاکستان کو درپیش چیلنجز کا متحد ہو کر مقابلہ کرنےکےلیےبہت ضروری ہے۔ اس میٹنگ کےبارےمیں میری جن پارلیمنٹیرینز سے بات ہوئی وہ اس بات چیت سے بہت خوش نظر آئے اور اُنہیں امید نظر آئی کہ آپس میں اس طرح تبادلہ خیال سے ماضی کے برعکس اداروں کے درمیان ہم آئنگی کو فروغ ملے گا ۔ آرمی چیف کے متعلق بتایا گیا کہ انہوں
نے کہا کہ وہ نہ صرف آئین و قانون کی حاکمیت اور سولین سپریمیسی کے قائل ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سے فوج کا رابطہ رہے تاکہ جب پالیسیاں بنائی جائیں تو دوسرے اسٹیک ہولڈرز کی طرح سیکورٹی، دفاع اور خارجہ امور کے معاملات میں فوج کے موقف سے بھی پارلیمنٹ پوری طرح آگاہ ہو۔ دونوں اطراف اس بات پر اتفاق تھا کہ آئین کے تحت ہی چلنے میں ملک کا بھلا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی معاملات میں مبینہ مداخلت اور سازشوں کے متعلق سوال پر آرمی چیف نے کہا بہت بار ایسی باتیں کی جاتی ہیں اور پھیلائی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جس روز یہ اہم اجلاس جی ایچ کیو میں ہوا، اس سے ایک روز قبل یعنی گزشتہ اتوار کے دن لاہور کے حلقہ120 میں الیکشن ہوا جس کے متعلق میاں نواز شریف سمیت ن لیگ کے چند رہنمائوں نے یہ الزام عائد کیا کہ اُن کے ووٹرز کو الیکشن سے ایک روز قبل نہ صرف اغوا کیا گیا بلکہ ن لیگی ووٹروں کی طرف سے ووٹ ڈالنے میں بھی رکاوٹ ڈالنے کی شکایات ملیں۔ چند ایک لیگی رہنمائوںنے اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کیا اور جب اُن پر زور دیا گیا کہ ذمہ داروں کا نام لیں توکہنےلگے کہ نام لیں گے تو کہا جائے گا کہ ن لیگ محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کر رہی ہے۔ میڈیا پر چلنے والے ن لیگی رہنمائوں کے اس نوعیت کے بیانات کو تو شک کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن جب میں نے جیو کے سینئر اینکر اور صحافی سلیم صافی صاحب کا کالم پڑھا تو پریشانی ہوئی۔ صافی صاحب کے کالم کے کچھ متعلقہ اقتسابات قارئین کرام کےلیے پیش کر رہا ہوں :
’’لاہور کے حلقہ این اے120 کے ضمنی انتخابات پاکستان کی سیاسی تاریخ کا منفرد معرکہ تھا۔ یہ بظاہر حکمراں جماعت یعنی مسلم لیگ ن اور اپوزیشن کے مابین برپا تھا لیکن حکمراں بڑی حد تک بے بس تھے جبکہ اصل حکمراں اپوزیشن کے لیے متحرک نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی بجائے میاں نواز شریف اپنے کارکنوں اور رہنمائوں کے غائب کیے جانے کی فریاد کر رہےتھے…………۔بظاہر تو مسلم لیگ ن کی امیدوار کو گزشتہ انتخابات کی بہ نسبت کم ووٹ ملے ہیں اور پی ٹی آئی کی امیدوار نے اپنے ووٹوں کی شرح کو برقرار رکھا ہے لیکن جن حالات میں یہ انتخابات ہوئے ہیں ان کو مدنظر رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو اس رائے تک پہنچے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ میاں نواز شریف نے پنجاب میں نہ صرف اپنی مقبولیت کو برقرار رکھا ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا ہے…………..۔ وہ قوتیں جن کا نام ہم تو کیا میاں نواز شریف بھی نہیں لے سکتے اور جو ان دنوں اس کی مخالف سمجھی جاتی ہیں، بھرپور منصوبہ بندی اور پوری قوت کے ساتھ اس حلقے میں حملہ آور تھیں۔ جتنا ہو سکتا تھا انہوں نے مسلم لیگ ن کے خلاف پولیٹیکل مینجمنٹ کی۔ شاید مسلم لیگ ن کے الزامات میں مبالغہ بھی ہو لیکن لاہور کے آزاد اور باخبر صحافی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ جو الزامات لگا رہے ہیں ان میں وزن بھی ہے……..‘‘
رانا صاحب نے چند روز قبل جیو کے ہی ایک پروگرام میں بات چیت کرتےہوئے کہا کہ جو الزامات وہ لگا رہے ہیں اُس پر آرمی چیف ن لیگ اور پنجاب حکومت سے ثبوت مانگے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جو بات کر رہے ہیں اُس کی ذمہ داری لیتے ہیں کہ وہ سچ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پنجاب حکومت کی طرف سے ن لیگی کارکنوں کو اُٹھایاجاناثابت ہوتا ہے تو وہ سزا کے حق دار ہوںگے۔ رانا صاحب سے جب آرمی چیف اورپارلیمنٹیرینز کی میٹنگ کے حوالے سے جنرل قمر جاوید باجوہ کے خیالات پربات ہوئی تو انہوںنے اس کی حوصلہ افزائی کی اور سراہا۔ اب حلقہ این اے 120 میں کیا ہوا، اس بارے میں انکوائری ہونی چاہیے کیوں کہ جو الزام ن لیگ نے لگائے اور جس کے بارے میں سلیم صافی صاحب نے بھی لکھا، وہ بہت سنگین نوعیت کے ہیں۔ اس سلسلے میں آرمی چیف کو چاہیے کہ وہ فوری انکوائری کا حکم دیں اور اگر ہو سکے تو وفاق اور پنجاب کے ساتھ مل کے اس معاملے کی مکمل کھوج لگائی جائے اور ذمہ داروں کو نہ صرف بے نقاب کیا جائےبلکہ اُنہیں سزا بھی دی جائے۔ ن لیگ اور سول حکومت اس بارے میں کیا سوچتے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن ایسے معاملات کسی بھی لیحاظ سے اسٹیبلشمٹ کےلیے بھی قابل قبول نہیں ہونے چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے