عقل اور معقولیت کو الوداع

قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کے ضمنی انتخابات ،جنہیں ایک طرح کا ریفرنڈم قرار دیا جارہا تھا، کا نتیجہ آگیا۔ میڈیا پر گرما گرم بحث ومباحث کا سلسلہ تھمنے کانام نہیں لے رہا۔پی ایم ایل (ن) کی کامیابی کی تمام ممکنہ زاویوں سے جانچ جاری ہے۔ اس حلقے میں ہونے والے ضمنی الیکشن کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی تھی کیونکہ یہ سابق وزیر ِاعظم کی نااہلی سے خالی ہونے والی سیٹ پر ہورہا تھا، چنانچہ اس کے نتائج، ان میںعوام کی شرکت اور فتح کا مارجن ، ہر چیز بہت اہمیت رکھتی تھی ۔ پولنگ کے دن پیش آنے والے واقعات کے گہرے مضمرات ہوسکتے تھے۔ مبصرین اسے 2018 ء کے عام انتخابات کا پہلا مورچہ قرار دیتے ہوئے آنے والے کئی ماہ تک اس پر بات کرتے رہیں گے ۔
یہ تمام معروضات اپنی جگہ پر ، لیکن ان سے ایک بنیادی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی، جو کہ پاکستان میں ٹکرائو کی سیاست کا بڑھتا ہوا رجحان ہے ، اور جوملک کو ہر آن ایسی دلدل میں دھکیل رہا ہے جہاں سے انتخاباتی سیاست کی کوئی فعالیت اسے باہر نہیں نکال سکتی ۔ درحقیقت جب بھی کوئی انتخابی معرکہ لڑا جاتا ہے ، ٹکرائو کی سیاست کا بازار گرم اور دشمنی اور تقسیم کی لکیریں گہری ہونے لگتی ہیں، قومی زندگی کے دھارے میں خون کی سرخی پہلے سےزیادہ نمایاں ہوجاتی ہے اورزندگی کی ساعتیں مزید زہر آلود ہوجاتی ہیں۔ یقینا اس تباہ کن کھیل کی ذمہ داری جمہوری نظام میں دئیے گئے ووٹ ڈالنے کے حق پر یقینا عائد نہیں ہوتی ۔ گزشتہ چند برسوں سے ابھرنے والی حرکیات، ایک منہ زور گھوڑے کی طرح بے لگام ، اس افسوس ناک رجحان کو ایک واضح شکل دے رہی ہیں۔
یہ صورت ِحال مختلف ہوتی اگر قومی سیاست کی مارکیٹ کو اپنے نتائج خود برآمدکرنے کی اجازت دی جاتی، اور اس پر قانون اور بندوق کے آزمودہ ہاتھ اثرانداز نہ ہوتے ۔ اگر پاکستان تحریک انصاف موجودہ حکومت کی عمومی نااہلی اور ناقص کارکردگی پر عوام کو اپنا ہم نوا بناتے ہوئے 2018 ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے حکومت بنالیتی تو یہ اصلاح سازی کا ایک مثالی نظام ہوتا ۔ اس کی وجہ سے پی ایم ایل (ن) کی پنجاب میں اجارہ داری کو دھچکا پہنچتا، اور اگر اصلاح پذیر الیکشن کمیشن توانا ہوجائے تو قومی اسمبلی میں اعداد وشمار بھی تبدیل ہوسکتے ہیں۔
لیکن یہ موقع گنوا دیا گیا۔ نااہل قرار پانے کے بعد نواز شریف کے شانوں سے انتخابی احتساب کا بوجھ اترگیا۔ ٹھیک جس وقت وہ آخری ڈش سے نوالہ لینے ہی والے تھے کہ اُنہیں دسترخوان سے اٹھا دیا گیا۔ اب وہ ہر جگہ خود کو مظلوم ظاہر کررہے ہیں۔ صرف یہی نہیں، پس ِ پردہ رہ کر اصل حکومت بھی وہی چلارہے ہیں، اور اب وہ کسی کے سامنے جواب دہ بھی نہیں۔ اگر اسکرپٹ کے اگلے مرحلے کا اندازہ لگائیں تو اُن کی منزل جیل ہوسکتی ہے، لیکن اس سے اُنہیں کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ ہوسکتا کہ اس پر شیخ رشید او ر عمران خان تھوڑی دیر کے لئے جشن منالیں، لیکن پاکستان کی عملی سیاست میں یہ مرحلہ ن لیگ کو مزید توانائی عطاکرے گا۔ شریف فیملی کو عدلیہ کے ذریعے طاقتور ضربیں لگانے کا منصوبہ پہلے ہی اپنی ساکھ کھورہا ہے ۔ اس لئے کہ اختیار کیا گیا جواز اتنا کمزور تھا کہ اس سے خود عدلیہ کی دنیا کے بہت سے افراد بھی متاثرنہیں ہوئے ۔ پاناما فیصلے کے مخالفین نے کیا کہنا ہے ، جج حضرات کے تبصروں سے سب کچھ عیاں ہے ۔ جب انصاف کی فراہمی کے لئے قانونی طریق ِ کار اختیار کرنا ہے تو پھر وعظ و نصیحت یا اخلاق سے بوجھل حوالے چہ معنی دارد؟
پی ٹی آئی کی امیدوں پر پانی پھرتا دکھائی دیتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ اسے جشن منانے کا کوئی ایک آدھ موقع مل جائے لیکن پارٹی کی حقیقی طاقت کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہوگئی ہے ۔ ضمنی الیکشن کے نتائج چھوڑیں، اس سے پہلے پی ٹی آئی کے لاہور میںکئے گئے دونوں جلسوں میں عوامی جنون کی عدم شرکت بہت کچھ کہہ رہی تھی ۔ ہوسکتا ہے کہ ابھی عمران خان کو اس بات کا احساس نہ ہونے پائے کہ ہمہ وقت مخالفین کی توہین کرنا، یا اُن پر گرجنا برسنا سیاسی تصورات کے منافی ہے ۔ اپنی عظمت کی آپ تراشی جانے والی کہانیوں کی ٹویٹ کرتے رہناعملی سیاست کی دنیا میں کامیابی کو یقینی نہیں بناتا، گالیاں سیاسی جارحیت نہیں ہوتیں، اسٹیج پر اکڑ دکھانے سے قیادت وجود میںنہیں آتی۔
آپ اس معاملے کو جس انداز سے بھی مرضی دیکھ لیں، اب پی ٹی آئی نواز شریف سے مزید سیاسی فائدہ نہیں اٹھا سکتی ۔ اب اُن پر برسائے جانے والے تنقید و طعن کے سنگریزے سیاسی کرنسی میں نہیں ڈھلیں گے ۔ پی ٹی آئی کی جگہ صرف اُس صورت بن سکتی ہے جب پنجاب میں ن لیگ کا شیرازہ مکمل طور پر بکھر جائے ،اور ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا ۔ اس وقت قومی سیاست کا دھارا جس مقام سے گزررہا ہے ، اس کے تیور یہ بتاتے ہیں کہ اگر عام انتخابات کا کل ہی اعلان کردیا جاتا ہے تو 2013 کے نتائج کا ہی اعادہ ہوگا۔ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں چند ایک مزید نشستیں لے جائے لیکن اس کی کسر خیبر پختونخوا سے نکل جائے گی۔ وہاں اسے خاطر خواہ سیاسی نقصان کا سامنا ہے ۔
الیکشن کمیشن کے ساتھ خواہ مخواہ کی جنگ لڑتے اور زخم کھاتے ہوئے پی ٹی آئی کی انتخابی صفیں مزید برہم ہوسکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ساتھ اس طرح باہم دست وگریباں ہونے کوکسی طور سیاسی بصیر ت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جو انتخابی کارروائی کی نگرانی کرتا ہے ، اوراس کے ہاتھ میں قانونی طاقت ہے جو یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کہ کس نے الیکشن لڑنا ہے اور کس نے نہیں۔ عمران خان کے اس ادارے پر تابڑ توڑ حملوں ، اور پارٹی فنڈنگ پر اس کی قانونی ضروریات کی تعمیل کرنے سے انکارکا ہوسکتا ہے کہ کوئی جواز موجود ہو ۔ یہ جواز اس سادہ سی تھیوری کی بنیاد پر ہے کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس آئینی ادارے کو سرنگوں کردیں گے ، اور اگلے انتخابی معرکے تک اس کی شکل کسی نہ کسی طرح مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی ۔
درحقیقت عمران خان کی منشا کے مطابق الیکشن کمیشن کی تشکیل ِ نوکے لئے درکار قانونی ٹکسال اس وقت موجود نہیں۔یہ صرف ایک طریقے سے ہی ممکن ہے کہ اگلے عام انتخابات سے پہلے فوج اور عدلیہ مل کر اس کی مکمل تطہیر کردیں ۔ لیکن یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ملک کے دو اہم ترین ادارے ایسا کیوں کریں گے ؟اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر عمران خان اپنی موجودہ بھاگنے کی رفتار سے کس طرح فتح کی لکیر عبور کرکے ریس جیتیں گے ؟کیونکہ انتخابات تو عوامی مقبولیت سے جیتے جائیں گے اور ان کا انعقاد اسی الیکشن کمیشن نے کرانا ہے۔
اور اگر پی ٹی آئی اپنی فعالیت کو درست سیدھ میں نہیںلاتی تو یہ موجودہ سیاسی نظام، جو نفرت اور ٹکرائو کی وجہ سے مفلوج ہوچکا ہے ، میں سے کیا مثبت نتائج حاصل کرنے کی توقع لگائے ہوئے ہے ؟اس کے جواب کے لئے دماغ پر بہت زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ اور یہی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، کہ جس وقت علاقائی اور عالمی صورت َحال انتہائی دگرگوں ہے ، ہمیں فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں بیدار مغز سیاست دانوں کی ضرورت تھی، ہمارے ہاں حماقتوں کے دفتررقم ہورہے ہیں ۔
چاہے ہم داخلی طور پر جو بھی نظام رکھتے ہیں، ہم طاقت ور ممالک کے ریڈار ا سکرین پر موجود ہیں۔ اور یہ ہماری طاقت نہیں، کمزوری ہے۔ ہماری معیشت انتہائی مشکلات کے گرداب میں گھری ہوئی ہے، گورننس کے سنگین چیلنجز منہ پھاڑے سامنے کھڑے ہیں، ملک ایک انچ آگے نہیں بڑھ رہا اور سیاسی ماحول دشمنی، نفرت اور تقسیم کے غبار سے گہرا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ پوائنٹ اسکورنگ کے اکھاڑے، میڈیا میں ہونے والی نعرہ بازی کچھ حلقوں کا کتھارسز کردیتی ہو، اور اس سے یہ تاثر چلا جاتا ہو کہ ہم عظیم کامیابی سے بس ہاتھ بھر کی دوری پر رہ گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو انتہائی سنگین داخلی بحران کا سامنا ہے۔ کوئی جائے مفر باقی نہیں دکھائی دے رہی۔طلوع ہونے والا ہر سورج ہماری چاندماری دیکھتا ہے، اور پھر مایوسی کے گہرے بادلوںمیں لپٹی رات کسی سنہری صبح کے خواب میں بسر ہوجاتی ہے۔ معاملات درست کرنے کی کوشش کا نتیجہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ قومی اتحادکی خواہش کے راستے میں عجیب وغریب حکمت ِعملی اور التباسی منصوبوں کی دیواریں کھڑی ہیں۔
اگر ملک کوئی لیبارٹری ہوتاتو ان تجربات کازیادہ نقصان نہیں تھا، سوائے اس کے کہ چند افراد کے ہاتھ جل جاتے۔ لیکن یہ کوئی تجربہ گاہ نہیں، دوسوملین افراد کی ریاست ہے۔ اس کے نظام کے ساتھ ہر کوئی اپنی افتاد ِطبع کے ہاتھو ں مجبور، من مانی سے چھیڑخانی کرتا رہے گا تو معاملات سلجھنے کی بجائے الجھتے چلے جائیں گے۔ چنانچہ آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ سیاسی اتفاق رائے کو موقع دیا جائے۔ چیئرمین سینیٹ، جناب رضا ربانی نے ایک سے زیادہ مواقع پر کہا ہے کہ اداروں کا اپنے دائرہ کار سے باہر قدم نکالنا تباہی کا باعث بنے گا۔ اوروہ درست فرماتے ہیں، لیکن افسوس، عقل کی بات اس نقار خانے میں کوئی نہیں سن رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم عقل اور معقولیت کو خیر باد کہہ چکے ہیں، اور کافی دیر تک اُنہیں واپسی کی راہ دینے کے لئے تیار نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے