کیا ہم رہ گئے؟

(دوسری قسط )
تقسیم ہند کے بعد ہندو‘ صنعتی مراکز میں اپنی ملیں اور کارخانے چلا رہے تھے۔ متعصب ہندوئوں نے جہاں تک ممکن ہو سکا‘ مسلمان صنعت کاروں کے لئے‘ مارکیٹ کوناسازگار بنانا شروع کر دیا۔ برآمدات و درآمدات کا تجربہ رکھنے والے مسلمان صنعت کار‘مقامی اور عالمی منڈیوں میں مارکیٹنگ کا تجربہ رکھتے تھے‘ ان کی اکثریت پاکستان منتقل ہو گئی۔ اس دور میں لائل پور کے سوا صرف کراچی ہی ایک ایسا شہر تھا‘ جہاں نئے سرے سے صنعتیں قائم ہونے لگیں۔اس وقت کراچی کی محدودمارکیٹ نے ناسازگار حالات کے ہوتے ہوئے بھی‘عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانا شروع کی۔آزادی کے فوراً ہی بعد‘ پاکستان کی جو نئی مارکیٹ معرض وجود میں آئی‘ اس کے بانی‘ مسلم صنعت کار اور تاجر تھے‘ جنہوں نے ہندوئوں کے مقابلے میں اپنی صنعتیں اور کاروبار چلائے تھے۔ جیسے جیسے مغربی پاکستان کے چھوٹے تاجر‘ پاکستان کی نئی مارکیٹوں میں داخل ہوئے‘ انہوں نے راتوں رات ‘رئیس بننے کی ٹھانی۔ تیزی سے نفع خوری کی لت جو دکانداروں کو پڑ چکی تھی‘انہوں نے اس میںملاوٹ اور جعل سازی کا تڑکا بھی لگا دیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ لوگ زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں شامل ہونے لگے۔ متحدہ ہندوستان میںصنعت و تجارت کا تجربہ رکھنے والے مسلمان‘ نا مساعد حالات میں اپنی پرانی ساکھ کو سنبھالنے کے لئے ‘معیاری صنعتی مال تیار کر کے مقامی اور عالمی منڈیوں میں فروخت کرتے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستانی کارخانوں اور منڈیوں سے جو مال برآمد ہوتا ‘ اس میںنئے تاجروں کی ملاوٹی اور غیر معیاری مصنوعات نے ملک کی ساکھ کو ‘بری طرح متاثر کیا۔بھارتی برآمد کاروں نے ہماری اس کمزوری کا خوب فائدہ اٹھایا ۔ جس تیزی سے پاکستانی مال کی مانگ بڑھ رہی تھی ‘ اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ ‘ پاکستانی مال کی ساکھ گرنے لگی اور ہمارے ملک کی برآمدات کی مانگ کم ہوتی گئی۔
تقسیم کے بعد‘ خصوصاً مسلمانوں میںہنر مندیاں بہت کم تھیں۔جبکہ ہندوئوںمیں صنعت و تجارت کا ہنر‘ نسل در نسل چلا آرہا تھا۔ مسلم اورغیر مسلم تاجر‘ بالعموم دکاندار صاف ستھرے مال کی تجارت کیا کرتے تھے۔ مسلمان تاجروں کی محدود تعداد‘ چھوٹی دکانوں سے کم آمدنی حاصل ہونے کی بنا پر‘ زیادہ منافع کے لئے‘ تھوڑی تھوڑی ملاوٹ سے اپنی آمدنی میں ‘برائے نام اضافہ کرلیتی‘ اس سے گزراوقات تو ہو جاتی لیکن ان کے سودے کی مانگ‘ غیر محسوس طور پر کم ہوتی رہی ۔ میری ننھیال ایک گائوں میں تھی ۔جب وہاں جاتا تو عمر پانچ چھ سال کی تھی۔اس پورے گائوں میں کسی مسلمان کی دکان نہیں تھی۔صرف ہندوئوں کی دکانیں تھیں۔میں گھر سے دھیلا پیسہ لے کر‘اپنی پسند کی چیزیں خریدنے جاتا اور ہندو دکاندار ریوڑیوں‘ مونگ پھلی اور گزک کے ساتھ اضافی جھونگا بھی دے دیاکرتے۔ تھوڑا سا بڑا ہواتو سمجھ آئی کہ گائوں میں مسلمانوں کی دکانیں کیوں نہیں؟دودھ اور دہی میں ملاوٹ کا ہمیں کوئی علم نہیں تھا۔
ہجرت کر کے‘ فرید کوٹ شہر سے نکلے تو ابا جی نے‘ اپنے آبائی گھر میں ضروریات کے مطابق ردو بدل کر کے‘ اسے قابل رہائش بنایا۔میں اکیلا ہی سکول جانے کے قابل تھا۔ کچی پہلی میں داخل کرایا گیا۔پکی میں آیا تو تقسیم ہو گئی ۔ ابا جی پولیس میں
تھے۔ انہیں وقت سے پہلے علم ہو گیا کہ ہندو اور سکھ‘ مسلمانوں پر حملوں کی تیاریاں کر رہے ہیں۔گھر کا سارا سامان‘ زمینی کمروں میں بند کر کے‘ تالے لگا دئیے اور چابیاں اپنے پڑوسی‘ بھورا سنگھ کے سپرد کر دیں۔ابا جی کا خیال تھا کہ لڑائی فساد تھوڑے دنوں کی بات ہے‘ حالات معمول پر آئے‘ تو واپسی ہو جائے گی۔جو‘ اب تک نہیں ہوئی۔ آئندہ بھی نہیں ہو گی۔میں اپنی بدلتی ہوئی دنیا کو‘چھوٹی سی عقل کے ساتھ دیکھتا رہا۔ جتنی تیز رفتاری سے معاشرہ بدل رہا تھا‘ میری عمر اس تیز ی کے ساتھ نہیں بدل پا رہی تھی۔ہم فرید کوٹ سے بہاولنگر آکر‘ کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ہندوئوں اور سکھوں کو بے سرو سامانی کے عالم میںنقل مکانی کرتے دیکھا۔ایک نیا معاشرہ جنم لے رہا تھا۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہمارے پاکستان سے ‘ ہند واور سکھ کیوں بھاگ رہے ہیں؟ اور ہم اپنے گھر کو تالے لگا کر‘دوسرے شہر میں کیوں آگئے ہیں؟خونریز ی کے زیادہ تر واقعات‘ دوسرے شہروں میں ہوئے اور وہیں کے لوگ‘ لاہور اور گردونواح کے شہروں میں‘ ٹرینوں سے اترے اور خالی مکانوں پر اندھا دھند قبضے جمانے لگے۔ میرے لئے ایک نئی دنیابن رہی تھی۔رفتار اتنی تیز تھی کہ اس کے مقابلے میں میرے سوچنے سمجھنے کی رفتار بڑی سست تھی۔میرے گھر سے باہر کی دنیا ‘صرف اپنے پرائمری سکول اور کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے والی دکانوں کی حد تک تھی۔بہاولنگر میں اسی دنیا کو بدلتے دیکھا۔فرق صرف یہ تھا کہ دوسرے شہر میں آکر‘ہر طرف مسلمان ہی مسلمان ہو گئے۔ خوش قسمتی سے میرے آبائی شہر فرید کوٹ میں‘ کوئی لوٹ مار اور خونریزی نہ ہوئی کیونکہ یہ سکھ مہاراجے کی ریاست تھی۔ دوسری طرف آئے تو مسلمان نواب کی حکومت تھی۔ ان دونوں شہروں میں لوٹ مار اور خونریزی نہ ہوئی البتہ جب مشرقی پنجاب سے بے خانماںمہاجرین‘ بے گھر ہو کر بہاولنگر آئے تو وہ بھی قتل و غارت کے تجربات سے بچ گئے تھے۔ بہاولپور کی ریاست میں بھی فساد نہیں ہوا تھا اور فرید کوٹ میں بھی۔(جاری)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے