بچوں کے فرقے

بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔جس طرح والدین کے حقوق ہیں اسی طرح بچوں کے بھی حقوق ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری بچوں کے حقوق کی قائل ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق 1989ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے حقوق کا اعلان کیا اور اس کے ایک سال بعد دنیا کے اکثر ممالک نے اقوام متحدہ کی طرف سے بچوں کے منظورشدہ حقوق کو قانونی شکل دے دی۔

اب ہر سال بیس نومبر کو بچوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ میں بچوں کے حقوق سے متعلق ادارے کا نام یونیسف ہے۔ یہ ادارہ ہر سال بچوں کی تعلیم و تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نام تجویز کرتا ہے۔پھر اسی نام کی روشنی میں دنیا کے ممالک بچوں کے لئے اپنی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق ہمارے ملک میں جہاں ہزاروں این جی اوز فعال ہیں، لاکھوں مخیر حضرات موجود ہیں اور کروڑوں کے صدقات دئیے جاتے ہیں، اس کے باوجود یہاں چالیس فیصد بچے غربت کی وجہ سے سکول جا ہی نہیں سکتے ۔ جو سکول جاتے ہیں ان میں سے بھی تقریبا ساٹھ فیصد کسی نہ کسی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہمارے ہاں بچوں کے حقوق اور بچوں کی قدروقیمت کا شعور کس سطح کا ہے اس کا اندازہ آپ اس واقعے سے لگائیے کہ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ کو اپنے آپ کو مجاہدینِ اسلام کہنے والوں نے پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کو شہید کر دیا،بچوں کے سامنے ادارے کے سربراہ کو آگ لگائی گئی اور اساتذہ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جہاں اپنے آپ کو مجاہد کہنے والوں نے یہ کارروائی کی وہیں ان مجاہدین کے سرپرستوں نے طالبان کے کتے کوتو شہید کہا لیکن ان بچوں کے قتل کی مذمت نہیں کی۔

اب آئیے ذرا یمن کا رُخ کرتے ہیں،یمن میں اب تک تین ہزار یمنی بچے سعودی عرب کے ہوائی حملوں میں شہید ہوچکے ہیں اور تقریبااتنے ہی بچے جسمانی طور پر مفلوج ہوگئے ہیں جبکہ اڑھائی ہزار بچے زخمی حالت میں ہیں۔
گذشتہ دوسالوں میں سعودی عرب کے جنگی طیاروں نے دوسو بارہ مرتبہ یمن کے مختلف اسکولوں پر بمباری اور پچانوے مرتبہ ہسپتالوں پر حملہ کیا ہے-

اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ گزشتہ سال یعنی ۲۰۱۶کے دوران یمن میں بچوں کی ہلاکتوں میں ستّر فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔یونیسیف کے مطابق مارچ 2016ئے لے کر اس سال مارچ تک کے ایک سال کے اندر اندر ایک ہزار پانچ سو چھیالیس بچے ہلاک ہوئے۔[1]

یمن میں اقوام متحدہ کے خصوصی ماہر بیسمارک سوآنگین کھلے لفظوں میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ یمن میں جنگ بچوں کے خلاف جنگ ہے اور اب یمنی بچے غذائی قلت اور ہیضہ کی بنا پر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

اب آئیے ذرا روہنگیا مسلمانوں کے بچوں کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہاں کی حالت بھی انتہائی افسوسناک ہے۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم 2 لاکھ 30 ہزار بچے بنیادی ضرورتوں سےبھی محروم ہیں۔ 36 ہزار بچوں کی عمریں ایک سال سے کم جبکہ 92 ہزار پانچ سال سے کم ہیں۔ کیمپوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں.52 ہزار حاملہ خواتین بھی امداد کی منتظر ہیں۔ [2]

عجیب اتفاق ہے کہ جنہوں نے آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کے قتل کی مذمت نہیں کی انہوں نے یمن میں بچوں کی ہلاکتوں کے خلاف بھی کبھی آواز نہیں اٹھائی لیکن روہنگیا کے بچوں کے لئے دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ پشاور آرمی پبلک سکول کے بچوں کی شہادت پر کسی کے آنسو نہیں نکلے!؟ آخر کیا وجہ ہے کہ یمن کے بچوں کی حالت زار پر کوئی ریلی نہیں نکالی جاتی!؟

اگر روہنگیا کے بچوں سے اسلام کے عنوان سے ہمدردی ہے تو یہی ہمدردی پشاور اور یمن کے بچوں سے بھی ہونی چاہیے اور اگر انسان ہونے کے ناطے یہ آواز اٹھائی جارہی ہے تو خدا نے کسی انسان کے سینے میں دو دل قرار نہیں دئیے ، جو دل روہنگیا کے بچوں کے لئے تڑپتا ہے وہ آرمی پبلک سکول پشاور اور یمن کے بچوں کے لئے کیوں پتھر بن جاتا ہے!؟

بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں، پھر یہ تفریق اور تقسیم کیوں!؟؟؟ روہنگیا کے بچوں کا غم کس انسان کو نہیں لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا بچوں کے بھی فرقے ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر ان کا غم منانے میں فرق کیا جاتا ہے!؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے