عمر مختار اور ہمارےلیڈرز

عمر مختار لیبیا پر اطالوی قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت کے معروف رہنما تھے۔ وہ 1862ء میں جنزور نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1912ء میں لیبیا پر اٹلی کے قبضے کے خلاف اگلے 20 سال تک تحریک مزاحمت کی قیادت کی. اکتوبر 1911ء میں اٹلی کے بحری جہاز لیبیا کے ساحلوں پر پہنچے۔ اطالوی بیڑے کے سربراہ فارافیلی نے مطالبہ کیا کہ لیبیا ہتھیار ڈال دے بصورت دیگر شہر تباہ کردیا جائے گا۔ حالانکہ لیبیائی باشندوں نے شہر خالی کردیا لیکن اٹلی نے ہر صورت حملہ کرنا تھا اور انہوں نے تین دن تک طرابلس پر بمباری کی اور اس پر قبضہ کرلیا۔ یہیں سے اطالوی قابضوں اور عمر مختیار کی زیر قیادت لیبیائی فوجوں کے درمیان جنگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

عمر مختار جو معلم قرآن تھے صحرائی علاقوں سے بخوبی واقف تھے اور وہاں لڑنے کی حکمت عملیوں کو بھی خوب سمجھتے تھے۔ انہوں نے علاقائی جغرافیہ کے بارے میں اپنی معلومات کا اطالوی فوجوں کے خلاف بھرپور استعمال کیا۔ وہ اکثر و بیشتر چھوٹی ٹولیوں میں اطالویوں پر حملے کرتے اور پھر صحرائی علاقے میں غائب ہوجاتے۔ ان کی افواج چوکیوں، فوجی قافلوں کو نشانہ بناتی اور رسد اور مواصلات کی گذرگاہوں کو کاٹتی۔عمر مختار کی زیر قیادت مزاحمتی تحریک کو کمزور کرنے کے لئے اطالویوں نے نئی چال چلی اور مردوں، عورتوں اور بچوں کو عقوبت گاہوں میں بند کردیا۔ ان عقوبت گاہوں کا مقصد یہ تھا کہ مزید لیبیائی باشندوں کو عمر مختار کی مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ ان کیمپوں میں ایک لاکھ 25 ہزار باشندے قید تھے جن میں سے دو تہائی شہید ہوگئے۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو قید کرنے کے باوجود عمر مختار کی تحریک رکی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ملک اور عوام کی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد جاری رکھی۔

عمر مختار کی 20 سالہ جدوجہد اس وقت خاتمے کو پہنچی جب وہ ایک جنگ میں زخمی ہوکر اطالویوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔اس وقت ان کی عمر 70 سال سے زیادہ تھی اور اس کے باوجود انہیں بھاری زنجیروں سے باندھا گیا اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ ان پر تشدد کرنے والے فوجیوں نے بعد ازاں بتایا کہ جب انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا یا تفتیش کی جاتی تو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قرآن مجید کی آیتیں تلاوت کرتے۔ان پر اٹلی کی قائم کردہ ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور سزائے موت سنادی گئی۔ تاریخ دان اور دانشور ان پر عائد مقدمے اور عدالت کی غیر جانبداری کو شکوک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان سے جب آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے "انا للہ و انا الیہ راجعون” پڑھا۔انہیں 16 ستمبر 1931ء کو سرعام پھانسی دے دی گئی کیونکہ اطالوعمر مختار کو پیروکاروں کے سامنے سزائے موت دی گئی.

عمر مختار کی زندگی کا ایک واقعہ آنے والے رہنماوؤں کے لیے مشعل راہ ہے جب ایک 70 سالہ بوڑھے کو زنجیروں میں باندھ کر اطالوی فوج کےکمانڈر کے سامنے پیش کیاگیاتو اطالوی کمانڈر نے باقی فوجیوں کوکمرے سے باہر نکال دیا اور اب اس کمرے میں اطالوی کمانڈر اور عمر مختار باقی بچے تھے. تنہائی کے ان لمحات میں اطالوی کمانڈر نے عمر مختار سے سودے بازی کی ہر ممکن کوشش کی، صرف ایک بیان کہ” عمرمختار اپنے ساتھیوں کوجنگ بندی کا کہہ دے“ کے عوض بڑھی سےبڑھی آفرز کی گئیں حتیٰ کہ عمرمختار کو زندگی کی ضمانت کی آفر بھی کی گئی مگر عمر مختار کا نے کسی قسم کے سودے بازی کے بجائے موت کوترجیح دیکر خود کو ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا.

جب میں عمر مختار کی زندگی کے بارے میں پڑھ رہا تھا تو یقین کریں مجھے آج کے ہمارے نام نہاد ملکی، علاقائی، سیاسی، مذہبی، سماجی، سٹوڈنٹ اور لیبر یونین لیڈز بہت بونے بونے محسوس ہونے لگے. کاش ان میں سے کوئی بھی فلمThe Lion Of Desert کو دیکھ لیتا یا عمر مختار کی زندگی پر لکھی گئی تحریروں کو پڑھ لیتے تو شاید ان کو بندکمروں Hander Hand ڈیل کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی.

عمر مختار کی زندگی کی کہانی چیخ چیخ ہمیں یہ سبق دی رہی ہے کہ لیڈر ہمیشہ قربانی دے کر بنتا ہے نہ کہ زاتی فائدے لےکر، جو لیڈر اپنی قوم، اپنی کمیونٹی کےمفاد کا سودا کر لیتا ہے تاریخ اسکو کھبی معاف نہیں کرتی اور تاریخ ایسی بےر حم حقیقت ہے جو ایک نہ ایک دن ہر انسان کاکردار لوگوں کے سامنے لے آتی ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے