حقوق العباد سے غفلت کیوں ؟

جب ہم اپنے ارد گرد نظریں دوڑاتے ہیں تو نہ جانے ایسے کتنےہی لوگ نظر آتے ہیں جو اپنی ضروریات سے زیادہ اپنے پاس رکھتے ہیں تو اس کا استعمال اپنی شان و شوکت پر اس طرح کرتے ہیں کہ یہ ہی انکا دین , دنیا اور آخرت ہے وہ یہ بھول جاتےہیں کہ حقوق العباد بھی ہوتے ہیں . ہمیں ہمیشہ اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا سے ہر ایک انسان کو چلے جانا ہے اسکے بعد اسکے ساتھ اگر کوئی چیز جاۓ گی تو وہ نیکی ہوگی.

جو لوگ ایک بار حج و عمرہ پر جانے کے بعد بار بار فریضہ انجام دیتے ہیں ان سے پوچھنا چاہوں گا کہ آپ اپنے اس بار حج و عمرہ پر جانے سے مطمعین ہیں کہ آپ کا یہ فریضہ صحیح طرح سے اللہ تعالی کے نزدیک قبول ہوجاۓگا, جبکہ دوسری جانب آپکے خاندان, محلے میں آس پڑوس میں کافی تعداد ایسی ہو جو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو ¿

کیا ہم ایک بار حج و عمرہ کے بعد کسی دوسرے کی مدد پر وہ رقم خرچ کرکے حقوق العباد پر توجہ نہیں دے سکتے ¿
ہمارے حکمران کی اولین زمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک میں رہنے والوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے مواقع فراہم کریں , کیا اس وقت ہمارے ملک میں ایسا ہورہاہے ¿
پاکستان میں بڑے سیاست دانوں کی اولادوں کے جانوروں تک پر کافی توجہ دی جاتی ہے مگر اگر کسی اور چیز پر توجہ نہیں دی جاتی تو وہ ایک عام انسان کے حقوق پر نہیں دی جاتی .

پاکستان کے وزیراعظم سمیت دیگر سیاسی قائدین ہر سال حج و عمرہ پر جاتے ہیں , حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں , کیا ہمارے حکمران حقوق العباد ادا کیے بغیر اپنے حج و عمرہ جیسے فریضہ کی ادائیگی سے مطمعین ہیں جہاں انکی حکومت میں ایک بہت صحیح خوراک سے ہی محروم ہوں.

حقوق العباد کی ادائیگی پر واقع قارئین کی نظر کرنا چاہوں گا.

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ ایک دفعہ حج کو تشریف لے گئے .صحن حرم میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی آنکھ لگ گئی . کیا دیکھتے ہیں کہ آسمان سے دو فرشتے نازل ہوۓ اور باہم گفتگو کررہے ہیں . ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ حج تو ہوگیا مگر خبر ہے کہ اس سال کتنے زائرین حج کے لیے آۓ,?
جواب ملا ” چھ لاکھ ” .
پوچھا ان میں سے حج کتنے حاجیوں کا قبول ہوا ¿
جواب میں کہا کہ کسی ایک کا بھی حج قبول نہیں ہوا .
یہ سن کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اضطراب ہوا اور کہنے لگے کہ لوگوں نے حج کےلیے کیا کیا تکالیف اٹھائیں . کتنے زیر بار ہوۓ لیکن یہ سب محنتیں محض اکارت گئیں .
اس پر فرشتہ بولا صرف ایک ایسے شخص کا حج قبول ہوا ہے جو حج میں شریک نہ تھا .
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا وہ کون ہے ¿ کہاں رہتا ہے اور اس کا حج گھر بیٹھے بیٹھے کس طرح قبول ہوگیا؟

کہا , وہ ایک بزرگ اور بڑا مشہور شخص نہیں , محض ایک موچء ہے , پارہ دوزی کا کام دمشق میں کرتا ہے , علی الموفق نام ہے. اللہ تعالیبنے صرف یہ اس کا حج قبول کرلیا بلکہ اس کے طفیل اس سال آنے والے چھ لاکھ حاجیوں کو بھی بخش دیا .

فورأ آپکی آنکھ کھل گئی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ مکہ معظمہ سے چل.کر دمشق پہنچے اور اس شخص سے ملاقات کرنےکا عزم کرلیا . اور رخت سفر باندھ جرروانہ ہوگئے .دمشق پہنچے اور اس شخص سے ملاقات کرکے خواب کا تمام واقعہ سنایا.

وہ بولا تیس سال سے مجھے حج کی آرزو تھی اور میں نے پارہ دوزی کرکے تین ہزار درھم حج کے لیے جمع کیےتھے . اس سال بیت اللہ شریف پہنچنے اور حج کرنے کا عزم کیے ہوۓ تھا . ایک روز میری عالمہ بیوی بولی آج ہمساۓ کے گھر سے کھانا پکنے کی خوشبو آرہی ہے جاکر تھوڑا سالن میرے لیے بھی لے آو , آپ ہمساۓ کےہاں گئے تو بولا بھائی کیا کہو بال بچوں کو فاقے میں تڑپتے ہوۓ سات روز ہوگئے تھے اور میرے پاس کچھ نہ تھا .آج مجھے ایک مرا ہوا گدھا پڑا مل گیا , مجبور تھا اس کے جسم سے گوشت کا ایک ٹکڑا تراش لیا اور اسی کو پکا رہا ہوں , وہ تمہارے لیے حلال نہیں ہے .

علی ابن الموفق رحمتہ اللہ نے فرمایا ہمساۓ کی اس مصیبت کا حال سن کر میرے قلب و روح میں شعلے بھڑک اٹھے , میں گھر گیا اور میں نے حج کے لیے جو تین ہزار درھم رکھے تھے وی لاکر اسے دے دیے اور کہا کہ اس سے اپنا گزارہ کرو میرا حج یہ ہی ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے