دلوں کے حکم راں …

حضرتِ عمر بن خطابؓ نے ایک مرتبہ شدید سرد اور تاریک رات میں ایک جگہ آگ روشن دیکھی۔

وہ اس طرف گئے۔

ان کے ہمراہ حضرتِ عبدالرحمن بن عوفؓ تھے۔

حضرتِ عمرؓ نے آگ کے پاس ایک عورت کو دیکھا جس کے تین بچے رو رہے تھے۔

ایک بچہ کہہ رہا تھا :

امی جان! ان آنسوؤں پر رحم کھا اور کچھ کھانے کو دو۔

دوسرا بچہ یہ کہہ کر رو رہا تھا !

لگتا ہے شدید بھوک سے جان چلی جائے گی۔

تیسرا بچہ یہ کہہ کر رہا تھا :

امی جان ! کیا موت کی آغوش میں جانے سے پہلے مجھے کچھ کھانے کو مل سکتا ہے۔۔۔۔ ؟

حضرتِ عمر آگ کے پاس بیٹھ گئے اور عورت سے پوچھا :

اے اﷲ کی بندی! تیرے اس حال کا ذمے دار کون ہے۔۔۔۔ ؟

عورت نے جواب دیا کہ اﷲ اﷲ ! میری اس حالت کا ذمے دار امیرالمومنین عمرؓ ہے۔

حضرتِ عمرؓ نے اس سے فرمایا :

کوئی ہے جس نے عمر کو تمھارے اس حال سے آگاہ کیا ہو ؟

عورت نے جواب دیا :

ہمارا حکم ران ہوکر وہ ہم سے غافل ہے ؟

یہ کیسا حکم ران ہے، جس کو اپنی رعایا کی کچھ خبر نہیں رکھتا ؟

یہ جواب سن کر حضرتِ عمر مسلمانوں کے بیت المال گئے اور دروازہ کھولا۔

بیت المال کا محافط بولا :

خیر تو ہے امیرالمومنینؓ ؟

حضرتِ عمرؓ نے اس کا جواب نہیں دیا اور آٹے کی ایک بوری، گھی اور شہد کا ایک ایک ڈبا بیت المال سے نکالا اور چوکی دار سے فرمایا :

انہیں میرے پیٹھ پر لاد دو۔

چوکی دار نے عرض کیا :

آپ چاہتے کیا ہیں۔

حضرتِ عمر نے فرمایا :

میرے پیٹھ پر لاد دو۔

چوکی دار نے عرض کیا :

آپ یہ چیزیں اپنی پیٹھ پر نہ لادیں، اے امیر المومنینؓ!

چوکی دار نے کوشش کی کہ امیرالمومنین کا تیار کردہ سامان وہ خود اپنی پیٹھ پر لاد لے.

لیکن امیر المومنین نے سختی سے انکار کیا اور اس سے یوں مخاطب ہوئے۔

’’ تیری ماں تجھے کھو دے۔

یہ سامان میرے پیٹھ پر لاد دو کیا قیامت کے روز تم میرے گناہوں کا بوجھ اٹھاؤ گے؟ ‘‘

یہ کہہ کر حضرت عمرؓ نے آٹا، گھی اور شہد اپنی پیٹھ پر لاد لیا۔

جب اس عورت کے گھر پہنچے تو آگ کے پاس بیٹھ گئے اور ان بچوں کے لیے کھانا پکایا۔

جب کھانا تیار ہوگیا تو اس میں گھی اور شہد کی آمیزش کی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے بچوں کو کھانا کھلایا۔

یہ منظر دیکھ کر ان یتیم بچوں کی ماں کہنے لگی۔

’’ قسم اﷲ کی ! تم عمرؓ سے کئی زیادہ منصبِ خلافت کے اہل ہو۔‘‘

حضرتِ عمرؓ نے اس سے فرمایا :

اے اﷲ کی بندی! کل عمرؓ کے پاس جا، وہاں میں ہوں گا اور تمھارے معاملات کے متعلق اس سے سفارش کروں گا۔

یہ کہہ کر حضرتِ عمرؓ واپس آگئے اور ایک چٹان کے پیچھے آکر بیٹھے رہے اور ان بچوں کو دیکھتے رہے۔

حضرتِ عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ نے حضرتِ عمرؓ سے کہا :

آئیے واپس چلتے ہیں کیوں کہ رات بہت ٹھنڈی ہے۔

حضرتِ عمرؓ نے فرمایا :

اﷲ کی قسم ! میں اپنی جگہ اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک ان بچوں کو ہنستا ہوا نہ دیکھ لوں، جیسے میں نے آتے وقت انھیں روتے ہوئے دیکھا تھا۔

جب اگلے روز کا سورج طلوع ہوا تو اس یتیم بچوں کی ماں دربارِ خلافت میں گئی۔

وہاں اس نے دیکھا کہ حضرتِ علی بن ابی طالبؓ اور عبداﷲ بن مسعودؓ کے مابین ایک شخص تشریف فرما ہے اور وہ دونوں حضرات اسے امیرالمومنین کہہ کر مخاطب کررہے ہیں۔

اور یہ وہی شخص تھا جس نے گزشتہ رات اس عورت اور اس کے بچوں کی خدمت میں گزاری تھی،

جس سے اس نے کہا تھا :

اﷲ میری اس حالت کا ذمے دار عمرؓ ہے۔

چناں چہ جب عورت کی نگاہ حضرتِ عمرؓ پر پڑی تو گویا اس کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔

امیر المومنینؓ نے عورت سے فرمایا :

اﷲ کی بندی! تیرا کوئی قصور نہیں،

چل بتا، تو اپنی شکایت کتنی قیمت کے عوض فروخت کرے گی۔

عورت گویا ہوئی:

معاف فرمائیے اے امیرالمومنینؓ !

حضرتِ عمرؓ نے فرمایا :

قسم اﷲ کی! تُو اس جگہ سے ہٹ نہیں سکتی ہو جب تک کہ میرے ہاتھ اپنی شکایت بیچ نہ دو۔

بالآخر حضرتِ عمرؓ نے اس بیوہ خاتون کی شکایت اپنے مالِ خاص سے چھے سو درہم کے عوض خرید لی،

اور حضرت علی بن ابی طالبؓ کو کاغذ قلم لانے کا حکم دیا اور یہ تحریر قلم بند کرائی۔

’’ ہم علیؓ اور ابن مسعودؓ اس بات پر گواہ ہیں کہ فلاں عورت نے اپنی شکایت امیرالمومنین عمر بن خطابؓ کے ہاتھ فروخت کردی۔‘‘

پھر امیرالمومنین حضرتِ عمر بن خطابؓ نے فرمایا۔

’’ جب میری وفات ہوجائے تو اسے میرے کفن میں رکھ دینا تاکہ میں اسے لے کر اﷲ سے ملاقات کروں۔‘‘

یہ دلوں کے حکمراں تھے جنہوں نے دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی،

یہ دلوں کے حکمراں تھے جنہوں نے کہا دریائے فرات کے قریب کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو حساب ان سے ہوگا،

یہ دلوں کے حکمراں تھے جنہوں نے کہا اے کاش کہ میں اک تنکا ہوتا کہ آخرت میں مجھ سے حساب نہ ہوتا.

آج ایک بھائی دوسرے بھائی کا دست وگریباں ہے ،ایک بیٹا اپنے جایئداد کی خاطر قتل کرنے تک اتر آتا ہے

کسی کی مجبوری میں کام نہیں آتے …

مسالک مذاہب نے فروعی اختالفات کو اتنا عروج بخشا ہے کہ ایک ہی گھر میں دو بھائی ایک دوسرے کا لایا ہوا نمک تک کھانا ترک کر دیتے ہیں .

گرینڈ جرگوں کا انعقاد ہوتا ہےتمام مسالک ایک جگہ اکھٹے ہو کر اصلاحی تقاریر کرتے ہیں جوں ہی اختتام ہوتا ہے کمر سے کمر ملتی ہے پھر اختلافات کی باتیں فضاؤں تک پہنچ جاتیں ہیں.

یہ تو عوام ہے ،

ہمارے حکمراں جنہوں نے اس ملک کو سنوارنے کا بیڑا اٹھا رکھا وہ عوام کی غربت کو کہاں دیکھتے ہیں انہوں نے تو عوام کا پیسہ باہر لے جانے کی ٹھانی ہوئی ہے .

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ہمارے حکمرانوں کے بجائے دلوں کے حکمراں عطاء فرمائے.

اور ہم عوام کو بھی دلوں کے حکمرانوں کی رعایا کی طرح مل جل کر رہنے کی توفیق عطاء فرمائے…آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے