علماء کی سرکاری ملازمت اورمولانافضل الرحمٰن کی ضِد

پاکستان بیس کروڑ نفوس کا ملک ہے لیکن چند ایک اداروں یا افراد نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔اپنے گاوں سےلے کر شہراور مرکز اقتدار تک آپ ہر قابض کو ان قابضین میں شامل کرسکتے ہیں ۔ یہ سب ایک ہی فریق کے ہیں بس رنگ ،لباس، شکل اور دائرہ کار مختلف رکھتے ہیں ،کوئی گاوں کے تھانے میں قابو کرکے پورے گاوں پر قابض ہوجاتا ہے تو کوئی امام مسجد کو ساتھ ملا کے آپ کے اعتقادات وعبادات کو بھی قبضہ کرلیتا ہے۔

اگر یہ قبضہ مافیا کوئی ادارہ ہے تو پھر کچھ لکھنے ، بولنے سے پہلے ہزار نہیں لاکھ مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کیوں؟ کیونکہ جان کس کو نہیں عزیز؟آج مگر ہم بات کرین گے خیبر پختونخواہ حکومت کے ایک مجوزہ فیصلہ اور اس پر مولانا فضل الرحمان صاحب کی تنقید پر۔ فیصلہ در اصل یہ ہے کہ صوبے کی اندر موجود تمام مساجد میں تعلیم یافتہ ائمہ حضرات بھرتی کرکے حکومت ان کو باقاعدہ تنخواہیں دینا چاہتی ہے یعنی لوگ باعزت حکومتی اہل کار ہوں گے اور مسجد میں چند ہزار روپوں کےلئے خان ، نواب یاجاگیردار کے محتاج نہیں رہیں گے۔

یوں اگر سوچا جائے تو یہ ائمہ حضرات کو انسانوں کی محتاجی سے نکالنے کا منصوبہ ہے۔ اس کےعلاوہ یہ فیصلہ اگر نافذ ہوجاتا ہے تو فائدہ یہ ہوگا کہ مسجد و منبر کا استعمال بامعنی ہوجائےگا ، تفرقہ بازی اور نفرت انگیز تقاریر کا خاتمہ ہوجائےگا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے محلے کے امام صاحب پر جب سیکورٹی اداروں نے جمعہ کی دن تقریر کےلئے لاوڈ سپیکر کا استعمال بند کیا تو پورے محلے میں کسی کو تشویش نہ ہوئی بلکہ پہلی جماعت کے طالبعلم میرے بھتیجے عباس نے مجھے کہا کہ چچا جان لاوڈ سپیکر اس لئے بند کرایا ہے کہ مولوی صاحب تقریر میں قرانی نہیں ، سیاسی باتیں کیا کرتا تھا۔ میں حیران ہوا کہ بچوں تک نے یہ محسوس کیا ہے کہ جمعہ مولوی صاحب اچھا خاصا جلسہ لوٹ کے چلا جاتا ہے جو کہ اب ممکن نہیں۔

علاوہ ازیں دہشتگردوں نے بھی اسلامی لبادہ اوڑھ کے مسجد ومنبر کے استعمال کو مشکوک بنایا تھا۔ کچھ علاقوں میں تو افغانی خاص کر شمالی اتحاد کے طلبا آکر ائمہ مساجد بن جاتے جن میں سے کئی ایک مبینہ طور پر غیر ملکی ایجنسیوں کےلئے کام کے الزام میں ملک بدر بھی کئے گئے۔ ایسے میں اگر قوم نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیاہے تو صرف فوج یا حکومت نے نہیں لڑنا پوری قوم نے متحد ہوکے ہر حوالے سے جواب دینا ہے ۔

اب اگر حکومت مساجد کے اعداد وشمار اکٹھے کر کے تعلیم یافتہ ائمہ بھرتی کررہی ہے تو اس میں برائی کیا ہے بلکہ مولانا کو خوش ہونا چاہیے تھا کہ کسی حکومت نے ائمہ حضرات کو بھی باعزت نوکری دینے کی بات کی ہے مگر بجائے خوش ہونے اورحمایت کرنے کی مولانا نے فرمایا آئمہ کی سرکاری بھرتی یہود کی سازش ہے ، مجھے نہیں معلوم ہمارے ملک میں ہر کسی کو سازش کیوں نظر آرہی ہے .

کوئی مولانا صاحب سے پوچھے کہ اس حکومتی مجوزہ فیصلے سے پہلے آپ کے پارٹی یا مسلک کے جتنے بھی آئمہ اوقاف کے مساجد میں سرکاری امام بنے ہیں ، کیا وہ بھی اس یہودی سازش کا حصہ ہے؟؟ اگر ہاں تو پھر وہ کیوں لگے ہیں اور اگر نہیں تو پھر مزید کی بھرتی پر مخالفت اور یہودی سازش کا فتوی چہ معنی دارد؟ حالانکہ فیصلہ مجوزہ کے تحت یہ لوگ بھی وزارت اوقاف میں بھرتی ہوں گے ، جس میں پہلے ہی سے مولانا کے مسلک کے بہت سارے لوگ بحیثیت سرکاری امام نوکری کر رہے ہیں۔

مزے کی بات یہ بھی ہے کہ مولانا خود مرکزی حکومت کے اتحادی ہیں اور اب لاہور کے ضمنی الیکشن میں سابق وزیر اعظم کی بیوی کو ووٹ دے کر عورت کے انتخاب کو جواز فراہم کیا جس کو کسی وقت میں یہ حضرات قطعا حرام کہتے تھے اگر وہی مرکزی حکومت آئمہ حضرات کو نیشنل ایکشن پلان کے تحت بھرتی کرنا شروع کرے تو وہاں بھی یہودی سازش والی بات ہوگی یا قوم کے وسیع تر مفاد میں خاموش رہ کر چند ایک وزارتوں پر گزارہ کر لیا جائے گا۔

میں بذات خود مولانا صاحب کا انتہائی قداردان ہو ں مگر کیا کروں ، حق کو حق لکھنے کا اس بھی زیادہ روادار ہوں، نہایت ادب کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ مولانا صاحب! بس بھی کریں ، کب تک یہ فتوے لگتے رہیں گے۔ فاٹا کے عوام کو آزادی دینے میں آپ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں . آئمہ مساجد کو آزادی ملنے میں آپ سے بڑی رکاوٹ ہیں‌. کیا ہم اب بھی ایک خاص مسلک کے تابعداری میں زندگی گزاریں‌گے ؟کیا ہمیں اب بھی آزاد سوچنے اور جینے کا حق نہیں؟ فتوی لگانے سے بہتر یہ ہوتا کہ آپ صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر اپنے آئمہ کےلئے بہترین مراعات لیتے ۔ آپ اس فیصلے پر حکومت کے شکر گزار رہتے کہ بیچارے آئمہ مساجد کے فلاح وبہبود کا کوئی منصوبہ سوچا مگر ۔ ۔ مگر وہی روایتی اختلافی نظریہ ، وہی فتوے ، وہی یہودی سازش کے الزامات ۔

تحقیق پر معلوم ہوا کہ اس فیصلے کا اصل محرک جماعت اسلامی کا صوبائی نائب امیر ڈاکٹر اقبال خلیل ہے ۔ اب مولانا کےیہودی سازش سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی بھی یہودی سازش میں شامل ہوگئی۔ سو عمران خان کے بعد اگر اقبال خلیل بھی مولانا کو یہودی ایجنٹ نظر آرہا ہے تو اس دوراندیشی پر مولانا صاحب کو ایک ایوارڈ دینا تو بنتا ہے۔بہت کچھ اس معاملے پر کہا جاسکتا ہے مگر کالم کی تنگ دامنی اجازت نہیں دیتی۔بہرحال صوبائی حکومت کو چاہیے کہ کسی بھی دباو کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے تمام مساجد میں تعلیم یافتہ آئمہ کی بھرتی یقینی بنائے ، یہ اس صوبے کے عوام کے لئے ایک بہترین کام ہوگا۔ جس کے فوائد بہت جلد آشکارا ہوجائیں گے ، مساجد اور آئمہ کسی خاص دباو سے آزاد ہوجائیں گے۔ اور جب حکومتی سرپرستی میں مساجد کی دیکھ بھال سمیت خطبہ جمعہ وعیدین ہوں گے تو ایک اتحاد واتفاق کا منظر ہوگا، جو آج کی پاکستان کی سالمیت کےلئے نہایت ضروری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے