سر رہ گزر عدل ہی اصلاح کرے گا

اگر پوری دنیا پر بالعموم اور اپنے پیارے وطن پاکستان پر بالخصوص نظر دوڑائی جائے تو عدل کے فقدان ہی سے انسانیت داغ داغ ہے، آج مسلم امہ کو شیطانی قوتوں نے جس طرح سینگوں پر اٹھایا ہوا ہے، اور مہذب و متمدن اقوام و ممالک قتلِ مسلم کو روا رکھے ہوئے ہیں، اس پر مغرب کے عوام سیخ پا ہیں، سوشل میڈیا پر ایسے حقائق سامنے آ رہے ہیں، جن کی روشنی میں اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ دنیا پر طاغوتی قوتیں حکمرانی کر رہی ہیں، اور مسلم امہ کی قیادتوں کو بھی ساتھ ملا لیا گیا ہے، گویا دنیا بھر کے عام انسان جو اربوں میں ہیں چیخ رہے ہیں کہ انسان اور بالخصوص مسلم عوام کی نسل کشی ہو رہی ہے، اور مزید بہانے بھی اس بہیمت کے لئے ڈھونڈے جا رہے ہیں، انسانی آوازیں تو اٹھنا شروع ہو چکی ہیں اب ظالم شیطانوں کے خلاف ہاتھ بھی اٹھنے والے ہیں کیونکہ باطل نظریات زیادہ دیر نہیں چلتے ان کو دنیا بھر کے انسان ہضم نہیں کر پا رہے، یہی میڈیا جس کا دائر ہ سوشل حلقوں تک پھیل چکا ہے۔”Satanic Powers” کو شکست دے گا، باطل کی تقدیر میں جانا اور حق کا حق ہے غلبہ پانا ، صنفی متشدد پروپیگنڈے اپنی موت خود مر جائیں۔ پاکستان ایک ایسی زمینی حقیقت ہے جس کے ڈانڈے عرش سے جا ملتے ہیں، کوئی یہ محسوس کرے نہ کرے یہاں اللہ کے نام عادل کے اثرات نافذ ہو چکے ہیں، یہاں عدل ہی پاکستان کو غلاظتوں سے پاک کرے گا، ظلم بے انصافی کا عروج شعلۂ مستعجل ہے، رقص شرر ہے، فضا میں اٹھے گا بھک سے اڑے گا، اور اس کی راکھ رزق خاک ہو گی۔ لگتا ہے اب یہاں شدادوں فرعونوں کے جانشینوں کی ایکسپائری قریب آ چکی ہے، آج کی عدلیہ ایک نئی صبح بن کر طلوع ہو چکی ہے، پاکستانی قوم اپنی عدلیہ کو طاقتور بنائے یہی اس کے آتے ہوئے زوال کو عروج سے ہمکنار کرے گی، عدل ہو گا، سزا ملے گی، اور اس پر عملدرآمد بھی ہو گا، سپیدہ سحر سے آفتاب عدل نمودار ہو چکا ہے، اب یہاں عدل کی خرید و فروخت کا سورج ڈوبنے والا ہے، بس لوگ حق سچ کے ساتھ کھڑے ہوں۔
٭٭٭٭
کیا پڑھے لکھے اور ان پڑھ برابر ہو سکتے ہیں؟
جو نظام اقراء سے شروع ہو اور ’’ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون‘‘ پر ختم ہو اس کا تسلسل کبھی رک نہیں سکتا، کتاب حکمت و دانش نے کہا:پڑھ! اور بات یہاں تک پہنچا دی کہ کیا جاننے والے نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟ دین اسلام مذہب نہیں زندگی گزارنے کا سلیقہ ہے، ضابطہ حیات ہے، اسے زندگی کے کسی بھی شعبے سے کوئی بھی نکالے گا اپنے زوال کو دعوت دے گا، اسلام کو سیاست سے الگ کرنا، سیاست کو طالع آزمائوں کے سپرد کرنا اور ظلم کو بے لگام چھوڑنے کے مترادف ہے، یہ چلن گمراہ قوموں کا تھا کہ دین الگ ہے سیاست حکومت الگ، جن کی نیت میں فتور ہو چشم ادراک بے نور ہو وہی اپنا دھندہ چلانے کے لئے دین کو سیاست سے جدا کرنے کی باتیں کرتے ہیں، اسلام، ملائیت ہے نہ پاپائیت، یہ انسانوں کے حقوق کا پہرے دار ہے، اور اس کی ضرورت پوری انسانیت کو ہے، آج دور کیا جانا ہم پاکستانی قوم نے علم، تعلیم، تعلم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہے، 70برس جہالت، شدت پسندی اور بے انصافی کو فروغ دیتے آ رہے ہی، جو نظام تعلیم رائج بھی کیا اس نے ہمیں طبقاتی کشمکش میں ڈال دیا، ہمارا خدا ایک رسول ﷺ ایک قرآن ایک ہے مگر نصاب ایک نہیں غلامانہ ذہنیت مختلف غلط قسم کے نصابوں کی پیداوار ہے، اسی لئے ہم آزاد ہو کر بھی حقیقی آزادی سے محروم ہیں، یہ مسئلہ معمولی نہیں ہماری ہر خرابی کے پیچھے علم کی یہی بے حرمتی ہے، جس کی من حیث القوم سزا بھگت رہے ہیں، جس قوم سے کہا گیا تھا کہ معیار کردار ہو گا وہ آج ہوس زر کے کالے سمندر میں ڈوب چکی ہے، وہ قومیں جو آج دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں ان کا نصاب ایک ہے، وہ بھلے معیار کو اپنے ملکوں سے باہر ملحوظ نہ رکھیں مگر اپنی سرحدوں کو اس کے خلاف کسی شعبے کو جانے نہیں دیتے۔
٭٭٭٭
عصمت نسواں محفوظ ہے نہ جائیداد میں حصہ
جس کے پاس دولت ہے، اقتدار ہے یا اس سے تعلق، زبان، رنگ، نسل، دین کے حوالے سے ہم سب ایک جیسے ہیں، پھر یہ سردار، وڈیرہ، چوہدری، حکمران، نوابزادہ، صاحبزادہ یہ سب کیا ہم میں سے کچھ افراد کے حقیقی نام ہیں؟ جب سارے انسان ہیں مسلمان ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں رہیں؟ ایک وڈیرے نے اپنی جاگیر کا سہارا لے کر تانیہ کے ماتھے پر گولی مار دی، ہم سب چپ کیوں ہیں، سہمے ہوئے کیوں ہیں؟ حق کی انصاف کے لئے، آواز کیوں نہیں اٹھاتے، کسی نام نہاد بڑے آدمی کا کارندہ بھی ہر طرح کی بدمعاشی ہماری گلیوں محلوں میں کرتا ہے اور کوئی اجتماعی آواز اسے روک نہیں سکتی، یہ بے بسی کس قدر عبرتناک و المناک ہے کہ کسی زور و زر والے کو کوئی لڑکی اچھی لگے اور وہ مزاحمت کرے تو اسے بلا خوف بے دریغ گولی مار دی جاتی ہے، تھانے رپٹ درج نہیں کرتے، کر بھی لیں تو تفتیش نہیں کرتے، معاملہ عدالت تک پہنچنے نہیں دیتے، دھمکیوں اور مزید نقصان سے بچنے کے لئے عام شہری ریت میں سر چھپا لیتا ہے، اگر حکومت عدل پر قائم ہو اور ہر بڑے سے بڑے رسہ گیر کے گلے میں رسہ ڈالنے کی ہمت رکھنے کے باوجود ایکشن نہ کرے تو کیا اسے تسلیم نہ کرنا واجب نہیں ہو جاتا جو بچیاں، غربت کی ماریاں، جوانی طبقہ امراء یا اشرافیہ کے برتن مانجھنے کے لئے وقف کر دیتی ہیں، ان کو بے عصمت کر کے لاش ٹھکانے لگا دی جاتی ہے، کیس بے نقاب ہو جاتا ہے مجرم دندناتا ہے آخر کس کے زور پر اس لئے کہ وہ حکمرانوں کی اوقات جانتا ہے۔ وہ تحفظ دینے والے اداروں کی قیمت سے آگاہ ہے، بہت شور سنا اور سن رہے ہیں کہ تحفظ حقوق نسواں کا بل پاس ہو چکا، قانون سازی ہو گئی، جن خواتین کو آبائی جائیداد میں ان کا جائز حصہ جو قرآن نے مقرر کیا ہے اب بھی نہیں دیا جاتا، ایک سیل بھی قائم ہے، ہیلپ لائن بھی لیکن بتایا جائے کہ اب تک کتنی خواتین کو ان کے باپ کی وراثت میں سے حصہ دلوا دیا گیا ہے، خواتین نے اپروچ بھی کی مگر ان سے شواہد و ثبوت اور دستاویزات مانگی گئیں کیا یہ کم نہیں کہ اسے شناختی کارڈ پر اس کے والد کا نام درج ہے؟ آگے سب کچھ کرنا تو متعلقہ سیل کا کام ہے، حق نہ دینا جہنم میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے بیٹی سے کہا جاتا ہے تمہیں جہیز دیا حصہ مل گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے