گھر کی صفائی نصف ایمان ہے

مشرق میں مصوری کی روایت دو جہتی تھی۔ مصر کے قدیم نمونے دیکھ لیجیے یا ایران میں مانی اور بہزاد کے شہ پارے، خود ہمارے ہاں عبدالرحمن چغتائی نے مصوری میں دو جہتی روایت کو آگے بڑھایا۔ مغرب میں مصوری کی روایت کئی سو برس پہلے سہ جہتی عہد میں داخل ہو گئی تھی۔ نشاہ ثانیہ کے اساتذہ مثلا ریمبراں، رافیل اور ڈاونچی بھی اپنے موضوع کی لمبائی اور چوڑائی میں تناظر کی جہت شامل کرتے تھے۔ ان دونوں روایات کا موازنہ مقصود نہیں لیکن یہ دیکھ لیجیے کہ اگر آپ کو ایک فلم تھری ڈی میں دیکھنے کو میسر ہے تو کیا آپ روشنی اور سائے کے دو زاویوں میں وہ فلم دیکھنا پسند کریں گے؟ مصوری کی طرح سیاست بھی ارتقا کے مراحل سے گزری ہے۔ شاہی محل کی اونچی دیواروں کے پار کہیں بادشاہ موجود ہوتا تھا۔ دربار میں داخلے کا اذن خاص مقربین کو دیا جاتا تھا۔ جگہ جگہ گرانڈیل پہریدار متعین کیے جاتے تھے۔ عام آدمی کو اس دنیا میں داخلے کا یارا نہیں تھا۔ کسی خاص موقع پر جلوس شاہی محل سے برآمد ہوتا تھا تو ہٹو، بچو کے شوروغل میں کسے تاب تھی کہ صاحب تاج کو نظر بھر کر دیکھ سکے۔ صرف ستر برس پہلے بہاولپور ریاست کا حکمران گھرانہ ہوا خوری کو نکلتا تھا تو رعایا کو دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہونے کا حکم دیا جاتا تھا۔ اور پھر ہمارا قائد منظر پر آیا، ہمارے قائد سے کہا گیا کہ آپ مسلمانوں کے شہنشاہ ہیں، قائد اعظم نے فرمایا کہ میں شہنشاہ نہیں ہوں، میں جمہوری روایت سے تعلق رکھتا ہوں۔ قائد اعظم کو مولانا کا خطاب دیا گیا تو فرمایا کہ میں مذہبی رہنما نہیں ہوں۔ ہمارے قائد کو سستی عوامی مقبولیت کے لئے سوانگ رچانا پسند نہیں تھا۔ سوانگ اور نوٹنکی کی سیاست دو رخی مصوری ہوتی ہے، اسے گوشت پوست کے پرحرارت بدن، نمو پاتے شجر اور میز پر رکھے پنیر کے ٹکڑے کی طرح محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوری سیاست سہ رخی ہوتی ہے۔ سیاسی رہنما پر بڑے بڑے قمقموں سے پوری طرح روشنی ڈالی جاتی ہے، ذرائع ابلاغ مسلسل پرکھ کرتے ہیں۔ مخالف سیاسی جماعت بھی سیاسی رہنما کو محدب عدسے میں رکھتی ہے، رائے عامہ سیاسی رہنما کی مسلسل قدر پیمائی کرتی ہے۔ اس چھلنی سے نکل کے جو سیاسی رہنما اپنے موقف کو عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہوتا ہے وہی دلوں کا محرم ٹھہرتا ہے۔
آج کل ہمارے ملک میں دلچسپ اور مگھم اصطلاحات کا دور دورہ ہے۔ ایک فریق پوچھتا ہے "مجھے کیوں نکالا؟” دوسرے فریق سے آوازہ سنائی دیتا ہے ـ’کس نے نکالا؟‘۔ گویا نکالے جانے پر اتفاق ہے۔ ایک ترکیب یہ سنائی دی کہ ’گھر کی صفائی‘ ہونی چاہئے۔ اکتوبر 2013ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس سے واپسی پر میاں نواز شریف نے بھی کہا تھا کہ ’ہمیں اپنے گھر کو صاف کرنا پڑے گا‘۔ خیال رہے کہ تب جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بطور آرمی سربراہ آخری ایام تھے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات یا فوجی کارروائی کی بحث عروج پر تھی۔ وزیرستان میں حکیم اللہ محسود کا طوطی بول رہا تھا۔ ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کچھ خاص کرداروں پر بہت شاق گزری تھی۔ عجیب اتفاق ہے کہ ٹھیک چار برس بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے یکے بعد دیگرے گھر کی صفائی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس پر چوہدری نثار علی خان نے فرمایا ہے کہ گھر کی صفائی کا اشارہ دینے والے دشمن کی بولی بول رہے ہیں نیز یہ کہ ہماری دشمن ریاستوں نے تو کبھی اپنے گھر کی صفائی کا عندیہ ظاہر نہیں کیا۔ اسی سانس میں چوہدری نثار علی یہ بھی کہتے ہیں کہ پچھلے چار برس میں ’گھر کی جو صفائی ہوئی‘، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم جیسے عامیوں کو اس سے صرف یہ معلوم ہوا کہ ہماری سیاست دو رخی مصوری کی طرح پردے پر دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے۔ ابھی اس میں سہ جہتی شفافیت پیدا نہیں ہوئی۔ ہم ٹھیک ٹھیک بتانے سے قاصر ہیں کہ ’گھر کی صفائی‘ سے دراصل مراد کیا ہے۔ ظہور احمد نے کیا خوب کہا ہے… زنداں میں آج پرسش معنی ہے میر ؔسے۔
ایک تو یہ کہ ہماری ریاست نے کسی ملک کو دشمن قرار نہیں دیا۔ اسرائیل کے استثنیٰ کے ساتھ سب ملکوں سے ہمارے سفارتی تعلقات موجود ہیں۔ ریاستوں کے مفادات میں ٹکراؤ بہر صورت موجود رہتا ہے۔ اسے دشمنی کی انتہائی سطح پر بیان کرنا ایک فرسودہ اور ناقابل عمل مفروضہ ہے۔ دوسرے ملک اپنی زمین پر کیا خاک اڑاتے ہیں، یہ وہ جانیں۔ ان کے مردے ان کی زمین پر گڑیں گے۔ ہم اپنے سرلشکر کی خبر لینی چاہئے۔ ارباب ارجمند نے گھر کی صفائی کو ہتھیار اٹھانے والے انتہا پسند عناصر پر موقوف کر رکھا ہے۔ ہماری خرابیوں کی نوعیت اس سے کچھ زیادہ پیچیدہ ہے۔ جہاں ہم ہیں، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے۔آج ہمارا دستور اپنے کٹھن ترین امتحان سے گزر رہا ہے۔ ضیا کی آمریت نے آئین کو کھڑکی سے باہر معلق کر دیا۔ پرویز مشرف نے قومی سلامتی کو آئین سے مقدم قرار دے دیا۔ اب تو ایسا نہیں ہے۔ فوج کے سربراہ نے ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات میں آئین کی بالادستی کا اشارہ دیا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن یہ ٹھیک سے معلوم نہیں ہو رہا کہ اگر آئین کی بالادستی مقصود ہے تو آئین سے کھلواڑ کو کیا سمجھا جائے۔ وزیر اعظم عباسی امریکہ کے دورے پر ہیں، کسی اہم امریکی منصب دار سے ان کی ملاقات نہیں ہو سکی۔ چند ماہ قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف سعودی عرب گئے تھے تو انہیں رسمی خطاب کا موقع تک نہیں ملا تھا۔ہم ملک کے اندر اپنے رہنماؤں کو ٹکٹکی پر باندھے رکھتے ہیں تو دنیا سے یہ مطالبہ کیسے کریں کہ ہماری قیادت کو قرار واقعی احترام دیا جائے گا۔ سیاسی قیادت نے گیارہ برس پہلے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے تھے۔ اب اسے عمران خان ’چارٹر آف مک مکا‘ قرار دیتے ہیں۔ عمران خان نے یہ نہیں بتایا کہ 2006ء میں ان کی سیاسی جماعت کی عوامی مقبولیت اور پارلیمانی قوت کیا تھی؟
جہاں تک انتہاپسندی کا تعلق ہے تو ہمیں اپنا آزمودہ آموختہ دہرانے کی بجائے غور کرنا چاہئے کہ دنیا کے کتنے ممالک ہمارے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ گھر کی صفائی کنگھی پھیرنے سے نہیں ہوتی۔ اس کے لئے قوم کے موقف، ہدف اور حکمت عملی کی چولیں بٹھانا پڑتی ہیں۔ کیا ہمارا ہدف معیشت کی ترقی ہے یا معیشت کو مفروضہ بیانیے کا یرغمال بنائے رکھنا ہے؟ ہم انتہا پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں یا انتہاپسندی کے منہ پر کپڑا ڈال کر اس کی شناخت دھندلانا چاہتے ہیں؟ ہم اس ملک کے جمہور کی آواز کو احترام دینا چاہتے ہیں یا معاشرت پر ریاست کی کاٹھی ڈالنا چاہتے ہیں۔ ہم اقتصادی راہداری کو ایک گزرگاہ کے طور پہ دیکھتے ہیں یا اسے اپنے لوگوں کے لئے سیاسی اور معاشی مواقع کا دریا بنانا چاہتے ہیں، جس کی ٹھنڈی میٹھی موجیں ان سیاہ بخت گلی کوچوں تک بھی پہنچیں جہاں افتادگان خاک صدیوں سے سر نیہوڑائے بیٹھے ہیں۔ انصاف صرف آئینی درخواست کی سماعت کا نام نہیں، انصاف تو چاندنی کی وہ کرن ہے جو قانون پسند شہریوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ جس میں دستور کی عملداری کو ہاتھ بھر کے فاصلے پر چھو کے محسوس کیا جا سکتا ہے اور جس میں ہمیں کسی کا نام لینے میں اس لئے ہچکچاہٹ نہیں ہوتی کہ جوابدہی کی مشعل تلے سب چہرے واضح نظر آتے ہیں۔ ساڑھے چار منٹ کی ویڈیو میں پرویز مشرف نے نام لے لے کر اپنی بے گناہی کی دہائی دی ہے لیکن اس اہم شخصیت کا نام نہیں لیا جو ان کے بقول افغان صدر حامد کرزئی سے قریبی تعلقات رکھتی تھی۔ ہمارے گھر کی صفائی کو زیادہ شفاف، جامع اور بامعنی ہونا چاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے