اتفاق رائے ضروری ہے

خبروں، افواہوں اور سازشی نظریات کا ایک سیلاب ہے جو امنڈتا چلاآ رہا ہے۔ان میں سے دو چار کسی نہ کسی طرح اخبارات میں شائع اور بعض ٹاک شوز میں ڈسکس ہوجاتی ہیں، بیشتر حصہ اپنے کمزور استدلال کی وجہ سے ناقابل اشاعت قرار پاتا ہے۔ جہاں کہیں کسی سے بات ہو، ایک نئی سازشی تھیوری لئے ملتا ہے۔ سوشل میڈیا کے جغادری بے بنیاد اطلاعات پر گھنٹوں بحث کرتے ملیں گے۔

لاہور کے ضمنی انتخاب کے اگلے ایک دو دنوں تک سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کرتی رہی کہ اس الیکشن میں انتالیس پولنگ سٹیشنز پر بائیومیٹرک مشینیں لگائی گئی تھیں، ان میں سے اڑتیس پی ٹی آئی نے جیت لیں۔ یہ ایسی بات تھی، جسے سنتے ہی مسترد کر دینا چاہیے تھا کہ اخبارات نے تمام پولنگ سٹیشنوں کے نتائج چھاپ دئیے تھے۔ ایک دوست نے مجھے وہ خبر’’ ان باکس‘‘بھیج کر تبصرہ مانگا تو اسے جواب دیا کہ یہ بات منطقی طور پر ہی غلط ہے اور میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوا ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اب باضابطہ وضاحت کر دی ہے کہ حقیقی صورتحال یکسر مختلف ہے۔ ن لیگ کے احباب ملی مسلم لیگ اور احباب یا رسول اللہ تنظیم کے حوالے سے سازشی تھیوری تخلیق کئے بیٹھے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ دونوں پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ نے لانچ کی ہیں اور مقصد ن لیگ کا ووٹ کاٹنا ہے۔

اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ بھی ایک بخار کی مانند ہے، جب یہ طاری ہو تو حدت سے ہوش وحواس رخصت ہوجاتے ہیں۔ کئی تو ایسے دیکھے کہ عمر بھراسی بخار میں مبتلا ملے، یوں لگا جیسے انہوں نے اوپر والے سے تاحیات اس مرض میں گرفتار رہنے کی دعا کی ۔مزے کی بات ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ چورن بیچنے کے لئے ضروری نہیں کہ تعلیم کم یا شعورکم ہے۔ ہم نے تو اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں، لٹریچر کے استادوں، کتابوں کو اوڑھنا بچھونا سمجھنے والوں کو بھی اس لت کا شکار پایا۔

حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ کے قیام پر حیران ہونے والے صحافیوں کی لاعلمی پر حیرت ہوتی ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ پچھلے دو ڈھائی برسوں سے اس سمت میں پیش رفت جاری تھی۔ جماعت الدعوہ پر عالمی دباؤ اس قدر بڑھتا جا رہا تھا کہ ان کیلئے آپشنز کم بچی تھیں۔ دو سال پہلے ایک صحافی دوست نے بتایا کہ اس طرف کام ہو رہا ہے اور اس تنظیم کے لوگ سیاسی عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں تاکہ ایک طرف وہ پریشر گروپ بن سکیں، دوسری طرف اپنے نوجوان، جذباتی کارکنوں کو بھی کو ئی مثبت تعمیری ہدف سے سکیں، جس کے لئے وہ اپنی انرجی خرچ کریں اور یوں شدت پسندوں کے ہتھے چڑھ جانے کا خدشہ کم ہوجائے ۔

ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب مبینہ طور پرفرزند پنڈی ،شعلہ بیان شیخ رشیدکو ساتھ ملانے کا سوچا گیا۔ شیخ صاحب غیر مذہبی سیاست کرنے کے عادی ہیں، مگر ان کی لال حویلی کا کشمیری تحریک آزادی سے ایک خاص تعلق رہا ہے ، ممکن ہے اسی لئے ان کا نام سوچا گیا ہو،بات مگر پھر آگے بڑھ نہیں سکی۔لاہور کے ضمنی انتخاب نے انہیں پہلا قدم اٹھانے کا حوصلہ بخشا۔میرے خیال میں کسی سخت گیر سوچ رکھنے والی تنظیم کا مین سٹریم میں آ جانا خوش آئند ہے اور اس سوچ کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔

لبیک یارسول اللہ یا اس طرح کی سنی تنظیم بننے کا اندازہ تو اسی وقت ہوگیا تھا، جب غازی ممتاز قادری کے جنازے میں چار پانچ لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی۔ دراصل روایتی مذہبی بریلوی ووٹ خاصے عرصے سے منتشر تھا، لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس جانب ووٹ ڈالیں۔ ایک خلا موجود تھا، جسے لبیک یار سول اللہ تحریک نے پر کیا۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر یہ مزید منظم ہو کر کوشش کریں تو مختلف حلقوں میں اس سے زیادہ ووٹ لینا ممکن ہوسکے گا۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد کی صورتحال میں کسی بریلوی جماعت کا متحرک ہوجاناخارج از قیاس نہیں تھا۔ نواز شریف حکومت پھانسی کے بعد اس مکتب فکر کی نفرت اور بیزاری کا مرکز بن گئی تھی ، اس لئے ضمنی انتخاب میں ان کے خلاف مہم چلنا اور اس غیر منظم جماعت کا تیسرے نمبر پر آنا فطری تھا۔

اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی روایتی بحثیں طویل عرصے سے چلتی آئی ہیں۔عاصمہ جہانگیر سے ہمارے دوست وجاہت مسعود تک ایک پورا مکتب فکر ہے، جسے اسٹیبلشمنٹ کے روایتی نقطہ نظر اور خاص کر ان کی سکیورٹی ایشوز پر لی گئی پوزیشن سے سخت اختلاف ہے۔ اس میں کوئی برائی بھی نہیں۔ ہرایک کا اپنا ورلڈ ویو اور سوچ ہوتی ہے۔مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ٹھوس زمینی حقائق سے نظریں چرا لی جائیں۔ پاکستان کی بھارت سے متعلق ایک خاص پالیسی اور پوزیشن رہی ہے۔ اس خطے میں ہم بھارتی استبداد کے غلبے کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس کا ایک مقصد اپنے لئے گنجائش پیدا کرنا ہے۔ اس میں ڈپلومیسی سے علاقائی اتحاد بنانے اور پراکسی وارز لڑنے تک کے مراحل شامل ہیں۔ اس میں کارگل جیسے بلنڈر بھی آتے ہیں بلکہ اس سے بہت پہلے جنگ ستمبر سے پہلے آپریشن جبرالٹر جیسی بڑی غلطیاں بھی شامل ہیں۔ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھارت یا افغانستان کے حوالے سے اپنائی گئی حکمت عملی میں خامی یا کمزوری ہو سکتی ہے۔ اس پر نظرثانی کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

سویلین اجتماعی دانش اگر کسی مختلف نتیجے پر پہنچی ہے تو اس سوچ کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ مگر یاد رکھنا ہوگا کہ اس خطے میں کھیلے جانے والے کھیل یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ رہے ہیں۔ پراکسی واربھی دونوں اطراف سے لڑی جا رہی ہیں۔ ہمارے مخالفوں کے پاس زیادہ وسائل ، زیادہ قوت ہے اور وہ ہمیں کوئی رعایت نہ دینے پر مصر ہیں۔ سٹریٹجک ڈیپتھ کی اصطلاح کا بہت سے لکھنے والے اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ یہ سٹریٹجک ڈیپتھ بھی یکطرفہ نہیں بلکہ درحقیقت کاؤنٹر سٹریٹجی تھی۔

سامنے کی بات ہے کہ بھارت کا افغانستان سے کوئی رشتہ یا تعلق نہیں بنتا۔ جغرافیائی طور پر وہ ہزاروں کلومیٹر دور ہے، مذہب کا رشتہ ہے نہ کلچر اور زبان کا۔ افغانستان میں بھارت کی غیرمعمولی دلچسپی اور سرمایہ کاری ہمیشہ سے ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے اہتمام کے ساتھ بھارتی اثرونفوذ وہاں بڑھانے کی کوشش کی۔ افغان انٹیلی جنس کو بھارتی ایجنسی را سے تربیت دلوانے کی کیا تک تھی؟ سی آئی اے کی موجودگی کے باوجود بھارتی انٹیلی جنس افسروں کو تربیت کے لئے کیوں بلایا گیا؟ مقصد صاف ظاہر ہے۔

پاکستان بھارت، افغانستان یا خطے کے کسی دوسرے ملک کے لئے اپنی سکیورٹی پالیسی تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ کام مگر منظم انداز میں کرنا ہوگا۔ سکیورٹی پالیسیوں میں تبدیلی یا اس حوالے سے کوئی یو ٹرن بہت سوچ سمجھ کر، ٹھوس گارنٹی لینے کے بعد ہی لیا جا سکتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ الیکشن جیت کر آنے والے کسی بادشاہ سلامت کے ذہن میں ایک صبح پائے ،کھد کے ناشتے کے بعد خیال آئے کہ بھارت سے ہمیں دوستی کرنی چاہیے۔ اگلے روز ملک کی سکیورٹی پالیسی بدل دی جائے۔ ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔سویلین اور ملٹری پوائنٹ آف ویو میں اگر کہیں پر فر ق ہے تو وہ آپس میں مل بیٹھ کر ، ڈسکس کرنے سے دور ہوسکتا ہے۔

پاکستانی سکیورٹی پالیسیوں کی گارنٹیر ، ان کے تسلسل کی ذمہ دار ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہے، اسی لئے وہ ا ن امور میں حساس ہیں۔ یہ مگر ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ملکی پالیسیوں میں ان کا ذاتی مفاد نہیں، پراکسی وار ہو یانیم جنگی ماحول ، ان میں جانیں فورسز کے لوگ ہی دیتے ہیں۔ زندگی وار دینے سے بڑی قربانی کیا ہوسکتی ہے؟یہ پالیسیاں پاکستان کے لئے بہتر سمجھ کر ہی بنائی گئیں۔ ان پالیسیوں کو تبدیل کرنا اگر ضروری ہے تو یہ کام سلیقے سے ہوسکتا ہے، دباؤ ڈالنے، سازشیں کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دلوانے سے تو قطعی نہیں ہوگا۔

پاکستان میں یہ فقرہ عام طور پر سننے کو ملتا ہے کہ حالات بڑے نازک ہیں۔ اس بار مگر واقعی نازک صورتحال ہے۔ امریکہ کا بڑھتا دباؤ، افغان سرحد پر در آئی کشیدگی، بھارت کی جانب سے جارحانہ رویہ ، برکس کا اعلامیہ ۔۔۔ یہ سب آنے والے طوفانوں کی خبر دے رہے ہیں۔ان کے لئے ہمیں مربوط حکمت عملی بنانی ہوگی۔ سازشی نظریات پھیلانے کے بجائے تناؤ کم کرنے اور معاملات سلجھانے پر فوکس رہنا چاہیے۔

میاں نواز شریف عدلیہ سے اپنی نااہلی کے بعد سے نہایت جارحانہ موڈ میں ہیں، ان کی جانشین صاحبزادی ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سمجھدار اور معتدل عناصر کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔میاں نواز شریف پانامہ سکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کھڑا کردہ ایشو نہیں۔ ان کی پارٹی اور حکومت کو توڑنے کی کوئی کوشش ابھی تک نہیں کی گئی۔ میاں صاحب کو بھی ٹکراؤ کی سیاست سے گریز کرتے ہوئے سیاسی سسٹم چلتے دینا چاہیے ۔ اپنی ذات کی خاطر پورے نظام کو تلپٹ کرنا بدترین خود غرضی ہوگی۔ آئندہ انتخابات میں زیادہ عرصہ نہیں رہ گیا،

بعض سیاسی تجزیہ نگارفوری انتخابات کرانے کی تجاویز بھی دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔اگر نیا عوامی مینڈیٹ لینے والی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے تو اس کے لئے عوامی تائید کے ساتھ بڑے فیصلے کرنا آسان ہوگا۔ میاں نواز شریف کو سونیا گاندھی کی مثال سامنے رکھنا چاہیے ، جب بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ان کے لئے وزیراعظم بننا ممکن نہیں رہا تو انہوں نے اسے انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے نظام چلنے دیا اور اپنی پسند کے وزیراعظم من موہن سنگھ کو لے آئیں۔ میاں نواز شریف کو بھی ایسا ہی کوئی حل تراشنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے