مسئلہ کشمیر،سرمائے کی پرانی منطق اورنیاٹریلر

دنیائے اسلام کی امیدوں کا مرکز پاکستان، اپنے معرض وجود میں آتے ہی اپنوں اور بیگانوں کی سازشوں کا شکا ر ہو گیا تھا. بابا محمد علی جناح کی وفات جہاں اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئی وہیں لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر بے نظیر بھٹو کے قتل اور اسامہ بن لادن کی کہانی تک کسی ایک واقعہ کے پس پردہ حقائق سامنے نہیں آسکے ، اسے پاکستانی اداروں کی نااہلی سمجھا جائے یا خود نام نہاد قومی مفاد کا شاخسانہ ، عوام بے چارے کچھ عرصہ تک اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے واقعات کا تذکرہ کرتے کرتے بے بسی سے خاموش ہو جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب اداروں کے ریٹائرڈ سربراہان کا ملازمتی مفاد جب ختم ہو جاتا ہے تو مردہ ضمیری زندہ و جاوید ہو کر ان سے وہ کچھ اگلوانا شروع کر دیتی ہے کہ جس کا تصور بھی بے چارے پاکستانیوں نے نہیں کیا ہوتا۔

پاکستان کی جغرافیائی صورت حال اسے اس خطے میں جو مقام دیتی ہے ، اس سے پاکستان کے سادہ لوح عوام کوفائدوں کے بجائے ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑا ، روس کا ٹوٹنا اور دنیا کا ایک ہی سپر پاور کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے کی مجبور ہو جانا دہشت گردی کےخلاف جنگ اور اب مجوزہ سی پیک سب کچھ اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔۔۔۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ جب مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر جنرل اروڑہ سنگھ اپنی فوجوں کو صف آرا کر چکا تھا تو مغربی پاکستان سے عوامی دباؤ نے جنرل یحیی خاں کو مجبور کیا اور بھارت پر مغربی پاکستان کے” رن آف کچھ” سے حملہ کر دیا گیا۔۔۔ جنرل اروڑہ سنگھ تو بس انتظار میں تھا کہ اسے مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کرنے کا بہانہ مل جائے۔۔۔۔۔۔ اور پھر سب جانتے ہیں کہ کیا ہوا اگر چہ اس مسئلہ پر بنے حمود الرحمان کمشن کی رپورٹ آج بھی سامنے نہیں لائی جا سکی ۔

مذہب کو بنیاد بنا کر ایک جغرافیائی یونٹ کو تقسیم کر کے بننے والا ملک دو ایسے ملکوں میں بٹ گیا کہ دونوں کا مذہب ایک لیکن ملک اپنا اپنا اس پربھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہندوستان کو تقسیم کرنے والےدوقومی نظریہ کوہم نے خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔۔۔۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اگر مشرقی پاکستان کے مقبول عوامی لیڈر کا مینڈیٹ تسلیم کرلیا جاتاتو شاید یہ نوبت ہی نہ آتی۔ بنگلا دیش بن گیا اوربچاکھچا کمزور سا پاکستان پھر اپنی مخصوص جغرافیائی پوزیشن کی بنا پر پس پردہ عالمی کھلاڑیوں کے کھیل کا پہلے سےزیادہ شکار ہونا شروع ہوگیا ، لیکن نہ ہم نے رویے بدلے ، نہ یہ جاننے کی ضرورت محسوس کی کہ غلطی کہاں ہورہی ہے بلکہ ہم نے غلطی کو تسلیم ہی نہیں کیا ، اگر کسی نے سیدھی راہ دکھلانے کی کوشش کی تو ہم نے کالونیل تربیت کے عین مطابق اسے غدار قراردے کر قابل گردن زنی قرار دے دیا ۔ ہر سازش کو عوامی سطح پر اٹھنے والی تحریک کا نام دیا جاتا رہا ۔اس سب مہم جوئی کامقصد پس پردہ لیکن اظہرمن الشمس مقصد پاکستان کو مزید کمزور کیا جانا ہی رہا ، عوام کے مذہبی لگاؤ کے مد نظر عوام کو مذہب ہی کی محبت کے بنا پر استعمال کیا جاتارہا.

عالمی سرمایادار دنیا کو اس وقت بہت فکر لا حق ہوئی، جب مذہب سے ہٹ کرپاکستان کی عوامی لیڈرشپ نے کراچی کے متبادل بندرگاہ کے طور پر بن قاسم پورٹ کوترقی دی اور سوشلسٹ کیمونسٹ سویت یونین کی مدد سے سٹیل مل بن گئی ، جس کے بالواسطہ فوائد سویت یونین کو ملنا تھے ، پورٹ قاسم تک رسائی کے لئے افغانستان سے راہداری بھی تیار ہونے کو تھی اور پاکستان میں نو ستاروں کی ایک عوامی اور اسلامی تحریک کے نتیجہ میں ایک عوامی دور کا خاتمہ عوامی لیڈر کی پھانسی پر ہوا

پھر کیا تھا نئی صف بندیاں ہونے لگیں ، اسلام کے نام پر نئی قیادت نے پاکستان کی عنان اقتدار سنبھال لی اور نئی سیاسی قیادت مہیا کرنے کے لئے اقدامات شروع ہو گئے ۔ جس طرح مذہب کا سہارا لے کر پہلے اس خطہ کے لوگوں کا استحصال کیا گیا تھا ، اسی طرح اب پھر نئے شکاری پرانا جال لے کر شکار گاہ آدھمکے ۔۔۔۔۔سویت یونین کے خلاف اسلامی ذہن رکھنے والے مخلص اور ایماندار لوگوں کو ورغلایاجانے لگا اور صرف دوسا ل میں ہی سویت یونین کی عملا افغانستان میں مداخلت نے استحصالی طبقہ کو کھل کر کھیل کھیلنے کا موقع فراہم دیا

پھر کیا تھا، اس وقت کے حکمران کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں ” اگر افغانستان پر روس قابض ہوگیا تو اگلا نمبر آپ کا ہے ” یوں ‘کافروں’ کے پیسے اور اسلحہ پر اسلامی لڑائی شروع ہوئی جس نے صرف افغانستان میں ساٹھ لاکھ سے زائد سول لوگوں کا اپنا شکار کیا۔ سویت یونین کے جو فوجی مارے گئے ان کی تعداد الگ ہے۔ اس ساری کارروائی سے ایک ملک افغانستان ملک کے بجائے صرف زمین کا ٹکڑا بن کر رہ گیا ، جس پر متحارب قوتین اپنی اپنی جنت تلاش کرتی پھر رہی تھیں ۔

اس جنگ کے نتیجہ میں پاکستان اور بے چارے پاکستانی آج بھی روز لاشیں اٹھا رہے ہیں ، اربوں ڈالر کا نقصان اور ہزاروں جانباز فوجیوں کی قربانیاں دینے کے بعد بھی عالمی دنیا میں تنہا کھڑا ہے ، افغانستان ایران بھارت روس بنگلادیش نیپال بھوٹال سری لنکا حتی کہ عرب امارات اور سعودی تک ہم سے شاکی ہیں ۔

بعض خوش فہمی کا شکا ر تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جتنی فوج اور سرمایہ ہم نے کوئلوں کی دلالی میں جھونک کر ہاتھ منہ کالے کر لئے اس بہت کم سرمائے اور جانی نقصان سے ہم کشمیر کا مسئلہ حل کرا سکتے تھے ۔

جنگ اور ساز باز کی اس ساری کارروائی سے روس تو بن قاسم نہ پہنچاالبتہ سرمایا دار دنیا کا سرخیل خطے میں اپنا بھر پور اور براہ راست عملی اثر رسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اگر چہ اس کے پاس اس سے قبل بھی یہاں بالواسطہ اختیار حاصل تھا جس کے بنا پر وہ سویت یونین کے خلاف کامیاب حکمت عملی سے مذہبی فوج اور سولین کو کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا

1977 سے 2017 پورے چالیس سال بعد کا منظر ملاحظہ فرمائیں ، سویت سوشلسٹ کیمونسٹ روس کی جگہ چین سوشلسٹ کیمونسٹ موجود ہے ۔ لگ بھگ اسی طرح کی ایک کوشش آج پھر شروع ہوچکی ہے ، جیسی ستر کی دھائی میں بحیرہ عرب تک رسائی کے لئے سویت یونین کی جانب سے ہوئی تھی ، اس کو شش سے سرمایادار دنیا تک سوشلسٹ کیمونسٹ دنیا کا سرخیل چین بحیرہ عرب تک براہ راست رسائی حاصل کرنے کی کوشش میں ہے، پورٹ قاسم کی جگہ گوادر اور سٹیل مل کی جگہ گوادرمیں زیر تعمیر انفرا سٹریکچر .

ستر کی دھائی میں بھی وہی قوتیں سڑکوں پر تھیں ، جو لمحہ موجود میں بھی سڑکوں پر ہیں، گویا کام وہی ہے نام بدل دیئے گئےہیں ، حالانکہ ایسی تمام قوتوں کا صرف ایک ہی نام ہوتا ہے ، جسے عرف عام میں پراکسی انسٹرومنٹ کہا جاتا ہے ۔ یہ قوتیں پھر سڑکوں پر ہیں اس وقت کی عوامی قیادت پر بھی وہی الزام تھے جو آج ہیں ، اس کے خلاف بھی مقدمات تھے جو آج بھی ہیں ، پھانسی کے لئے اس کے خلاف بھی ایک مقدمہ دستیاب تھا اور خاکم بدہن آج بھی ہے ، اس وقت بھی پاکستان اور سوشلسٹ کیمونسٹ طاقت کے درمیان سینڈ وچ کے طور پر ایک ملک افغانستان موجود تھا اور آج بھی ان دونوں قوتوں کے درمیان متنازعہ خطہ کشمیر موجود ہے ، اس وقت بھی افغانستان میں مذھب کےنام پر جان نچھاور کرنے والے ایماندار وافر تعداد میں دستیاب تھے اور آج بھی کشمیر میں ان کی کمی نہیں سب کچھ ویسا ہی ہے۔ تبدیلی اگر آئی ہے تو صرف اتنی کہ اب سرمایادار دنیاکا سرخیل براہ راست خطہ میں نہ صرف موجود ہے بلکہ متبادل راستہ بھی چاہ بہار کے راستے تیار کرنے کے موڈ میں ہے، ستر کے دھائی میں سویت سوشلسٹ کے خلاف کوئی آمادہ بجنگ ملک دستیاب نہیں تھا اب سرمایاداروں کو وہ ملک بھارت کی صورت دستیاب ہے ۔

اب رہا دوہزار اٹھارہ کا اگلا منظر تو دستیاب سادہ لوح اکیس کروڑ نمبروں میں سے پونے گیارہ کروڑصرف اس خطہ میں بستے ہیں ، جس سے تعلق رکھنے والی قیادت منظر سے ہٹائی جا چکی ہے اور وہ جی ٹی روڈ کی سیاست پر آمدہ نظر آرہی ہے ، جس کے نتیجہ میں وہ ایک بھر پور ضمنی انتخاب کا معرکہ سر بھی کر چکی ہے ۔2013 کے الیکشن میں پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت قومی سیاسی جماعت کے طور پر نہیں ابھری ، پاکستان میں ساری سیاسی قوتیں علاقائی سیاسی قوتوں کی صورت میں سامنے آئیں ہیں ، جو اس بات کی طرف کھلا اشارہ ہے کہ پاکستان میں آباد مختلف لسانی ، نسلی اور علاقائی گروہوں کے مابین ایک نیا عمرانی معاہدہ کرنا ضروری ہو چکا ہے جو کمزور ہوتے تعلق کو دوبارہ مضبوط کرنا شروع کرے . اس کے برعکس معاملات دوسری طرف جاتے نظر آرہے ہیں جو مختلف گروہوں کے مابین فاصلوں کو مزید بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں ۔

بظاہر سرمایا دار دنیا کو ایک ایسا سیٹ اپ درکار ہوگا، جس کو جعلی منڈیٹ سے اختیارات کا مالک تو کر دیا جائے لیکن اسے یہ حقیقت معلوم ہو کہ اس کو عوام کے ووٹ نے نہیں ، کسی اور قوت نے اقتدار دیا ہے تاکہ وہ عوام کی بجائے اسی قوت کے مفادات کاتحفظ کرنے میں مصروف ہوجائیں ۔ معین قریشی ہو یا شوکت عزیز ان کے آنے جانے سے عوام کے جذبات پر کوئی منفی مثبت اثرات پڑیں نہ پڑیں، ان کے جیب میں پڑے روپے کی قدر پر مثبت اثرات مرتب ضرور ہوئے. اگر چہ ان کرنسی نوٹوں پر حکومت پاکستان کی جانب سے حامل ہذا کومطالبہ پر ادا کرنے کے قابل اعتماد الفاظ تحریر تھے ،

اگر میں غلطی پر نہیں تو 70 کی دھائی میں ڈالر ساڑھے آٹھ روپے پاکستانی پر ٹھہرا ہوا تھا، اس کے بعد ملینز اینڈ بلینز آف ڈالر پاکستان میں آئے لیکن ڈالر اسی کے دھائی میں اٹھارہ روپے تک گیا اور قریشی صاحب نے تو آتے ہی رات کی رات میں ڈالر کو ایسے پر لگائے کہ اٹھائیس سے پینتیس اور پینتیس سے اڑسٹھ اور پھر پچاسی اور پھر تیسرے فگر کو جا پہنچا۔

اب آئیے سینڈوچ ملک کی صورت حال پر بھارت انسٹرومنٹ آف ایکسیشن کرے یا لداخ ہل کونسل بنا لے یا گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنا لیا جائے حتی کہ گلگت بلتستان والے خود کو ابھی سے پاکستانی کہتے رہیں ، بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا کیس 1947 کی پوری ریاست جموں کشمیر کا کیس ہے ، یہ بعد کی بات ہے کہ وقت آنے پرکشمیریوں کو استصواب رائے کا حق بھی مل جائے تو بھلے گلگت والے پورے کے پورے پاکستان میں شامل ہوجائیں ، یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک سٹیٹس کو کا منظر یہ ہے کہ ریاست کی دونوں جانب پراکسی انسٹرمنٹ اپنے اپنے متعلقین کے اعتماد پر بھر پور پورے اترتے نظر آتے ہیں اور متعلقین میں سے کوئی بھی اپنے نقصان پر پراکسی کے نقصان کو ترجیح دیتا ہے ، کنٹرو ل لائن پر ہونے والے حالیہ واقعات اس خیال کو تقویت بخشتے ہیں۔

اب اگر ستر کی دھائی والا کھیل دوبارہ شروع ہوتا ہے کہ اس کے براہ راست اثرات ریاست(جموں وکشمیر) کے عوام پر اسی طرح پڑنے کے کافی دلائل موجود ہیں ، جس طرح افغانستان پر ستر کی دھائی کی مہم جوئی سے پڑے تھے، خطے میں (خواہ وہ کسی کی محبت سے یا بلیک میلنگ کے زور پر کشمیر میں مصروف عمل ہیں )پراکسیزدستیاب ہیں جبکہ ان کے متعلقین کا بھر پور سیٹ اپ سرمایاداردنیا کے مقاصد کے حصول کے لئے احکام دینے میں کوئی تامل نہیں کرے گا۔۔۔ کیونکہ ملازمت تو ملازمت ہوتی ہے اس کا تجربہ عوام کو پہلے سے ہے ، پھانسی پر دستخط کرنے والے کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ہم نے غلط کیا ، پھانسی کا فیصلہ نہیں دینا چاہیئے تھا لیکن کیا کریں نوکری تھی ،

اسلامی جمہوری اتحاد کے خالق کے بیان سے مشرف کے بیانات اس بات کی دلیل ہیں کہ نوکری ختم ہونے کے بعد ہی ”زندہ ضمیری” کا دورہ پڑتا ہے ، دوران نوکری انکار کے بجائے صرف احکامات پر عمل کرنا پڑتاہے ۔۔۔۔۔ یوں اب افغانستان کی جگہ ریاست جموں کشمیر کو رول سونپا جانا بعید از قیاس نہیں ۔ اس خطہ میں سوشلسٹ چین کی خاطرخواہ سرمایا کاری موجود ہے ، جو چین کو مختلف منصوبوں کو مکمل کرنے بعد ان منصوبوں سے اپنا لگایا گیا سود سمیت واپس کرنے تک یہاں موجودگی کی جوازیت مہیا کرتی ہے ۔حتی کہ سی پیک کے ایک آدھ منصوبے میں آزاد کشمیر ، پاکستان اور چین کے مابین بھی معاہدہ ہو چکا ہے لہذا قانونی تقاضا بھی پوراہے ۔ فلم کا جو ٹریلر حالیہ دنوں میں ریلیز ہوا ہے ، دعا کریں فلم ویسی نہ ہو جو چالیس سال پہلے چلی تھی . اس ٹریلر اور چالیس برس پرانی فلم میں‌ دکھائی دینے والی مماثلتیں البتہ خوفزدہ کرتی ہیں

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے