اقتدار؟خاندانی ورثہ؟

برصغیر کی جمہوریت میں خاندانی اقتدارکی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔بھارت میں نہرو خاندان ‘چالیس برس تک اقتدار پر فائز رہا۔بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن کا خاندان‘ آج تک برسر اقتدار ہے۔ ایک چھوٹے سے وقفے کے لئے فوج آئی۔ اس کے جاتے ہی‘ ان کی بیٹی بر سراقتدار آگئی‘جو آج تک ہے۔پاکستان میں سیاست دان اور ڈکٹیٹر‘ سبھی اپنے خاندان کو اقتدار کی وراثت سنبھالنے کے لئے تیار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ایوب خان جیسے طاقتور ڈکٹیٹر بھی اپنا جانشین‘ گوہر ایوب کو نہ بنا سکے۔میاںنوازشریف‘ پاکستان کے اقتدار کو خاندانی ورثے میں بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔دیکھنا ہو گا وہ کہا ں تک کامیاب رہتے ہیں؟ پاکستانی عوام اسی کوشش کا انجام دیکھنے کے منتظر ہیں۔اسی تناظر میں‘سینئر صحافی کلدیپ نیئر کا حال ہی میں شائع ہونے والا ایک تجزیہ پیش خدمت ہے۔
”کانگرس کے نائب صدر کا یہ کہنا درست نہیں کہ پورے ہندوستان پر مختلف خاندانوں کا اقتدار چل رہا ہے۔ حکومت کا مطلب ہے‘ مرکز میں اختیارات پر قبضہ۔ صرف جواہر لعل نہرو کے خاندان کو ایسا کرنے کا موقع ملا تھا۔ نہرو نے17سال‘ ان کی بیٹی‘ اندرا گاندھی نے 16سال جبکہ اندرا گاندھی کے بیٹے ‘راجیو گاندھی نے 5سال حکومت کی۔ اس طرح یہ خاندان مرکز میں قریباً40سال تک بر سر اقتدار رہا یعنی1947ء میں ملک کی آزادی سے‘ اب تک کی مدت کے نصف حصے پر۔نہرو نے اس بات کا خیال رکھا کہ ان کی بیٹی اگر ان کے اقتدار کے فوراً بعد نہیں تو کوئی بھی وقت آنے پر‘ زمام حکومت سنبھال لیں۔ اس زمانہ میں وزیر داخلہ‘ لال بہادر شاستری کے افسر اطلاعات کی حیثیت سے کام کرنے کے دوران‘ خصوصاً جب نہرو کو دل کا دورہ پڑا تو میں نے ان سے تیار ہوجانے کے لئے کہا۔ شاستری مجھ سے کہنے لگے کہ ان کے من میں تو ان کی سپتری(بیٹی) ہے۔ یہ کام آسان نہیں ہے۔وہ پنڈت جی کو چیلنج نہیں کریں گے اورالٰہ آباد واپس چلے جائیں گے۔
نہرو کی موت کے بعد یہی ہوا۔ کانگرس صدر کے”کامراج‘‘ نہرو کے گہرے معتقد تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ شخص‘ جسے انہوں نے دریافت کیا ہو‘ ایسی چابی کا کام کرے جس سے کئی تالے کھل جائیں۔ جنوبی ہند سے سنجیوا ریڈی‘ کلکتہ سے اتلیہ گھوش‘بمبئی سے ایس کے پاٹل‘ بزعم خود بڑے طاقتور اور رعب دار لوگ تھے لیکن وہ سب شاستری کو قبول کرنے پر‘ اس لئے آمادہ تھے کہ انہیں یہ تاثر دینے کے لئے کہ وہ برابر کے نہیں ہیں‘ انہوں نے خود کو آگے نہیں بڑھایا۔ میں ”انڈین ایکسپریس‘‘ میں سیاسی رپورٹر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اس وقت میں نے لکھا تھا” جنوبی ہند کے مندروں والے شہر‘ تروپتی میں1963ء کی گرمی کی رات میں‘ پانچ افراد وسیع و عریض وادی کے اوپر واقع‘ خاموش بنگلے تک پہنچنے کا راستہ تلاش کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک صاحب بد وضع اور بھاری جسم کے تھے۔ دوسرے لحیم و شحیم‘ تیسرے پھرتیلے اور زندہ دل‘ چوتھے معمولی قدو قامت کے تھے تو پانچویں صاحب‘ کسرت کرنے والے پہلوان لگتے تھے۔ وہ پانچوں الگ الگ سمتوں
سے آئے تھے تاکہ پہچانے نہ جا سکیں اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ سڑکیں تقریباً سنسان تھیں۔ بیشتر افراد صبح سویرے مندر کے گھنٹے کی آواز پر‘ بیدار ہونے سے پہلے پوری طرح سوچکے تھے ‘ ‘ ۔ شاستری کی موت کے بعد‘ اقتدار نہرو خاندان میں واپس آگیا۔تاہم عدم رواداری کا ماحول پیدا کرنے کے لئے‘ نریندر مودی پر تنقید کرنے میں راہول گاندھی حق بجانب ہیں۔ ملک کے17کروڑ مسلمان‘ ‘گویا کسی شمار و قطار میں ہی نہیں۔ نہ ہی ان پر عوام کی کوئی توجہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے خود اپنے ہی ملک میں ‘دوسرے نمبر کے شہری کی حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے۔ دوسری جانب ہندووں نے مجموعی طور پر ملک کی تقسیم کے لئے ‘مسلمانوں کو معاف نہیں کیا ۔ آج بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ہونے پر‘ مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بصورت دیگر بھی گندی بستیوں والے علاقوں میں‘ انہیں الگ تھلگ رہنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ روزگار کے اعتبار سے ان کی گنتی انگلیوں پر کی جاسکتی ہے۔ مسابقتی امتحانات میں چند افراد ہی آ سکتے ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں‘ ان کی دلتوں سے‘ بدتر حالت کا ذکر کیا گیا ہے۔ہندوئوں نے انہیں افلاس کی دلدل سے نکالنا ہے لیکن انہیں بے بسی کے دوزخ کی نذر ہونے دیا جاتا ہے ۔ مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم نے‘ ایک ایسی لکیر کھینچ دی ہے جس کی وجہ سے‘ ہندوستان کے مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور آج بھی ان سے مذہب کی بنیاد پر تعصب برتا جاتا ہے۔ ملی جلی آبادی والی کالونیاں‘ اب معدوم ہو تی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے لوگوں کے درمیان محفوظ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔وزیراعظم نریندر مودی کے بر سر اقتدار آنے سے‘ دونوں قوموں کے درمیان خلیج بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ آر ایس ایس کے کارکن‘ اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ پبلک سیکٹر میں کسی مسلمان کو کوئی اہم عہدہ نہ ملنے پائے۔ مجھے یاد ہے کہ سری نگر ہوائی اڈہ پہنچانے والے ایک مسلم انجینئر نے شکایت کی کہ وہ ملازمت کی تلاش میں بنگلور گیا تو اس کی اسناد معلوم ہونے پر‘ اسے یکسر مسترد کر دیا گیا۔
افسوس اس بات کا ہے کہ کانگرس بے معنی ہو چکی ہے۔ ورنہ وہ ملک کو سیکولر پلیٹ فارم فراہم کر سکتی تھی۔ راہول گاندھی کو شدت سے احساس ہو رہا ہو گا کہ ان کی پارٹی کو‘ ایک بار پھر بنیادی سطح پر محنت کرنا ہو گی ۔ عوام کے مزاج میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہو گی۔ہندوستان نے ایک جمہوری اور سیکولر ملک بننے کی لڑائی لڑی ہے۔ مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو‘ دونوں نے ‘عوام کو ان کے ورثے کی یاد دہانی کرائی تھی ‘جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔در حقیقت ‘حیرت اس پر ہے کہ نہرو کا نام مٹایا جا رہا ہے۔اعتدال پسند بی جے پی لیڈر‘ اٹل بہاری واجپائی‘ نہرو کے سچے معتقد تھے۔ ایک بار جب واجپائی وزیراعظم تھے‘ اس وقت میں ممبر پارلیمنٹ تھا ‘تو ان سے ایک ملاقات کی۔انہوں نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ ”میں اسی کرسی پر بیٹھا ہوں‘ جس پر کبھی نہرو بیٹھے تھے‘‘۔لیکن آج تو بی جے پی ‘ نہرو میموریل سنٹر سے نہرو کا نام ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بعض دانشور اس منصوبے کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن معاملہ وزیراعظم کے دفتر(پی ایم او) پر چھوڑ دیا گیا ہے۔عوام کو یاد رکھنا چاہئے کہ نہرو‘ ان قدآور شخصیتوں میں سے تھے‘ جنہوں نے برطانوی سامراج کو دیس نکالا دینے کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دیا۔ وہ کئی بار جیل گئے لیکن ملک کی آزادی کے لئے‘ ان کا جذبہ سرد نہیں پڑا۔ان کے پرنواسے‘ راہول گاندھی کو ان کی زندگی سے سبق حاصل کرتے ہوئے‘ خاندانی اقتدار کی بقا کے لئے نہیں بلکہ ملک میں ڈیموکریسی اور سیکولر ازم کی اقدار کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ عوام کانگرس کو ایک بار پھر با معنی بناد یں گے؟۔ اہم چیز ہے ورثہ‘ متحد جمہوری اور ڈیموکریٹک ورثہ‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے