آپ یہ پلے باندھ لیں

آپ اگر پاکستانی ہیں اور آپ اور آپ کا خاندان اگر اس ملک میں رہنا چاہتا ہے تو آپ کو یہ چند سبق اپنے دماغ کی گرہ سے باندھ لینے چاہئیں۔
پہلا سبق‘ ہمارے ملک میں کسی بھی وقت کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو ذوالفقار علی بھٹو‘ جنرل ضیاء الحق‘ غلام اسحاق خان‘ فاروق احمد لغاری‘ بینظیر بھٹو‘ جنرل پرویز مشرف اور شریف فیملی کا تجزیہ کر لیجیے‘ یہ لوگ ملک کے طاقتور ترین لوگ تھے لیکن ان کا کیا حشر ہوا‘ ان کا کیا حشر ہو رہا ہے؟ آپ ملک کے پانچ سابق آرمی چیفس کا پروفائل بھی نکال کر دیکھ لیجیے‘ آپ کو ان کی حالت پر بھی ترس آئے گا‘ آپ چیف جسٹس حضرات کے ساتھ ہونے والی ’’اَن ہونیوں‘‘ کی فہرست بھی بنا لیں‘ آپ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو دیکھ لیجیے۔
ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں چیف جسٹس انصاف کے لیے عوام کا سہارا لینے پر مجبور ہوگیا تھا‘ میں نے اپنی آنکھوں سے پولیس کے طاقتور افسروں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں دیکھیں‘ ججوں کو اپنی فائلیں اٹھا کر مارے مارے پھرتے دیکھا اور نیب کے افسروں کو تحریری معافی مانگتے دیکھا‘ میں نے ملک کے طاقتور ترین سیاسی خاندان کو پورے خاندان سمیت جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتے اور عوام کے سامنے دہائیاں دیتے بھی دیکھا‘ میں نے جنرل پرویز مشرف کو ملک سے بھاگتے بھی دیکھا‘ میں نے ملک کے نامور بیورو کریٹس کو جیلوں میں دھکے کھاتے بھی دیکھا اور میں نے مرتضیٰ بھٹو جیسے لوگوں کو بینظیر بھٹو کی حکومت میں کراچی کی سڑک پر تڑپتے بھی دیکھا‘ صدر ایوب خان کے دور میں ملک میں 22 امیر ترین خاندان تھے‘ وہ تمام خاندان بھٹو کے دور میں ختم ہو گئے‘ بینکوں اور بحری جہازوں کے مالک دس برسوں میں کوڑیوں کے محتاج ہو گئے‘ دنیا کی سب سے بڑی کارگو کمپنی کراچی میں تھی‘ اس کے پاس ساڑھے تین سو بحری جہاز تھے‘ آج اس کا مالک لاہور میں گم نام زندگی گزار رہا ہے۔
چو این لائی بیکو کمپنی کی فیکٹری دیکھنے لاہور آئے تھے‘ بیکو کے مالک سی ایم لطیف بعد ازاں جرمنی کے ایک گاؤں میں گم نام زندگی گزار کر فوت ہوئے‘ شریف فیملی تین بار زیرو ہوئی‘ ملک ریاض ملک کے امیر اور بااثر ترین شخص ہیں‘ میں انھیں 20 سال سے حکومتوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھ رہا ہوں‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ برسوں میں اپنی لیڈر بینظیر کو انصاف نہ دے سکی‘ آصف علی زرداری کے خلاف آج بھی کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں‘ میاں نواز شریف اقامے کی بنیاد پر نااہل ہو چکے ہیں‘ شہباز شریف کے خلاف 14 لوگوں کے قتل کی سماعت شروع ہو رہی ہے اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے حج سکینڈل اور ایفی ڈرین کا تاج سر پر سجا کر پھر رہے ہیں جب کہ جنرل پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ جاری ہو رہے ہیں چنانچہ آپ جنرل ہیں‘ سیاستدان ہیں‘ جج ہیں‘ بزنس مین ہیں، بیورو کریٹ ہیں یا پھر عام انسان ہیں ہمارے ملک میں کسی بھی وقت کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے اور آپ کو اس ملک میں بہرحال اس خوف کے ساتھ زندگی گزارنی ہو گی۔
دوسرا سبق‘ آپ اگر اس ملک میں خوش حال ہیں اور غیر معروف ہیں تو پھر آپ کو کوئی خطرہ نہیں‘ آپ لاکھوں لوگوں سے بہتر زندگی گزار سکتے ہیں‘ آپ پھر تمام محکموں‘ تمام اداروں کو ’’مینج‘‘ کر لیں گے‘ آپ صبح اٹھیں‘ ناشتہ کریں‘ دفتر جائیں‘ پیسے کمائیں‘ شام کو واک کریں‘ فیملی کے ساتھ اچھا وقت گزاریں اور نو بجے سو جائیں‘ آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن جس دن آپ کے پاس پیسے کم ہو گئے یا آپ ’’لائم لائیٹ‘‘ میں آ گئے یا لوگ آپ کے نام اور شکل سے واقف ہو گئے اس دن آپ کی زندگی عذاب ہو جائے گی‘ اس دن آپ دھوتی سنبھالنے پرمجبور ہو جائیں گے۔
تیسرا سبق‘ ہمارے ملک میں انسان کے پاس پیسہ ضرور ہونا چاہیے لیکن یہ ضرورت سے بہت زیادہ نہیں ہونا چاہیے‘ آپ کے پاس اگر پیسہ نہیں تو عذاب ہے اور یہ اگر بہت زیادہ ہے تو یہ بہت بڑا عذاب ہے‘ میں نے پوری زندگی کسی شخص کو بھوک سے مرتے نہیں دیکھا لیکن میں لوگوں کو زیادہ کھانے کی وجہ سے روز مرتے دیکھتا ہوں‘ میں لوگوں کو غربت کی وجہ سے پریشان دیکھتا ہوں لیکن میں نے آج تک کسی رئیس شخص کو بھی خوش نہیں دیکھا‘ ہمارے ملک میں لوگوں کو غربت نہیں مارتی ہمیشہ امارت مارتی ہے‘ آپ کے پاس اگر ضرورت سے چار گناہ زیادہ دولت موجود ہے تو پھر آپ کسی دن اپنے سالے‘ بہنوئی‘ بھائی‘ داماد یا پھر نالائق بیٹے کی ہوس کا لقمہ بن جائیں گے‘ میں نے آج تک رئیس لوگوں کو صرف کورٹس‘ کچہریوں‘ اسپتالوں اور قبرستانوں میں دیکھا ہے۔
میں نے انھیں والد کے جنازے میں بھی لڑتے دیکھا چنانچہ آپ اگر اچھی اور پرسکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اپنی دولت کو کسی بھی حالت میں خوش حالی سے اوپر نہ جانے دیں‘ آپ کا بیٹا جس دن کھڑے کھڑے ڈیڑھ دو کروڑ روپے کی گاڑی خرید لے یا پھر اپنی گھڑی‘ اپنی گاڑی اور اپنا گھر جوئے پر لگا دے یا ایک دو کروڑ روپے کی جائیداد ٹیلی فون پر بیچ دے آپ اس دن ڈر جائیں‘ آپ اس دن اپنی آدھی رقم خیرات کر دیں ورنہ دوسری صورت میں آپ کا اختتام اسپتال یا پھر سڑک پر ہو گا‘ میں ایک صاحب کو جانتا ہوں‘ وہ خوشحال تھے‘ وہ جو کماتے تھے وہ اپنے اوپر‘ اپنے خاندان کے اوپر اور اپنی آل اولاد کی تعلیم پر خرچ کر دیتے تھے اور جو بچ جاتا تھا وہ اسے خیرات کر دیتے تھے‘ وہ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے ترکے میں کچھ نہیں تھا‘ ان کے بچے آج بھی اکٹھے رہ رہے ہیں‘ یہ سب یک جان‘ یک قالب ہیں جب کہ ان کے دوسرے بھائی نے زندگی بھر دولت کمائی‘ وہ اپنے بچوں کے لیے کروڑوں روپے چھوڑ کر گئے‘ بچے والد کے انتقال کے بعد جائیداد کے لیے لڑے اور یہ آج تک لڑ رہے ہیں‘ سگے بھائی بہن ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں چنانچہ آپ کوشش کریں آپ کی دولت خوش حالی سے اوپر نہ جائے‘ یہ اگر چلی جائے تو آپ اسے ویلفیئر میں لگا دیں‘ آپ بھی بچ جائیں گے‘ آپ کا خاندان بھی اور معاشرہ بھی۔
چوتھا سبق‘آپ جہاں تک ممکن ہو ڈاکٹر اور ادویات سے پرہیز کریں‘ میں نے پاکستان میں ادویات‘ ڈاکٹروں اور اسپتالوں پر اعتبار کرنے والے لوگوں کو ہمیشہ روتے دیکھا‘ ملک میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز ڈاکٹروں کے بجائے قصائی پیدا کر رہے ہیں‘ یہ ناتجربہ کار بھی ہیں اور اناڑی بھی‘ پرائیویٹ اسپتال باقاعدہ مذبح خانے ہیں‘ آپ پیٹ درد لے کر جائیں گے اور یہ آپ کا پورا پیٹ کھول کر رکھ دیں گے‘ آپ انجکشن لگواتے اور آپریشن کرواتے ہوئے دس دس مرتبہ ’’کاؤنٹر چیک‘‘ کر لیا کریں‘ میں نے بے شمار مریضوں کو ’’اوور ڈوز‘‘ اور غلط انجکشن کی وجہ سے مرتے دیکھا‘ میرے ایک دوست ایک وقت میں صرف ایک انجکشن خریدتے ہیں۔
یہ دو دن سے زائد دواء بھی نہیں خریدتے‘ یہ کہتے ہیں میں نے ایک بار دو انجکشن لے لیے تھے‘ نرس نے مجھے دونوں انجکشن اکٹھے لگا دیے تھے اور میں مرتا مرتا بچا تھا‘ ایف بی آر کے ایک ممبر نے بیٹے کے لیے انجکشن کی بڑی شیشی خرید لی‘ شیشی میں دس دن کی ڈوز تھی‘ بچے کو روز ایک سی سی انجکشن لگنا تھا لیکن نرس نے پوری شیشی ڈرپ میں ڈال دی‘ بچہ تڑپ کر مر گیا‘ ہم آئے روز دایاں کے بجائے بایاں گردہ نکلنے اور رائیٹ کے بجائے لیفٹ آنکھ کے آپریشن کی خبریں سنتے رہتے ہیں اور میرے ایک دوست بال لگوانے اور دوسرے پیٹ کی چربی کم کرانے (لائپو سیکشن) کی وجہ سے انتقال کر چکے ہیں چنانچہ آپ کوشش کریں آپ کسی قسم کی کاسمیٹک سرجری نہ کرائیں‘ آپ آپریشن ہمیشہ تجربہ کار اور سمجھ دار سرجن سے کرائیں خواہ آپ کو اس کی کتنی ہی فیس کیوں نہ ادا کرنی پڑ جائے اور آپ کو جب کوئی ڈاکٹر دوائی لکھ کر دے تو آپ اس نسخے کو کسی دوسرے ڈاکٹر کو بھی چیک کرا لیا کریں‘ آپ کوشش کریں آپ کم کھانا کھائیں‘ روزانہ ورزش کریں اور گھی اور چربی استعمال نہ کریں‘ یہ تین عادتیں آپ کو ڈاکٹر‘ اسپتال اور ادویات سے دور رکھیں گے اور یوں آپ اپنی موت اپنے ہاتھوں سے لکھنے سے بچ جائیں گے۔
پانچواں سبق‘ انسان کے لیے ایک اللہ‘ ایک بیوی اور ایک موبائل کافی ہوتا ہے‘ میں نے ہمیشہ زیادہ خداؤں‘ زیادہ بیویوں اور زیادہ موبائل والے لوگوں کو پریشان دیکھا‘ یہ اکثر اوقات جلدی فوت ہو جاتے ہیں‘ پاکستان جیسے معاشرے میں ایک کے بعد دوسری شادی حماقت ہے‘ آپ اس حماقت سے جتنا بچ سکتے ہیں آپ بچ جائیں‘ دوسرا موبائل بھی انسان کی ٹینشن میں ہزار گنا اضافہ کر دیتا ہے اور آپ اگر ایک خدا سے مطمئن نہیں ہیں تو پھر آپ نعوذ باللہ ہزاروں خداؤں سے بھی خوش نہیں ہو سکتے چنانچہ ایک اللہ‘ ایک بیوی اور ایک موبائل فون زندگی اچھی گزرے گی ورنہ پوری پوری بربادی ہے اور چھٹا سبق‘ آپ یہ بات پلے باندھ لیں آپ کو اس معاشرے میں روزانہ عزت نفس اور انا کی قربانی دینا پڑے گی‘ آپ جب بھی گھر سے باہر نکلیں گے‘ آپ جس کے ساتھ بھی لین دین کریں گے اور آپ جس سرکاری یا غیرسرکاری دفتر میں جائیں گے آپ کے ساتھ دھوکہ بھی ہو گا‘ آپ کے ساتھ وعدہ خلافی بھی ہوگی اور آپ کی عزت نفس بھی ضرور روندی جائے گی چنانچہ آپ جب بھی کسی سے ملیں اور آپ جب بھی کسی کے ساتھ ڈیل کریں آپ ذہنی طور پر انا کی قربانی کے لیے تیار رہیں آپ کو کم تکلیف ہو گی ورنہ آپ بہت جلد بلڈپریشر کے مریض بن جائیں گے‘ آپ میانی صاحب پہنچ جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے