ماہرہ کی سکرٹ اور سفید گِدھ

آج ہی خبر سنی کہ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ، چھانگا مانگا میں سفید کمر والے گدھوں کی افزائش نسل کر رہا ہے۔ یہ گدھ نوے کی دہائی میں پاکستان ، ہندوستان اور نیپال سے غائب ہونا شروع ہوئے اور اب معدومی کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ حال ہی میں ایک جوڑے کے ہاں دو بچے پیدا ہوئے۔ ماں باپ تو وارے نیارے جاتے ہی ہوں گے، محکمہ جنگلی حیات والے بھی نثار ہوتے ہیں اور بلائیں لیتے نہیں تھکتے۔ ننھی ننھی گنجی سریاں اور مڑی ہوئی چونچیں دیکھ کے نہال ہوئے جاتے ہیں کہ ایک دن یہ بڑے ہوں گے اور فطرت کے ازلی منصوبے کے تحت ، سار امردار چٹ کر جائیں گے۔

گِدھوں سے میرا تعلق پرانا ہے۔ سکول کے دنوں میں گھر آتے ہوئے، جہاں پرانے تھانے کو جانے والی سڑک خونی کوٹھی کا موڑ مڑتی تھی، کبھی کبھار ہوا میں ایک ناگوار سی بو محسوس ہوتی تھی۔ رانی کی کنوتیاں کس جاتی تھیں اور وہ کوچوان کے قابو سے بے قابو ہو کر واپسی کو دوڑتی تھی۔ ایسے میں کوچوان، تانگے سے اتر کے رانی کے ماتھے سے ماتھا بھڑا لیتا، باگیں کس کے ہاتھ میں پکڑ لیتا اور آ ہستہ آ ہستہ چلاتا اسے خطرے کے مقام سے دور لے جاتا۔
یہ خطرے کا مقام، نہر کے پل سے ذرا پہلے ایک طویل و عریض گڑھا تھا، جس میں لوگ اپنے مرے ہوئے جانور ڈال جایا کرتے تھے۔ گدھوں کے غول، پرے جمائے، جوق در جوق اترتے تھے اور پورا جانور کھا جاتے تھے۔ ظاہر ہے، چیلیں، کوے، بجو اور دیگر مردار خور بھی اپنی اپنی خوراک حاصل کرتے ہوں گے۔ مگر جو دہشت، گدھ کو دیکھ کر طاری ہوتی تھی وہ آ ج بھی نہیں بھولتی۔

گِدھوں کے ناپید ہونے کی دو وجوہات سمجھ آتی ہیں۔ ایک تو مویشیوں کو لگائے جانے والے درد کش ٹیکے، جن میں ڈائی کلوروفینک ایسڈ ہوتا ہے۔ احاطے میں پالا جانے والا جانور، اکثر جوڑوں کے درد کا شکار ہوتا ہے۔ ان ہی جانوروں میں سے جب کوئی جانور مر جاتا تھا تو اس کو کھانے سے یہ کیمیائی مادہ گدھوں میں منتقل ہو کر ان کی اجتماعی موت کا باعث بنا۔ دوسری وجہ، صابن، جیلیٹن اور مردار ہڈیوں سے تیل کشید کرنے والے عناصر ہیں۔
آج سڑک پہ مرا ہوا کتا اور گیدڑ تک نظر نہیں آ تا، کیونکہ انسان اب مردار خوروں کا حصہ بھی کھانا چاہتا ہے۔
کوے تو ہوتے ہی سیانے ہیں ۔ چیلوں کو ہم انسانوں نے گود لے لیا اور وہ ویرانے چھوڑ کر شہروں میں آ بسیں جہاں وہ مزے سے چیل گوشت کھاتی ہیں اور جی ہی جی میں ہم انسانوں کی کھلّی اڑاتی ہیں۔
گِدھوں سے محبت ، بپسی سدھوا کے کردار تو کرتے ہیں مگر ہم لوگ گدھ کی ذرا بھی عزت نہیں کرتے۔ جو رہی سہی ساکھ تھی وہ بانو آ پا نے ‘راجہ گدھ ‘ لکھ کر برباد کر دی۔ ناپید نہ ہوتے تو کیا کرتے غریب ؟ اتنے بے غیرت تو نہ تھے کہ پھر بھی برابر جیے جاتے۔

گدھوں کے ہاں ہونے والی نئی ولادت کے ساتھ ہی ایک اور خبر بھی نظر سے گزری۔ مائرہ خان، رنبیر کپور کے ساتھ سگریٹ کے سوٹے لگاتی ہوئی پکڑی گئیں۔ اب یہ پکڑا جانا خاصا معنی خیز عمل ہے۔ ایک عورت جو چالیس کے قریب ہے۔ خود مختار ہے، اپنا کماتی کھاتی ہے۔ کام کرنے کے لیے اس نے اداکا ری کا شعبہ چنا، جس میں وہ مردوں اور عورتوں کے ساتھ سوانگ بھر کے ہمیں تفریح فراہم کرتی ہے، کہیں سگریٹ پیتی ہوئی پائی گئی تو ہنگامہ ہے کیوں برپا؟ ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے۔

مائرہ کے چاہنے والے یا فینز، شدید غصے میں ہیں۔ ان کا لباس، ان کا انداز اور رنبیر کے ساتھ ان کا پھرنا، سب کے جذبات شدید مجروح ہوئے۔ لباس کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ پہنو جگ بھاتا۔ چلیں ان کا لباس پسند نہ آ یا۔ یوں بھی ہمارے ہاں ڈینگی کی وبا عام ہے ۔ فینز نہیں چاہتے کہ مچھر وچھر کاٹیں اور زحمت ہو۔
رہی بات سگریٹ کی تو گو یہ ان کا انفرادی فعل ہے مگر پھر وہی بات کہ ان کے خیر خواہ نہیں چاہتے کہ وہ اس لت میں مبتلا ہوں اور کسی بیماری کا شکار ہوں۔ تیسرا اعتراض، رنبیر کپور کے ساتھ پھرنے پہ آ یا۔ غور سے دیکھا تو رنبیر کے چہرے پہ شدید بے زاری ہے اور ایک تصویر میں تو وہ اتا بڑا منہ پھاڑ کے جمائی بھی لے رہے ہیں۔

جو آ دمی اتنی خوبصورت عورت کی موجودگی میں جمائیاں لے اور بے زار ہو کر دکھائے تو اس سے ملنا واقعی وقت کا ضیاع ہے۔ ہم آ پ کو یقین دلاتے ہیں کہ اس ہنگامے کے پیچھے صرف اورصرف خیر خواہی کا جذبہ موجزن ہے اور بے حیائی، قومی غیرت وغیرہ کی باتیں فقط آ پ کا اپنا وہم ہے۔

غیرت مند قومیں، اداکاراؤں کی ذاتی زندگی کے بارے میں اتنی چھان بین نہیں کرتیں، اگر کر بھی لیتی ہیں تو اس قدر طیش میں نہیں آ تیں اور اگر طیش میں آ بھی جائیں، تو ٹوئیٹر اور فیس بک پہ کشتوں کے پشتے نہیں لگاتیں۔ گو، گِدھوں والی خبر اور اس خبر کے درمیان کوئی مماثلت نہیں لیکن جانے میں کیوں سوچے جارہی ہوں کہ گدھ کیا واقعی ناپید ہو گئے ہیں؟ یا جون بدل کے انسانوں میں آ ملے ہیں اور مردار خوری کی جگہ، ہر اس شخص پہ لپکنے لگے ہیں جو اپنی مرضی سے جی رہا ہے؟ شاید ایسا ہی ہوا ہو؟ یا شاید یہ بھی میرا وہم ہو۔ وہم ہی ہوگا!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے