سیاست کی خوبصورتی اور ہیروں کی تلاش

پاکستان کی سیاست کی ’’خوبصورتی‘‘کو دیکھنا ہو توزرا غور فرمائیں کہ سینیٹ جس میں اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت ہے وہاں میاں نواز شریف کی بحیثیت صدر پاکستان مسلم لیگ ن واپسی کے لیے قانون سازی کے حق میں ووٹ کیسے دے دیا گیا ہے اور اب کون کیا کہہ رہا ہے۔ اگر کوئی ہماری سیاست کی اس ’’خوبصورتی‘‘ سے متاثر نہ ہو تو آج (بروز اتوار) کے ہی ایک اردو روزنامہ میں شائع ہونے والی ایک خبر پڑھ لیں جس سے اندازہ ہو گا کہ سیاست کو ’’خوبصورت‘‘ بنانے کے لیے مبینہ طور پرمقتدر حلقے کیا سوچ رہے ہیں اور کیسے کیسے ’’ہیروں‘‘ کی تلاش میں ہیں تاکہ اس ملک کی تقدیر کو ’’سنوارا‘‘ جا سکے۔ گزشتہ جمعہ کے روز سینیٹ میں اپوزیشن کی طرف سے الیکشن بل 2017 میں ایک ترمیم پیش کی گئی جس کے متعلق حکومت اور اپوزیشن دو دن پہلے سے تیاری میں تھے۔ اس ترمیم کا مقصد نواز شریف سمیت ایسے کسی بھی شخص کو کسی بھی سیاسی جماعت کے کسی بھی عہدہ کے لیے نااہل برقرار رکھنا تھا جو ممبرپالیمنٹ نہیں بن سکتا یا اُسے عدالت کی طرف سے نااہل قرار دیا جا چکا ہو۔ اس ترمیم کے حق میں پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے اپنی اپنی تجاویز دو روز قبل ہی سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیا۔ دی نیوز اور جنگ نے اس بارے میں پہلے ہی خبر بھی شائع کر دی تھی۔ ان حالات میں توقع یہ تھی سینیٹ میں اپنی اکثریت ہونے کی وجہ سے اپوزیشن اپنی ترامیم منظور کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن جب اس ترامیم کے لیے ووٹ ڈالنے کا مرحلہ آیا توپیپلز پارٹی کے کچھ سینیٹرز حاضر نہ ہوئے، تحریک انصاف کے ایک رکن جو خبروں کے مطابق پہلے وہاں موجود تھے وہ بھی ووٹنگ کے وقت غیر حاضر پائے گئے، ایم کیو ایم کے ایک سینیٹر کے علاوہ وہاں کوئی دوسرا موجود نہ تھا اور متحدہ کے اس اکیلے سینیٹر نے حکومت کے حق میں یعنی مجوزہ ترمیم کے خلاف ووٹ دیا۔ جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق تو اس اہم مرحلہ پر ووٹنگ کے لیے ہائوس میںتشریف ہی نہ لائے۔ یعنی ن لیگ سینیٹ میں کمزور ہونے کے باوجود ایک ایسا قانون پاس کروانے میں کامیاب ہو گئی جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار پانے والے نواز شریف ن لیگ کی صدارت کیلئے دوبارہ اہل ہو جائیں گے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کو صرف ایک ووٹ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب سینیٹ میں منظور کیے گئے بل کو قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جانا ہے جہاں حکومت اپنی اکثریت کی وجہ سے با آسانی یہ قانون سازی مکمل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن کی خاص مہربانی کی وجہ سے میاں صاحب دوبارہ ن لیگ کی صدارت سنبھالنے کے قابل ہو جائینگے۔سینیٹ میں اپوزیشن کی مہربانی سے اپوزیشن کے بل کے مسترد کیے جانے کے بعد زرا ملاحظہ فرمائیں کہ اپوزیشن کے رہنما کیا فرماتے ہیں۔ پی پی پی کے رہنما آصف علی زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ نااہل شخص قوانین میں جتنی مرضی ترامیم کر لے مگر اب کسی بھی صورت میں ملک کا یا پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے سینیٹ میں اس ترمیم کو ناکام بنا کراخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ تحریک انصاف کے کچھ دوسرے رہنما پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو ترمیم کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت نے محض اکثریت کے بل بوتے پر ایک نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کیلئے انتخابی قوانین پر شب خون مارا ہے جس سے دنیا بھر میں پاکستان کے وقار کو دھچکا لگا۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے بھی کہہ دیا کہ کوئی نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ بہت اچھا۔ لیکن کوئی پوچھے ان سب سے کہ اگر واقعی وہ عدالت کی طرف سے کسی نااہل قررار دیئے گئے شخص کو سیاسی پارٹی کا کوئی بھی عہدہ رکھنے کے خلاف تھے تو پھر جب سینیٹ میں قانون سازی ہو رہی تھی تو ووٹ ڈالنے وہ یا اُن کے تمام اراکین سینیٹ کیوں نہ آئے۔ اس کی اصل وجہ کیا تھی میں نہیں جانتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس ترمیم کی ناکامی میں اور میاں نواز شریف کی بحیثیت صدر ن لیگ واپسی کا راستہ کلیئر کرانے میں سینیٹ میں اپوزیشن کا کردار نہایت اہم تھا۔ یہ ہماری سیاست کی وہ ’’خوبصورتی‘‘ ہے جس میں قول و فعل کا تضاد کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جو لوگ جمہوریت کی اس ’’خوبصورتی‘‘ سے متاثر نہیں ہوتے تو اُن کے لیے آج کے ایک اہم اردو روزنامہ کے صفحہ اول میں ایک خبر شائع ہوئی جس کا عنوان ’’نگراں سیٹ اپ کیلئے ناموں کی شارٹ لسٹنگ کا کام شروع‘‘ تھا۔ خبر کے مطابق وفاقی اور صوبائی نگراں سیٹ اپ کیلئے مقتدر حلقوں نے صاف ستھری شہرت اور اچھی ساکھ رکھنے والی شخصیات کی فہرستیں تیار کی ہیں۔ان شخصیات کے بارے میں تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔ آئین کے تحت تو ایسی کوئی گنجائش نہیں لیکن خبر کے مطابق مقتدر حلقوں سے مضبوط روابط رکھنے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں سرکردہ حیثیت کے حامل ایسے افراد کو طویل المدتی نگراں سیٹ اپ میں اہم ذمہ داریاں سنبھالنے کیلئے ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ خبر میں ذرائع کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا کہ اس سیٹ اپ میں اکثریت ٹیکنو کریٹس کی ہے جب کہ ریٹائرڈ ججز، سرکاری افسران، سابق فوجیوں کے ساتھ ساتھ چند ایک صحافی بھی اس سیٹ اپ میں موجود ہوں گے۔ خبر میں کئی نام بھی شائع کیے گئے۔ اس خبر کی تصدیق تو میں نہیں کر سکتا لیکن بہت سے لوگ یہ سوال ضرور پوچھ رہے ہیں کہ آیا آئندہ مارچ میں سینیٹ کے الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے