فلک سے رفتگاں نے جھک کے دیکھا

سال گزشتہ‘ میجر شہزاد نَیّرسے میری ملاقات کوئٹہ میں ہوئی۔ بادام‘ ناشپاتی‘ آلوچے اور آڑو کے پھولوں نے کہرام مچا رکھا تھا۔ ایک شام اچانک وہ ملے اور اپنا ایک شعر سنایا۔
فلک سے رفتگاں نے جھک کے دیکھا
بساطِ خاک سے اٹھنا ہمارا
آج تک اس لمحے کی یاد ایک لہک کے ساتھ آتی ہے۔ یہ ان کے تازہ اشعار ہیں۔
اب مجھ سے ان آنکھوں کی حفاظت نہیں ہوتی
اب مجھ سے ترے خواب سنبھالے نہیں جاتے
چلتے پھرتے اسے بندش کا گماں تک نہ رہے
اُس نے انسان کو اس درجہ کشادہ باندھا
فلک پہ اڑتے ہوئے بھی نظر زمیں پہ رہی
مزاج مجھ کو مقدر سے طائرانہ ملا
خدائے ارض ! میں بیٹی کے خواب کات سکوں
تُو میرے کھیت میں اتنی کپاس رہنے دے
مرے پہلے گنہ کے بعد نَیّر
بہت روئی سرشت ِ پاک میری
آخر شب میں چلتے چلتے تھک جاتے ہیں سب
چندا ،بادل ،دھرتی، خوشبو، دریا، تُو اور میں
صرف آنکھیں پڑی تھیں رستے میں
جب وہ آیا تو جا چکا تھا میں
جہانِ خواب کی منزل کبھی نہیں آئی
زمانے چلتے رہے انتظار کرتے ہوئے
حجرئہ چشم تو اوروں کے لئے بند کیا
آپ تو مالک و مختار ہیں آئیں جائیں
عشق وہ ظرف کہ آپ اپنی انا سے پُر ہے
اس میں حسرت کی جگہ ہے نہ پشیمانی کی
زمیں سہار نہ پائی مری شکست کا بوجھ
تو اُس کے پاؤں پکڑنے مرا غُبار اُٹھا
دیکھتا جاتا تھا حیرت سے میں اُس کی آواز
دم بہ دم دل میں بھرے زہر سے نیلی ہوتی
اُس کی طرف سے آپ ہی خود کو پکار کر
پہروں پھر اُس صدا کا بدن دیکھتے رہو
وہ میرے اپنے تخیّل کا نور تھا جس نے
مرے گمان میں آ کر مجھے پکارا تھا
مجھے گوندھنے میں جو گُم ہوئے ترے ہاتھ، اِن کا بدل کہاں
کبھی دستِ غیر کے واسطے مجھے چاک سے نہ اتارنا
وہ دید ِ لا وجود کس نظر کی گھاٹ اْتر گئی
یہ عمر بھر کا کام تھا، تمام کیسے ہوگیا
خواب پر انحصار سے پہلے
خواب کا تجزیہ ضروری ہے
صورت ہمدرد جو آیا کہانی کار تھا
چند آنسو دے کے وہ میری کہانی لے گیا
دیکھے بغیر وصل کی منزل کو سر کیا !
جسموں نے اب صدا کی روِش اِختیار کی
اپنی ہی موج موج سے پل پل مقابلہ
دریا نے ناؤ کتنی مصیبت سے پار کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود سے ہے رنج بیانی اپنی
کان اپنے ہیں، کہانی اپنی
روز دیوار پہ دستک دینا
بات پتھر کو سنانی اپنی
عمر اوروں کو ہی رٹتے گزری
بھول بیٹھا ہوں نشانی اپنی
دن کو سوچوں کی چِتا پر جلنا
رات کو راکھ اٹھانی اپنی
گل بدن ! باغ فقط تیرا ہے
نشّہ اپنا ہے، جوانی اپنی
روبرو تیرے برا بن جانا
ہم کو خود خاک اڑانی اپنی
میں کیے جاتا تھا اپنی باتیں
وہ سناتا تھا کہانی اپنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں نہ پندار کی دیوار اٹھا کر ڈھونڈو
مل بھی سکتا ہوں اگر خود کو ہٹا کر ڈھونڈو
تم نے قُربت کے شب و روز میں کھویا ہے مجھے
جاؤ اب ہجر کے ایّام میں جا کر ڈھونڈو
عاجزی سے کوئی دیکھے تو چمک اٹھتا ہوں
بھول کر بھی نہ مجھے ناز دکھا کر ڈھونڈو
سامنے پا کے نہ سمجھو کہ مجھے ڈھونڈ لیا
ایک بار اور مرے قُرب میں آ کر ڈھونڈو
ایسا کھویا ہوں ، جھلک تک نہیں ملتی اپنی
دوستو مجھ کو مرا عکس دکھا کر ڈھونڈو
ایسی تاریک خموشی میں ملے گا کیسے
اس کو آواز کی قندیل جلا کر ڈھونڈو
کھو کے پانے کا ارادہ ہے تو جلدی نہ کرو
یہ نہ ہو پا کے مجھے پھر سے گنوا کر ڈھونڈو
تکنے والو تکے جاتے ہو فلک کی جانب
ڈھونڈنا ہے تو مجھے خاک پہ آکر ڈھونڈو
یہ مری ذات کا جنگل ہے ،نہ خود کھو جانا
تم مجھے ڈھونڈتی ہو، خود کو بچا کر ڈھونڈو
میں محبت میں غلامی کو نہیں مانتا ہوں
یہ بھی کیا،پیار کے بازار میں چاکر ڈھونڈو
دور سے ڈھونڈتے رہتے تو میں مل بھی جاتا
کس نے بولا تھا مجھے پاس بلا کر ڈھونڈو
گھاس کے ڈھیر میں سوئی نہیں ملتی نَیّر
عمر بھر اب اسے ہاتھوں سے گرا کر ڈھونڈو
تین مجموعہ ہائے کلام شہزاد نَیّر کے چھپ چکے ہیں۔ ”برفاب‘‘ جو سیاچن گلیشیئر کے مہ و سال کا تجربہ ہے۔ ”چاک سے اترے وجود‘‘ اور ”گرہ کھلنے تک‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے