کشمیر پالیسی نظرثانی کی ضرورت

یہ 2جنوری2016کا دن تھا۔ بھارت کے علاقے پٹھان کوٹ کے ائیر بیس پر نامعلوم دہشتگردوں نے حملہ کیا ۔18دن بعد مرکزی ایوان صحافت مظفرآباد میں متحدہ جہاد کونسل کے سپریم کمانڈر صلاح الدین نے پٹھان کوٹ واقعہ کی ذمہ داری قبول کی اور17اگست2017کو امریکہ نے حزب المجاہد ین کو دہشتگرد قرار دے دیا ۔

ہماری لیڈرشپ اور دفاعی تجزیہ نگار دلائل دے رہیں میں کہ حزب المجاہدین کو دہشت گرد قرار دینے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔جب حالات کا ادراک ہونے کے باوجود دانستہ ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنا مشغلہ بن جائے تو کچھ بھی ہو جائے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کیا اس کا احساس ہے کہ ہم پہلے سے عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہیں اور اب رہی سہی کسر پوری ہوگئی ہے ۔یہ ٹھیک ہے حزب کے دنیا میں شاید کہیں بینک اکاؤنٹ نہیں کہ امریکا کی طرف سے اُسے دہشت گرد قرار دینے کے بعد اُن اکاؤنٹس کو منجمد کردیا جائے گا۔

امریکا اپنے مفادات کے لیے دشمنی ،نفرت اور اسلحے کا کارروبار کرتا ہے۔ وسیع ترمالی اہداف کے حصول کے لیے امریکی دنیا بھر میں اپنے دشمنوں کو تلاش کرتے ہیں اگر دشمن نہ ملے تو خود دشمن پیدا کرتے ہیں اور اس کی آڑ میں قوموں کے وسائل پر قابض ہوتے ہیں۔ ہندوستان چونکہ ڈیڑھ ارب لوگوں کاملک ہے اس لیے امریکہ کی معاشی ضرورت کے تحت ہندوستان اُس کابہترین کاروباری اتحادی ہے امریکہ دنیا بھر میں اپنے ہی ہاتھوں بنائے ہوئے دہشت گردوں کا اُن کی کمیں گاہوں تک پیچھا کرتا ہے۔ اس عمل میں یورپی ممالک اپنی رائے اور اختلافات رکھنے کے باوجود ہمیشہ امریکہ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ۔

ہمارے لیے پریشان کن امر یہ ہے کہ جو تحریک ہماری غلطیوں اور بھارت کی طرف سے پوری فوجی قوت استعمال کرنے کے باوجود ختم نہ ہو سکی اب حزب المجاہدین کو دہشتگرد قرار دینے کے بعد امریکہ یورپ اور بھارت کشمیر میں فیصلہ کن اپریشن کریں گے۔ کیاہم کسی ایسے حادثے کے لیے حالات خود پیدا کررہے ہیں۔

جذباتی باتیں اپنی جگہ آج زمینی حقائق کے برعکس بڑھ چڑھ کر دلائل دینے والے کل کہیں بھی نظر نہیں آتے ، ماضی میں ہونے والے بہت سے واقعات اس کے گواہ ہیں کہ ہم اپنے دشمن کے کاری وار پر ہمیشہ ماتم کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔سب کو معلوم ہے کہ اس سے قبل امریکہ نے کشمیر میں لڑنے والی پاکستانی جہادی تنظیموں لشکرطیبہ اورجیش کو دہشت گرد تو قرار دیا لیکن کشمیر ی جہادی آرگنائزیشن حزب المجاہدین کو پٹھان کوٹ واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے سے قبل بھارت کی تمام تر کوششوں کے باوجود دہشت گرد نہیں قرار دیا گیا۔

بھارتی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کی طرف سے حریت لیڈرشپ کے اثاثوں کے متعلق چھان بین یقیناًایک اور محاذ ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے یہ جنگ اب شدت اختیار کرے گی اور اس کا شکار ہمیشہ کی طرح ریاست کے لوگ ہوں گے۔ کشمیر پر اس وقت ایک ایسی پالیسی کی ضرورت ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے لوگوں کی حق خودارادایت کی جدوجہد کو عالمی برادری درست تسلیم کرے ، جب چیزیں دہشتگردی سے جڑ جائیں گی تو ہماراحق خودارادیت دہشتگردی سے جڑجائے گا۔

بھارت ایک عرصہ سے یہ کوشش کررہا ہے کہ کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد کو کسی نہ کسی طرح دہشتگردی سے جوڑا جائے۔ اوڑی واقعہ کو بھارت کی طرف سے بیرونی دہشتگردی قراردیا گیا، میرا یہ خیال ہے کہ اوڑی واقعہ محض آتشزدگی کا معاملہ تھا، جسے انڈین میڈیا نے جہادی تنظیموں کے ذمہ لگانے کی کوشش کی ، اس واقعہ کی جو تصاویر جاری ہوئیں ، اُن میں کسی ایک بھی بھارتی فوجی کو گولی نہیں لگی ہوئی تھی بلکہ وہ جلے ہوئے تھے

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اوڑی واقعہ میں مرنے والوں کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں ہوا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان خطرناک حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہے ۔وہ الحاق پاکستان اور خودمختاری کی بات کرنے والوں کو کسی بھی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، ہندنواز جماعتوں کے ذریعے کشمیر کے عام لوگوں سے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے تباہ کن سیلاب کے تین سال بعد63ہزار کروڑ پیکج کا اعلان اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے

۔ان حالات میں کشمیر کے متعلق فیصلہ کن اتھاریٹیز کو ریاست جموں کشمیر کے لوگوں پر اعتبار کرنا ہوگا، بداعتمادی ،دیوار سے لگانے کی کوشش یا بڑے شکار کے لیے اس خطہ کے لوگوں کو استعمال کرنے کی روش ترک کرنا ہوگی۔ برکس اعلامیہ جس میں کچھ تنظیموں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، یہ کئی دہائیوں سے جاری حکمت عملی کے خلاف ایک طاقتور پیغام ہے، جس کی کو کھ سے ریاست جموں کشمیر اور پاکستان کے عام آدمی کی لاشوں اور معاشی تباہی کے علاوہ کچھ نکلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔

ہندوستان ریاست جموں کشمیر اور پاکستان کا خطرناک دشمن ہے ، بی جے پی ہندوستان کا اصل چہرہ ہے لیکن ہندوستان کو مصروف رکھنے کے لیے ریاست جموں وکشمیر کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے ریاست کے لوگوں پر اعتماد اور مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ایک ایسے مرحلے میں جب آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں چائنہ کی طرف سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے، سی پیک مستقبل کے پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، اگر بھارت رائے شماری کے لیے تیار ہو جائے تو پاکستان کے لیے مشکلات ہوں گی ، اس لیے کہ جب کشمیری تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کر بھارت اور اُس کے اتحادی کا رروائی کریں گے تو اُن لوگوں کو بھی ٹارگٹ کیا جائے گا جو بھارت کے خلاف ہیں

جموں کشمیر میں ایک عوامی جدوجہد کرنے والی مضبوط آرگنائزیشن وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان ریاست جموں کشمیر کے تینوں حصوں کے درمیان سیاسی اور معاشی تعلق کے لیے اقدامات اُٹھائے ، یہ واحد راستہ ہے جو اہل کشمیر ،پاکستان اور اس خطہ کی خوشحالی کا راستہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے