بلاول، مریم موسٹ ویلکم لیکن

عام تاثر یہی تھا اور اب بھی ہے کہ پیپلزپارٹی والے کھلے ڈلے، منہ پھٹ، سرکش، اپنی لیڈرشپ کے ساتھ زیادہ فرینک قسم کے لوگ ہوتے ہیں جبکہ مسلم لیگیئے عموماً کاروباری ٹائپ، میسنے، موقع شناس و موقع پرست، چاپلوس قسم کی طبیعتوں کے مالک ہوتے ہیں جو کبھی ’’گیلے‘‘ پر پائوں نہیں رکھتے، رسک نہیں لیتے اور انتہائی لچک دار ’’کردار‘‘ کے حامل ہوتے ہیں۔ ماضی کی حد تک یہ تاثر شاید درست بھی تھا کہ معراج محمد خان، مختار رانا آف لائل پور، جے اے رحیم اور حنیف رامے جیسے نرم مزاج دانشور مصور فنکار قسم کے لوگ بھی بھٹو جیسے بندے کے خلاف ڈٹ گئے جبکہ مسلم لیگ کے مزاج میں سازش اور ٹانگیں کھینچنا تو موجود تھا لیکن آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر بات یامزاحمت کرنے کا رواج ہرگز نہ تھا لیکن اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے رولز ہی ریورس ہو گئے ہیں جس کی تازہ ترین مثالیں مریم اوربلاول ہیں۔بلاول پیپلزپارٹی کے سینئر رہنمائوں کی گود میں کھیلا ہے۔ ممکن ہے بھلے وقتوں میں دو چار چھ قائدین کی گود گیلی بھی کی ہو لیکن جب اس ’’کل کےبچے‘‘ کو سکائی لیب کی طرح پارٹی کی صف ِ اول لیڈرشپ کے اوپر مسلط کیا گیا تو کسی طرف سے چوں کی آواز بھی سنائی نہیں دی۔ مجال ہے جو کسی ایک ’’جمہوری چیمپئن‘‘ نےبھی احتجاج کرتے ہوئے کہا ہو کہ یہ فیصلہ نہ جمہوریت کے لئے ٹھیک ہے نہ پارٹی کے لئے درست ہے نہ خود بلاول کے لئے صحیح ہوگا۔ بلاول بیشک پارٹی کی قیادت کرے لیکن چند سال بعد اور تب تک اسے مختلف پوزیشنز میں کام کرکے مختلف قسم کے تجربات سے گزرنے اور پوری طرح ’’بالغ‘‘ ہونے کا موقعہ دیا جائے لیکن نہیں….. پیپلزپارٹی کے پھنے خانوں نے ’’فردِ واحد‘‘ ابو بلاول آصف زرداری کا یہ فیصلہ مٹی کے مادھوئوں کی طرح تسلیم کرلیا کہ شاید یہی ان کی اس بدصورت جمہوریت کاحسن اور عوام سے بہترین انتقام ہے۔ کسی نے یہ سوچنے کا تکلف تردد بھی نہیں کیاکہ جو پارٹی اپنے سینئر ترین قائدین کےساتھ انصاف نہیں کرسکتی، وہ عوام کے ساتھ کیاکرے گی؟ جو خود اپنے اندر میرٹ کو اس طرح روندتے اور ذلیل کرتے ہیں، وہ باہر کیا کریں گے؟ یہ درست کہ معاشرہ بری طرح شخصیت پرستی کی لعنت میں گرفتار ہے جو کسب نہیں نسب پرریجھتا ہے لیکن دکھاوے کی حد تک ہی سہی….. چند سال ہی انتظارکرلیا ہوتا لیکن نہیں….. نہ پارٹی کے ’’پروپرائٹرز‘‘ کو شرم آئی نہ اس کی نام نہادسینئر قیادت کو جس نے اتنی ہی بے شرمی سے یہ فیصلہ قبول کرلیا۔ مجھے سو فیصد اعتماد ہے کہ اگر پارٹی کے سب نہ سہی صرف آٹھ، دس ’’بزرگ‘‘ رہنما اپنے سفید بالوں کی لاج رکھتے ہوئے بیک آواز نرم سا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے یہ عرض کردیتے کہ اگر زرداری صاحب اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتے تومجبوراً ہمیں واپس گھروگھری جانا ہوگا لیکن نہیں….. خدا جانے بے عزت ہونے میں ایسی کون سی لذت ہے جسے چھوڑناممکن نہیں۔ پیپلزپارٹی کے ہی پرانے جیالے اسلم گورداسپوری کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں؎زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئےعہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کرلیںدوسری طرف مسلم لیگ ن کی حیران کن پرفارمنس ہے جس کے چند باوقار سینئر لوگوں نے نواز شریف کو ’’مائنس مریم‘‘ فارمولا تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔ میں یہ بات اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے تناظر میں عرض کر رہا ہوں اور ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے پاکستان کے سیاسی کلچر میں یہ ’’نئی روایت‘‘ متعارف کرائی ہے۔ یہ رویہ جمہوریت کو اصلی حقیقی جمہوریت کے قریب تر کرنےمیں معاون ثابت ہوگا۔ہماری تقریباً تمام تر سیاسی قیادت 66تا70 سال کے درمیان ہے یعنی زندگی کےبڑے نوٹ خرچ کرنے کے بعد اب میری طرح ان کےپاس بھی ’’ریزگاری‘‘ کے سواکچھ نہیں۔ سو ظاہرہے مستقبل بلاول اور مریم کی نسل کا ہی ہے۔ یہ جم جم آئیں، سر آنکھوں پر چشم ما روشن دل ماشاد لیکن وقارکے ساتھ مرحلہ وارآئیں، پوری طرح تیار آئیں، کسی چھوٹے موٹے پراسیس سے گزر کر آئیں تاکہ ان کی آمد باعزت، مستحکم، مضبوط اور دیرپا ہو۔اخبار یا یوں کہیں کسی بھی کاروبار کا مالک اوور نائٹ کچھ بھی اپنے بچوں کے سپرد نہیں کردیتا کہ اس سے کاروبارہی نہیں برخوردار بھی نقصان میںرہتا ہے۔ لائل پور میں میرے 80فیصد کلاس فیلوز، دوستوں کا تعلق تگڑے کاروباری گھرانوں سے تھا۔ کسی ایک کو بھی ایک ہی جست میں گدّی نصیب نہیں ہوئی۔ متعلقہ کاروبار کے ہر شعبے کی ’’سیر‘‘ کرائی گئی، پھر کہیں جا کر ’’اڈے‘‘ پر بیٹھے….. یہاں تو کاروبارِ حکومت کا معاملہ ہے۔ جب تک موروثیت کے مرض سے نجات نہیں ملتی ضرور لائو اپنی اولادوں کو لیکن کسی سر سلیقے اور رنگ ڈھنگ سے کہ نہ ان کے بزرگ جو کر دکھائی دیں نہ یہ خود۔بلاول، مریم موسٹ ویلکم لیکن بھونڈے طریقے سے نہیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے