خدا کے لیے

الطاف گوہر ملک کے نامور بیورو کریٹ‘ دانشور اور مصنف تھے‘ وہ ملک کے مختلف حصوں میں ڈپٹی کمشنر اورکمشنر بھی رہے اور صدر ایوب خان کے دورمیں فیڈرل انفارمیشن سیکریٹری بھی ‘ وہ جنرل یحییٰ خان کے دور میں نوکری سے برخاست کر دیے گئے‘ صحافت جوائن کی‘ لندن سے تھرڈورلڈ ریویواور ساؤتھ میگزین نکالا اور آخر میں ڈان اخبار کے ایڈیٹر بھی بن گئے‘ میں ان کا ارادت مند تھا۔
میں 1994سے 2000ء کے دوران ان کے انتقال تک ہفتے میں دو تین بارگوہر صاحب سے ملتا تھا‘ وہ میرے ساتھ اپنی ہنگامہ خیز زندگی کے واقعات شیئر کرتے تھے‘ وہ دو واقعات کو بہت اہمیت دیتے تھے‘ جنرل یحییٰ خان نے انھیں قید تنہائی میں رکھا تھا‘ وہ اس قید تنہائی کو خوفناک ترین سزا قرار دیتے تھے‘ وہ کہا کرتے تھے ’’اللہ کسی دشمن کو بھی قید تنہائی کے عذاب سے نہ گزارے‘‘ دوسرے واقعے کا تعلق بھی قید تنہائی سے تھا‘ وہ واقعہ زیادہ دلچسپ تھا‘ وہ بتایا کرتے تھے۔
میں پاکستان کے شروع کے دنوں میں کراچی کا ڈپٹی کمشنر تھا‘میں ایک رات گہری نیند سویا ہوا تھا‘ مجھے اچانک رونے دھونے اور چیخنے چلانے کی آوازیں آئیں‘ میں غصے سے اٹھا اور کھڑکی میں آ گیا‘ میں نے دیکھا میرے لان میں دس بارہ مرد‘ عورتیں اور بچے کھڑے تھے اور وہ رو رو کر دہائیاں دے رہے ہیں‘ میں نے رونے کی وجہ پوچھی‘ وہ بلند آواز میں بولے ’’صاحب پولیس ہمارے بڑے بیٹے کو گھر سے اٹھا کر لے گئی ہے‘ ہم تھانے گئے‘ ہمارا بیٹا وہاں موجود نہیں۔
ہم سی آئی ڈی گئے‘ ہمارا بیٹا وہاں بھی نہیں‘ ہمیں خطرہ ہے پولیس کہیں اسے مار نہ دے‘ آپ خدا کے لیے ہماری مدد کریں‘‘ الطاف گوہر صاحب کے بقول ’’میں اس وقت کیریئر کی اٹھان پر تھا‘ میرے اندر ایک فرعون بیٹھا ہوا تھا‘ میں نے نفرت اور تکبر سے جواب دیا‘تو پھر کیا ہوا‘ تمہارے بیٹے نے کچھ کیا ہو گا جس کی وجہ سے اسے پولیس اٹھا کر لے گئی‘ تفتیش ہو گی‘ وہ بے گناہ ہوا تو چھوٹ جائے گا ورنہ سزا ہو جائے گی‘ تم میری نیند کیوں خراب کر رہے ہو‘‘ میں نے اس کے بعد سنتری سے کہا ’’نکالو ان سب کو باہر‘‘ اور میں اس کے بعد دوبارہ سو گیا۔
اس واقعے کے ٹھیک 25 سال بعد ایک رات پولیس میرے گھر آئی‘ مجھے بستر سے گھسیٹ کر باہر نکالا‘ میرے چہرے پر چادر ڈالی اور مجھے لا کر قید تنہائی میں ڈال دیا‘ مجھے قید تنہائی کے ان دنوں میں اپنے خاندان کے بارے میں کچھ علم تھا اور نہ ہی میرا خاندان میرے بارے میں کچھ جانتا تھا‘ میری بیگم اور میرے بچے میری سلامتی کی خبر لینے کے لیے سرکاری دفتروں میں دھکے کھا رہے تھے‘ کوئی انھیں جواب دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
مجھے اچانک کراچی کا وہ خاندان یاد آیااور اس وقت پتہ چلا پولیس یا خفیہ ادارے جب کسی شخص کو اٹھاتے ہیں تو اس کے خاندان اور اس شخص پر کیا گزرتی ہے‘ میں نے فوراً چھت کی طرف دیکھا اور اس نامعلوم خاندان اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور یہ فیصلہ کیا’’ میں باہر آ کر صرف اور صرف ’’رول آف لاء‘‘ کے لیے کام کروں گا اور میں نے پھر یہ کیا‘ میرے سامنے بنگالیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی‘ میں ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا‘ بھٹو نے بلوچستان میں آپریشن کیا‘ میں نے بلوچ لیڈروں کا ساتھ دیا اور جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو میں نے ان کے خلاف بھی آواز بلند کی‘‘۔
ہم انسان بڑی دلچسپ چیز ہیں‘ ہمیں اس وقت تک دوسروں کے دانت درد کا احساس نہیں ہوتا جب تک ہماری اپنی داڑھ نہیں نکلتی‘ ہمیں اس وقت تک دوسروں کے دکھوں‘ آلام اور آزمائشوں کا اندازہ بھی نہیں ہوتا جب تک ہم خود اس عمل سے نہیں گزرتے‘جب تک ہم اور ہمارا خاندان سڑکوں پر مارا مارا نہیں پھرتا‘ میاں نواز شریف اور ان کا خاندان بھی اس وقت اسی عمل سے گزر رہا ہے۔
یہ خاندان 30 سال سے لائم لائیٹ میں ہے‘ میاں صاحبان وزراء اعلیٰ بھی رہے اوریہ تین بار وزیراعظم بھی بنے لیکن یہ آج تین نسلوں کا حساب دینے کے لیے بار بار عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں‘ ان کے اکاؤنٹس منجمد ہو رہے ہیں اور ان کے گھروں کے سامنے نوٹس لگ چکے ہیں‘آپ المیہ ملاحظہ کیجیے میاں نواز شریف اپنی علیل بیگم کو لندن چھوڑ کر پاکستان آنے پر مجبور ہو گئے ‘یہ بار بار یہ بھی پوچھتے ہیں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ یہ عدالتوں کے کردار پر بھی انگلی اٹھاتے ہیں اور یہ برملا یہ اعتراف بھی کرتے ہیں ’’مجھے علم ہے مجھے انصاف نہیں ملے گا‘‘ یہ واقعات کیا ثابت کرتے ہیں؟
یہ ثابت کرتے ہیں ہمارے ملک میں انصاف موجود نہیں ہے چنانچہ آپ صدر ہوں‘ وزیراعظم ہوں‘ چیف جسٹس ہوں یا پھر آپ آرمی چیف ہوں آپ کو انصاف کے لیے عوامی کندھوں یا پھر ڈیل کا سہارا لینا پڑتا ہے‘ جنرل راحیل شریف مہربانی فرمادیں تو جنرل پرویز مشرف کو ’’کمر درد‘‘ کا سہارا مل جاتا ہے‘ سعودی بادشاہ مہربان ہو جائے تو شریف خاندان اٹک قلعے سے سرور پیلس پہنچ جاتا ہے‘ امریکا اور برطانیہ مان جائیں تو بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو ’’این آر او‘‘ کا تحفہ مل جاتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف ہاں کر دیں تو نیب چوہدری صاحبان کی فائلیں بند کر دیتا ہے اور اگر جنرل کیانی اور جنرل پاشا ’’ہتھ ہولا‘‘ کر دیں تو صدر زرداری کو میمو سکینڈل سے چھٹکارا مل جاتا ہے اور قاضی حسین احمد اور میاں نواز شریف تک اپنی پٹیشن سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور اگر آرمی چیف مان جائیں تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہو جاتے ہیں‘ہمیں کھلے دل سے کسی دن ماننا پڑے گا ہمارے عدل اور انصاف کے ادارے کسی کو انصاف نہیں دیتے‘ ہمارے محتسب بھی کسی کے ساتھ عدل نہیں کرتے‘ وہ تمام فیصلے جو عدالتوں میں ہونے چاہئیں وہ بند کمروں اور دوسرے ملکوں میں ہوتے ہیں اور ہمارے تفتیشی اور ہمارے منصف ان پر صرف مہریں لگاتے ہیں۔
آپ ڈان لیکس کی مثال ہی لیجیے‘ حکومت نے 7نومبر 2016ء کو 7رکنی کمیشن بنایا‘ کمیشن نے تحقیقات کیں لیکن ’’ملزمان‘‘ کی سزا کا فیصلہ کمیشن نے نہیں کیا‘ یہ فیصلہ حکومت اور فوج نے کیا‘ دونوں نے اپنی اپنی ٹیم بنائی‘ وزیراعظم ہاؤس میں میٹنگ ہوئی اور پرویز رشید اور طارق فاطمی کو فارغ کرنے‘ ڈان کا ایشو اے پی این ایس پر چھوڑنے اور راؤ تحسین کو معطل کرنے کا فیصلہ ہوگیا‘ یہ فیصلہ جب کمیشن کو بھجوایا گیا تو کمیشن کے ایک رکن نجم سعید نے فیصلے پر دستخط سے انکار کر دیا۔
یہ پنجاب کے محتسب ہیں اور یہ کمیشن کا حصہ تھے‘ نجم سعید پر ہر طرف سے دباؤ ڈالا گیا‘ جنیوا میں موجود ان کے دوست ڈاکٹر توقیر شاہ سے بھی سفارش کرائی گئی اور فواد حسن فواد بھی ان سے ملے لیکن یہ نہیں مانے یہاں تک کہ نجم سعید کو لاہور بلایا گیا‘ فواد حسین فواد بھی لاہور پہنچے اور وزیراعلیٰ پنجاب نے بڑی مشکل سے نجم سعید کو راضی کیا ‘ آپ دیکھ لیجیے کمیشن کے فیصلے بھی کمیشن میں نہیں ہوئے وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوئے۔
یہ ملک میں قانون اور انصاف کی صورتحال ہے اور صورتحال یہ ثابت کرتی ہے ملک میں قانون موجود ہے اور نہ ہی انصاف اور آج عدل وانصاف کی اس کمی کا نقصان شریف فیملی بھی اٹھا رہی ہے‘ میاں صاحبان نے اگر ملک کو انصاف کا سسٹم دیا ہوتا تو آج ان کے ساتھ یہ نہ ہوتا۔
آپ اسحق ڈار کی مثال بھی لے لیجیے‘ اسحق ڈار ساڑھے چار سال وزیر خزانہ رہے‘ وزارت خزانہ اور ایف بی آر نے ٹیکس کے نام پر ان ساڑھے چار برسوں میں ملک بھر کے تاجروں‘ صنعت کاروں‘ دکانداروں اور ملازم پیشہ لوگوں کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا؟ ایف بی آر لوگوں کو نوٹس دیے بغیر ان کے اکاؤنٹس منجمد کر دیتا تھا‘ یہ جائیدادوں پر نوٹس بھی لگا دیتا تھا‘ نیب نے بھی ساڑھے چار برسوں میں لوگوں کا ناطقہ بند کر دیا‘ آپ کو آج اپر کلاس کے 90 فیصد خاندانوں کے پاس دوسرے ممالک کی شہریت بھی ملے گی اور بیرون ملک جائیدادیں بھی اور کاروبار بھی‘ یہ لوگ اپنا ملک چھوڑنے اور اپنے اثاثے دوسرے ملکوں میں رکھنے پر کیوں مجبور ہوئے؟
اس کا صرف ایک جواب ہے ملکی پالیسیاں‘ آپ جب لوگوں کو بلا وجہ تنگ کریں گے‘ آپ ان کے کاروبار‘ اکاؤنٹس اور جائیدادیں پہلے منجمد کریں گے اور انھیں چارج شیٹ بعد میں کریں گے تو وہ کیا کریں گے؟ کیا وہ ملک سے نہیں جائیں گے‘ آپ ملک کے ٹیکس سسٹم کو دیکھ لیجیے‘ یقین کیجیے ٹیکس کے گورکھ دھندے سے نبٹنا ایک فل ٹائم جاب ہے‘ آپ اس ملک میں ٹیکس کے ڈاکومنٹس مکمل کر سکتے ہیں یا پھر کام کر سکتے ہیں‘ آپ یہ دونوں کام اکٹھے نہیں چلا سکتے۔
ملک کا عدالتی نظام بھی ذلت اور خواری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے‘ اگر آپ کا کوئی کیس کھل گیا تو پھر آپ دو نسلوں تک یہ کیس ہی بھگتائیں گے‘ آپ کوئی اور کام نہیں کر سکیں گے چنانچہ آج اسحق ڈار اور میاں نواز شریف کو یہ احساس ہو رہا ہو گا ملک میں اگر انصاف نہیں ہو گا تو پھر یہ کسی کو نہیں ملے گا خواہ آپ اسحق ڈار یا میاں نواز شریف ہی کیوں نہ ہوں‘ آج انھیں یہ بھی پتہ چل رہا ہو گا یہ جب اندھا دھند قوانین بناتے تھے تو لوگوں کو کتنی تکلیف ہوتی تھی اور لوگ عدالتوں میں کتنی خواری برداشت کرتے تھے۔
میاں نواز شریف دو دن قبل پریس کانفرنس میں ’’خدا کے لیے‘ خدا کے لیے‘‘ کی دہائیاں دے رہے تھے‘ میری ان سے عرض ہے‘ اللہ تعالیٰ اگر انھیں ایک بار پھر موقع دے تو یہ بھی خدا کے لیے اس سسٹم کو آسان بنا دیں‘ یہ بھی ملک میں ادارے اور انصاف قائم کر دیں کیونکہ اگر ملک میں ادارے اور سسٹم بن گیا تو پھر کسی شخص کو دوسروں سے یہ نہیں پوچھنا پڑے گا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اور پھر کوئی شخص بیگم کو اسپتال چھوڑ کر عدالت کی طرف نہیں دوڑے گا‘ ملک میں سب کو انصاف ملے گا اور اگر یہ موقع بھی ضایع ہو گیا تو پھر عوام کے ساتھ ساتھ حکمران بھی ’’خدا کے لیے‘ خدا کے لیے‘‘ کی گردان کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے