مقبول بٹ کاساتھی جسے نظر انداز کردیا گیا

میر احمد کا تعلق بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہ مولا کے گاؤں رفیہ آباد سے ہے ،وہ ایک عام انسان تھے مگر اس کارنامے نے انہیں بہت خاص بنایا دیا ،تاریخ و تحریک کشمیر کی کتابوں میں میراحمد اپنا نام درج کروا چکے ہیں جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ،ان کو عام سے خاص بن کر کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ایک درد بری اور لمبی داستان ہے .

ان کی وجہ شہرت ریاست و جموں کشمیر کے عظیم حریت پسند رہنما مقبول بٹ شہید کے ہمراہ سری نگر جیل سے فرار ہونا ہے ۔مقبول بٹ نے تحریک آزادی کشمیر میں روائتی انداز سے مایوس ہو کر عوامی مسلح جدوجہد کا آغاز کیاتو1966ء میں 22سال کی عمر میں میٹرک کا طالبعلم میراحمد بھی ان کے قافلہ میں شامل ہوگیا ۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مسلح کاروائیوں کے دوران خفیہ ادارے کا اہلکار امرچند مجاہدین کے خلاف متحرک ہوا تو مقبول بٹ شہید اور ان کے ساتھیوں نے امر چند کو اغواء کرنے کی کوشش کی مگر امرچند کی پھرتی نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا

یہ سوال مگر اپنی جگہ موجود ہے کہ خفیہ ادارے کا اہلکار امرچند کس کی گولی سے قتل ہوا تھا ،امرچند قتل کے بعد سیکیورٹی اداروں سے جھڑپ میں مقبول بٹ ،میر احمد اور صوبیدار کالا خان زخمی حالت میں گرفتار کرلیے گئے جبکہ 19سال کا نوجوان اورنگزیب گلگتی شہید ہوگیا،وطن کی آزادی کی خاطر اپنے گرم لہو کی قربانی دینے والے نوجوان اورنگزیب گلگتی کو جدید تحریک آزاد ی کشمیر میں پہلا شہید مانا جاتا ہے امرچند قتل کیس کا مقدمہ چلا تو سیشن کورٹ نے مقبول بٹ اور میر احمد کو موت کی سزا کا فیصلہ سنا یا جبکہ حوالدار کالا خان کو چودہ سال قید کی سزا ہوئی

میر احمد کا کہنا ہے کہ کورٹ نے سزائے موت کا فیصلہ سنایا لیکن پروردگار نے بری کردیا ۔میراحمد کہتے ہیں کہ جب انسان جدوجہد کے راستے کا انتخاب کرتا ہے تو انسان کے اندر کا ڈر ختم ہوجاتا ہے اسی بے خوفی اور ہر قسم کے ڈر سے بے نیاز ہوکر مقبول بٹ اور میر احمد نے جیل سے فرار کا پلان تیار کیا اور بالا آخر سرنگ لگا کر سری نگر جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے

سرنگ کھودنے میں بنیادی کردار میر احمد کا تھا ، بھارتی سیکیورٹی اداروں سے چھپتے چھپاتے ،کچے ،برف پوش پہاڑ ،دریا،ندی ،نالے اورجنگل کے راستے سے شمع آزادی کے پروانوں نے ہمت واستقامت اور حوصلے سے اپنا سفر جاری رکھا ایسے راستے جو دشمن کے لیے ناگوار تھے کا انتخاب کیا گیا بھوک ،پیاس اور یخ بستہ سردی میں سولہ دن کے تکلیف دہ سفر کے بعد مقبول بٹ ،میر احمد اورغلام یٰسین آزاد کشمیرکے ضلع نیلم پہنچے

اگر یوں کہا جائے آگ اور خون کے دریا عبور کرکے پہنچے تو غلط نہ ہوگا ، مقامی لوگوں نے ان کا استقبال کیا ، بعدازاں سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کر لیا اور ان تینوں مجاہدین کو تفتیش کے مشکل عمل سے گزرنا پڑا ،میر احمد مظفرآباد کے بلیک فورٹ قلعہ سے رہائی کے بعد منظر عام سے غائب ہوگئے دوبارہ وہ منظرعام پر تب آئے جب انہیں گنگا تیارہ ہائی جیکنگ کیس میں گرفتار کیا گیا حالانکہ ان کا گنگا طیارہ ہائی جیکنگ میں کوئی کردار نہیں تھا ۔

میر احمد پشاور ،ایبٹ آباد ،لاہور ،کراچی ،مظفرآباد اور میرپور میں اپنے حصہ کا رزق تلاش کرتے رہے اور محنت مزدوری کرکے اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پالتے رہے سری نگر جیل سے فرارکا واقعہ اور میراحمد اس کے وہ کردار ہیں جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ موجود رہیں گے ۔قارئین کتاب سری نگر جیل سے فرار کی کہانی بقلم مقبول بٹ شہید اور میرا قائد میرا رہبر سے جیل سے فرار کی مکمل تفصیلات کے لیے رہنمائی لے سکتے ہیں ۔

تحریک آزادی کشمیر کا بڑا اور معتبر کردار جس نے اپنی جوانی قوم کی آزادی کے لیے قربان کردی ضعیف العمری میں مشکل ترین حالات سے دوچارہے ۔ گزشتہ روز اپنے ساتھی کے ہمراہ میر احمد صاحب کی عیادت کی تو ان کی حالت دیکھ کر دلی دکھ ہوا ۔وہ بیماری کے باعث بسر علالت پر ہیں سرطان کے عارضہ کی وجہ سے کمرسے نیچے کا حصہ مفلوج ہوچکا ہے ،بیٹھنے اور لیٹنے کے لیے بھی محتاج ہیں

بیماری کی اس حالت میں میر احمد زندگی اور موت کی کشمکش میں آخری ایام گزار رہے ہیں ،اس حالت میں بھی آزادی کا خواب ان کی آنکھوں میں چمک رہا ہے مگر سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ آج بھی کرایہ کے مکان میں رہ رہے ہیں ، نہ علاج کے وسائل ہیں اور بیٹے کا کوئی روزگار ۔اب ان کی دو ہی خواہشیں ہیں جس مٹی پر پیدا ہوئے وہ کب آواز دے اوروہ وہاں چلے جائیں جبکہ دوسری خواہش اپنا مکان دیکھنا چاہتے ہیں ،بیٹے کے مکان کے لیے اس قدر فکر مند ہیں کہ ہماری موجودگی میں متعدد بار اس بات کا ذکر کیا حیرت ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی ،میڈیکل کالجز اور تمام سرکار ی محکمہ جات میں مہاجرین کے لیے کوٹہ مختص ہے جبکہ مہاجرین کے لیے زمین الاٹ منٹ کا قانون بھی موجود ہے مگرپھر بھی وطن کی آزادی کی خاطراپنا گھر بار ،زمین جائیداد ،خاندان ،کنبہ و قبیلہ چھوڑ کر سیزفارئر لائن کے اس طرف پہنچے والا قومی ہیروزمین ،مکان اور بیٹے کی بے روزگاری کابوجھ لے کر زندگی بسر کر رہا ہے .

میر احمد جب مقبول بٹ شہید اور غلام یٰسین کے ہمراہ پانڈوں پہاڑ پر پہنچے تو وہاں ایک آدمی ملا جو میراحمد کے گاؤں کا ہی رہنے والا تھا ،ا س نے کہا میں مہاجر ہوں اور آپ آزاد کشمیر کے علاقے نیلم پہنچ آئے ہیں میر احمد نے مقبو ل بٹ سے پوچھا مہاجر کیا ہوتا ہے ،مقبول بٹ نے بتایا جو ایک وطن سے دوسرے وطن ہجرت کرتے ہیں انہیں مہاجر کہا جاتا ہے، میر احمد نے کہا یہ بھی تو اپنا وطن ہے پھر مہاجر کیسے ہوئے ؟ آپ المیہ دیکھیے اس واقعہ کو تقریباًپانچ دہائیاں ہوگئیں مگر آزادی کے بیس کیمپ کی گورنمنٹ اور ہم میراحمد کو اپنے وطن میں نہ زمین کا ٹکڑا دے سکے اور نہ سر چھپانے کے لیے چھت۔

میراحمد صاحب نے ملاقات کے دوران بتایا کہ ان کی بہن ملاقات کے لیے آئی تو کہنے لگی میں نے سوچاتھا میرابھائی کوٹھی ،بنگلے اور گاڑیوں کا مالک ہوگا مگر آپ تو جھونپڑی میں رہ رہے ہیں ، میراحمد کے جواب سے ان کی عظمت کا اندازہ لگائیے! کہتے ہیں میں نے بہن سے کہا ہم نے اس راستے کا انتخاب کوٹھی بنگلے کے لیے نہیں کیا تھا ، ہمارا منشوراور نظریہ کچھ اور تھا ،ہم نے اس راستے کا انتخاب اس لیے کیا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے وطن کو آزادی نصیب فرمائیں ، آزادی بڑی نعمت ہے جس کو آزادی نہیں اس کے لیے قیامت ہے اگر ضمیر فروشی کرتے تو آج ہم بھی بنگلوں گاڑیوں اور بنک بیلنس کے مالک ہوتے ،

میر احمد صاحب نے درست کہا کشمیر کے نام پر تجارت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ایسے کوٹھی ،بنگلوں ،بنک بیلنس اور جائیدادوں کے مالکان کی بے شمار مثالیں موجود ہیں مگرتاریخی حقیقت یہ ہے کہ ضمیر فروش کبھی ہیرو نہیں بن سکتے اور میر احمد ایسے ہیروہیں جن کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے. آپ تصور کیجئے اپنی خواہش سے بہتر مستقبل اور روزگار کے سلسلہ میں یورپ اور عرب ممالک جانے والوں کی اپنے عزیز و اقارب سے پچھڑتے ہوئے کیا کیفیت ہوتی ہے ؟ پھر اندازہ کیجئے میر احمد گزشتہ پانچ دہائیوں سے کس قرب اور درد سے گزرے ہوں گئے

میر احمد کی بلند سوچ کا اندازہ کریں کہتے ہیں تحریک چلانے کے لیے آدمی کا دل پہاڑ جتنا ہونا چاہیے،انسان کو پتا ہونا چاہئے کہ حق کیا ہے اور نا حق کیا ہے سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے ایمان کیا ہے اور بے ایمانی کیا ہے جب تک انسان ان چیزو ں کو نہیں پہچانتا وہ صراط مستقیم پر نہیں چل سکتا اور یہ تمام خوبیاں مقبول بٹ شہید میں موجود تھیں ۔میر احمد پرامید ہیں کہ کشمیر کی آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا اور دہائیوں سے ظلم و جبر کی چکی میں پسنے والی قوم آزادی جیسی نعمت سے ہمکنار ہوگی ۔

اللہ کرے میراحمد کا خواب ان کی اور پوری قوم کی لازوال قربانیوں کے صدقے شرمندہ تعبیر ہو میرا سمجھتا ہو وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کو نہ صرف قوم کے ہیرو کی عیادت کے لیے ان کے گھر جانا چاہیے بلکہ ان کے علاج ،زمین ،گھر اور بیٹے کے روزگار کے لیے فوری بندوبست کرنا چاہیے اس امر سے نہ صرف میر احمد کی مشکل آسان ہوگی بلکہ آزاد کشمیر گورنمنٹ اور وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کا وقار بھی بڑے گا ، اصولی طور پر میراحمد کی مدد آزاد کشمیر گورنمنٹ کی ہی ذمہ داری ہے تاہم سماجی،تحریکی اور نظریاتی شخصیات کو بھی حریت پسند کی مشکلات کا مداوا کرنے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، یہ سوال تادم تحریر ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ کیا میر احمد کواپنی چھت اوربیٹے کا روزگار ان کی زندگی میں نصیب ہو گا یا نہیں ؟

بوساطت راجہ عثمان گلبہار اکرم

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے