وغیرہ وغیرہ برائے فروخت

ایک دوست نے اپنی ایک کتاب کامسودہ مجھے فلیپ لکھنے کے لئے دیا، میں نے اسے بتایا کہ میں ان دنوں بہت مصروف ہوں، ورنہ ضرور لکھتا، بولے’’مجھے آپ کی مصروفیات کا اندازہ ہے، کیونکہ فارغ آدمی سے زیادہ مصروف اور کوئی نہیں ہوتا‘‘۔ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا ’’آپ صحیح کہتے ہیں، چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ ان دنوں جب کسی کو کوئی کام نہ ہو تو وہ شاعری کرنے لگتا ہے اور پھر مسودہ میرے پاس لے کر آجاتا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے محض جملہ بازی کررہے تھے، اسے آپ جملہ بازی کی’’نیٹ پریکٹس‘‘ قرار دے سکتے ہیں، تاہم دوست کو میری مصروفیات کا واقعی علم تھا، بولے ’’آپ یوں کریں، آپ بغیر مسودہ پڑھے، فلیپ لکھ دیں‘‘ میں نے تعمیل ارشاد میں اگلے ہی روز فلیپ ان کی خدمت میں حاضر کردیا۔ کتاب شائع ہوگئی اور دوست نے مجھے بتایا کہ آپ کا فلیپ بہت پسند کیا گیا ہے۔ آپ آئندہ بھی کتابوں کے فلیپ مسودہ پڑھے بغیر لکھا کریں‘‘۔ ظاہر ہے میر ایہ دوست ایک بار پھر جملے بازی کے موڈ میں تھا مگر جواب آں غزل کی بجائے میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے ایک بہت بڑے شاعر نے پانچ ہزار روپے فی فلیپ ریٹ مقرر کیا ہوا تھا، انہیں صرف کتاب اور مصنف کا نام بتانا پڑتا تھا، باقی کام میرے اس محبوب شاعر کا ہوتا تھا، وہ ماشااللہ دو تین لاکھ روپے ماہانہ محض فلیپ کی مد میں کمالیتے تھے!
فلیپ تو خیر کوئی چیز ہی نہیں، شاعری کا پورا مجموعہ مناسب نرخوں پر لکھنے والے ماہرین ہمارے درمیان موجود ہیں، وہ ایک ہفتے میں ڈیڑھ سو صفحات کا شعری مجموعہ تیار کرکے’’شاعر‘‘ کے حوالے کردیتے ہیں اور پھر یہ شاعر سالہا سال شہروں شہروںاور ملکوں ملکوں مشاعرے پڑھتا نظر آتا ہے، اس کاروبار میں دیانت بہت ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ ایک غزل ایک ہی بار بیچی جانی چاہئےاور دوسرے یہ کہ’’خریدار‘‘ کی عزت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ راز اپنے سینے ہی میں دفن کرنا بھی ضروری ہے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ شاعری کی مزدوری کرنے والے لوگ ان کاروباری اصولوں کا عموماً خیال رکھتے ہیں، تاہم اس حوالے سے بعض بہت دلچسپ واقعات بھی سننے کو ملتے ہیں۔ حبیب جالب نے ایک دن بتایا کہ اپنی شاعری کے اوائل میں انہوں نے نیا کلام اصلاح کی غرض سے ایک استاد شاعر کو دکھایا، انہوں نے ایک آدھ لفظ ادھر ادھر کردیا ہوگا، جالب نے بتایا کہ انہی دنوں ایک بہت بڑے مشاعرے میں انہیں کلام پڑھنے کا موقع ملا۔ جالب کی آواز میں جادو تھا، کلام بھی عمدہ تھا، مگر ان کے ہر شعر پر سامعین پہلے بہت داد دیتے اور پھر ہنسنے لگتے۔ جالب بہت پریشان ہوئے، چنانچہ ایک شعر انہوں نے اسٹیج پر بیٹھے شاعروں کی طرف منہ کرکے پڑھا اور داد طلبی کی نظروں سے انہیں دیکھا۔ تب انہیں پتا چلا کہ سامعین کے اس رویے کی وجہ کیا تھی، دراصل جن صاحب سے جالب نے برائے نام اصلاح لی تھی اور سامعین کی طرف منہ کرکے ان کے ہر شعر پر آداب عرض کے انداز میں ہاتھ ا ٹھا کر داد خود وصول کررہے تھے۔
یہ تو کتابوں کے فلیپ اور شاعری کا قصہ ہوا، ان دنوں مارکیٹ میں کالم فروخت کرنے والے بھی موجود ہیں، آپ مناسب نرخوں پر کالم نگار بن سکتے ہیں، بلکہ ایک صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کالم لکھ کر بھی دیتے ہیں اور جس اخبار میں وہ کام کرتے ہیں اس میں اشاعت کی بھی انہوں نے الگ فیس رکھی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے کسی ستم ظریف نے یہی مشہور کر رکھا ہے کہ ایک روز وہ اپنے گھر گئے تو جاتے ہی اپنی بیگم سے کہنے لگے ’’ پیسے نکالو! پیسے نکالو‘‘اس نے پریشان ہو کر پوچھا’’کس بات کے پیسے؟‘‘ بولے’’آج میں نے تمہارے خاوند کا کالم اپنے اخبار میں شائع کیا ہے!‘‘ ویسے ان دنوں اور بھی بہت کچھ ہورہا ہے، بعض بڑی بڑی ’’کمپنیاں‘‘ کالم ہی نہیں ،کالم نگار بھی خریدتی ہیں۔ پہلے یہ کام حکومتیں کیا کرتی تھیں، مگر اب ادارے کرتے ہیں، اگر کوئی صاحب ضمیر کو کوئی فالتو سی چیز سمجھتے ہیں، تو وہ ان اداروں کی طرف رجوع کریں ،تاہم اس کے لئے کچھ نام مقام کا ہونا ضروری ہے۔ ان دنوں پرنٹ میڈیا سے زیادہ الیکٹرونک میڈیا کی زیادہ اہمیت ہے، اگر کسی صاحب میں غیرت و حمیت نام کی کوئی چیز نہیں، وہ پوری ڈھٹائی سے وہ سب کچھ کہہ سکتے ہوں جو انہیں کہنے کے لئے کہا جائے تو وہ اس شعبے میں بھی قسمت آزمائی کرسکتے ہیں، ادھر ادھر سے بہت سے لوگ آپ کو ان اداروں میں داخل کراسکتے ہیں، اس کے بعد آپ کی چرب زبانی پر موقوف ہے کہ آپ کتنا کماتے ہیں۔ یقین کریں کروڑوں بھی کماسکتے ہیں اور سادہ لوح عوام میں حکومت کو گالیاں دے کر نڈر اور بےباک کے خطابات بھی وصول کرسکتے ہیں۔ یقین کریں آپ حکومت کو ماں بہن نما گالیاں بھی دے لیں، حکومت آپ کو کچھ نہیں کہے گی، اس لئے کہ انہیں آپ کا کچھ بگاڑنےکی اجازت بھی نہیں ہے۔
چلیں جناب یہ تو سب کچھ ہوگیا، اب واپس کتابوں کے فلیپ کی طرف آتے ہیں، جہاں سے بات شروع ہوئی تھی کہ بغیر پڑھے بھی فلیپ لکھا جاسکتا ہے اور بات ختم یہاں پر کرتے ہیں کہ بغیر مقدمہ سنے مقدمے کا فیصلہ بھی سنایا جاسکتا ہے، چونکہ اس کی تفصیلات میں جانا مناسب نہیں، چنانچہ مناسب یہی ہے کہ یہ کالم یہیں ختم کردیا جائے‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے