سر رہ گزر غمِ حسینؓ بھی سانجھا عظمتِ حسینؓ بھی سانجھی

محرم الحرام کا ماہ مبارک تاریخی حوالے سے عظیم واقعات سے بھرا پڑا ہے، یہ وہ ماضی ہے جو ہمیشہ حال بن کر زندہ رہے گا، اور ہماری رہنمائی کرتا رہے گا، اب یہ باتیں کہ فلاں سنی ہے فلاں شیعہ ہے فلاں دیوبندی وہابی ہے ازکار رفتہ اور وحدت امہ کو تار تار کرنے کا سبب تو بن سکتا ہے امت مرحومہ کو یکجا نہیں کر سکتا، اب تو چند افراد سیاسی بحث اور سیاسی فرقہ واریت میں الجھ کر ایک دوسرے کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں جبکہ دینی و مذہبی جھگڑے تو ہمارا نشان مٹا دیں گے، اس لئے اب ہمیں ہوش میں آ جانا چاہئے، اگر ذہنی فکری نظریاتی اختلاف ہے تو اسے علم میں اضافے کا سبب بننا چاہئے کہ حضور سید الکونین ﷺ کا ارشاد گرامی ہے! ’’میری امت کا کسی بات پر علمی اختلاف باعث رحمت ہے‘‘ پھر یہ کہ ایک گروہ مسلمین کا دوسرے کے معمولات میں خلل ڈالنا دخل در معقولات ہے، آپ فداہ امی وابی ﷺ نے جب تبلیغ دین کے لئے ایک وفد یمن روانہ فرمایا تو اسے یہ تلقین کی کہ کسی مصروف، مجبور اور سننے کے لئے غیر آمادہ شخص کو خواہ مخواہ وعظ نہ کرنا، ہاں کوئی اس کے لئے تیار ہو تو حسن بیان کے ساتھ اسے راہ ہدایت کی طرف بلانا، دین کو کسی پر مسلط نہ کرنا، واقعہ کربلا میں اصل چیز عظمت و عزیمتِ حسینؓ ہے، بس اسی پر ہمیں ثابت قدم رہنا ہے، باقی رہے مصائب اہل بیت رسول ﷺ تو وہ ایک ایسا غم ہے جس کی چبھن ہم محسوس کرتے رہیں گے، آنکھیں اشکبار ہوتی رہیں گی، لیکن مقاصد شہادت عظمیٰ کے کسی کونے کو بھی ہم نےتھام لیا تو آج کے دور پُر فتن میں مسلم امہ کی نشاۃ ثانیہ ہو سکتی ہے پیارے نبی ﷺ کے پیارے نواسےؓ کا غم تو سانجھا ہے، مگر امام عالی مقامؓ کے مقصدِ شہادت کو پانے میں اس پر عمل کرنے میں احیائے اسلام کا راز پوشیدہ ہے،
حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسینؓ
٭٭٭٭
چاقو زنی وہ بھی لڑکیوں پر؟
کراچی جو آج ام المصائب بن چکا ہے، کب پھر سے کراچی بنے گا یہ تو وہاں کے حکمران ہی بتا سکتے ہیں، کیونکہ وہاں ہر نادیدنی و ناکردنی کے لئے جوابدہ بھی وہی ہیں، اب اگر اس پر بھی حکمرانوں کو عوام کا تعاون درکار ہے تو یہ چاقو زن عوام تو نہیں یہ تو کچھ بھیڑیئے ہیں جو انسانی آبادی میں گھس آئے ہیں، اور ان کا قلع قمع کرنا اربابِ حکومت کا کام ہے، اگر اہل سیاست، وہ حکومت میں ہوں یا باہر عزم کر لیں کہ کراچی کو پاک صاف امن کا گہوارہ بنانا ہے اور اس پر باہمی اختلافات کو درمیان میں نہیں آنے دینا تو کراچی کی تطہیر 48گھنٹے کی مار ہے، مگر یہ کام مفادات سے بالاتر رہ کر ہی کیا جا سکتا ہے، کوئی تو ہے یا ہیں جو خواتین کے گھر سے باہر نکلنے کے خلاف ہیں، تاکہ وہ دیواروں میں مقید گلتی سڑتی رہیں، ایسی سرانڈ والے خیالات کے حامل افراد ہم میں موجود ہیں، ساتواں آٹھواں واقعہ ہو چکا ہے کہ راہ چلتی لڑکی کو اچانک چاقو مار دیا گیا، اور وہ زخمی حالت میں زیر علاج ہیں، لیکن پولیس جو پاتال سے موتی تو ڈھونڈ کر لا سکتی ہے ان بے گناہ پاکستان کی بیٹیوں پر چاقو سے وار کرنے والے درندوں کو کراچی شہر میں سے نکال ڈھونڈ نہیں سکتی آخر کیوں؟ اور پولیس تابع ہے حکومت کی پھر یہ حکومت کیا اللہ کے تابع نہیں کہ وہ جوابدہی کے خوف ہی سے اپنا ایمان بچا لے، آئے دن کراچی میں واردات ایک نیا روپ اختیار کرتی ہے مگر حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا، پاکستان پیپلز پارٹی جو پورے پاکستان پر حکومت کے لئے تیاری کر رہی ہے کیا اس کی قلمرو میں کراچی شامل نہ ہو گا وہ کراچی جو پاکستان کی رگِ جاں ہے، وہ کراچی جو ہماری تجارت اور درآمد و برآمد کی آماجگاہ ہے، سندھ حکومت نے اگر کراچی کے مسائل پر قابو پا لیا تو آئندہ الیکشن کے لئے یہ ایک بڑی کنویسنگ ہو گی۔
٭٭٭٭
تحریک انصاف اپنا گھر صاف کرے
دنیا کی تاریخ میں جتنے بڑے بڑے انقلاب برپا ہوئے وہ اگرچہ کسی فرد واحد کا آئیڈیا اور کوششوں کا نتیجہ تھے تاہم ان کے پاس ایک مختصر مگر مخلص ترین ٹیم موجود تھی، جسے قائد نے چھان پھٹک کر چنا اور نہایت چابکدستی سے ایک صاف ستھرا نظام لانے میں کامیابی حاصل کی، بلاشبہ عمران خان ایک مخلص دیانتدار لائق فائق لیڈر ہیں، ان کی کامیابیاں بھی سامنے ہیں، لیکن ملک کو بیمار نظام کی دلدل سے نکالنے کے لئے انہوں نے جو ٹیم تشکیل دی ہے اس پر نظرثانی کر لیں اور ان کے بارے میں تھنک ٹینکس سے بھی مشاورت کر لیں، سینئر میڈیا پرسنز جو اتار چڑھائو کی ساری داستان جانتے ہیں اور تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کا ٹریک ریکارڈ جانتے ہیں ان کو بھی اعتماد میں لیں ایک اچھی ٹیم کے بغیر کپتان میدان نہیں مار سکتا، ہم ان کے موجودہ حاشیہ نشینوں، طالع آزمائوں، سیاسی و حکومتی کارکردگی اور ان کو بطور سائبان استعمال کرنے والوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ ایسے غیر جانبدار اور معاملات و شخصیات سے آگاہ ماہرین کو بند کمرے میں بٹھا کر اور خود بھی غور و خوض کر کے ایک دس رکنی ٹیم تیار کریں جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، اقبالؒ نے قائداعظمؒ کو خط لکھا تھا کہ مسلم لیگ میں وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں کو شامل نہ کریں اور ٹکٹ نہ دیں، قائداعظم کی مجبوری یہ تھی کہ مسلمانوں میں تعلیم کا فقدان تھا، اعلیٰ ڈگریاں بھی سرمایہ داروں جاگیرداروں کے پاس تھیں، اس لئے ان کو ہی ٹکٹ دینا پڑے، اور آج یہی سلسلہ نسل در نسل چل رہا ہے۔
٭٭٭٭
دلچسپ بوالعجبیاں
….Oسپریم کورٹ:بنی گالہ اراضی کالے دھن سے خریدنے کا الزام:عمران ثبوت دیں۔
کالا دھن حکومت کے اندر ہو یا باہر ہو کالا دھن ہی ہوتا ہے، بس اس کا پھن سفید ہوتا ہے۔
….Oطلال چوہدری:عمران کو نا اہل کروا کے عوام کے سامنے بے نقاب کریں گے، تو اپنی وزارت کے کام کب کریں گے؟
….Oحسین نواز:والدہ کی طبیعت بہتر ہے نواز شریف لندن نہیں آ رہے، خدا کا شکر ہے، کسی کی بھی والدہ کا سایہ اس کے سر سے نہ اٹھے، ہر پاکستانی کلثوم نواز کی صحت کے لئے لب بہ دعا ہے، مائیں سانجھی ہوتی ہیں۔
….Oشہباز شریف:عوام کی سہولت کے لئے موٹر بائیک ایمبولینس سروس شروع کر رہے ہیں۔
آج بائیکرز کی اہمیت کا اندازہ ہوا، اب کوئی مریض راستے میں دم نہیں توڑے گا۔
….Oایف بی آر نے اداکارہ ثمینہ پیرزادہ سے اثاثہ جات کی تفصیلات طلب کر لیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے