کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کا قضیہ

یقیناً عسکری اور فرقہ پرست مذہبی تنظیمیں پاکستان کے لئے بوجھ بن گئی ہیں ۔نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے اور شاید یہ لوگ پوری نیک نیتی کے ساتھ سرگرم عمل ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عسکریت پسندوں اور فرقہ پرستوں کی سرگرمیوں سے کشمیر کاز کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور افغانستان کے فرنٹ پر بھی پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوتی جارہی ہے۔ نائن الیون کے بعد صرف امریکہ اور یورپ نہیں بلکہ چین اور روس نے بھی اس بات پر اتفاق کرلیا ہے کہ کسی بھی قسم کی غیرریاستی اور عسکری تنظیم کو برداشت نہیں کیا جائے گااور یہی وجہ ہے کہ چین جیسا دوست بھی عرصہ دراز سے پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ وہ نان اسٹیٹ ایکٹرز اور ہر طرح کی انتہاپسند تنظیموں سے جان چھڑالے۔ یوں جو لوگ اب بھی بندوق اور گولی کے راستے سے اپنے مقاصد ( وہ مقاصد کتنے مقدس کیوں نہ ہوں) حاصل کرنا چاہتے ہیں ، وہ دیوار سے ہی سر ٹکرارہے ہیں ۔ جہاں تک فرقہ پرست مذہبی تنظیموں کا تعلق ہے تو ان کے ناسور ہونے میں تو کوئی کلام نہیں ۔ اسلام ہی نہیں ان تنظیموں نے پاکستان کو بھی بدنامی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یوں ہر طرح کی عسکری اور فرقہ پرست تنظیموں سے نجات حاصل کرنا وقت کا تقاضا ہے اور اب بھی اگر اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو رسوائی کے ساتھ ساتھ تباہی بھی مقدر ہوسکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان سے نجات کیسے حاصل کی جائے ؟۔
کالعدم عسکری اور مذہبی تنظیموں سے نمٹنے کا ایک راستہ طاقت کے استعمال اور ان کو کچلنے کا ہوسکتا ہے لیکن ایسا کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ یہ قومی خودکشی کے مترادف ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جن کالعدم تنظیموں کا معاملہ اس وقت درپیش ہے ، وہ تحریک طالبان یا القاعدہ کی طرح کی تنظیمیں نہیں ۔ ان کی جڑیں پاکستانی معاشرے میں بہت گہری ہیں ۔ جماعت الدعوۃ ،انصار الامۃ ،اہلسنت والجماعت اور جیش محمد وغیرہ کے وابستگان کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔ جماعت الدعوۃ کے خدمت خلق کا نیٹ ورک بھی بہت وسیع ہے اور اس کے ذریعے وہ پاکستان کے ہر علاقے تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہ لوگ بلوچ عسکریت پسندوں یا پھر ٹی ٹی پی والوں کی طرح پہاڑوں میں بھی نہیں رہتے بلکہ پہلے سے بڑی حد تک پاکستان کی قومی سیاست کا اہم حصہ ہیں ۔ دفاع پاکستان کونسل کے ہر جلسہ جلوس میں سراج الحق، مولانا سمیع الحق اورشیخ رشید احمد کے ساتھ مولانا فضل الرحمان خلیل اور حافظ سعید بھی ضرور نظر آتے تھے ۔ اسی طرح مولانا لدھیانوی کی اہل سنت والجماعت ہر انتخاب میں حصہ لیتی رہی ہے بلکہ کچھ عرصہ قبل جھنگ کے ضمنی انتخاب میں کامیابی بھی حاصل کی اور ان کے ممبر کو مولانا فضل الرحمان صاحب نے جے یو آئی کاحصہ بھی بنا دیا۔ اب معاشرے اور سیاست میں اتنی گہری جڑیں رکھنے والی تنظیموں ،جن کے وابستگان کی تعداد لاکھوں میں ہو کو کیا ریاست طاقت کے ذریعے زیر کرسکتی ہے ؟۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ یہ تنظیمیں ماضی اور تشدد سے ہر طرح کا ناطہ توڑ دیں اور ان کو قومی سیاسی دھارے میں لایا جائے ۔ میرے نزدیک یہی واحد راستہ ہے اور اسی راستے پر پورے خلوص کے ساتھ عمل ہونا چاہئے ۔ لیکن اس میں منافقت اور ڈبل گیم سے کام نہیں چلے گا ۔ ریاست بھی پورے خلوص نیت کے ساتھ آگے بڑھے اور جہادی یا فرقہ پرست تنظیمیں بھی پورے خلوص کے ساتھ تائب ہوکر حقیقی معنوں میں پرامن اور قانون پر عمل کرنے والے بنیں ۔ ایسا نہ ہو کہ ایک طرف درپردہ پرانا دھندہ بھی جاری ہو اور دوسری طرف قومی سیاست کا بھی حصہ بننے کی کوشش کی جائے ۔ ان تنظیموں کو کھلے دل کے ساتھ یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ جو کچھ وہ کہتے اور کرتے رہے ، آئندہ نہیں کریں گے ۔ وہ ایک نئے سفر کا آغاز کریں گے اور قول کے ساتھ ساتھ عمل کو بھی آئین اور قانون کے تابع بنائیں گے ۔ گویا اصولی طور پر یہی راستہ ہے کہ کچلنے کی بجائے ان تنظیموں کو راستہ بدلنے پر مجبور کردیا جائے اور لگتا ہے کہ ریاست کی مقتدر قوتیں اس وقت یہی سوچ رہی ہیں ۔
عسکری اور مذہبی فرقہ وارانہ تنظیموں کو قومی دھارے میںلانے کا فیصلہ اصولی طور پر درست فیصلے ہے لیکن یہ کام نہایت احتیاط اور حکمت کا متقاضی ہے ۔ جس طرح جہاد ایک نیک اور مقدس فریضہ ہے لیکن اگر اسے غلط طریقے سے کیا جائے تو الٹا فساد جنم لیتا ہے ، اسی طرح کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کا عمل بھی ایک مستحسن عمل ہے لیکن اگر یہ کام غلط وقت پر یا غلط طریقے سے کرنے کی کوشش کی گئی تو خیر کی بجائے الٹا شر برآمد ہوگا اور مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ اچھا کام بھی غلط وقت پر غلط طریقے سے آگے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ مثلاً اس کے لئے مناسب وقت وہ ہوتا کہ جب سول ملٹری ہم آہنگی کا ماحول ہوتا لیکن اب اس کام کا بیڑہ ایک ایسے وقت پر اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان میں سول ملٹری تنائو زوروں پر ہے ۔ یہ تاثر عام ہے کہ کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کا کام عسکری ادارے کررہے ہیں ، اس لئے سیاسی جماعتیں مخالف نظر آرہی ہیں اور شاید اسی لئے وزارت داخلہ نے ملی مسلم لیگ کو رجسٹرکرنے کی مخالفت کی۔ اس عمل کے آغاز سے قبل ضروری ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت بحث و تمحیص کے ذریعے مکمل ہم آہنگی پیدا کرلے ۔ اسی طرح اس وقت امریکہ اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات نہایت کشیدہ ہیں اور ظاہر ہے کہ ان دونوں کی طرف سے بھی سخت دبائو سامنے آئے گا ۔اسی طرح میڈیا کو بھی ابھی تک ریاستی اداروں کی طرف سے اعتماد میں نہیں لیا گیا اور مجھے امید ہے کہ اگر ریاستی ادارے میڈیا کو معاملے کے تمام پہلو سمجھا کر اعتماد میں لیں تو وہاں سے بھی مزاحمت نہیں ہوگی لیکن جس بے ڈھنگے طریقے سے اس منصوبے پر عمل درآمد کی کوشش کی جارہی ہے اس کے بعد میڈیا کی طرف سے مزاحمت فطری امر ہے ۔ احسان اللہ احسان کا سرنڈر بہت بڑی کامیابی تھی لیکن چونکہ اس حوالے سے تمام سیکورٹی اداروں اور سول قیادت کو اعتماد میں نہیںلیا گیا تھا تو اس وجہ سے اس بڑی کامیابی کو مناسب انداز میں کیش نہ کرایا جاسکا بلکہ الٹا وہ تنازعے کی نذر ہوگیا۔ ایک بڑی غلطی خود ان تنظیموں کی طرف سے سرزد ہورہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ دنیا اور پاکستانی معاشرے کے لئے اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کی خاطر وہ چند سالوں تک اپنے آپ کو روزمرہ کی حریفانہ سیاسی کشمکش اور عالمی امورپر نعرہ بازی سے الگ رکھتیں لیکن وہ ایسا کچھ بھی نہیں کررہی ہیں ۔ ابھی ملی مسلم لیگ اور لبیک پاکستان الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ بھی نہیں ہوئی تھیں کہ وہ لاہور کے حلقہ این اے 120کے ضمنی انتخابات میں کود پڑیں ۔ اب جب وہ نوازشریف اور آصف زرداری جیسے قائدین کے بارے میں یہ لہجہ استعمال کریں گی یا پھر ان کے خلاف سازشوں کا حصہ بنیں گی تو پھر قومی جماعتوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ قومی سیاسی دھارے میں ان کی آمد پر اعتراض نہ کریں ۔ پاکستانی سیاست سے مذہب کو الگ نہیں کیا جاسکتا اور یہ تنظیمیں اگر سیاست میں آئیں گی تو یقیناََ مذہب ان کی سیاست کا اہم ترین عامل ہوگا لیکن ایک مذہب کا تابع ہونا ہے اور دوسرا مذہب اور فقے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہے ۔ ان تنظیموں کو قول اور عمل سے یہ یقین دہانی کرنی ہوگی کہ وہ مذہب اور فقہ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کریں گی لیکن بدقسمتی سے لاہور کے ضمنی انتخاب میں ہم نے دیکھا کہ بہت بری طرح مذہب اور فقہ کو استعمال کیا گیا اور یوں قومی جماعتوں اور میڈیا کی طرف سے فطری ردعمل بھی سامنے آیا۔جو لوگ کالعدم مذہبی تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کے عمل کی مخالفت کررہے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ انہیں پھر متبادل منصوبہ پیش کرنا ہوگا جو یقیناََ کسی کے پاس نہیں ۔ اسی طرح انہیں یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی ہوگی کہ لبیک پاکستان جیسی کچھ تنظیمیں تو اب کچھ لوگ بنارہے ہیں جبکہ بعض فقہی اور فرقہ پرست تنظیمیں کچھ خلیجی اور عرب ملکوں نے قائم کی ہیں یا چلارہے ہیں لیکن لشکر طیبہ، حرکۃ الانصار ،جیش محمد، حزب المجاہدین، البدر اور طالبان کی تنظیمیں کسی زمانے میں خود ریاست پاکستان نے قائم کیں ، ریاست نے ہی ان کو اس راستے پر لگایا ، ریاست ہی نے ان کے ہاتھ میں اسلحہ تھمایا اور اب تک ان کی کھلی یا خفیہ سرپرستی سے وہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی ۔ اب جن قوم پرست تنظیموں نے خود بندوق اٹھائی اور ریاست کو چیلنج کیا ، ان کے قومی دھارے میں آنے پر تو کوئی معترض نہیں لیکن جن لوگوں کو خود ریاست نے اس راستے پر لگایا ، ان کو اگر آج قومی دھارے میں لایاجارہا ہے تو اس پر ہر طرف سے چیخ وپکارکی جاتی ہے ۔ حالانکہ یہ ریاست کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اب وہ ان لوگوں کے ہاتھوں سے بندوق لے کر اس میں کتاب ، آئین یا پھر روزگار کے اوزارتھمادے ۔استعمال کرنے کے بعد اب اگر ان پاکستانیوں کو زیرکیا جائے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ظلم ہے جو ریاست پاکستان کے ساتھ نہیں لڑنا چاہتے لیکن اگر پرامن زندگی کا راستہ دئیے بغیر ان لوگوںکو زیرکرنے کی کوشش کی گئی تو نہ صرف ریاست ظالم قرار پائے گی بلکہ ان لوگوںکےبھی اسی راستے پر گامزن ہونے کا خطرہ ہے جس راستے پر ٹی ٹی پی کے لوگ چل پڑے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے