دنیا کے ٹھکرائے ہوئے

سری لنکا کی خانہ جنگی کے ساتھ ہی‘ برما کے روہنگیا ئی مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنے کی مہم شروع ہو چکی تھی۔انہیں بھی فلسطینیوں کی طرح‘ا پنے وطن سے نکال کر ختم کیا جا رہا تھا۔ موازنہ کر کے دیکھا جائے تو روہنگیائی مسلمانوں کی حالت زار‘ فلسطینیوں سے بھی بدتر ہے۔تاریخی طور پر روہنگیائی‘ بھارت کے شمال مغربی علاقوں میں رہتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد‘ متعصب ہندو حکمرانوں نے برما کی فوجی آمریت کو شہ دی کہ وہ ان مسلمانوں کو یہاں سے دھکیل کر ‘بنگلہ دیش میں داخل کر دے ورنہ یہ آپ کے لیے درد سر بنیں گے۔ اس مشورے کے ساتھ برما کے فوجی آمریت پسندوں کو‘ بھارت کی طرف سے ‘ بے پناہ اسلحہ اور وسائل فراہم کئے گئے۔ یہ کہانی یوں تو گزشتہ صدی کے اوائل میں شروع ہوئی تھی لیکن موجودہ صدی کے ابتدائی سالوں میں روہنگیائی مسلمانوں کو جلاوطن کرنے کی مہم تیز رفتاری سے شروع کر دی گئی۔ گزشتہ چند سالوں سے ان کی آبادیوں کو جلا کر‘ خاکستر کر دیا گیا اور اس کے بعد فوج کشی کر کے‘ا نہیں بنگلہ دیش کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا گیا۔اب قریباً پانچ لاکھ روہنگیائی مسلمان‘ بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہیں۔ بھارت اب عملی طور پر روہنگیائی مظلوموں کو بے وطن کرنے کی مہم میں شریک ہو چکا ہے۔اسی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے‘ اقوام متحدہ نے اس قوم سے بے رخی اختیار کر کے‘ انہیںحالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ایک رپورٹ میں‘اقوام متحدہ سے تعلق رکھنے والے چند نمائندوں نے اپنے مشاہدات بیان کئے ہیں۔ ان کا کچھ حصہ پیش خدمت ہے۔
”اقوامِ متحدہ اور امدادی کارکنوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ میانمار میں اقوامِ متحدہ کی قیادت نے روہنگیا کے حقوق کے معاملات کو حکومت کے سامنے اٹھانے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔اقوامِ متحدہ کے ایک سابق عہدے دار نے کہا کہ میانمار میں اقوامِ متحدہ کے سربراہ نے انسانی حقوق کے کارکنوں کو روہنگیا کے حساس علاقوں کا دورہ کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔حالیہ مہینوں میں سرکاری فوج کی جانب سے آپریشن شروع کیے جانے کے بعد سے اب تک‘ پانچ لاکھ کے قریب روہنگیا اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان کی اکثریت بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہے ۔ میانمار میں اقوامِ متحدہ کے عملے نے بی بی سی کی ان تحقیقات کی سختی سے تردید کی ہے۔جب سے روہنگیا نے بڑے پیمانے پر بنگلہ دیش کی طرف نقلِ مکانی شروع کی ہے‘ اس کے بعد سے اقوامِ متحدہ‘ امدادی سرگرمیوں میں پیش پیش رہی ہے۔ اس نے امدادی سامان فراہم کیا ہے اور برمی حکام کے خلاف سخت بیانات دیے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کو روہنگیا علاقوں کا دورہ کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔اس معاملے پر لوگوں کو آواز اٹھانے سے روکا۔عملے کے ان ارکان کو الگ تھلگ کر دیا جنہوںنے خبردار کیا تھا کہ وہاں نسل کشی کی جا رہی ہے۔
ایک امدادی کارکن کیرولین وانڈینابیلے نے اس سے قبل بھی اس قسم کے خطرے کے نشان دہی کی تھی۔ ا نہوں نے 1993 ء اور 94ء میں‘ روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کے موقعے پر وہاں کام کیا تھا اور کہا کہ جب وہ میانمار آئیں تو انہیں یہاں بھی اسی قسم کی پریشان کن مماثلت دیکھنے کو ملے گی۔ کچھ برمی تارکینِ وطن اور تجارتی برادری کے لوگوں سے رخائن ریاست اور روہنگیا کے بارے میں بات ہو رہی تھی کہ ان میں سے ایک برمی نے کہا ”ہمیں انہیں یوں قتل کر دینا چاہیے جیسے وہ کتے ہوں۔ میرے لیے انسانوں کے اندر اس قسم کا غیرانسانی رویہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ معاشرے کے اندر اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جہاں اس قسم کی بات کو قبول کر لیا جاتا ہے‘‘۔میں پچھلے ایک سال سے وانڈینابیلے سے رابطے میں ہوں۔ انہوں نے افغانستان‘ پاکستان‘ سری لنکا‘ روانڈا اور نیپال‘ جیسے شورش زدہ علاقوں میں کام کر رکھا ہے۔2013ء اور 2015ء میں انہوں نے میانمار میں اقوامِ متحدہ میں بطور ریزیڈنٹ رابطہ کار کام کیا۔ آج کل اس عہدے پر ڈیسالین فائز ہیں۔اس عہدے پر تعیناتی سے انہیں اقوامِ متحدہ کی رخائن ریاست میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا بغور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ 2012ء میںروہنگیا مسلمانوں اور بودھوں کے درمیان جھڑپوں میں ایک لاکھ کے قریب روہنگیا بے گھر ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سے وقتاً فوقتاً تشدد بھڑکتا رہا ہے۔ چند ماہ سے روہنگیا کے اندر جنگجو گروہ بھی بن گئے ہیں‘ جو بعض اوقات امدادی گاڑیوں پر بھی حملے کرتے ہیں۔اس پیچیدہ صورتِ حال میں اقوامِ متحدہ کے عملے کو احساس تھا کہ روہنگیا کے انسانی حقوق کے معاملے پر آواز بلند کرنے سے بہت سے بودھ ناراض ہو جائیں گے۔انہوں نے طویل مدت حکمتِ عملی اپنانے کا فیصلہ کیا اور رخائن میں تعمیر و ترقی پر توجہ مرکوز کر دی تاکہ اگر وہاں کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں تو اس سے بودھوں اور روہنگیا کے درمیان کشیدگی کم ہو جائے گی۔اقوامِ متحدہ کے عملے کے لیے روہنگیا کے بارے میں کھلے عام بات کرنا تقریباً ممنوع ہو کر رہ گیا۔ رخائن کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی جاری کردہ پریس ریلیزوں میں روہنگیا کے لفظ سے مکمل گریز کیا جانے لگا۔ برمی حکومت‘ روہنگیا کو الگ نسلی برادری تسلیم نہیں کرتی ۔ انہیںصرف ”بنگالی‘‘ کہتی ہے۔میں نے جتنا عرصہ میانمار میں کام کیا‘ اقوامِ متحدہ کے بہت کم اراکین روہنگیا کے بارے میں بات کرنے پر آمادہ ہوتے تھے۔ اب میانمار میں اقوامِ متحدہ کے اندرونی طریقہ کار کی تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ خود اقوام متحدہ میںبھی‘ روہنگیا کے مسائل کو بالائے طاق رکھا دیاجاتا ہے۔
میانمار میں امدادی کارکنوں کی برادری کے متعدد اراکین کا کہنا ہے کہ” اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں روہنگیا کے حقوق کی پاسداری کے بارے میں برمی حکام سے بات کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے‘‘۔وانڈینابیلے نے کہا کہ جلد ہی ہر کسی پر واضح ہو گیا کہ روہنگیا کے مسائل کے بارے میں بات کرنا یا اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں نسل کشی کے بارے میں خبردار کرنا قابلِ قبول نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ”اگر آپ ایسا کرتے تو اس کے نتائج بھگتنا پڑتے تھے۔ اس کے بعد عملے کو‘ ان کے کاموں سے ہٹا دیا جاتا تھا اور انہیں اجلاسوں میں شرمندہ کیا جاتا تھا۔ ایسا ماحول بنایا گیا تھا جس میں ان مسائل پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا‘‘۔اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی امدادی رابطہ (یو این او سی ایچ اے) کے سربراہ نے بار بار ایسا کیا تو انہیں جان بوجھ کر اجلاسوں سے دور رکھا جانے لگا۔ وانڈینابیلے کہتی ہیں کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ وہ اس وقت اجلاس رکھیں جب یو این او سی ایچ اے کے سربراہ کہیں اور گئے ہوئے ہوں۔یو این او سی ایچ اے کے سربراہ نے بی بی سی سے بات کرنے سے انکار کر دیا تاہم اس بات کی تائید میانمار میں اقوامِ متحدہ کے دوسرے کئی اہلکاروں نے کی ہے۔وانڈینابیلے نے کہا کہ انہیں بھی مشکلات کھڑی کرنے والا سمجھا جاتا تھا اور انہیں روہنگیا کی نسل کشی کے امکان کے بارے میں بات کرنے کی پاداش میں اپنا کام کرنے سے روک دیا گیا۔اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے جو اہلکار میانمار کا دورہ کرتے تھے انہیں بھی روہنگیا پر بات نہیں کرنے دی جاتی تھی۔ ٹامس کونٹانا اب شمالی کوریا میں انسانی حقوق کے نمائندہ خصوصی ہیں ۔ وہ 2014ء تک میانمار میں اسی عہدے پر کام کرتے رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ ایک بار ینگون ہوائی اڈے پر ڈیسالین سے ملے۔ ”مجھے ان کی طرف سے یہ مشورہ ملا کہ آپ کو رخائن نہیں جانا چاہیے۔ پلیز وہاں مت جائیں۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو انہوں نے کوئی خاص جواب نہیں دیا‘ صرف یہی کہا کہ ہم حکام کے ساتھ کوئی پریشانی کھڑی کرنا نہیں چاہتے‘‘۔
یو این کے ایک اور سینئر اہلکار نے کہا”حکومت جانتی ہے کہ ہمیں کیسے استعمال کیا جائے اور وہ ایسا کیے جا رہی ہے۔ ہم سبق نہیں سیکھتے۔ ہم ان کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہو سکتے ‘ کیونکہ ہم حکومت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے؟‘‘ ایک صحافی نے روہنگیا کی نسل کشی کے مناظر دیکھ کر کہا کہ ”پھسلوان‘ ڈھلان‘ مظلوموں کی مدد یا استحصالی نظام کی مدد‘‘یہ رپورٹ بی بی سی کو لیک ہو گئی ہے اور اس میں لکھا ہے’میانمار کی اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی حکمتِ علمی اس سادہ امید پر وابستہ ہے کہ تعمیری کاموں میں سرمایہ کاری سے کشیدگی کم ہو جائے گی۔ وہ یہ بات سمجھنے میں ناکام رہے کہ ایک متعصب ریاست کی طرف سے ظالمانہ نظام چلائے جانے سے تعصب میں اضافہ ہو گا‘ یا کمی ؟ ۔ اس طرح کی اور دستاویزات بھی اسی نتیجے پر پہنچی ہیں۔اس رپورٹ کے کچھ ہفتوں بعد اقوامِ متحدہ نے تصدیق کی کہ ڈیسالین کو تبدیل کیا جا رہا ہے لیکن یہ بھی کہا کہ اس کی وجہ ان کی کارکردگی نہیں ہے۔ تاہم اس کے تین ماہ بعد بھی وہ اپنے عہدے پر برقرار ہیں کیوں کہ برمی حکومت نے ان کے جانشین کا تقرر مسترد کر دیا ہے۔ایک سابق سینئر جنرل اور برمی رہنما آنگ سان سو چی کے قریبی ساتھی شوے مان نے مجھے بتایا”وہ متعصب نہیں بلکہ غیرجانبدار ہیں۔ جو کوئی بھی روہنگیا کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے وہ انہیں پسند نہیں کرتا اور ان پر تنقید کرتا ہے‘‘۔ڈیسالین نے اس معاملے پر بی بی سی سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔برمی اقوامِ متحدہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ”ہم اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ ریزیڈنٹ رابطہ کار نے اندرونی بحث مباحثے کو روکنے کی کوشش کی‘‘۔دس ملکوں کے سفیروں بشمول امریکہ اور برطانیہ نے بی بی سی کو بن مانگے ہی ای میلز لکھ کر ڈیسالین کی حمایت کی۔کوینٹیناکہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری میانمار میں مخلوط جمہوری حکومت کے حصے کے طور پر انصاف کے کسی قسم کے عبوری نظام کے لیے زور دینا چاہیے تھا۔ذرائع کے مطابق اقوامِ متحدہ اب رخائن کے بارے میں ردِ عمل پر تفتیش کے لیے تیاری کر رہی ہے اور تفتیش ویسی ہی ہو سکتی ہے جیسی سری لنکا کی خانہ جنگی کے دوران ہوئی تھی‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے