مذہب کی حقیقت

علم و مذہب کی جنگ کوئی نئی چیز نہیں، کیوں کہ مذہب کا مطالبہ یہ ہے کہ جو کچھ وہ کہتا ہے اسے بغیر چون و چرا تسلیم کرلینا چاہیے اور اہل علم کی حجت یہ ہے کہ جب تک کوئی بات سمجھ میں نہ آجائے ، اس پر یقین لانا ممکن نہیں۔ اہل مذاہب اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ عقل انسانی بہت ناقص ہے اور اس سے یہ توقع نہیں ہوسکتی کہ وہ کسی کامل شے کا تصور کر سکے۔ فریق ثانی کہتا ہے کہ جس چیز کو تم ”شے کامل“ سے تعبیر کرتے ہو، اسی کا ثبوت تمھارے پاس کیا ہے کہ ہماری عقل ناقص کو اس کے سمجھنے سے باز رکھتے ہو۔ الغرض اہل علم و مذاہب کا یہ نزاع بہت قدیم چیز ہے اور باختلاف نوعیت اب بھی اسی طرح بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ نظر آتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ پہلے حکومت و مذہب دونوں ایک چیز تھی، اور اس لیے اہل مذاہب بزور شمشیر اپنے مخالفین کو خاموش کرسکتے تھے ، اب ایسا نہیں کرسکتے اور معاندین مذہب کی جماعت بڑھتی جارہی ہے۔ یورپ اور خصوصیت کے ساتھ امریکہ میں جہاں خدائے قادر مطلق کے بجائے Almighty Dollar کی پرستش کی جاتی ہے، الحاد نہایت تیزی سے ترقی کررہا ہے اور اہل کلیسا حیران ہیں کہ ”آسمانی بادشاہت“ کے وجود کو کیوں کر قائم رکھ سکیں گے۔

ہندوستان میں بھی یہ رو کافی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور یہاں کے حلقہ ہائے مسجد و خانقاہ میں بھی ان کی کفر سامانیوں کو نہایت تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے لیکن اس وقت تک کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس طوفان سے بچنے کی صورت کیا ہے؟

اہل مذاہب کی طرف سے جو تدبیر دفاع اختیار کی جاتی ہے، وہ زیادہ تر اس لیے بے اثر رہتی ہے کہ انھیں یہ معلوم نہیں کہ ملاحدہ کہتے کیا ہیں اور وہ کن دلائل کی بنا پر خدا اور مذہب سے انکار کرتے ہیں۔ امریکہ وغیرہ میں تو اہل مذہب ان کے لٹریچر کو شاید کبھی پڑھ لیتے ہوں لیکن ہندوستان میں تو اس کا دیکھنا ہی گناہ سمجھا جاتا ہے اور اس لیے یہاں کے اہل مذاہب قطعاً ناواقف ہیں کہ اس زمانہ کا الحاد کس قسم کا الحاد ہے اور اس کے مقابلے کے کن نئی تیاریوں کی ضرورت ہے؟

مسلمانوں میں اس وقت صرف دو چار رسائل ایسے ہیں جنھوں نے اپنا مقصود الحاد کی مخالفت اور اسلام کی حمایت قرار دے رکھا ہے لیکن حقیقتاً ان میں کوئی ایک رسالہ بھی ایسا نہیں ہے جو اس بیسویں صدی کے منکرین خدا کو خاموش کرسکے اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ جو راہ انھوں نے خدمت اسلام کی اختیار کی ہے، وہ نہ صرف یہ کہ بالکل غلط ہے بلکہ اور زیادہ دہریت پھیلانے والی ہے، کیوں کہ اگر ہم کسی کی بات نہ سنیں اور اپنی ہی کہے جائیں تو ظاہر ہے کہ ہم کو بہرا ہی کہا جائے گا۔ پھر چونکہ پیروان اسلام اپنے مذہب کو سب سے زیادہ مکمل اور عین فطرت کے مطابق کہتے ہیں ، اس لیے ان کی طرف سے جب اس نوع کی جاہلانہ کوششٰیں دیکھتا ہوں تو مجھے سخت حیرت ہوتی ہے۔علمائے اہل اسلام کی طرف سے ایک عام طریقہ جواب کا یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ مذہب کے خلاف جو اعتراض کیے جارہے ہیں ، وہ نئے نہیں ہیں بلکہ بہت پرانے ہیں اور ان کا جواب دیا جا چکا ہے۔ اول تو مجھے اس میں کلام ہے کہ ان پر انے اعتراضات کا کبھی رد کیا گیا ہے یا نہیں اور اگر اسے مان بھی لیں تو انھوں نے یہ کیوں کر جان لیا کہ موجودہ ذہنی انقلاب وہی ہے جو اس سے پہلے پایا جاتا تھا اور اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔

اگر اہل مذاہب واقعی الحاد کا سد باب کرنا چاہتے ہیں تو ان کا فرض یہ ہے کہ پہلے ملحدین کے بیانات کو نہیں، بغیر کسی جذبہ غیظ و انتقام کے ٹھنڈے دل سے سنیں اور پھر غور کریں کہ ان کے دلائل کا کوئی مسکت جواب ان سے ممکن ہے یا نہیں، صرف گالیاں یا بددعائیں دینے سے کام نہیں چلتا ۔ چنانچہ میں ایک لامذہب (ملحد)کے پانچ مقالے سلسلہ وار پیش کررہا ہوں تاکہ اہل مذہب کو معلوم ہوجائے کہ دنیا میں الحاد پیدا ہونے کے اسباب کیا ہیں اور پھر اگر ممکن ہو تو اس کا علاج سوچا جائے۔

[pullquote]مذہب کیا ہے؟[/pullquote]

خدا ہی نے تمام چیزیں پیدا کی ہیں اور وہی ان کا مدبر ہے، اس لیے مخلوق کافرض ہے کہ وہ اپنے خالق کی مطیع رہے، یعنی اگر اس کی طرف سے کوئی حکم نافذ کیا جائے تو اس کی تعمیل کرنا ہر شخص پر لازم ہے۔

یہ ہے اصل مفہوم مذہب کا جو صدیوں سے رائج چلا آتا ہے اور تمام قوموں نے اسی اعتقاد کے تحت یقین کرلیا کہ خدا ہم سے قربانیاں چاہتا ہے۔ چنانچہ اول اول لوگوں نے اپنی اولاد تک بھینٹ چڑھانے سے عذر نہ کیا، اور پھر صرف بیل، بھیڑ، بکری کے خون سے خدا کو راضی رکھنے کی کوشش کی گئی، کیوں کہ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو خدا ان کی فصلیں خراب کردیتا، پانی برسانا بند کردیتا، بیماریاں پھیلاتا، زلزلے لاتا اور قحط و وبا کی مصیبت میں مبتلا کردیتا۔ اس اعتقاد قربانی کی آخری جھلک عیسوی مذہب میں بھی پائی جاتی ہے اور اسلام میں بھی۔ وہاں خدا اپنے بیٹے کی قربانی قبول کر کے ہمیشہ کے لیے چین سے بیٹھ گیا، اور یہاں ابراہیم خلیل اللہ کے تہیہ قربانی سے خوش ہو کر آئندہ کے لیے؛ صرف جانوروں کی قربانی پر راضی ہوگیا۔

اہل مذاہب کا یہ اعتقاد بھی بہت قدیم ہے کہ خدا ہماری التجائیں سنتا اور ان کو پورا کرتا ہے، اس لیے ان اعتقادات کے پیش نظر قدرتاً چند سوال پیدا ہوتے ہیں جو اصل بنیاد ہیں لا مذہبیت کے، اور چونکہ اس وقت تک اہل مذہب کو نئی تشفی بخش جواب نہیں دے سکے ہیں ، اس لیے ملحدین خود ہی اس سے ایک نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں اور اس پر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ شبہات ملاحظہ ہوں:

کیا مذہب کی بنیاد کسی حقیقت معلومہ پر قائم ہے؟
کیا واقعی کوئی ایسی ہستی پائی جاتی ہے جسے خدا کہتے ہیں؟
کیا واقعی خدا سب کا خالق ہے؟
کیا واقعی اس نے کبھی ہماری دعاؤں کو سنا ہے؟
کیا واقعی قربانیوں سے خوش ہو کر اس نے کسی قوم کے ساتھ کوئی خاص رعایت روا رکھی ہے؟

(۱) اگر واقعی اسی نے انسان پیدا کیا ہے تو کیوں ایسے افراد اس نے پیدا کیے جو مسخ و قبیح ہیں، مفلوج و محتاج ہیں اور ذہنی حیثیت سے حددرجہ پست؟ مجرموں، دیوانوں اور بے عقل لوگوں کو پیدا کرنے میں اس کی کیا مصلحت تھی، کیا کوئی ایسی قوت کی طرف سے جسے فراست کل اور قوت مطلق کہتے ہیں، ان نقائص تخلیق کی کوئی معقول توجیہہ پیش کی جا سکتی ہے؟

(۲) اگر خدا تمام امور عالم کا مدبر و منظم ہے تو کیا وہ ان بادشاہوں کے افعال کا ذمہ دار نہیں ہے جنھوں نے دنیا میں سوا ظلم کے اور کچھ نہیں کیا؟ کیا وہ ان تمام لڑائیوں کا ذمہ دار نہیں ہے جن میں لاکھوں بے گناہوں کا خون بہایا جاتا ہے؟

(۳) کیا وہ دور غلامی اس کی مرضی کے موافق نہ تھا جب صدیوں تک ہزاروں بے گناہ انسانوں سے ان کے بلکتے ہوئے بچے جدا کرکے قتل و زبح کرادیے گئے؟

(۴) کیا وہ ان مذہبی تعذیبات کا ذمہ دار نہیں جو بے گناہ انسان کے ناخنوں میں کیلیں ٹھونک دینے اور شکنجے میں تان تان کر ایک ایک جوڑ علیحدہ کردینے پر مشتمل تھے؟

(۵) خدا نے کیوں ظالموں اور بدکرداروں کو مہلت دی کہ وہ بہادروں اور نیک کرداروں کو پامال کریں؟

(۶) خدا نے کیوں کافروں کو اس کا موقع دیا کہ اس کے خاص بندوں کو عذاب میں مبتلا کریں۔ اگر ایک رحم و کرم والا خدا واقعی کائنات کا مدبر ہے تو یہ آئے دن کے طوفانوں، زلزلوں ، وباؤں اور خشک سالیوں کی کیا توجیہ ہوسکتی ہے؟ سل و دق، سرطان و خناق اور اسی طرح کی سیکڑوں بیماریاں پیدا کرنے کا کیا سبب ہوسکتا ہے جس سے نہ معصوم بچے جانبر ہوسکتے ہیں ، نہ زاہد و مرتاض انسان؟

(۷) درندوں کا انسانوں کو پھاڑ کر کھاتے رہنا، زہریلے سانپوں کا لوگوں کو ڈستے رہنا اور خدا کا کچھ نہ کہنا عجیب معمہ ہے۔کیا اس نے ناخن و چنگال اسی لیے پیدا کیے کہ وہ گوشت کے ریشے جدا کرتے رہیں، کیا اس نے پر و بال اسی لیے بنائے ہیں کہ معذور و بے کس آسانی سے گرفت میں آ سکیں ، کیا اس نے جراثیم اسی لیے پیدا کیے ہیں کہ وہ انسانوں کو اندھا، کوڑھی، مسلول و مدقوق بنا کر اپنی بھوک مٹائیں؟

(۸) کیا کائنات کی تنظیم اسی طرح ممکن تھی کہ ایک جاندار کی زندگی دوسرے جاندار کے گوشت و خون پر منحصر ہو اور کیا تدبیر عالم آہ و کراہ کا ہنگامہ پیدا کیے بغیر محال تھی؟ پھر ان واقعات و حالات پر غور کرو اور سمجھو کہ مذہب کیا ہے؟

(۹) دراصل وہ نام ہے صرف ایک بے بنیاد خوف کا، جو خود ہی ایک قربان گاہ بناتا ہے اور خود ہی اس پر قربانیاں چڑھاتا ہے، خود ہی ایک معبد تیار کرتا ہے اور خود ہی وہاں جھک جاتا ہے۔

(۱۰) مذہب ہمیں وہی باتیں سکھاتا ہے جو صرف غلام ہی کے لیے موزوں ہیں، یعنی اطاعت، فرمانبرداری، نفس کشی، صبر و تحمل، عدم مقادمت اور اپنے آپ کو مٹادینا۔

(۱۱) خود مختاری، سرفرازی، خود اعتمادی، جرأت و اقدام کا وہاں کوسوں پتہ نہیں۔ مذہب کہتا ہے کہ خدا مالک ہے اور انسان اس کا غلام، لیکن مالک چاہے کتنا ہی بڑا ہو ، غلام کو خوشگوار نہیں بنا سکتا۔ اگر خدا کا وجود ہے تو ہم کیوں کر جان سکتے ہیں کہ وہ رحم وکرم والا بھی ہے، وہ دیکھتا ہے کہ لاکھوں کروڑوں غریب و جفا کش، انسان ہل چلا رہے ہیں، کھیتیاں بو رہے ہیں اور ان کی زندگی کا انحصار صرف اسی محنت پر ہے لیکن وہ پانی نہیں برساتا، کھیتیاں مرجھا رہی ہیں لیکن پانی کا ایک قطرہ نہیں گراتا، کروڑوں انسان اپنی مایوس و منتظر آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن سوا جھلسا دینے والے آفتاب کے بادل کا ایک ٹکڑا بھی انھیں کسی جگہ نظر نہیں آتا۔ خدا ان کے دل کے اضطراب کو دیکھتا ہے اور رحم نہیں کھاتا، ان کی اشک آلود آنکھوں کو دیکھتا ہے اور خاموش ہے۔ بچے ماؤں کی خشک چھاتیوں سے لگے ہوئے بلک رہے ہیں اور دودھ نہیں پاتے، مائیں آنچل پھیلا پھیلا کر اپنے بھوکے بچوں کا واسطہ دے دے کر دعائیں مانگ رہی ہیں، لیکن کوئی سننے والا نہیں۔ پھر کیا خدا کا رحم و کرم ثابت کرنے کے لیے باد سموم کے ان جھونکوں کو پیش کیا جائے گا، جو بستیوں کی بستیاں تباہ کرجاتے ہیں اور میدانوں کو لاشوں سے بھر دیتے ہیں؟ کیا اس کی شفقت و محبت کی ثبوت میں زلزلوں کو پیش کیا جا سکتا ہے جب زمین ہزاروں انسانوں کو نگل جاتی ہے؟ کیا آتش فشاں پہاڑوں کو پیش کیا جا سکتا ہے جن کے شعلے بچے بوڑھے کی بھی تمیز نہیں کرتے؟

کیا اگر یہ تباہ کاریاں نہ پائی جائیں تو ہم کو یہ شک کرنے کا موقع ملے گا کہ خدا اپنے بندوں کی طرف سے غافل ہے ؟ کیا اگر زلزلہ و طوفان، قحط و وبا کی مصیبتیں نازل نہ ہوں تو ہم کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ خدا مہربان نہیں ہے؟

الہٰیات والے کہتے ہیں کہ خدا نے تمام انسانوں کو یکساں پیدا نہیں کیا۔ اس نے قد وقامت ، رنگ و صورت، ذہن و فراست کے لحاظ سے قوموں کو ایک دوسرے سے متمایز کردیا ہے، تو کیا بلندقوموں کو خدا کا شکر نہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے انھیں پست نہیں بنایا۔ یقینا شکر کی بات ہے لیکن اس صورت میں کیا پست قومیں اس بات کا شکریہ ادا کریں گی کہ خدا نے انھیں جانور نہیں بنایا؟

جب خدا نے بلند و پست قوموں کو بنایا تھا تو کیا یہ بات اس کے علم میں نہ تھی کہ بلند قومیں پست قوموں کو اپنا غلام بنائیں گی، ان کو ایذا پہنچائیں گی اور تباہ و برباد کردیں گی؟کیا وہ نہ جانتا تھا کہ یہ بلند و پست کا امتیاز دنیا میں کتنا خون بہائے گا؟ نوع انسانی کو کن کن مصائب میں مبتلا کرے گا، کتنے میدان لاشوں سے پاٹ دے گا، کتنے غلاموں کے جسم کا گوشت کوڑوں کی ضرب سے پارہ پارہ کرے گا، کتنی ماؤں کے دل ان کے بچوں کو جدا کرکر کے تڑپائے گا؟ پھر اگر یہ سب کچھ اس کے علم میں تھا تو کیا اس کا رحم و کرم اس سے زیادہ دلدوز مناظر کا منتظر تھا؟

وہ قید خانے، جن کی سنگین دیواروں سے سرٹکرا کر دنیا کے بہت سے بلند اخلاق والے انسانوں نے اپنی جانیں دے دیں، وہ سولیاں جو مقدس انسانوں کے خون سے رنگین بنائے جانے کے لیے نصب کی گئیں، وہ غلاموں کی جماعتیں جن کی پیٹھ کے زخموں کو خشک ہونے کا کبھی موقع نہیں دیا گیا، وہ مقدس ہستیاں جن کا ایک ایک جوڑ شکنجہ تان تان کر علیحدہ کیا گیا، جن کی کھالیں کھنچوا کھنچوا کر بھس بھر وایا گیا، وہ بے شمار انسان جو قحط و وبا کا شکار ہوئے ، جن کو زمین نے نگل کر ڈکار تک نہ لی، جن کو سانپوں نے ڈسا، آتش فشاں پہاڑوں نے جھلسایا اور لاتعداد بدکار ظالم انسان جنھوں نے دنیا میں مظالم توڑے اور کامیاب زندگیاں بسر کیں، کیا یہ اور اسی طرح کے تمام سمجھ میں نہ آنے واقعات ، رحم و کرم والے خدا کے علم سے باہر تھے؟ اور یہ سب کچھ بغیر اس کی مرضی کے ہوا؟

انسان نے ہمیشہ کسی نہ کسی مافوق الفطرت ہستی کا دامن پکڑنا پسند کیا۔ اگر اس نے پتھر کو پوجنا چھوڑا تو ایک اور غیر معلوم قوت کے سامنے جھک گیا جس کو وہ صحیح راہ دکھانے والا باور کرتا ہے لیکن حقیقت کیا ہے؟

انسان فطرتاً اقدام پسند واقع ہوا ہے، وہ ہمیشہ آگے قدم بڑھاتا ہے اور تجربات اس کو بتاتے ہیں کہ اس نے جو قدم اٹھایا تھا وہ صحیح تھا یا غلط۔

ایک آدمی کسی جگہ کا ارادہ کرکے چل پڑتا ہے۔ وہ ایک ایسی جگہ پہنچتا ہے جہاں دو راستے پھٹتے ہیں، وہ بایاں راستہ اختیار کرلیتا ہے لیکن اسے کچھ دور چل کر معلوم ہوتا ہے یہ راستہ غلط تھا، وہ واپس آتا ہے اور داہنے ہاتھ کا راستہ اختیار کر کے منزل تک پہنچ جاتا ہے، اس کے بعد وہ اس جگہ پہنچنے میں غلطی نہیں کرتا اور ہمیشہ سیدھا راستہ اختیار کرتا ہے۔ تو کیا یہ رہنمائی خود اس کی جستجو کا نتیجہ نہ تھی؟

ایک بچہ شعلہ کی چمک دیکھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے اور جل جاتا ہے، اس کے بعد پھر یہ جرأت وہ کبھی نہیں کرتا۔ تو کیا یہ سبق اس کو اس قوت نے دیا یا خود اس کے تجربہ نے؟

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے تجربات میں خود وہ قوت پنہاں ہے جو صحیح راستہ بتانے والی ہے، یہ قوت و ادراک و ارادہ سے بالکل معرا ہے اور اس کا نام ہے تجربہ۔

بہت سے لوگ ضمیر اور احساس اخلاق کے وجود کو وجود خدا کی دلیل بتاتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان فطرتاً تمدن پسند واقع ہوا ہے اور خانوادوں، قوموں اور قبیلوں کی صورت میں ہمیشہ زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے، پھر قبیلہ کے جن افراد نے خاندانی و عائلی مسرتوں میں اضافہ کیا، وہ اس کے اچھے اعضا شمار کیے گئے اور جنھوں نے تکلیفیں پہنچائیں، انھیں برا سمجھا گیا اور یہیں سے اخلاق کے اچھے برے ہونے کا معیار قائم ہوا۔

وحشی قوموں میں ہمیشہ فوری نتائج پر غور کیا جاتا ہے لیکن ترقی یافتہ قوموں نے میں نتائج بعیدہ کو سامنے رکھا جاتا ہے اور اس طرح اخلاق کا معیار بلند تر اور فرض شناسی کا احساس قوی تر ہوتا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں کسی مافوق الفطرت قوت کا کوئی دخل نہیں ہے۔

[pullquote]مذہب کیا ہے؟ [/pullquote]

انگرسول عیسوی مذہب کو سامنے رکھ کر پوچھتا ہے کہ عیسویت نے دنیا کو کیا فائدہ پہنچایا؟ جب اس کا اقتدار قائم کیا تھا تو کیا اس نے انسان کو زیادہ بہتر انسان بنا دیا؟ اس کا اثر اطالیہ، اسپین، پرتگال اور آئر لینڈ پر کیا ہوا؟ ہنگری اور آسٹریا کو کیا فائدہ اس سے حاصل ہوا؟ انگلستان، امریکہ، ہالینڈ اور اسکاٹ لینڈ نے کیا تمتع اس سے حاصل کیا؟ اگر عیسویت کے سوا وہ کسی اور مذہب کے پیرو ہوتے تو کیا وہ اس سے زیادہ خراب ہوجاتے؟

کیا ٹورکسٹمد، زرتشتی مذہب کا پابند ہوتا تو کیا اور زیادہ خراب انسان ہوجاتا؟ کیا کالون اور زیادہ خونخوار بن جاتا ، اگر وہ یہودی ہوتا؟ کیا ڈچ اور زیادہ احمق ثابت ہوتے اگر وہ تثلیث مسیحیت کے قائل نہ ہوتے؟ کیا جان ناکس اور زیادہ برے اخلاق کا ہوجاتا، اگر بجائے مسیح کے وہ کنفوشش کا ماننے والا ہوتا؟

مذہب کا ہر زمانہ اور ہر ملک میں بہت کافی تجربہ ہوچکا ہے اور اب اس ناکامی پر مزید حجت پیش کرنے کے لیے کسی اور جدید تجربہ کی ضرورت نہیں ہے۔

مذہب کبھی انسان کے دل میں جذبٔہ رافت والفت پیدا نہیں کر سکا اور اس کے ثبوت میں مذہبی تاریخ کے دو اوراق پیش کیے جا سکتے ہیں جن کا ایک ایک حرف خون سے رنگین ہے۔

مذہب علم و تحقیق کا ہمیشہ دشمن رہا ہے اور اس نے کبھی ذہنی آزادی کا ساتھ نہیں دیا۔

مذہب کبھی انسان کو محنتی، جفا کش اور ایمان دار بنانے میں کامیاب نہیں ہوا، چنانچہ وحشی اقوام کی برائیوں کا سبب صرف ان کی مذہبی واہمہ پرستی ہے۔

وہ لوگ جو فطرت کی یکسانیت کے قائل ہیں، ان کے لیے مذہب کا خیال کسی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

کیا انسان ؛ فطرت اور صفات مادہ کو اپنی دعاؤں سے متاثر کرسکتا ہے، کیا ہم طوفان کو پوجا پاٹ کے ذریعہ سے کم و بیش کرسکتے ہیں، کیا ہم قربانیاں پیش کرکے ہواؤں کارخ بدل سکتے ہیں، کیا ہم آہ وزاری سے بیماری کا علاج کرسکتے ہیں، کیا عزت و سربلندی ہمیں بھیک مانگنے سے مل سکتی ہے؟

وہ چیز جسے نفس کہتے ہیں، کیا وہ قانون قدرت کا اسی طرح پابند نہیں جس طرح ہمارا جسم؟

مذہب کی بنیاد اس خیال پر قائم ہے کہ عالم فطرت کا کوئی ایک مالک ہے، خود دعاؤں کو سنتا ہے، اپنی تعریف سے خوش ہوتا ہے اور جزا و سزا دیتا ہے، لیکن افسوس ہے کہ واقعات کی دنیا میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی جس سے ہمیں ان اعتقادات کی تصدیق ہوسکے۔
جب ہم کوئی نظریہ قائم کرتے ہیں تو اس کے لیے کوئی نہ کوئی بنیادی حقیقت ضرور ہوا کرتی ہے، محض وہم و قیاس پر کوئی اصول مرتب نہیں ہوسکتا، اس لیے اگر ہم لا مذہبیت کا نظریہ پیش کرتے ہیں تو اس کے لیے چند بنیادی حقائق بھی اپنے پاس رکھتے ہیں۔

مثلاً یہ کہ مادہ وقوت فنا نہیں ہو سکتے، دوسرے یہ کہ مادہ و قوت ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہو سکتے، تیسرے یہ کہ جو چیز غیر فانی ہے وہ غیر مخلوق ہے، قدیم ہے۔

دنیا میں ذہانت و ذکاوت کا وجود صرف قوت کی وجہ سے ہے اور قوت بغیر مادہ کے ممکن نہیں، اس لیے معلوم ہوا کہ ذکاوت صرف قوت و مادہ کی ممنون ہے اور اس باب میں کسی ایسی مافوق الفطرت ہستی کے تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے جسے مدبر کائنات کہا جائے۔
اگر مادہ و قوت ازلی و ابدی ہیں تو جو کچھ ممکنات میں تھا، وہ واقع ہوا۔ جو ممکنات میں ہے ، وہ ظاہر ہو رہا ہے اور آئندہ بھی رونما ہوتا رہے گا۔ کائنات میں اتفاق کوئی چیز نہیں ، جو کچھ ہوتا ہے اس کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور پایا جاتا ہے۔ جس چیز کو ہم حال کہتے ہیں ، وہ ماضی کی پیداوار ہے اور جس کا نام مستقبل ہے وہ نتیجہ ہوگا حال کا۔ انسان سے لے کر رینگنے والے کیڑے کی حرکت تک سب اسی قانون کے جکڑے ہوئے ہیں اور اس کے خلاف کسی بات کا ظاہر ہونا ناممکن ہے۔

ہزاروں سال سے دنیا کی اصلاح کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسی غرض کے لیے دیوتا، دیویاں، بہشت، دوزخ، الہامات و معجزات ، کلیسا و خانقاہ، قیدخانے اور شکنجے، سیکڑوں چیزیں پیدا کی گئیں۔ ایک بادشاہ کو تخت سے اتار کر دوسرے کو بٹھایا ، ایک ملکہ کی گردن مار کر دوسری کو تخت نشین کیا، آدمیوں کو زندہ جلایا۔ فوج کشیاں کی گئیں، دعائیں مانگی گئیں ، ڈرایا گیا، لالچ دی گئی۔ الغرض مذہب نے سبھی کچھ کیا لیکن مقصد آج تک پورا نہ ہوا۔ کیوں کہ مذہب غلامی ہے ذہن و دماغ کی، اور جب تک انسان کا ذہن آزاد و بیدار نہ ہو، نوع انسان کی فلاح مجموعی حیثیت سے ناممکن ہے۔

یہ ہیں وہ خیالات اس زمانے کے ملحد و لامذہب کے جو اخباروں، رسالوں اور لکچروں کے ذریعہ سے تمام دنیا میں اشاعت پا رہے ہیں اور ہندوستان کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں بھی مقبول ہوتے جاتے ہیں۔ اس لیے اگر ہم دہریت و الحاد کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمارا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ ہم دنیا کی اس ذہنی تشویش و تذبذب کو دور کریں۔ پھر اس کی تدبیر یہ نہیں ہے کہ ہم منطق و فلسفہ کی پیچیدہ باتوں میں الجھا کر فریق مخالف کو خاموش کرنے کی کوشش کریں، کیوں کہ اس طرح اس کی زبان تو بند ہوسکتی ہے لیکن دل مطمئن نہیں ہوسکتا؛ بلکہ ضرورت ہے اس مذہبی روح کی تلقین کی جو ظاہری شعائر و مراسم سے بے نیاز ہے اور جس میں سوا بلند تعلیم اخلاق کے کوئی اور چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو ہمیں الہام و معجزات، بہشت و دوزخ، حشر و نشر، قیامت و آخرت کے تسلیم کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ یہی وہ تنگ نظری تھی جس نے اہل مذاہب کو ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رکھا اور یہی وہ چیز ہے جو مذہب کے اقتدار کو مٹا کر رہے گی۔ دنیا میں اب کوئی ایسا مذہب نہیں چل سکتا جو تمدنی ضروریات، بین الاقوامی تعلقات، اقتصادی مشکلات، اخلاقی اصول عامہ کو پس پشت ڈال کر صرف ”امید فردا“ پر اپنی کارگاہ تبلیغ قائم کرے۔ وہ وقت گذر گیا جب مذہب کسی ایک قوم کے لیے مخصوص ہوا کرتا تھا، اب کہ کرئہ زمین کی ۴۲ ہزار میل کی وسعت کو انسان چند دن میں طے کرلیتا ہے، تخصیص نسل و جغرافیہ کا سوال بالکل لایعنی چیز ہے، اور مذہب کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ کوئی ایسا لائحہ عمل پیش کرے جو تمام آبادی کو کسی ایک مشترک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتا ہو اور یہ ممکن نہیں جب تک مذہب کے اعتقادی حصہ کو علیحدہ کر کے اسے ہیئت اجتماعی کے اصول پر صرف ”سوشل آرگنائزیشن“ کی حیثیت نہ دی جائے۔

[pullquote]صراط مستقیم[/pullquote]

ہمارے سامنے دو راستے ہیں، ایک وہ جو فطرت اور عالم اسباب کی طرف رہنمائی کرنے والا ہے، اور دوسرا وہ جو مافوق الفطرت باتوں کی جانب مائل کرتا ہے۔ یعنی ایک وہ ہے جو ہمیں تحقیق و جستجو ، اکتشافات و اختراع، سعی و کاوش اور رشتہ علت و معلول کی طرف متوجہ کر کے راحت و آسائش، امن و سکون کے ساتھ زندگی بسرکرنا سکھاتا ہے اور دوسرا وہ جو ہمیں بتاتا ہے کہ اصل دنیا یہ نہیں ہے بلکہ کوئی اور ہے اور اسی غیر معلوم دنیا کے لیے بلا حیلہ و حجت ہم کو قربانیاں ، دعائیں اور عبادتیں کرتے رہنا چاہیے۔
ان دونوں راستوں میں اور کیا فرق ہے؟

ایک بتاتا ہے کہ زندگی نام ہے اپنے اور دیگر ابنائے جنس کے ساتھ ہمدردی رکھے اور ان کے لیے اسباب راحت و سکون فراہم کرنے کا، دوسرا کہتا ہے کہ حیات انسانی کا مقصد خداؤں اور دیوتاؤ ں کی پرستش ہے جو دوسری دنیا میں ہمارے اس تمام عجز و انکسار کا ابدی معاوضہ دیں گے۔ ایک عقل و حقائق پر اعتماد کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور دوسرا صرف عقائد پر بھروسہ کرنے کی۔ ایک کہتا ہے کہ اپنے حواس و ادراک کی اس روشنی سے کام لو جو خود تمھارے اندر پائی جاتی ہے، دوسرا کہتا ہے کہ اس مقدس روشنی کو گل کردو۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارے اسلاف نے جو کچھ کیا، وہ اس سے زاید کچھ نہ کرسکتے تھے۔ وہ ایک مافوق الفطرت قوت پر یقین رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر وہ طاعت و عبادت، دعا و قربانی نہ کریں گے تو نہ بارش وقت پر ہوگی اور نہ ان کی کھیتیاں بار آور ہوں گی۔ وہ یقین کرتے تھے کہ خدا ایک مستبد بادشاہ ہے جس کو ذرا ذرا سی بات ناگوار ہوجاتی ہے اور جو برہم ہو کر سزا دینے پر اتر آتا ہے۔ وہ خدائے خیر کے ساتھ خدائے شر کے بھی قائل تھے اورانھی دو خداؤں کے درمیان بیم و رجا کی ”رعشہ براندام“ زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ ان کی حیات کا کوئی لمحہ خوف سے خالی نہ گذرتا تھا اور ہر وقت وہ اسی ڈر سے کانپتے رہتے تھے کہ مبادا کوئی ان سے خفیف سی خفیف گستاخی سرزد ہوجائے اور خدا ناراض ہو کر انھیں بڑی سے بڑی سزا کا مستوجب قرار دے۔

طوفان آتا تھا تو وہ سمجھتے تھے کہ یہ نتیجہ ہے انھیں کی بد اعمالیوں کا، زلزلہ آتا تھا تو وہ یقین کرتے تھے کہ خدا ان پر برہم ہورہا ہے۔ وبائی بیماریاں پھیلتی تھیں تو وہ اسے بھی اپنی گناہوں کا پاداش سمجھتے تھے، اور جب چاند سوچ کر گرہن لگتا تھاتو اسے بھی اپنی خطاؤں کا نتیجہ باور کرتے تھے ، تمام فضا انھی فرشتوں اور روحوں سے معمور نظر آتی تھی، اور شب و روز صرف لیے آہ وزاری کیا کرتے تھے کہ خدا ان سے خفا ہو کر تباہ و برباد نہ کردے ، قدرت ان کے نزدیک گویا ایک سوتیلی ماں تھی جو پیشانی پر شکنیں ڈالے ہوئے ہر وقت انھیں خونچکاں آنکھوں سے دیکھتی رہتی تھی۔

آخر کار ایک زمانہ آیا جب بعض افراد سوچنے والا دماغ لے کرپیدا ہوئے اور انھوں نے تما م حوادث و واقعات پر غور کرنا شروع کیا۔ انھوں نے سمجھا کہ طوفانوں اور زلزلوں کے اسباب طبعی کچھ اور ہیں۔ سورج گرہن کے لیے ایک زمانہ معین ہے اور پہلے سے اس کے وقوع کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے، اسی طرح رفتہ رفتہ سیاروں کی گردش، کرئہ زمین کے جغرافی حالات، آب و آتش کے خواص، مظاہر فطرت کے اسباب، حیات انسانی کی خصوصیات، اعضائے جسم کے وظائف معلوم کیے گئے اور واہمہ پرستی کی زنجیر کی کچھ کڑیاں ٹوٹیں۔ اس کے بعد کچھ زمانہ اور گذرا ، یہاں تک کہ مدارس کی بنیادیں پڑیں۔ کتابیں تصنیف کی گئیں، مفکرین کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی۔ علمی اکتشافات نے انسان کے دماغ کو منور کرنا شروع کیا، فکر و خیال کی آزادی بڑھی اور مافوق الفطرت کی جگہ فطرت اور اصول فطرت نے لے لی۔ پھر روح کے اس احساس آزادی کا جو نتیجہ ہونا چاہیے تھا وہ ظاہر ہو کر رہا، یعنی اختراع و ایجاد کے دروازے کھل گئے اور ارباب مذہب اپنی اور اپنے اعتقادات کی کمزوریوں کو بری طرح محسوس کرنے لگے۔

ظاہر ہے کہ مفکرین کے مقابلہ میں ”معتقدین“ کوئی علمی و عقلی دلیل تو پیش کر نہ سکتے تھے، کیوں کہ یہی ایک چیز ان کے دسترس سے دور تھی۔ اس لیے وہ اہل علم کے خلاف ملک میں نہایت مکروہ پروپیگنڈا کی اشاعت پر اتر آئے اور واہمہ پرستی کے پاس جہل و تعصب کے جتنے گندے حربے موجود ہیں، ان سب کا استعمال بیک وقت شروع کردیا گیا، ان کو ذریات شیطان بتایا گیا، خدا کا دشمن ظاہر کیا گیا۔ ان کو مٹادینے کا نام مذہبی جہاد قرار پایا، اور استعمال آتش و زنجیر اور تعذیب و تذلیل کی جتنی مہیب صورتیں ہیں وہ سب بروئے کار لائی گئیں۔
پھر یہ سب کچھ چند دن کا ہنگامہ نہ تھا، بلکہ یہ خون آشامیاں صدیوں تک جاری رہیں اور اس سلسلہ میں کوئی جرم ایسا نہ تھا جس کا ارتکاب مذہب کے نام پر جائز و مستحسن نہ قرار دیا گیا ہو۔ ایک فریق کہتا تھا کہ جذبات انسانی کو فنا کردو اور ضروریات زندگی کو کم، اپنے آپ کو معذور سمجھو اور آسمانی قوت پر اعتماد کامل رکھ کر تمام کام اسی پر چھوڑ دو، دوسری جماعت کہتی تھی کہ جذبات انسانی اسی لیے پیدا کیے گئے ہیں کہ مناسب حدود میں ان کو تسکین پہنچائی جائے اور ضروریات زندگی کو بڑھانا بھی لازم ہے، کیوں کہ بغیر ان کے انسانوں کو اپنی قوتوں کا علم نہیں ہوسکتا اور دنیا میں کوئی ایجاد و اختراع معرض ظہور میں نہیں آسکتی۔

ایک فریق کا فلسفہ حیات یہ تھا کہ مال و دولت کو ٹھکرا دیا جائے اور اسباب راحت سے نفرت کی جائے، یہ لوگ فنون لطیفہ کے دشمن تھے؛ اچھی غذا، اچھے لباس، اچھے مکانوں سے متنفر تھے، گویا یوں سمجھیے کہ یہ حکما تھے؛ غربت و افلاس کے، تشنگی و گرسنگی کے، جھونپڑوں کے، چیتھڑوں کے، برہنہ پائی کے اور ایک ایسے آہستہ ردعمل خود کشکی کے جو دفعتاً نہیں بلکہ تدریجاً قوم کی قوم ہلاک کردینے والا ہے۔ ان کو اس دنیا میں سوا عذاب و مصیبت کے کچھ نظر نہ آتا تھا اور دوسری دنیا ہر قسم کے اسباب نشاط و راحت سے معمور نظر آتی تھی، وہ امرا اصحاب ثروت سے اور تمام ان لوگوں سے جو اپنی قوت بازو کی مدد سے راحت و آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں ، نفرت کرتے تھے اور جنت میں سوا گداگروں اور بھکاریوں کے کسی اور کا درخور محال سمجھتے تھے۔ الغرض یہ تھے وہ لوگ جنھوں نے دنیا کو ویران و غیر دلچسپ رکھنے کے سیکڑوں سال تک جہاد کیا اور کچھ زمانہ تک انھیں کامیابی بھی حاصل رہی، لیکن ذہنی و عقلی آزادی بجائے خود ایسی زبردست لذت ہے کہ ایک بار چکھ لینے کے بعد اسے چھوڑنا محال ہے، اس لیے اس کا ذوق رفتہ رفتہ عام ہوتا گیا اور ذہن و خیال کی دنیا ہی بالکل بدل گئی۔

چنانچہ اب انسان اس جسم متحرک کا نام نہیں ہے جو ایک وقت معین تک حرکت کرتے رہنے کے بعد فنا ہوجاتا ہے بلکہ انسان نام ہے قوائے عقل و دماغ کی ترقی کا، حرکت و عمل کا، تحقیق و جستجو کا، اعتماد ذاتی کا اور آسمان سے لے کر زمین تک تمام مناظر قدرت پر چھا جانے کا۔ اب وہ اس کا قئل نہیں کہ طاعت و عبادت بجائے خود کوئی تقدس و پاکیزگی ہے اور انعام خداوندی کی مستحق، اب وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جزا و سزا مافوق الفطرت سے متعلق ہے بلکہ وہ تقدس کا مفہوم صرف حرکت و عمل کو قرار دیتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ انسان کی دوزخ و جنت خود اسی کے اندر اور اسی دنیا میں موجود ہے اور اسے اختیار حاصل ہے ، خواہ وہ مجہول و بے کار زندگی بسر کر کے جہنم میں چلا جائے ، خواہ سعی و محنت سے کام لے کر فردوس حاصل کرے۔

یہ اعتقاد کہ بادشاہ کو خدا، بادشاہ بنا کر بھیجتا ہے اور رعایا کا کام صرف اس کی اطاعت ہے، اب ختم ہوگیا ۔ یہ عقیدہ کے مذہب خدا کی بنائی ہوئی چیز ہے اور اس کے بتائے ہوئے اصول و عقائد کو بغیر چون و چرا تسلیم کرنا ہمارا فرض ہے، بہت کچھ مٹ گیا ہے۔ خدا کے بھیجے ہوئے بادشاہ بھی رفتہ رفتہ فنا ہورہے ہیں اور مذہبی حکومتیں بھی محو ہوتی جارہی ہیں۔

انگلستان میں بجائے خدا کے اب پارلیمنٹ کی حکومت ہے اور امریکہ میں مذہبی اقتدار کی جگہ رائے عامہ نے لے لی ہے۔ فرانس اپنی آبادی کے سوا کسی اور مافوق الفطرت قوت کو حکومت میں دخل دینے کا مستحق قرار نہیں دیتا اور روس میں سب سے بڑا جرم خدا اور مذہب کا نام لینا ہے۔ یورپ میں صرف ایک قیصر ولیم (شاہ جرمنی) ایسا بادشاہ تھا جو اپنے آپ کو فرستادئہ خدا سمجھتا تھا ، سو گذشتہ جنگ میں وہ بھی ختم ہوگیا۔

انسان آزادیٔ کامل کی اس منزل تک سخت صعوبتیں اٹھانے کے بعد پہنچا ہے اور استعمال عقل کے استحقاق کو اب اس سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔ جس وقت تک وہ اپنی فہم و فراست کو مشعل راہ بنانے سے باز رکھا گیا، بے شک وہ کہہ سکتا تھا کہ اصل نیکی صرف خوف جہنم سے کانپتے رہنا ہے اور حصول نجات کے لیے یہی کافی ہے لیکن جب اس نے دیکھا کہ تنہا یہ عقیدہ نہ اس کے لیے روزی فراہم کرسکتا ہے، نہ تن پوشی کے لیے لباس تو اس کی نگاہیں آسمان کی طرف سے زمین کی جانب مائل ہوئیں اور وہ یہ دیکھ کر متعجب ہوا کہ جو لوگ اپنے آپ کو مذہب کا پابند کہتے ہیں ، وہ بھی اسی کی طرح جرم و معصیت کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ سقراط کو جس نے زہر کا پیالہ دیا ، وہ بھی مذہبی انسان تھا اور عیسیٰ کو جنھوں نے سولی پر چڑھایا ، وہ بھی خدا ہی کے ماننے والے تھے؛ اس لیے اس کی روح میں بغاوت پیدا ہوئی اور اس طرح سب سے پہلا جذبٔہ انتقاد جو مذہب کے خلاف رونما ہوا، وہ خود اہل مذہب ہی کا پیدا کیا ہوا تھا۔

آپ کسی مذہب والے سے دریافت کیجیے، وہ اپنے سوا تمام دنیا کو گمراہ بتائے گا اور اسی خدا کو قابل پرستش قرار دے گا جو اس نے وضع کیا ہے، دوسرے مذاہب واقوام کے خداؤں کو وہ جھوٹا بتائے گا۔ وہ سوا اپنے معبد کے کسی اور کی عبادت گاہ کی عزت نہ کرے گا۔ سو اپنے طریق عبادت کے وہ کسی اصول بندگی کا احترام نہ کرے گا، وہ اپنی قربانیوں کے مقابلے میں دوسرے مذہب کی قربانیوں کو لغو و بیکار بتائے گا۔ گویا اسی کا خدا ، خدا ہے اور اسی کا پیغمبر ، پیغمبر ، اسی کی کتاب الہامی صحیفہ ہے اور اسی کی دعائیں مقبول۔

اب خدا کے اس تصور کو دیکھیے جو الہامی مذاہب نے پیش کیا ہے، خدا کو قادر مطلق ، بے نیاز اور کسی چیز سے متاثر نہ ہو سکنے والا بتایا جاتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ کتب مقدسہ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو غصہ بھی آتا ہے، وہ انتقام بھی لیتا ہے اور اپنے بندوں میں سے ایک کے ساتھ رعایت اور دوسرے کے ساتھ ظلم بھی کرسکتا ہے۔

عدن میں آدم و حوا کو خود ہی پیدا کرتا ہے اور نافرمانی و سرکشی نہیں بلکہ معمولی سی غلطی پر خود ہی اس قدر برہم ہوجاتا ہے کہ عدن سے انھیں اٹھا کر زمین پر پھینک دیتا ہے اور نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان کی اولاد کے لیے بھی تمام عمر غم وغصہ میں مبتلا رہنا مقسوم کردیتا ہے۔ خدا اور اتنا غصہ، خالق اور اپنی مخلوق پر اتنی برہمی! اگر وہ جانتا تھا کہ ان سے یہ غلطی سرزد ہوگی تو پیدا کرنے ہی کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر پیدا کیا تھا تو کیا اس کے اختیار میں نہ تھا کہ وہ غلطی نہ کرسکنے والی مخلوق پیدا کرتا، خود ہی ان کو پیدا کیا، خودہی برہم ہو کر انھیں مبتلائے آلام کردیا، عجیب تماشہ ہے۔

الہامی صحائف خدا کے غصے اور جنگ و قتال کے احکام سے بھرے پڑے ہیں ، قوموں کو اس نے برباد کیا، بستیوں کو اس نے ویران کیا، وبائیں اس نے مسلط کیں، آسمانی عذاب اس نے نازل کیے۔ حالاں کہ انسان کی سرکشی یا نافرمانی بھی اسی کی پیدا کی ہوئی چیز تھی اور خود اس کی مرضی تھی کہ وہ ایسا کرے ، پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ جب انسان کو (جن میں عورتین اور معصوم بچے بھی شامل تھے) تباہ کرنا ہی مقصود تھا تو ان کے پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی اور پیدا کیا تھا تو کیا اس کے اختیار میں نہ تھا کہ انھیں معصوم پیدا کرتا۔
ایک بار ساری دنیا کو سوائے آٹھ آدمیوں کے طوفان میں غرق کردیتا ہے اور تمام زمین کو لاشوں سے پاٹ دیتا ہے ، اس کے بعد وہ صرف یہودیوں کو لطف و کرم کا مستحق سمجھتا ہے اور باقی تمام مخلوق کو بغیر کسی سبب کے مردود قرار دیتا ہے، نہ وہ اہل مصر کی طرف متوجہ ہوتا ہے، نہ اہل ایران کی طرف، نہ اسیریوں کو قابل اعتنا خیال کرتا ہے ، نہ یونانیوں کو (حالاں کہ ان سب کا خالق بھی وہی تھا) اور صدیوں تک صرف ایک فرقہ کا خدا بنا رہتا ہے؛ کیوں؟

خدا ایک قوم کو حکم دیتا ہے کہ وہ دوسری قوم سے جنگ کر کے ان کے مردوں ، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کرے اور جو زندہ ہاتھ آجائیں ، انھیں لونڈی غلام بنائے۔ اس کے علاوہ وہ ادارئہ غلامی قائم رکھنے کے لیے ان کی خرید و فروخت کی بھی اجازت دیتا ہے۔ بادشاہوں کے جرائم کے عوض میں رعایا کو ہلاک کرنا مناسب سمجھتا ہے اور وہ بغیر کسی وجہ کے اپنے بندوں میں سے کسی ایک جماعت سے خوش ہوجاتا ہے اور دوسرے سے برہم؛ اس کا سبب؟

حقائق عالم کے لحاظ سے صحف مقدسہ نے جو معلومات انسان کے سامنے پیش کی ہیں، ان کا ذکر ہی فضول ہے۔ زمین کا چپٹا و مسطح بتانا، طبقات الارض کا انتہائی درس ہے اور تاروں کو آسمان میں جڑا ہوا ظاہر کرنا فلکیات کا بلند ترین نظریہ۔

صحت و امراض کے متعلق دو نظریے دنیا میں رائج ہیں؛ ایک مذہبی ، دوسرا علمی۔ مذہبی نظریہ یہ ہے کہ بیماریاں ارواح خبیثہ سے پیدا ہوتی ہیں جو جسم انسانی میں حلول کرجاتی ہیں اور ان ارواح خبیثہ کو مذہب کے نفوس مقدسہ ہی دور کرسکتے ہیں۔
جب تک مسیح زندہ رہے، ان کی عمر شیاطین اور ارواح خبیثہ کے دور کرنے میں بسر ہوئی اور بعد کو ان کے مقدس راہبوں نے صدیوں تک یہ خدمت انجام دی، چنانچہ از منہ وسطیٰ میں لاکھوں کروڑوں شیاطین اسی طرح بھگائے جاتے رہے اور امراض کا علاج جھاڑ پھونک ، دعا تعویذ اور گنڈوں سے سے ہوتا رہا۔ امراض کے طبعی اسباب کا کوئی علم نہ تھا۔ مقدس اہل مذاہب دعاؤں کے بہانے سے ہزاروں روپے کماتے تھے (فقیروں کی روزی کا مدار اسی پر ہے)۔

آخر کار جب علم بڑھا تو آہستہ آہستہ امراض کے طبیعی اسباب کا بھی علم ہوا اور ان کے دور کرنے کی طبیعی تدابیر بھی رائج ہوئیں ، چنانچہ اس وقت سوائے جاہل ممالک کے جن میں ہندوستان کا مرتبہ سب سے بلند ہے،جنات یا شیاطین یا ارواح خبیثہ کا عقیدہ بالکل اٹھ گیا ہے اور جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو بجائے دعا تعویذ کے علاج کی طرف توجہ کی جاتی ہے ۔

مذاہب عالم اور کتب مقدسہ کے متعلق بھی دو خیال ہیں۔ ایک جماعت (اہل مذہب) کہتی ہے کہ وہ بالکل الہامی ہیں اور انسانی فکر کو ان میں دخل نہیں اور دوسری جماعت کہتی ہے کہ صحف مقدسہ سب انسانوں کے دماغ کا نتیجہ ہیں اور مذہب رونما ہوا ہے صرف اس جذبٔہ خوف سے جو حوادث طبیعی و مظاہر قدرت کو دیکھ دیکھ کر انسان کے دل میں پیدا ہوتا تھا ، چنانچہ دنیا میں کوئی قدیم قوم ایسی نہ تھی جس کا کوئی مذہب نہ رہا ہو اور طاعت و عبادت کو اس نے اپنی حفاظت و نجات کا ذریعہ خیال نہ کیا ہو لیکن رفتہ رفتہ یہ واہمہ پرستی کم ہوتی گئی ، یہاں تک کہ اب ہر ذی فہم انسان جانتا ہے کہ دنیا میں ہر واقعہ کا ایک فطری سبب ہوا کرتا ہے اور قدرت بغیر اس خیال کے کہ انسان کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں، اپنے کام میں مصروف ہے۔

اب مفکرین اچھی طرح واقف ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب خود انسانوں نے وضع کیے تھے اور خدا و الہام خداوندی سے انھیں کوئی تعلق نہ تھا ۔ جن کتابوں کو وہ الہامی کہتے ہیں ، وہ بھی انسان ہی کے دماغ کا نتیجہ تھیں اور اسی لیے ہر قوم و زمانہ کے لحاظ سے ان میں مختلف خیالات و تعلیمات پائی جاتی ہیں، نہ خدا کو طاعت و عبادت کی ضرورت ہے اور نہ وہ کسی کی دعا سنتا ہے۔ اہل دنیا پر ہزاروں مرتبہ قحط و وبا، طوفان و سیلاب کی مصیبتیں نازل ہوئیں اور کوئی دعا انھیں دو ر نہ کرسکی، زلزلے آتے رہے، جوالا مکھی آگ برساتے رہے، ہزاروں معصوم نفوس فنا ہوتے رہے اور انسان کی کسی گریہ وزاری نے خدا کو اس ہلاکت باری سے باز نہ رکھا، کھیتیاں سوکھتی رہیں اور انسان کی دعائیں ایک قطرہ پانی کا نہ حاصل کرسکیں، وبائیں پھیلتی رہیں اور خدا کے نام پر لکھے ہوئے تعویذ کسی ایک متنفس کو بھی ہلاکت سے بہ بچا سکے، غلاموں کی پیٹھ کوڑوں سے لہولہان ہوتی رہی ، عورتوں کی عصمت دری کو علی الاعلان جائز رکھا گیا، شیر خوار بچے ماؤں کی آغوش سے چھین چھین کر بازاروں میں فروخت کیے گئے اور ان کی فریاد، آہ و زاری ایک لمحہ کے لیے خدا کو متوجہ نہ کرسکی کہ وہ ظالم بادشاہوں کی حکومت کی بجائے آسمانی بادشاہت قائم کرتا۔

اخلاقیات کے باب میں اہل مذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا نے جس فعل سے باز رکھا ہے، وہی برا ہے اور جس کے کرنے کا حکم دیا ہے ، وہ اچھا ہے۔ خود بندہ کو اس کا کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ خود کسی فعل کے مستحسن یا قبیح ہونے پر رائے زنی کرے ، گویا مذہبی انسان کسی اچھے کام کو خود اچھا سمجھ کر انجام نہیں دیتا بلکہ فرمان خداوندی کی تعمیل سمجھ کر اس کو اختیار کرتا اور صرف اس خوف سے کہ مبادا خدا برہم ہوجائے اور اسے عذاب میں مبتلا کرے ۔

تقریباً تمام اہل مذہب کا عقیدہ ہے کہ ایک انسان اچھے اخلاق کا ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ وجود خدا کا قائل نہ ہوا ور اگر کسی میں یہ صفت پائی بھی جائے تو بغیر خدا کو مانے ہوئے وہ بالکل بے کار ہے۔

علمائے اخلاقیات کا نظریہ یہ ہے کہ نیکی و بدی اشیا کی فطرت میں موجود ہے، بعض افعال ایسے ہیں جو انسانی مسرت کا باعث ہوتے ہیں اور بعض آزار و مصائب کا سبب بن جاتے ہیں، چنانچہ اول الذکر افعال کو ہم اخلاق حسنہ کہتے ہیں اور موخر الذکر کو افعال قبیحہ یا معصیت سے تعبیر کرتے ہیں۔

اخلاق انسانی کا تعلق اسی دنیا سے ہے اور یہیں ان کے نتائج دیکھ کر ان کے برے یا اچھے ہونے کا اصول قائم کیا گیا ہے۔ نہ خدا ان سے متاثر ہوتا ہے اور نہ دوسری دنیا میں ان کا محاسبہ کر کے جزا و سزا دینے کی ضرورت۔ چوری کو برا سمجھنے کے لیے کسی الہام کی ضرورت نہ تھی۔ انسان کے تجربہ نے اس کے نقصانات دیکھ کر خود اسے برا قرار دیا، تمام وہ جرائم جو انسان کو جسمانی ، اقتصادی و عمرانی نقصان پہنچاتے ہیں ، ان سے اپنے آپ کو محفوظ رہنے کا احساس ہر شخص میں فطری طور پر پایا جاتا ہے اور یہی وہ احساس تھا جس نے اسے بتایا کہ نیکی کسے کہتے ہیں اور بدی کس کو۔

پھر جو چیز اس لحاظ سے بری ہے، وہ یقینا بری سمجھی جائے گی ، خواہ مذہب کے نزدیک اچھی ہو، واقعات و تاثرات کو کوئی قوت بدل نہیں سکتی جس طرح قدرت ایک مربع کو دائرہ ثابت کرنے سے عاجز ہے، اسی طرح وہ کسی بری بات کو اچھی اور اچھی کو بری نہیں بنا سکتی۔
الغرض اہل مذہب نے جو نظریہ اخلاق قائم کیا ہے،ا س پر ایک انسان کبھی فخر نہیں کرسکتا۔ ایک شخص نیک کام کرتا ہے، صرف اس ڈر سے کہ خدا کا حکم ہے اور اس طمع سے کہ اس کا انعام دوسری دنیا میں ملے گا۔ دوسرا اچھے اخلاق اختیار کرتا ہے صرف اس بنا پر کہ یہ اس کا انسانی فرض ہے اور نیکی آپ اپنی جزا ہے؛ دونوں کے فرق کو ہرشخص بآسانی سمجھ سکتا ہے۔

الغرض اس وقت دو راستے ہمارے سامنے ہیں۔ ایک وہ جو مذہب کی طرف ہم کو لے جاتا ہے اور دوسرا وہ جو عقل کی طرف رہبری کرتا ہے۔ سو اول الذکر کا تجربہ بہت کافی ہوچکا ہے اور ہمیشہ اس کا نتیجہ ایک ہی نکلا ہے۔

فلسطین میں اس کا تجربہ کیا گیا لیکن اہل فلسطین کی مذہبیت ان کو تباہ و برباد ہونے سے نہ بچا سکی، وہ مفتوح و مغلوب ہو کر خارج البلد کی گئی، صدیوں تک امداد خداوندی کا انتظار کرتے رہے اور اس توقع پر زندہ رہے کہ خدا انھیں پھر مجتمع کرے گا۔ ان کی بستیوں، ان کے معبدوں اور قربان گاہوں کو از سر نو تعمیر کرے گا۔ لیکن صدیاں پر صدیاں گذرتی گئیں اور ان کی یہ تمنا پوری نہ ہوئی۔

اس کا تجربہ سوئزلینڈ میں کیا گیا لیکن وہاں بھی سوا غلامی کے اور کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوا۔ ترقی کی تمام راہیں مسدود کردی گئیں اور صرف انھیں لوگوں کو آزادی کے ساتھ بولنے کا حق رہا جو صاحب جاہ و ثروت تھے، عوام سے ان کی معصوم مسرتیں چھین لی گئیں، ان کے لیے ہنسنا ممنوع قرار پایا اور سوائے رنج غلامی کے کچھ نہ ملا۔ ان لوگوں نے اور وظائف، روزہ صلوة، وعظ و پند کو بھی آزما کر دیکھ لیا، لیکن کوئی چیز انھیں مسرت و راحت سے آشنا نہ کرسکی۔

اسکاٹ لینڈ میں بھی مذہب کا تجربہ ہوا اور نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کی ماننے والی تمام آبادی کو خوش قسمت لیکن ظالم کرکوں کا غلام بن کر ہنا پڑا۔ پادری ہر خاندان میں گھس جاتے تھے، اور خوف و واہمہ پرستی پھیلا پھیلا کر لوگوں کی عقلیں سلب کررہے تھے، وہ اپنی ہدایات کو الہام ربانی کہتے تھے اور ان سے انحراف کرنے والے عذاب خداوندی کا مستوجب قرار دیتے تھے، پھر اس مذہبی حکومت میں بھی وہی ہوا جو ہونا چاہیے۔ انسان غلام تھا اور غلامی کے ناقابل برداشت بار سے اس کی پیٹھ جھکی جارہی تھی۔

انگلستان میں مذہبی حکومت نے جو گل کھلائے، وہ بھی کسی سے مخفی نہیں۔ اس زمانہ کے قانون ، اس کے زمانہ کے اوہام و تعصبات اس قدر سخت تھے کہ خدا کی پناہ، پادری خدا کے بیٹے بنے ہوئے آسمان و زمین کی ملکیت کا دعویٰ کررہے تھے۔ بہشت و دوزخ کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں تھیں اور جس کو جہاں جی چاہتا تھا دھکیل دیتے تھے؛ نہ ان کے دلوں میں رحم تھا، نہ آنکھوں میں مروت۔ ادنیٰ ادنیٰ سی غلطیوں پر خارج البلد کردینا، کوڑے لگوانا اور قید و بند میں ڈال دینا معمولی بات تھی۔

از منٔہ مظلمہ میں مذہبی زندگی کا جو نتیجہ ہوا ، وہ اور زیادہ ہادم انسانیت تھا۔ ہزاروں سولیاں ہر وقت خون سے تر رہتی تھیں اور بے شمار تلواریں انسانی سینے میں پیوست۔ قید خانے کھچا کھچ بھرے رہتے تھے اور سیکڑوں انسان دہکتی ہوئی آگ کے اندر پڑے ہوئے تڑپا کرتے تھے۔ کوئی ظلم ایسا نہ تھا جو خدا کے نام پر روا نہ رکھا گیا ہو اور کوئی معصیت ایسی نہ تھی جس کا ارتکاب مذہب کے پردہ میں نہ ہوتا ہو۔ الغرض یہ تھا مذہبی حکومتوں کا رنگ جو اہل مذہب نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔

اب اس کے مقابلے میں اس راستہ کو دیکھو جس کی رہنمائی عقل نے کی ہے، کیسا صاف و ہموار راستہ ہے۔ کیسی کھلی ہوئی فضا ہے، کیسی پر بہار زمین ہے۔ ہر شخص دوسرے کا بوجھ ہلکا کرنے کی فکر میں ہے اور ہر دماغ اس فکر میں کہ بنی نوع انسان کی راحت و مسرت کا سامان بہم پہنچائے۔ نہ وہاں سولیاں ہیں، نہ قید خانے، نہ جہنم کے اژدہے ہیں نہ فرشتوں کے کوڑے ۔ قدرت کی وسیع فضا ہے جس سے ہر شخص یکساں فائدہ اٹھا رہا ہے۔ عقل و فراست کا ایک آفتا ہے جو سب کے برابر مستغیض کرنا چاہتا ہے۔ انسانیت کی بیڑیاں کٹ چکی ہیں، غلامی کا داغ اشرف المخلوقات کی پیشانی سے ہٹ چکا ہے، ذہنی آزادی نے مختلف قسم کے چمن کھلا رکھے ہیں اور ہر فرد دوسرے سے ہم آغوش و بغلگیر نظر آتا ہے۔

جس وقت میں تاریک ماضی کی طرف دیکھتا ہوں تو میرا ریشہ ریشہ کانپ اٹھتا ہے ۔ سب سے پہلے مجھے وہ تنگ و تاریک غار نظر آتے ہیں جہاں مقدس اژدہے کنڈلیاں مارے ہوئے قربانیوں کا انتظار کررہے ہیں۔ ان کے جبڑے کھلے ہوئے ہیں۔ ان کی زبانیں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ آنکھیں چمک رہی ہیں اور زہریلے دانت خون آلود ہیں۔ جاہل ماں باپ اپنے معصوم بچوں کو اس افعی دیوتا کے حضور میں پیش کرتے ہیں، وہ اس چیختے تڑپتے ہوئے بچہ کو اپنے بل میں لپیٹ کر پیس ڈالتا ہے اور بے رحم والدین اس ہدیہ کے قبول ہونے پر خوش خوش واپس جاتے ہیں۔ اس کے بعد مجھے وہ عبادت گاہیں نظر آتی ہیں جن کو بڑے بڑے پتھروں سے تیار کیا گیا ہے لیکن یہاں ان کی قربان گاہیں بھی خون سے رنگین ہیں اور مقدس پجاریوں کے خنجر معصوم لڑکیوں کے سینوں میں یہاں بھی پیوست نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ اور معبد سامنے آتے ہیں جہاں مقدس آگ کی روشنی کو انسانی گوشت و خون سے قائم رکھا جاتا ہے ، پھر چند عبادت گاہیں اور دکھائی دیتی ہیں جن کی قربان گاہیں بیلوں اور بھیڑوں کے خون سے تر ہیں ، اس کے بعد مجھے کچھ اور معبد، کچھ اور پجاری ، کچھ اور قربان گاہیں نظر آتی ہیں جہاں انسانی آزادی کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے۔ خدا کے معبد تو نہایت عظیم الشان ہیں لیکن کسانوں کے پاس جھونپڑا تک نہیں۔ پجاریوں اور بادشاہوں کے جسم زرکار عباؤں سے آراستہ ہیں لیکن رعایا کے پاس جسم ڈھانکنے کو بوسیدہ سا چیتھڑا بھی نہیں۔ اور کیا دیکھتا ہوں، یہ کہ قید خانے انسانوں سے بھرے ہوئے ہیں، خارج البلد خانماں برباد بوڑھے، بچے، عورتیں پہاڑوں اور صحراؤں میں سر ٹکرا رہی ہیں۔ آفات تعذیب حرکت میں آر ہے ہیں اور لاکھوں انسانوں کی چیخ سے خانقاہیں گونج رہی ہیں۔ اف، وہ تاریک قید خانے، وہ زنجیر کی جھنکار، وہ آگ کے بلند شعلے، وہ جھلسے ہوئے سیاہ چہرے، وہ اینٹھتے ہوئے اعضا، وہ شکنجوں میں کسے ہوئے ہزاروں معصوم انسان اور وہ ان رگوں کے ٹوٹنے کی آوازیں۔ اس کے بعد جو میری گناہ اٹھتی ہے تو افق میں مجھے ایک نئی روشنی نظر آتی ہے۔ انسانی جسموں کے راکھ کے ڈھیر سے ایک نیا آفتاب طلوع کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے یعنی عقل و مذہب آزادی، اب غلامی کی زنجیریں آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہیں۔ قربان گاہیں فنا ہوتی جاتی ہیں، عبادت گاہیں مسمار ہورہی ہیں۔ زبان کی بندشیں اٹھتی جاتی ہیں اور ذہن و عقل کے قفل ٹوٹتے جارہے ہیں۔ اب میں پھر دیکھتا ہوں لیکن ماضی کی طرف نہیں بلکہ مستقبل کی طرف اور فرط مسرت سے اچھل پڑتا ہوں۔ اس وقت مجھے کیا کیا نظر آتا ہے، یہ کہ پجاری اور بادشاہ ختم ہوچکے ہیں۔ قربان گاہیں اور تخت و تاج خاک میں مل چکے ہیں۔ امارتیں نیست و نابود ہوچکی ہیں اور تمام دیوتا مفقود۔ ان کی جگہ ایک نیا مذہب رونما ہوا ہے، جس کا نام آزادیٔ ضمیر ہے اور ایک نئی سلطنت قائم ہوئی ہے جس کی ملکہ حریت فکر و رائے اور جس کی رعایا اخوت عامہ ہے۔ ہر جگہ امن و سکون ہے، اور ہر شخص مطمئن ، نہ کوئی قید خانہ ہے نہ بیمارستان، نہ عدالت گاہیں ہیں نہ جرم و معاصی کی داستان۔ ایک ایسی دنیا ہے جہاں سوا صداقت کے کسی چیز کا گذر نہیں۔ سوا حسن و جمال کے کوئی شے پیش نظر نہیں۔ جدھر دیکھو نور کی بارش ہے اور انسانی دماغ کی کھیتیاں لہلہا رہی ہیں۔ عقبیٰ کا خوف دنیا کی مسرتوں میں تبدیل ہوچکا ہے اور خدا کا ڈر انسانیت کے محبت میں۔

[pullquote]مذہب کا مستقبل[/pullquote]

اس وقت دنیا مذہب کی طرف سے کافی بدگمان ہوچکی ہے اور اس کا مستقبل بہت تاریک نظر آتا ہے لیکن یہ خیال کرنا کہ یہ مغرب کے اسی عہد کی برکت ہے، درست نہیں۔ مذہب کی طرف سے انحراف کب اور کیوں کر شروع ہوا، اس کا سراغ لگانے کے لیے ہم کو یورپ کی ذہنی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

اس دور میں جس کو ہم دور نشاة ثانیہ یا یورپ میں تہذیب و تمدن کی دوبارہ پیدائش کے نام سے یاد کرتے ہیں، زندگی کے مختلف مسائل پر بحث کرنا ایک عام تفریح ہوگئی تھی۔ اس زمانہ میں، علمی تحقیق و تجسس کا وہ جوش وولولہ پایا جاتا تھا جو یورپ میں روم کی قیصریت کے فنا ہونے کے بعد پھر کبھی نہیں دیکھا گیا۔ لوگوں کو اس وقت یہ پتہ چلا کہ دنیا میں ایسے بھی مسائل پائے جاتے ہیں جن کا نہ انجیل میں تذکرہ ہے اور نہ جن کے متعلق پادریوں کی زبانیں کھلتی ہیں، چنانچہ ایسے ہی مسائل زندگی پر لوگ اکثر آپس میں بحث کیا کرتے تھے۔ اس چیز کی ابتدا سب سے پہلے اٹلی میں ہوئی اور پھر یہ مباحث انگلستان اور فرانس تک پھیل گئے۔

اٹلی کا ایک مشہور اور سابق پادری گیارڈ نو برونو (Giordano Bruno) جب تک قتل ہونے سے محفوظ رہا، برابر پادریوں اور ان کی مہمل تعلیمات پر اعتراض کرتا رہا اور پھر اس نے لندن کو اپنا مستقل قیام گاہ بنا لیا۔ یہاں اس نے اور سر فلپ سڈنی نے (جسے انگلستان میں ایک ”بے داغ ہستی“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) مفکرین کا ایک ایسا حلقہ بنا لیا جو انسان اور کائنات پر بحث کیا کرتا تھا۔

چونکہ اس دور کے اکثر افراد ملحدانہ خیالات کے بھی حامل تھے، اس لیے وہ مذہب کے مستقبل پر بھی بحث کیا کرتے تھے، ان میں سے مشہور ڈراما نویس کرسٹو فر مارلو اور ملکہ الزبتھ کا مشہور درباری سر والٹر ریلے ایک قسم کاکلب بنائے ہوئے تھے جہاں مذہب کے مستقبل پر انتقاد و تبصرہ ہوا کرتا تھا۔ ان میں سے اکثر لوگوں کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ مذہب عیسوی باطل ہے، کیوں کہ علمی و تاریخی تحقیقات عیسویت کے افسانوں کو جھٹلارہی تھیں، جہاز راں ایسے ممالک دریافت کررہے تھے جو کبھی عیسیٰ کے خوب میں بھی نہ آئے تھے۔ منجم کائنات کے بارے میں ایسے انکشافات کررہے تھے جو عقل انسانی کی محدود چہاردیواری کی بنیادوں کو متزلزل کیے دے رہے تھے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واقعہ ہے کہ وہ تحقیق و جستجو صرف ان لوگوں تک محدود تھی جن کے پاس فرصت تھی، دولت تھی اور جو تمام دنیاوی علائق سے بے نیاز ہو کر اپنا سارا وقت اسی قسم کی تحقیق و تجسس میں صرف کرتے، ورنہ قوم کے زیادہ افراد جاہل تھے، وہ مطلق نہیں جانتے تھے کہ تحقیق جدید کیا ہے اور جب کسی بے دین یا ملحد کو زندہ جلتے ہوئے دیکھتے تھے، تو خوش ہوتے تھے، بالفرض تعلیم یافتہ لوگ تو مذہب کو ناپسند کرتے تھے اور اس کے اصول سے انھیں اختلاف تھا لیکن قومی مصالح کی خاطر انھیں اپنے مذہب پر قائم رہنا پڑتا تھا۔

مگر ان تمام مباحث کے دوران ایک چیز کا فقدان تھا ور وہ ارتقا کا خیال تھا ۔ کسی کو یہ تصور بھی نہیں تھا نظام معاشرت کسی وقت بدل جائے گا ، حتیٰ کہ جب سر ٹامس مور نے اپنی مشہور کتاب ”یو ٹوپیا“ لکھی تو بھی اسے ”باغی“ نہیں سمجھا گیا، کیوں کہ اس کتاب کے تجویز کردہ نظام معاشرت کے قوانین بالکل بعید از قیاس سمجھے گئے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے انگریزی میں وہی چیز لکھی تھی جو اٹھارہ صدی قبل یونانی زبان میں افلاطون لکھ گیا تھا۔ تہذیب جدید کے نئے قوانین لوح آسمان پر لکھے جاچکے تھے مگر انسان کی آنکھیں اتنی ضعیف تھین کہ وہ انھیں نہیں دیکھ پاتی تھیں اور اوہام پرستی کی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔

لیکن اب ہماری نگاہوں میں زیادہ بصیرت پیدا ہوگئی ہے اور ہم ان مسائل کو ایسی صداقت کے معیار پر پرکھتے ہیں جس سے پہلے لاعلم تھے، اب ”قانون وقت“ یا ”حقیقت“ لفظ ”ترقی“ (Progress) میں مضمر ہے۔

اگر واقعی نظام اشیا کا کوئی قانون ابدی ہوسکتا ہے تو صرف یہ کہ ایک نظام کو دوسرے نظام میں تبدیل ہونا پڑے گا جیسے رات دن میں تبدیل ہوتی ہے۔ بہار خزاں سے بدلتی ہے اور بچپن جوانی سے بدل جاتا ہے۔ ابھی تک ہم اپنے ”بزرگوں کی عقل“ کی مثالیں پیش کیا کرتے تھے مگر موجودہ زمانہ میں اس فقرہ کو جو استعمال کرے، اسے بالکل احمق سمجھنا چاہیے۔ ہمارے آبا و اجداد نہ ہوائی جہاز بنا سکتے تھے ، نہ ریل چلا سکتے اور نہ موٹر؛ تو پھر ہم انھیں اپنے سے زیادہ عقل مند کیوں تسلیم کریں؟

بہرحال مذہب کو بھی بدلنا ہے اور نصف سے زیادہ دنیا اس کو تسلیم کرچکی ہے، وہ لوگ جن میں غور کرنے کی استعداد و صلاحیت موجود ہے اور ہمارے زمانے کے وہ تعلیم یافتہ مرد و خواتین جن کو پڑھنے اور تصویر کے دونوں رخ دیکھنے کا موقع ملتا ہے، ان میں سے اکثریت کو اس امر کا یقین ہوچکا ہے کہ مذہب مٹ جائے گا۔ اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ انسانی آرا کی دوسری منزل کیا ہوگی؟

وہ پیشین گوئیاں جو ادبیات کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں، قابل تسلیم نہیں۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں بالمیز (Balmes) نے کہا تھا کہ پروٹسٹنٹ تہذیب (جرمنی ،ہالینڈ وغیرہ) ختم ہو رہی ہے، دنیا کے لیے پروٹسٹنٹ مصلحین کا پیغام بے اثر ثابت ہوا ہے اور کیتھولک سلطنتیں مثلاً فرانس، اسپین، پرتگال، آسٹریا وغیرہ دراصل دنیا کی حکمراں بن رہی ہیں مگر اس پیشین گوئی کے نصف صدی بعد یہ دیکھا گیا کہ کیتھولک ممالک تنزل پذیر ہیں ، یا یہ کہ وہ اپنے سابقہ مذہب کو ترک کرچکے ہیں۔ عوام نے یہاں تک کہنا شروع کردیا کہ پیس ثانی (Pius II) آخری پاپائے رومہ ہے، اس کے نصف صدی بعد لارڈ میکالے نے لکھا کہ پاپائے روم کا جھنڈا اڑتا ہی رہے گا۔ آج سے بیس برس قبل ایک پیشین گوئی یہ کی گئی کہ کیتھولک مذہب سب سے پہلے نیست و نابود ہوگا۔ اس کے بعد ایچ۔جی۔ولس نے یہ کہا کہ آج سے ایک ہزار برس کے بعد جدید شہروں میں بھی پیادہ پا راہب چلتے ہوئے دکھائی پڑیں گے۔

لہٰذا اس قسم کی پیشین گوئیوں کو سچا تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ گذشتہ عہد کی پیشین گوئیاں سیاسی یا فوجی نقل و حرکات اور تحریکات کی وجہ سے غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے اب جو پیشین گوئی کی جائے ، وہ بھی غلط ثابت نہ ہو۔ مذہب کے بارے میں آج یہی نظریہ ٹوکیو میں بھی پایا جاتا ہے اور پیکنگ میں بھی، بمبئی میں بھی اور قاہرہ میں بھی، قسطنطنیہ میں بھی اور میکسیکو میں بھی۔

غرضیکہ مقامی حالات کچھ ہوں، اقوام عالم ان مسائل پر اس وقت تک رائے زنی کرتی رہیں گی جب تک ان کا منطقی حل نہ معلوم ہوجائے مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ اس منطقی حل کو معلوم کرنے کے شرائط ہر دس برس کے بعد بدل جاتے ہیں اور ان میں سب سے بڑی شرط ”علم“ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر عہد میں ایک الحاد پسند قلیل اقلیت یونان، روم، قرطبہ، فلورنس اور تقریباً ہر مقام پر پائی گئی اور آخر میں اقلیت کا خاتمہ ہوگیا لیکن یہ نتیجہ تھا اس امر کا کہ ”کلچر“ صرف اعلیٰ طبقوں تک محدود تھا اور اب یہ ”کلچر“ جمہوری ہے۔ آج۵۰ کروڑ انسان پڑھ سکتے ہیں اور ۵۰ برس کے بعد ان کی تعداد دو چند ہوجائے گی۔

پھر یہ تو درست ہے کہ دنیا ہمیشہ مذہب کے بارے میں بحث کرتی رہے گی لیکن یہی کیوں فرض کر لیا جائے کہ ان مباحث کا منطقی نتیجہ الحاد و بے دینی کی صورت میں ظاہر ہوگا اور یہ کہ کیا یہ چیز ان پیشین گوئی کرنے والوں کا رسمی ”فریب“ (Fallacy) نہیں ہے۔

ہر پیشین گوئی کی سب سے بڑی کمزوری پیشین گوئی کی خودسری ہے، وہ اپنے آپ کو اتنا عقل مند تصور کرلیتا ہے کہ جو کچھ اس کے خیالات ہیں، آنے والی نسل ان کو بے چون و چرا قبول کرلے گی، خصوصاً سیاسی و اقتصادی نظریات کی دنیا میں کہ کتابوں اور واعظوں کے لکچروں کو جب کوئی شخص دیکھتا اور سنتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ کیتھولک کو یہ یقین رہتا ہے کہ ساری دنیا اسی کی ہم خیال بن جائے گی، موحد کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب وحدانیت تمام عالم کا ایمان بن جائے گا لیکن جب جارج برنارڈ شا آتا ہے تو وہ ان سب خیالات کو ٹھکرا کر ایک نئی بات کہتا ہے کہ مستقبل کا مذہب کیا ہوگا؟

الغرض ان معاملات میں صورت حال یکساں ہوتی ہے، پیشین گو کے دلائل بہت سادہ ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ حقیقت و صداقت سے میں ہی آشنا ہوں اور چونکہ تمام دنیا میری ہی طرح صداقت پرست ہونے والی ہے، لہٰذا میری بتائی ہوئی صداقت کو ضرور تسلیم کیا جائے گا۔
مگر اپنے نظریہ کو اس طرح نہیں ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ میرا خیال یہ ہے کہ مذہب اپنی ہر شکل میں ایک دھوکا ہے، ایک وہم ہے اور میرا عقیدہ یہ ہے کہ انسانی زندگی اور انسانی فطرت کے پاس وہ ذرائع و اختیارات موجود ہیں جن کو مذاہب عالم نے ہم میں بڑھنے سے روکا ہے اور جب یہ تمام مظالم اور تمام دھوکے ختم ہوجائیں گے اور جب انسان کو اپنی صحیح طاقت کا اندازہ ہوجائے گا تو ایک ایسا نظام تیار ہوگا جو موجودہ نظام سے کہیں زیادہ خوشگوار اور دلکش ہوگا۔

میں یہ اس وجہ سے نہیں کہتا کہ میرا یہ عقیدہ مجھے اصل ”صداقت“ یا حقیقت معلوم ہوتا ہے بلکہ میں یہ اس واسطے کہتا ہوں کہ دنیا اسی سمت جارہی ہے، آگے چل کر میں ”مذہب“ کی داستان مختصر الفاظ میں بیان کروں گا۔

[pullquote]تجربٔہ سابق[/pullquote]

مذہب کی داستان کئی ہزار برس کی پرانی داستان ہے اور مذہب کی ابتدا تلاش کرنے کے لیے ہم کو ”عہد حجری“ سے بھی قدیم تر زمانہ کی طرف نظر دوڑانی پڑتی ہے لیکن یہان کسی مدت پر بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ مدعا صرف یہ کہنا ہے کہ اپنے ابتدائی دور ہی سے مذہبی خیالات میں تدریجی ارتقا ہوتا رہا ہے۔ اس ارتقا میں کوئی تحریک جذبات نہ شامل تھی بلکہ تفکر و واقعات کا ایک منطقی تسلسل تھا یا جیسا کہ اعتدال پسند مذہبی لوگ کہتے ہیں، یہ ارتقا کسی بیرونی قوت کی طرف سے کوئی ”الہام“ نہیں ہے اور اقوام عالم کی معیار عقل کے مطابق خدا نے اپنے آپ کو مختلف شکلوں میں ظاہر کیا ہے لیکن واقعات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہب پہلے ایک مضرت رساں خیال تھا اور رفتہ رفتہ وہ بدتر ہوتا گیا۔

اگر تمام نسل انسانی برابر رفتار سے چلتی تو آج ہم مذہب کی ابتدا اور اس کے ارتقا کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوتے مگر انسان نے اپنے تجربات صرف پانچ چھ ہزار برس پیشتر سے محفوظ رکھنا شروع کیے، یہاں تک کہ فرضی داستانیں (Legends) بھی بہت پرانی نہیں ہیں لیکن انسانوں کی یہ داستان ہر واقعہ سے اتنا متاثر ہوئی ہے کہ نسل انسانی کے مختلف حصوں نے عام ارتقا میں ہر منزل پر ترقی نہیں کی۔ بہرحال آج ہم دو انسانی سلسلے (Series) شمار کراسکتے ہیں۔ ایک تو ان قبل تاریخ (Pre-Historic) قوموں کا سلسلہ جو لاکھوں برس پہلے گذررہی ہیں۔ دوسرے وحشیوں کا زمانہ، یہ دونوں مدتیں تقریباً یکساں ہیں، کیوں کہ دونوں زمانہ قبل تاریخ میں گذری ہیں، اور ان قوموں کے خیالات سے تفکر انسانی کے ارتقا کے گذشتہ منازل ہم کو معلوم ہوسکتے ہیں ، اس کے بعد تہذیب قدیم کے مذہب کا پرانی عمارتوں سے پتہ چلتا ہے اور پھر ادبیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب کے بارے میں لوگوں کے کیا خیالات تھے۔ ادب سے گذشتہ تین ہزار برس قبل کے مذہبی ارتقا کا حال معلوم ہوتا ہے جو مختلف مذہبی مرکزوں مثلاً چین، ہندوستان، ایران، یونان، روم اور مصر وغیرہ میں عیسائیت کے قبل پایا جاتا تھا اور جو سبق اس سے ہم کو ملتا ہے، وہ اس کے بالکل مطابق ہے جو اس وقت سے اس وقت تک ہوتا رہا اور اب بھی ہورہا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہر قسم کی آب و ہوا اور ہر قسم کی اقتصادی حالت میں مذہب کا ارتقا اتنا یک رنگ و یکساں رہا ہے کہ خود ایک مذہبی آدمی اس کا مستقبل دیکھ سکتا ہے۔ جن واقعات نے انسانی ترقی کو (ایسے ممالک میں جہاں ترقی کے وسائل تھے) روک دیا، وہ لڑائیاں یا ایسی غلطیاں تھیں جو ہمیشہ تہذیب کو مٹاتی رہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ الحاد اسی زمانہ میں پھیلا جب تہذیب اپنے انتہائی عروج پر ہوئی اور جب تخریبی قوتوں نے علم کو مٹادیا اور جہالت کا دور دورہ ہوا تو الحاد کا بھی خاتمہ ہوگیا ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب علم کی ترقی ہوتی ہے تو مذہب کی بنیادیں کمزور ہوجاتی ہیں اور جو تہذیب مٹنے لگتی ہے تو اس میں پھر قوت آجاتی ہے۔

[pullquote]مذہب اور فطرت انسانی[/pullquote]

میری رائے میں مذہب کی ابتدا کا حال بالکل ایسا ہے جیسے پرانے زمانے کے حبشی کا تصور اپنے سایہ کے بارے میں، میں نے دیکھا ہے کہ اگر کسی کتے کی عمر میں پہلی بار ژالہ باری سے سابقہ پڑے تو وہ بے انتہا حیرت زدہ ہوجاتا ہے یا گر کوئی بلی پہلی مرتبہ کسی کچھوے کو رینگتے ہوئے دیکھتی ہے تو وہ بہت متعجب ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح زمانٔہ قدیم کے انسان میں ممکن ہے ایسے ردعمل ہوتے ہوں مگر ان کا مذہب سے اس وقت تک کوئی تعلق نہیں ہوا جب تک وہ یہ خیال کرنے لگا کہ جو چیز ان کا باعث ہے، وہ ایک غیبی طاقت ہے۔

اسی طرح یہ نظریہ بھی غلط ہے کہ انسان نے پہلے ایک مبہم طاقت کا تصور کیا اور پھر یہی چیز شخصی روحوں (Souls) میں تبدیل ہوگئی۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ روح کا سب سے پرانا نام ”سایہ“ (Shadow) ہے اور جب ہم اپنے آپ کو ایک قدیم وحشی کی جگہ دیکھتے ہیں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ غالباً سایہ کا حیرت انگیز وجود پر غوروفکر پہلی چیز تھی جس نے قدیم انسان کے دماغ میں تصور کی جھلک پیدا کی۔ اب سے سو برس قبل جب مشنریوں اور سیاحوں نے وحشیوں کے خیالات کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے کسی کے خیالات اخلاق پر مبنی نہیں ہیں اور بعض کے تو مذہبی خیالات بھی نہیں، بعض ”ہمزاد“ یا ”سایہ“ پر یقین کرتے ہیں اور بعض انسان کے ”دوسرے حصے“ پر جو موت کے بعد بھی زندہ رہتا ہے، کامل اعتقاد رکھتا ہے۔

دوسری منزل یا حیات بعد الموت کا خیال بھی تمام دنیا میں متوازی نظر آتا ہے، یعنی کہ مردوں کی روحیں زندہ رہتی ہیں اور ان کی سرگرمیاں زیادہ بڑھ جاتی ہیں ، نیز یہ کہ ارواح بہت رنجیدہ اور خشک مزاج ہوتی ہیں ، گویا زندگی ترک کرنے سے ان کو تکلیف پہنچی ہے ، اس کا اظہار وہ خشونت سے کرتی ہیں یا یہ کہ چونکہ اب وہ کسی کو نظر نہیں آتیں، اس لیے وہ ایسے کام کرنے لگتی ہیں جو پہلے گوشت پوست کی زندگی میں راز کھل جانے کے ڈر سے نہ کرسکتی تھیں۔ بہرحال وجہ کچھ بھی ہو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذہب نے ایک وحشی کی زندگی کو کچھ عرصہ بعد تکلیف دہ بنانا شروع کردیا تھا۔ ان ارواح کو تمام بیماریوں اور مصیبتوں کا ذمہ دار سمجھا جانے لگا اور چونکہ ہر آدمی کے مرنے کے بعد ایک خبیث روح بڑھتی ہے، لہٰذا انسانی آبادیاں انھیں ارواح سے معمور نظر آنے لگیں۔ بعد کو وہ زمانہ آیا جب ان ارواح کے لیے خاص جگہیں (مثلاً آسمان یا زمین) میں مقرر کردی گئیں، ان میں سے بعض ایسی بھی سمجھی جانے لگیں جو آدمیوں کی مدد کرتی ہیں لیکن عام نظریہ یہی تھا کہ وہ عموماً شر ہوتی ہیں۔

[pullquote]مذہبی ”مقدسین “ کا ظہور[/pullquote]

مذہب کے اس ابتدائی دور میں زیادہ اظہار خیال کی حالت میں گریز کرے گا، جب کہ وہ عیسائی مذہب کو نہیں پسند کرتا۔ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھتا ہے اور دوسرا کہہ سکتا ہے کہ اس کا خدا پر کوئی اعتقاد نہیں مگر پھر بھی ایک عالمگیر قوت کا دونوں کو احساس ہوسکتا ہے۔ ایک آدمی مختلف علوم کا ماہر ہوسکتا ہے مگر اس کا بھی امکان ہے کہ اس نے مذہب پر کبھی غور نہ کیا ہو۔
بہرحال یہ طے شدہ امر ہے کہ مذہب بحیثیت ایک مجموعٔہ عقائد کے تعلیم یافتہ طبقہ سے اپنا اثر زائل کرتا جارہا ہے اور چونکہ آج تعلیم عام ہوچلی ہے، اس لیے یہ بھی صحیح ہے کہ گویا عوام پر سے اس کا اثر زائل ہورہا ہے، یہ مسئلہ مذہب میں اصلاح کرنے کا نہیں ہے، کیوں کہ اگر اس نظریہ کو مان لیا جائے تو پیغمبروں پر حرف آتا ہے ، نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اصول مذہب سے انکار کر کے صرف اخلاقیات کو مانا جائے ، کیوں کہ اس نظریہ کو ایک قلیل اقلیت کے علاوہ اور کوئی نہ تسلیم کرے گا ۔ اور ان سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مذہب کا زوال یقینی ہے۔

اسی کے ساتھ واقعات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خدا پرستی کا زوال بھی لازمی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ پچاس برس سے وحدانیت کس طرح اپنی جگہ پر قائم ہے اور الحاد کتنا پھیل رہا ہے ، لہٰذا اب جب کہ علم عام ہورہا ہے ، مستقبل کا حال ظاہر ہے۔ خدا کے خیال کو ، خواہ کتنا ہی پاکیزہ کیوں نہ بنایا جائے، مگر اب وہ باقی نہیں رہ سکتا۔

گذشتہ نصف صدی میں کئی مذاہب پیدا ہوئے اور ان کے معتقدین کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی گئی مگر پھر بھی ان کے پیروؤں کی تعداد میں بیس لاکھ سے زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ حالاں کہ ۲۰ کروڑ آدمی ایسے ہوگئے ہیں جو مذہب سے بالکل بے پروا ہیں، در آنحالیکہ ہمارے نصاب تعلیم میں مذہب پر خاص زور دیا جاتا ہے، بہرحال مذہب کا خاتمہ اب کچھ مدت کی بات ہے۔ اس کے ساتھ ہی ذرا صور ت حال پر نظر ڈالیے کہ (صرف عیسائی) ممالک میں مبلغین مذہب کی تعداد تقریباً پانچ لاکھ ہے اور ان کے مقابلے میں بے دینی پھیلانے والے ۵۰۰ کے تناسب سے زیادہ نہیں، اس پر طرہ یہ کہ مذہب کی طرف سے کروڑوں روپیہ بھی ہر سال خرچ ہوتا ہے ، کیا اس حالت پر غور کرنے کے بعد بھی مذہب کے مستقبل کے متعلق کوئی شک باقی رہ جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ ممالک میں تو مذہب تقریباً ختم ہوگیا ہے ، البتہ جاہل ملکوں میں اکثریت مذہب کی پابند ہے مگر وہ بھی اس وقت تک اسے مانتی رہے گی جب تک وہاں تعلیم عام نہیں ہوتی، بہرحال کچھ بھی ہو اس صدی کے آخر میں اگر کہیں مذہب قائم بھی رہا تو وہ انتہائی نفرت خیز چیز ہوگی۔

یاد رکھیے کہ مذہب کا خاتمہ وہ مبارک گھڑی ہوگی جب ہم مردہ انسانوں سے مدد مانگنے کے بجائے اپنی عقل سے امداد کے طالب ہوں گے اور ہم میں ایک ایسی زندگی پیدا ہوجائے گی جو تمام زندگیوں سے لطیف تر، خوش گوار تر اور مرغوب تر ہوگی۔

[pullquote]روایت و معجزہ کی حقیقت[/pullquote]

زندگی کا صحیح مقصد حصول مسرت ہے اور ذہن انسانی مجبور ہے کہ وہ مسرت کے واقعی اسباب و شرائط معلوم کرے۔ واضح رہے کہ مسرت سے مراد میری صر ف کھانا پینا نہیں، محض جسمانی راحت و آسائش نہیں بلکہ بلند قسم کی وہ مسرت ہے جو ادائے فرائض کے بعد حاصل ہوتی ہے، جو لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے کے بعد محسوس ہوتی ہے جو فطرت کے مطالعہ اور حسن مجرد کے احساس سے پیدا ہوتی ہے اور جو آزادیٔ ذہن و ضمیر کی پیداوار ہے۔

لیکن آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو مسرت کی خواہش کو ٹھکراتا ہے جو حریت فکر و رائے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور جس نے عقل انسانی کو شل کردینا ہی اپنی مقصود زندگی قرار دے رکھا ہے، یہ گروہ اپنے آپ کو اہل مذہب اور روحانیت پرست کہتا ہے۔ یہ گروہ وہ ہے جو احساسات مسرت کو وسوسٔہ شیطانی کہتا ہے، یہ اس دنیا کی زندگی سے نفرت کرتا ہے اور اس کی تمام خواہشات کا تعلق کسی دوسری دنیا سے ہے ، جس کا اصطلاحی نام اس نے ”حیات بعدالموت“ رکھا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا نے اس کو اپنی ”تسبیح و تہلیل“ کے لیے منتخب کرلیا ہے، پیام ربانی کے لیے اس کی زبان مخصوص ہے اور صداقت و حقیقت کا نام ہے صرف اس چیز کا جو اس کے دل و دماغ سے پیدا ہو۔

اس جماعت نے ہمیشہ عقل و علم سے دشمنی کی، ”ذہن انسانی“ کو اس نے ہمیشہ کند رکھنا چاہا اور اس نے علم و یقین کا ماخذ ہمیشہ غیر فطری کرامات و معجزات کو قرار دیا ہے، اس لیے دنیا میں صرف نفرت، تعصب اور خوف کی اشاعت کی۔ اس نے مفکرین کو ہمیشہ اپنا دشمن سمجھا ، اس نے محنت و عمل سے ہمیشہ جی چرایا اور اسی کو برگزیدہ قوم سمجھا جس کے لیے غیب سے من و سلویٰ نازل ہوسکتا ہے۔

یہ جماعت اپنا ایک لٹریچر بھی رکھتی ہے جسے مختلف ناموں سے مختلف قوموں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور اس لٹریچر میں وہ سب کچھ ہے جسے عقل انسانی کبھی تسلیم نہیں کرسکتی۔ اس میں تخلیق کائنات کا بھی ذکر ہے اور آفرنیش انسان کا بھی۔ اس میں تاریخ قدیم کے ٹکڑے بھی نظر آتے ہیں اور اخلاق کے درس بھی لیکن بایں ہمہ یہ محض روایت و داستان ہے جس کو حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں یا پھر ان ہدایات کا مجموعہ ہے جو محض تعصب و تنگ نظری کی پیداوار ہیں۔

انھوں نے ہمیشہ خدا کا ڈر دکھا کر اپنا اثر قائم کیا۔ انھوں نے ہمیشہ دنیا کو یہی یقین دلایا کہ اگر ان کی دعائیں شامل حال نہ ہوں تو بارش بند ہوجائے۔ کھیتیاں برباد ہوجائیں، دنیا قحط و وبا سے فنا ہوجائے اور جب کبھی کوئی مصیبت نوع انسانی پر نازل تو انھوں نے اس کو اپنی ہی بددعاؤں کا نتیجہ بتایا۔ پھر انھوں نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ جب کبھی انھیں اقتدار حاصل ہوا؛ علم کو روندا گیا۔ عقل پامال کی گئی ، آزادی کو مٹایا گیا۔ مفکرین عالم کو قید میں ڈالا گیا۔ ارباب فضل و کمال کو ذبح کیا گیا اورخدا کے نام پر وہ سب کچھ کیا گیا جسے شیطان بھی گوارا نہ کرسکتا تھا۔

لیکن مذاہب کا ظہور، مذہبی کتابوں کی پیداوار، خانقاہوں کی تعمیر اور اہل خانقاہ کا وجود، کوئی غیر فطری بات نہ تھی، بلکہ عہد وحشت کے غاروں سے لے کر موجودہ دور تہذیب تک انسان نے جو تدریجی ترقی کی ہے، اسی کے یہ لازمی مظاہر تھے۔ دنیا کی تاریخ میں اتفاق کوئی چیز نہیں ہے، نہ اس میں معجزہ و خرق عادات کو کوئی دخل ہے اور نہ غیبی مداخلت کو ہر شے اور ہر حالت و اقعات سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے اگر ہمارے اسلاف کے دلوں میں مذہب و روحانیت کا خیال پیدا ہوا تو وہ بالکل فطری خیال تھا، کیوں کہ ان کی عقل زیادہ سے زیادہ یہیں تک پہنچ سکتی تھی اور وہ اس کو سچ سمجھ کر پیش کرتے تھے۔

تمام زمانوں میں انسان نے اپنے اور اپنے ماحول کے سمجھنے کی کوشش کی ہے، وہ دیکھتا تھا اور تعجب کرتا تھا کہ پانی کیوں برستا ہے، درختوں کا نشوو نما کیوں ہوتا ہے، بادل کیوں کر معلق فضا میں اڑتے ہیں، ستاروں کی چمک کہاں سے آتی ہے، چاند سورج کو کون اِدھر سے اُدھر لے جاتا ہے۔ وہ سوچتا تھا کہ زندگی کے بعد موت کا سکون کیا۔ بیداری کے بعد نیند کیسی، روشنی کے ساتھ تاریکی کیا معنی۔ بجلی اور کڑک کو دیکھ کر وہ سہم جاتا تھا۔ زلزلوں اور پہاڑوں کی آتش فشانیاں دیکھ کر وہ لرزہ براندام ہو جاتا تھا اور چونکہ وہ ان کے طبعی حدوث کے اسباب سے ناواقف تھا ، اس لیے وہ سمجھتا تھا کہ ان تما م حوادث کے پیچھے کوئی عظیم الشان، ذی حیات ہستی ضرور ایسی موجود ہے جو ان تمام مناظر و مظاہر کی پیدا کرنے والی ہے اور انھیں کو وہ دیوتا یا دیوی سمجھ کر ان سے ڈرنے لگا اور ان کی پوجا کرنے لگا۔

طلوع صباح کو وہ سمجھنے لگا کہ یہ کوئی نہایت ہی حسین و جمیل دیوی ہے، آفتا ب کو اس نے ایک جنگجو عاشق مزاج دیوتا فرض کر لیا۔ رات کو اس نے سانپ یا ناگ سمجھ لیا اور ہوا کو مغنی، جاڑے کو اس نے ایک ایذا رساں درندے سے تعبیر کیا اور خزاں کو ایسی دیوی سے جو دنیا کے سب پھول چن کر لے جاتی ہے، الغرض اس طرح کی سیکڑوں تعبیریں، ہزاروں تفسیریں، اس نے مناظر فطرت اور حوادث طبعی کی اپنی ذہانت سے پیدا کیں اور ان کو حقیقت جان کر پھیلانا شروع کیا۔ اقوام عالم کی روایات مذہبی یا ”اساطیر الاولین“ پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان کی بنیاد یکسر انھیں شاعرانہ تعبیروں اور اسی قسم کی قیاسات ضعیفہ پر قائم ہے ، چنانچہ باغ عدن کی روایت کو دیکھیے کہ وہ دنیا کی ہر قوم میں پائی جاتی ہے، کیوں کہ جب وہ مصائب سے گھبرا اٹھی تو اپنی تسکین کے لیے اس نے ایک ایسی دنیا کا تخیل پیدا کیا جہاں راحت ہی راحت ہے۔

اسی طرح طوفانوں کی روایت، ایشیا و یورپ کے تمام قدیم قوموں میں پائی جاتی ہے، انھوں نے گھونگھے، سیپیاں اور لہروں کے نشانات، پہاڑوں ، وادیوں اور میدانوں میں دیکھ کر خیال کیا کہ کسی وقت ضرور ساری دنیا پر طوفان آیا تھا جس سے سوا چند مقبول بندوں کے کوئی جانبر نہ ہوسکا۔ توریت، انجیل اور کلام مجید کے علاوہ ہندوں میں بھی یہ روایت موجود ہے کہ منو نے ایک بار گنگا میں کوئی ظرف ڈبو کر پانی لیا ، اس میں ایک مچھلی بھی آگئی۔ مچھلی نے التجا کی کہ مجھے پھر پانی میں چھوڑ دیجیے۔ منونے رحم کھا کر اسے چھوڑ دیا لیکن مچھلی نے اس احسان کے عوض میں ان کو بتایا کہ ایک بڑا زبردست طوفان آنے والا ہے۔ آپ ایک کشتی بنا کر اس میں اپنے ساتھیوں کو معہ مویشیوں کے بٹھا لیجیے۔ میں بروقت پہنچ کر آپ کی مدد کروں گی، چنانچہ منو نے اس کی تعمیل کی اور جب طوفان آیا تو مچھلی حاضر ہوئی لیکن اب وہ بڑی مچھلی ہوگئی تھی جس کے سر پر ایک سینگ بھی نکلا ہوا تھا۔ منو نے ایک رسی اس کے سینگ سے باندھ کر کشتی میں اٹکا دی اور وہ طوفان سے کشتی کو بچا کر ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے گئی اور طوفان کے ختم ہونے تک منوجی یہیں ٹھہرے رہے۔ ان تمام روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے زندگی اور موت کے اسرار کو کس کس طرح سمجھنے کی کوشش کی اور ان کوششوں میں اس کے کتنے اندیشے، کتنی امیدیں، کتنی مسکراہٹیں اور کتنے آنسو شامل تھے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا اولین مذہب ”آفتاب پرستی“ تھا اور یہ بالکل فطری بات تھی، کیوں کہ روشنی ہی زندگی ہے اور اسی سے زندگی میں حرارت قائم رہتی ہے۔ اپالو بھی سورج تھا جو رات کے ناگ کو شکست دے کر بھگا دیتا تھا۔ اگنی بھی سورج تھا جو انسان کے ہر ہر جھونپڑے کی حفاظت کرتا تھا۔ کرشن بھی سورج ہی تھے کہ ان کی ولادت کے وقت تمام درخت ہرے بھرے ہوگئے، ہرقلس بھی سورج دیوتا تھا، جونا (یونس) بھی وہی تھا اور یہ سب کے سب ۲۵ دسمبر ہی کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ سب نے چالیس دن کا روزہ رکھا۔ سب غیر طبعی موت سے مرے اور پھر زندہ ہوئے۔ اب مسیح کے حالات کا ان روایات سے موازنہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ وہاں بھی سب کچھ یہی ہے، ۲۵ دسمبر کو ایک غار میں پیداہوئے، ہیروڈ نے بہت سے بچوں کو ان کے دھوکے میں ہلاک کیا۔ چالیس دن (چالیس کا عدد مذاہب عالم کی تاریخ میں بہت نظر آتا ہے۔ طوفان سے پہلے چالیس دن بارش ہوتی رہی، موسیٰ چالیس دن کوہ سینا پر رہے۔ چالیس سال تک بنی اسرائیل صحراؤں میں پھرتے رہے) کا روزہ رکھا ۔ غیر طبعی موت سے مرے اور پھر زندہ ہوئے۔ عیسیٰ بھی سورج دیوتا تھے ، اور یقینا تمام مذاہب کی ابتدا آفتاب پرستی ہی سے ہوئی ، چنانچہ اس وقت بھی عبادت کے وقت لوگوںکا آنکھیں بند کر لینا اسی زمانہ کی یادگار ہے، کیوں کہ وہ سورج کو نہ دیکھ سکتے تھے اور آنکھیں بند ہوجاتی تھیں۔

اس کے علاوہ جب ہم امم سابقہ کی دیگر مذہبی روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کے مذاہب میں کوئی نئی بات نہیں پائی جاتی۔ ان کے تمام مراسم و عبادات کا رشتہ عہد قدیم کے مذاہب ہی سے جا کر مل جاتا ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ عیسائیوں میں بپتسمہ یا اصطباغ کی رسم پائی جاتی ہے، لیکن یہ عیسویت سے بہت پہلے کی چیز ہے۔ ہندوؤں، مصریوں، یونانیوں اور رومیوں میں بھی مقدس پانی کا وجود پایا جاتا تھا۔ صلیب کا خیال بھی نہایت قدیم خیال ہے ۔ یہ علامت تھی غیر فانی ہونے کی؛ زندگی کی، اگنی کی۔ قبر انسانی کی، اٹلی کی قدیم آبادی (رومیوں سے بہت پہلے کی) قبروں پر صلیب ہی کا نشان قائم کرتی تھی۔ وسطی امریکہ کے قدیم معبدوں میں صلیبی نشان کثرت سے دریافت ہوئے ہیں۔ بابل کی سرزمین سے جو اسطوانے یا نلکے دریافت ہوئے ہیں، ان پر بھی صلیب کا نشان موجود ہے۔ اسی طرح تثلیث کا خیال بھی بہت پرانا ہے اور قدیم مصر میں پایا جاتا تھا۔

ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ اساطیر و معجزات میں بہت فرق ہے۔ اساطیر نام ہے کسی بات کی خیالی تصویر پیش کرنے کا اور معجزہ کہتے ہیں کوئی بات گھڑ کر بیان کرنے کو۔ اگر تم کسی سے کہو کہ دوہزار سال قبل مردے زندہ ہوگئے تھے، وہ غالباً کہے گا ؛ ہاں ہوا ہوگا۔ اگر تم اس سے کہو کہ ایک لاکھ سال بعد تمام مردے زندہ ہوجائیں گے تو وہ کہے گا ، دیکھو کیا ہوتا ہے۔ لیکن اگر تم یہ کہوگے کہ کیا تم نے خود قبر کے اندر سے کسی مردے کو باہر نکلتے ہوئے دیکھا ؛ تو وہ تمھیں دیوانہ سمجھ کر کوئی جواب نہ دے گا۔

مذہبی کتابیں اسی قسم کے بیانات سے معمور ہیں۔ خدا نے یہودیوں کے لیے جتنے معجزات سے کام لیا، وہ سب کو معلوم ہیں۔ ان کو غلامی سے آزاد کرانا بھی معجزوں ہی کے ذریعے سے ہوا۔ جب وہ مصر سے باہر نکلے ہیں تو دن کو بادل اور رات کو روشنی کا ایک ستون آگے آگے رہنمائی کے لیے ہوتا تھا۔ دریائے نیل ان کے لیے شق کیا گیا ، من و سلویٰ ان کے لیے آسمان سے نازل کیا گیا لیکن یہودیوں نے ان میں سے کسی معجزہ کی پروا نہیں کی اور جب تک بچھڑا بنا کر پوج نہیں لیا، انھیں چین نہ آیا۔

اسی طرح مسیح نے بہت سے معجزے پیش کیے لیکن بالکل بے نتیجہ۔ وہی مردے جن کو انھوں نے زندہ کیا، وہی اندھے جن کو انکھیارا بنایا اور وہی کوڑھی جنھیں اچھا کیا، ان پر ایمان نہ لائے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس کا کیا سبب تھا۔ صرف یہ کہ معجزے کبھی ظاہر نہیں ہوئے بلکہ یہ سب داستانیں ہیں جو صدیوں بعد گھڑی گئیں۔

پانی کو شراب بنادینا، سیکڑوں آدمیوں کو صرف ایک روٹی سے سیر کردینا، اندھے کو مٹی لگا کر بینا بنا دینا، طوفان کو خاموش کردینا، پانی پر چلنا؛ یہ سب باتیں ہیں جنھیں انسان سوچتا تھا، جن کے پورا ہونے کی تمنائیں رکھتا تھا اور انھیں کی تکمیل کو سب سے بڑی نعمت سمجھ کر اظہار عظمت و تقدس کے لیے اس نے پیغمبروں سے منسوب کردیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا جہل و خوف سے معمور تھی اور اپنی ہر مشکل میں مافوق الفطرت ہستی سے امداد کی توقع رکھتی تھی، چنانچہ انھوں نے ان مفروضہ غیر انسانی ہستیوں کو خوش کرنے کے لیے مندر بنائے، قربان گاہیں تیار کیں۔ ان کے سامنے رگڑی قربانیاں چڑھائیں اور وہ سب کچھ کیا جس سے وہ خود خوش ہوسکتے تھے لیکن ان آسمانی قوتوں نے ایک نہ سنی۔ ان میں سے کوئی انسان کی فریاد کو نہ پہنچا۔ طوفان بھی آئے، کھیتیاں بھی برباد ہوئیں، وبائیں بھی پھیلیں، جن کو برے حال جینا تھا، وہ برے حال ہی جیے اور جنھیں مرنا تھا وہ مرہی گئے۔

انسان یہ سمجھتا تھا اور اب بھی مذہبی انسان یہی سمجھتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ پیدا ہوا ہے وہ اسی کے لیے ہے۔ اسی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے کائنات وجود میں آئی ، چنانچہ وہ ہر چیز پر قابض ہونا چاہتا تھا اور جب ناکام رہتا تھا تو سمجھتا تھا کہ خدا ضرور اس کی مد د کرے گا، حالاں کہ اگر دنیا میں ایک انسان نہ ہوتا تو بھی سورج کا یہی طلوع و غروب ہوتا۔ یہی بہار و خزاں ہوتی، گلاب اسی طرح کھلتا۔ انگور کی بیلیں اسی طرح پھل لاتیں۔ وہی سمندر کا مدو جزر ہوتا اور وہی رات دن، وہی طوفانی ہوائیں ہوتیں اور وہی رعد و برق۔ جب ایک زمانہ، ایک غیر محدود زمانہ انسان پر اسی جہل و بے بصری کی حالت میں گذر گیا تو کچھ لوگ سوچنے والے پیدا ہوئے اور انھوں نے ان روایات و معجزات کو شک کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا۔ انھوں نے غور کیا کہ کسوف و خسوف کیوں مقررہ وقفہ کے بعد ہوتا ہے اور آخر کار انھوں نے اس کی وجہ معلوم کر کے سمجھ لیا کہ اجرام فلکی کی گردش اولاد آدم سے بالکل بے نیاز ہے اور انسان خود بھی مظاہر طبیعی کا ایک معمولی مظہر ہے۔

گلیلیو ، کوپر نکس اور کپلر نے مذہب کی بتائی ہوئی ہیئت کو درہم برہم کردیا، زمیں چپٹی ہونے کے بجائے گول اور ساکن ہونے کے بجائے متحرک ہوگئی۔ آسمان بجائے ٹھوس ہونے کے خلا محض بن گیا اور سارا بنا بنایا کھیل مذہب والوں کا بگڑ گیا۔

ظاہر ہے کہ مذہب اپنی روایات کی اس تکذیب و توہین کی برداشت نہ کرسکتا تھا ، وہ تاریکی جو زمانٔہ معلوم سے دماغوں پر مسلط تھی، یوں آسانی سے دور نہ ہوسکتی تھی۔ آخر کار جہل نے علم کے خلاف ایک محاذ جنگ قائم کیا، اور مذہب کے درندہ نے جس کے پنجے ہمیشہ خون سے رنگیں رہے ہیں، برونو کے خلاف اپنا چنگل بڑھایا اور محض اس خطا پر کہ وہ اس کرہ کے علاوہ اور کروں کا بھی قائل تھا۔ اسے کافر و ملحد قرار دے کر سات سال کے لیے قید کرلیا گیا کہ اگر وہ اپنے الحاد سے باز آجائے تو رہا کیا جا سکتا ہے لیکن اس نے کہا کہ ایک حق بات سے انکار کیوں کر ممکن ہے اور آخر کار پا بہ زنجیر اسے قصاص گاہ میں لے گئے اور بہت سی لکڑیاں جمع کر کے چتا میں آگ لگا دی گئی اور وہ جل کر راکھ ہوگیا۔ الغرض مذہب نے عقل و علم کو شکست دینے کی ہر امکانی کوشش کی لیکن جہل کے پاؤں جب ایک بار اکھڑ جاتے ہیں تو پھر مشکل سے جمتے ہیں۔ عقل کی روشنی پھیلتی رہی اور مذہب کی تاریکی سمٹتی رہی۔

جانباز ان علم اٹھے اور انھوں نے سمندروں، پہاڑوں اور وادیوں میں جانیں دے دے کر وہ وہ باتیں دریافت کیں جو مذہب کی دسترس سے باہر تھیں۔ انھوں نے بخار و برق کی قوت سے دریافت کرکے انسان کو دیوتا بنا دیا، لیکن اہل مذہب بدستور دیوتاؤں کے غلام ہی بنے رہے۔ مذہب والے مفروضۂ معجزہ ہی بیان کرتے رہے اور انھوں نے انھیں پورا کرکے دکھادیا، یعنی انسان کی جن تمناؤں کو دیوتا پورا نہ کرسکے تھے، اسے علم و عقل نے پورا کردیا۔

سائنس بتاتی ہے کہ نہ تخلیق کوئی چیز ہے ، نہ فنا کوئی چیز، ایک لامحدود ہستی کا وجود، ایک لامحدود استحالٔہ عقلی ہے، کائنات کے تمام مظاہر و مآثر اسباب و نتیجہ سے وابستہ ہیں اور اشیا کے اسی فطری رابطہ کو ایک نے نہ سمجھا اور مذہب بن گیا، دوسرے سے سمجھ لیا اور علم کہلایا۔

مذہب کا تجربہ انسان نے ہزاروں سال کیا لیکن کوئی آسمانی مدد اسے نہ پہنچی، خدا کا رحم حاصل کرنے کے لیے ماؤں نے اپنے بچوں کی قربانیاں پیش کیں لیکن اسے ان پر رحم نہ آیا۔ برہنہ وحشی انسان کو لاکھوں کی تعداد میں درندوں نے کھایا، سانپوں نے ڈسا، طوفانوں نے ڈبویا، زلزلوں نے تباہ کیا لیکن خدا نے اپنا اصول کار نہ بدلا۔ انسان نے لاکھوں مندر بنائے، رات دن اس کی پوجا کی لیکن ظالموں کا ظلم بدستور قائم رہا اور غلاموں کی پیٹھ پر جو کوڑے پڑا کرتے تھے، بدستور پڑتے رہے؛ یہاں تک کہ انسان نے لاکھوں سال کے تلخ تجربات کے بعد سمجھا کہ خدا انسانی معاملات میں دخل نہیں دیتا اور اس کے نزدیک گھاس کی پتی اور انسان سب برابر ہیں، اس لیے اس کی ترقی کا انحصار صرف ا س کی محنت و کاوش اور رہبریٔ عقل پر ہے۔ آخر کار رفتہ رفتہ معجزات کا زمانہ گذرگیا، روایات مذہبی کا دور ختم ہوگیا؛ اور اب انسان اس کے لیے تیار نہیں کہ وہ مذہب کے بتائے ہوئے اصول نجات پر یقین رکھ کر اپنی دنیا کو تباہ کردے اور بے وقوف کہلائے۔

[pullquote]مذاہب عالم کی تاریکیاں[/pullquote]

ترقی کرنا انسان کا فطری حق ہے لیکن ترقی کا حقیقی مفہوم کیا ہے، اس کو سمجھ لینا ضروری ہے۔ اس باب میں دو متضاد رائیں پائی جاتی ہیں ، کیوں کہ وہی ایک حالت ہے ، جسے ایک جماعت ترقی تہذہب سے تعبیر کرتی ہے اور دوسری وحشت و جہل سے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ ہر وہ چیز جو قدیم ہے، پرانی ہے ، قابل احترام ہے گویا جب تک کسی چیز کے جھاڑنے سے صدیوں کی جمی ہوئی خاک نہ اڑے قابل اعتنا نہیں ۔ ان کے نزدیک حکومتیں وہی تھیں جو ختم ہو گئیں، فرماں روا وہی تھے جو گذر گئے۔ سچے مصلح وہی تھے جو مرگئے۔ نہ ویسے شاعر اب پیدا ہوتے ہیں، نہ ویسے ادیب ، نہ ویسے سیاست داں اب نظر آتے ہیں، نہ ویسے حکما و فلاسفہ۔

دوسرا گروہ قدیم و قدامت کا دشمن ہے اور موجودہ زمانہ کا مداح۔ ان کے نزدیک زمانٔہ قدیم میں کوئی بات معقول تھی ہی نہیں اور قدرت نے اپنے تمام برکات زمانٔہ حال ہی کے لیے وقف کردیے ہیں۔ میری رائے میں دونوں غلطی پر ہیں ؛ نہ قدیم زمانہ کی ہر چیز بری تھی ، نہ زمانٔہ حال کی ہر بات اچھی، صداقت ہمیشہ ایک ہی رہی ہے اور اسے ہم قدیم و جدید نہیں کہہ سکتے۔ وہ ہر زمانہ میں یکساں رہی اور ہمیشہ اس کی جستجو کرنا چاہیے۔

اگر ہم اصولاً اس بات کو تسلیم کرلیں کہ ”فکر و عمل“ ہی ملک کی ترقی و مسرت کی بنیاد ہے اور یہ عمومی مسرت ہی فی الحقیقت فطری صداقت ہے تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا کے ”فکر و عمل“ کو بالکل آزاد ہونا چاہیے۔ آپ اس عہد قدیم کو نہ دیکھیے جب ایشیا ترتیب تاریک سے پہلے بھی تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنا ہوا تھا بلکہ عہد وسطیٰ کو لیجیے اور غور کیجیے کہ اس وقت یورپ کی (جو اس وقت سب سے بڑا مدعی تہذیب و آزادی ہے) کیا حالت تھی، طبقہ عمال کو جانوروں سے بدتر سمجھا جاتا تھا۔ جہل کی تاریکی ہر طرف چھائی ہوئی تھی اور فکر انسانی نام تھا صرف اوہام پرستی کا۔ فضا میں ہر طرف ملائکہ و عفاریت چھائے ہوئے تھے اور ہر سمجھ میں نہ آنے والی بات معجزۂ خداوندی قرار دی جاتی تھی۔ اعتقادات نے عقل انسانی کو بے کار کر رکھا تھا اور مذاہب نے غور و فکر کو انسا ن کے لیے وجہ امتیاز صرف اس لیے قرار دیا تھا کہ یا تو وہ سپاہی ہو یا پادری، یعنی سوائے لڑنے اور جھوٹ بولنے کے لیے اور کوئی صورت انسانیت کی موجود نہ تھی۔ صنعت و حرفت کو ذلیل سمجھا جاتا تھا اور اس ذریعہ سے ایک شخص بھی اپنا پیٹ آسانی سے نہ بھر سکتا تھا۔ قومیں خریدو فروخت کے ذریعہ سے ضروریات زندگی حاصل نہ کرتی تھیں بلکہ لوٹ مار سے اور ہر مسیحی ملک غیر مسیحی قوم کے مال کو لوٹ لینا ثواب جانتا تھا ۔ لکھنا پڑھنا نہایت خطرناک بات سمجھی جاتی تھی اور اگر کوئی شخص بدقسمتی سے سیکھ لیتا تھا تو اسے ساحر یا کافر سمجھا جاتا تھا ۔ اس وقت تقریباً بالکل ناممکن ہے کہ ہم اس زمانہ کی جہالت ، واہمہ پرستی اور کور دماغی کا صحیح اندازہ کرسکیں۔ اس وقت انسان کے جسم و دماغ دونوں مقید تھے، ایک کے لیے لوہے کی زنجیریں تھیں اور دوسرے کے لیے وہم پرستی کی اور اس غلامی سے آزاد ہونے کی صورت سوا موت کے اور کوئی نہ تھی۔

پندرھویں صدی میں انگلستان کا قانون یہ تھا کہ اگر کوئی شخص انجیل مقدس کا مطالعہ اپنی مادری زبان میں کرے گا تو اس کی جائداد اور اس کے مویشی ہمیشہ کے لیے ضبط ہوجائیں گے اور وہ حکومت کا باغی قرار دیا جائے گا۔ چنانچہ اس قانون کے نفاذ کے بعد ایک دن۳۹ آدمی پھانسی پر لٹکائے گئے اور ان کی لاشیں سر بازار جلائی گئیں ، پھر یہ جہل صرف انگلستان ہی تک محدود نہ تھا بلکہ یورپ کے ہر حصہ میں پایا جاتا تھا۔ چنانچہ سولھویں صدی میں فرانس کی حکومت نے ایک شخص کو اس خطا پر آگ میں تڑپا تڑپا کر ہلاک کر ڈالا کہ وہ راہبوں کے ایک جلوس کے سامنے دو زانو نہ ہوا تھا۔ اب آئیے اس اجمال کی ذرا تفصیل سن لیجیے:

عہد وسطیٰ کے تمام انسان جاہل و عالم، آقا و غلام، پادری و غیر پادری سب کے سب جادو ٹونا اور ٹوٹکے کے قائل تھے، انھیں یقین تھا کہ شیطان نہ صرف انسان بلکہ جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے اندر بھی حلول کرجاتا ہے اور چونکہ شیطان کا مقابلہ ایک مقدس فریضہ تھا۔ اس لیے کسی ایسے شخص کو جس کے متعلق خیال ہوتا تھا کہ وہ شیطان کا ہمراز و ندیم ہے، مارڈالنا یا زندہ جلادینا بہت معمولی بات تھی ۔ جس حد تک حقیقت یا واقعیت کا تعلق ہے، ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ مہمل عقیدہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ کسی انسان کے اندر شیطان حلول کرجائے اور وہ اسے نجس و ناپاک افعال پر مجبور کرے لیکن اس عقیدہ کی مذہبی گرفت اتنی سخت تھی کہ وہ لوگ جو اس جرم میں گرفتار کیے جاتے تھے جن کے خلاف عدالت گاہوں میں مقدمے چلائے جاتے تھے اور جن سے دنیا نفرت کرتی تھی، خود بھی یقین رکھتے تھے کہ واقعی ان پر شیطان سوار ہے اور وہ اس کا اعتراف کرلیتے تھے۔

جیمس اول کے زمانہ میں ایک شخص اسکاٹ لینڈ کا رہنے والا اس جرم میں جلایا گیا کہ وہ شاہی خاندان کو ڈبو دینے کے لیے سمندر میں طوفان پیدا کررہا تھا۔

ایک بار سر میتھو ہیل کے سامنے جو انگلستان کا مشہور قانون داں جج تھا، ایک عورت پیش کی گئی کہ یہ بچوں سے سوئیوں کی قے کراتی ہے اور شیطان سے ساز باز رکھتی ہے۔ چنانچہ جج صاحب نے اس کو مجرم قرار دے کر زندہ جلوادیا اور فیصلہ میں لکھا کہ یہ جادوگرنی ہے اور جادو کا از روئے مذہب حق ہونا ثابت ہے۔ عام عقیدہ ایک یہ بھی تھا کہ بعض آسیب زدہ انسان بھیڑیے کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ ایک مرتبہ کسی شخص پر بھیڑیے نے حملہ کردیا، اس نے مقابلہ کر کے اس کا ایک پنجہ کاٹ لیا اور جیب میں رکھ کر گھر پہنچا ، دیکھا کہ اس کی بیوی کا ایک ہاتھ کٹا ہوا ہے اور اس کے خون نکل رہا ہے۔ اس سے یہ یقین کیا گیا کہ اس کی بیوی بھیڑیا بن کر گئی تھی، چنانچہ اس نے اقرار کیا اور جلادی گئی۔

اس طرح لوگوں پر یہ الزام بھی لگایا جاتا تھا کہ وہ گرمیوں میں پالا گراتے ہیں، اولے برسا کر فصلیں تباہ کرتے ہیں، شرابیں ترش کردیتے ہیں اور گایوں کو بانجھ کردیتے ہیں ، اس زمانہ میں کسی کی زندگی محفوظ نہ تھی۔ کسی کا اپنے دشمن کے متعلق یہ کہہ دینا کہ ساحر ہے کافی تھا اور اس الزام کی تحقیق کوئی نہ کرتا تھا ۔ پھر طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ الزام صرف انسانوں ہی ہر عائد نہ کیا جاتا تھا بلکہ جانور بھی اس سے محفوظ نہ تھے۔ ۴۷۴۱ءمیں ایک مرغ پر یہ الزام قائم کیا گیا کہ اس نے انڈا دیا ہے اور چونکہ مرغ عام طور پر انڈا نہیں دیتا ، اس لیے یقینا اس میں شیطان حلول کرگیا ہے۔ چنانچہ یہ مرغ مع انڈے کے عدالت گاہ میں پیش کیا گیا اور اس کو سر راہ جلا دیے جانے کا حکم صادر ہوا۔ اسی طرح ایک سور پر یہ الزام قائم کیا گیا کہ اس نے آدمی کو مار کر کھالیا ہے اور اسے بھی جلا دیا گیا۔ ایک گائے پر بھی آسیب زدہ ہونے کا الزام قائم کر کے اسے سزا دی گئی۔ جانوروں کو بطور شاہد کے طلب کرنا بھی اس وقت کا دستور تھا۔

ایک وقت میں یورپ کا قانون تھا کہ اگر کسی کے گھر میں کوئی شخص رات کو داخل ہوا اور وہ اسے قزاق سمجھ کر مار ڈالے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس سلسلہ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ممکن ہے کوئی شخص کسی بہانہ سے کسی کو بلا کر مار ڈالے اور اس طرح سزا سے بچ جائے۔ اس بنا پر قانون میں ترمیم کی گئی کہ مالک مکان اس وقت تک بے گناہ نہیں سمجھا جائے گا جب تک وہ گھر کے کتے، بلی یا دوسرے جانور کو پیش نہ کرے جس کے سامنے اس نے مارا ہے۔ پھر یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا تھا تو گھر والے کو کوئی پلاہوا جانور پیش کر کے اس کے سامنے اپنی بے گناہی کی قسم کھانا پڑتی تھی ، عقیدہ تھا کہ اگر وہ جھوٹ بولے گا تو ضرور کسی نہ کسی طرح جانور اس کا اظہار کردے گا۔

یہ بھی انگلستان کا قانون تھا کہ اگر کوئی شخص جرم کرے تو وہ اس متبرک پارئہ نان و پنیر سے اپیل کرے جو اس مقصد کے لیے الگ کردیا جاتا تھا یعنی مجرم اس روٹی کے ٹکڑے کو لے کر کہتا تھا کہ اگر میں جھوٹ بولوں تو خدا کرے میرے حلق میں پھنس جائے۔
پانی اور آگ کے ذریعہ سے بھی گناہ و بے گناہی کی جانچ ہوتی تھی یعنی مجرم آگ میں تپایا ہوا سرخ لوہا ہاتھ میں لیتا تھا اور عقیدہ یہ تھا کہ اگر وہ گناہگار نہیں ہے تو اس کو کوئی ضرر نہ پہنچے گا (ہندوستان کے بھی بعض سید خاندان مدعی ہیں کہ آگ ان پر اثر نہیں کرسکتی کیوں کہ وہ معصوم ہیں، یہ جاہلانہ عقیدہ بھی اسی نوع کی مذہبی تاریکی کا نتیجہ ہے) ۔ اسی طرح مجرم کے ہاتھ پاؤں باندھ کر پانی میں ڈال دیا جاتا تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ اگر وہ بے گناہ ہے تو ڈوبے گا نہیں۔

ان مثالوں کے دینے سے مدعا یہ ظاہر کرنا ہے کہ ان قوموں میں جو مذہب کی جاہلانہ گرفت میں مبتلا تھیں یا ہیں، کیا کیا بدتمیزیاں پائی جاتی ہیں اور عقل انسانی کا خون کرنے میں معتقدات مذہبی نے کتنا حصہ لیا۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذاہب کی اس لعنت میں صرف جاہل انسان ہی مبتلا نہ تھا بلکہ پڑھے لکھے، ذی فہم و ذی ہوش افراد بھی مبتلا نظر آتے تھے۔

کپلر دنیا کے مشہور بڑے آدمیوں میں سے تھا اور ہیئت دانی میں تو اس کا نظیر نہ تھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس احمقانہ عقیدہ میں بھی مبتلا تھا کہ ستاروں کو دیکھ کر ایک شخص کے مستقبل کا حال معلوم ہوسکتا ہے۔ یہ عقیدہ اس کے دل میں مذہبی بنیاد رکھتا تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ ایسے ہی ماحول میں اس کی تربیت ہوئی تھی۔ تیخو براہی بڑ ا زبردست ہیئت داں تھا، یہ بہت سے مہمل الفاظ ایک جگہ لکھ کر پیشین گوئیاں کیا کرتا تھا اور ان کے پورا ہونے کا منتظر رہتا تھا۔

لوتھر کو یقین تھا کہ اس کی ملاقات شیطان سے ہوئی تھی اور بعض مذہبی مسائل پر اس سے مباحثہ بھی ہوا تھا۔ چارلس پنجم شہنشاہ جرمنی کے زمانہ میں اسٹو فلر بڑا مشہور ہیئت داں گذرا ہے، اس نے ایک بار ستاروں کو دیکھ کر حکم لگایا کہ ایک بہت بڑا طوفان آنے والا ہے اور اس کا اتنا یقین ہوگیا کہ ہزاروں آدمیوں نے جو نشیبی علاقہ زمین میں رہتے تھے، ترک وطن کردیا اور خانماں برباد ہوگئے۔ فرانس میں تو لوگوں نے دوسری کشتی نوح تیار کرلی اور ذخائر سے اسے بھردیا تاکہ طوفان میں کام آسکے لیکن طوفان نہ آنا تھا، نہ آیا۔

ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذہن انسانی کس درجہ غلامی میں مبتلا تھا اور مذہب کا مفہوم سوائے شیطان کی پرستش کے اور کچھ نہ تھا۔
الغرض ان کی مذہبی روایات اسی طرح کی لغو باتوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انسانی معلومات کا ذریعہ صرف مذہبی ادارے تھے اور جن لوگوں کے ہاتھ میں یہ ادارے تھے وہ قصداً جھوٹ بولتے تھے اور ارادتاً خلاف عقل باتیں گھڑ لیتے تھے تاکہ لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں اور وہ اس کے جواب میں معجزات و کرامات وغیرہ بیان کر کے عوام کو مرعوب کرلیں اور اپنا اقتدار جمائیں۔

پھر جہل و ظلمت کا یہ اثر کسی ایک شعبہ تک محدود نہ تھا بلکہ تمام انسانی معلومات پر چھایا ہوا تھا۔ اس سلسلہ میں آپ زبان ہی کے مسئلہ کو لیجیے تو عجیب و غریب حقائق کا انکشاف ہوگا۔ اول اول عام طور پر یقین کیاجاتا تھا کہ عبرانی ہی اصل زبان ہے اور تمام زبانیں اسی سے نکلی ہیں (عربی کو بھی ام السنہ اسی لیے کہتے ہیں) بعد کو یہی دعویٰ اور زبانوں نے بھی کیا، اینڈرے کمپ نے ۱۵۶۱ءمیں ایک کتاب شائع کی جس کا مقصودیہ بتانا تھا کہ بہشت کی زبان کیا ہے، چنانچہ اس نے لکھا ہے کہ خدانے آدم سے سویڈن کی زبان میں باتیں کیں۔ آدم نے ڈنمارک کی زبان میں جواب دیا اور سانپ نے حواسے فرانسیسی میں باتیں کیں۔

ایرو نے اپنی کتاب میں جو میڈرڈ میں شائع ہوئی تھی، ظاہر کیا ہے کہ جنت عدن میں بکائی زبان (شمالی ہسپانیہ کی) بولی جاتی ہے۔ ۱۵۸۰ءمیں گردپیس نے ایک کتاب لکھی کہ یہ سب غلط ہے، بہشت میں تو ڈچ زبان بولی جاتی ہے۔

اب جغرافیہ کو لیجیے کہ اس میں کیا کیا گل کھلائے گئے، چھٹی صدی میں ایک راہب نے جس کا نام کاسماس تھا، ایک کتاب ہیئت و جغرافیہ کی ملی جلی لکھی اور ظاہر کیا کہ بائبل میں جو کچھ پایا جاتا ہے وہی بالکل صحیح ہے یعنی دنیا مشتمل تھی ایک مسطح قطعٔہ زمین اور اس کے بعد دائرہ دار ٹکڑوں پر ، یہ قطعٔہ زمین چاروں طرف پانی سے بھرا ہوا تھا جسے سمندر کہتے ہیں اور پانی کے اس حصہ سے آگے ایک اور حلقہ خشکی کا تھا اور طوفان سے قبل یہیں انسانی آبادی پائی جاتی تھی۔ یہیں ایک بلند پہاڑ تھا جس کے گرد سورج چاند طواف کرتے تھے اور جب سورج اس پہاڑ کے پیچھے چلا جاتا تھا تو رات ہوجاتی تھی اور سامنے آجاتا تو دن ہوجاتا تھا۔ اس راہب نے یہ بھی بتلایا کہ بیرونی دائرہ خشکی کے کنارہ سے آسمان بندھا ہوا تھا اور وہ کسی ٹھوس چیز کا بنا ہوا تھا، اور زمین کو ایک کڑھائی کی طرح ڈھکے ہوئے تھا۔

ان بیانات کے ساتھ ہی اس کا بھی اہتمام تھا کہ بائبل میں کائنات کے متعلق یہ لکھا ہے کہ اس کے خلاف کوئی شخص کچھ نہ کہے نہ سمجھے ورنہ وہ کافر و بے دین قرار دیا جائے گا۔

علم کے خلاف مذہب کی اس جنگ کا یہ حال تھا کہ لکھنا پڑھنا ممنوع تھا اور جو کوئی ایسا کرتا تھا، اسے طرح طرح کی سزائیں دی جاتی تھیں۔ اگر کسی کے منھ سے نکل گیا کہ زمین ایک کرہ ہے تو اسے پکڑ کرجلادیا گیا۔ اگر کسی نے دعویٰ کیا کہ آفتاب نظام شمسی کا مرکز ہے تو اسے جلاوطن کردیا گیا۔ ایک عورت کو صرف اس لیے سولی پر چڑھا دیا کہ وہ بخار کی تکلیف کو گا گا کر کم کررہی تھی۔
مگر چونکہ یہ عقیدہ عام تھا کہ انسان اپنی روح کا مالک نہیں ہے، اس لیے ساتھ ہی ساتھ یہ خیال بھی مرتسم ہوگیا کہ وہ اپنے جسم کا بھی مالک نہیں ہے اور اس طرح غلامی کی بنیاد قائم ہوئی۔ پھر جنھوں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، ان سے مخفی نہیں کہ یونان و رومہ، فرانس وجرمنی وغیرہ میں غلامی کے کتنے وسیع و مہیب ادارے قائم تھے اور انسانوں کو جانور بنانے میں انھوں نے کتنا بڑا حصہ لیا۔

الغرض مذہب کے تاریک دور میں انسان کو جسم و ذہن دونوں انتہائی ذلیل غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور انسانیت کا مستقبل سخت تاریکی میں مبتلا تھا، لیکن چونکہ حقیقت و صداقت کو عرصہ تک دبایا نہیں جا سکتا اور فراست انسانی وہ چنگاری نہیں جو کسی نہ کسی وقت بھڑک نہ اٹھے؛ اس لیے رفتہ رفتہ ایک زمانہ آیا کہ علم کی روشنی پھیلی۔ مذہب نے اس کے لیے جگہ چھوڑی اور اس طرح انسانیت جو ہزاروں سال سے وحشت و درندگی کے بوجھ کے نیچے پڑی کراہ رہی تھی، آزاد ہوئی۔ پرانے جغرافیے بدلے، تاریخ بدلی، معتقدات بدلے اور آخر کار انسان مذہب کی گرفت سے چھٹ کر آزاد ہوگیا۔ علم وفن کسی کی ملکیت نہ رہا۔ سوچنے سمجھنے کا ہر شخص کو مجاز ہوگیا۔ غور و تدبر ہر شخص کا فطری حق قرار پایا۔ اختراعات و ایجادات کا دروازہ کھل گیا۔ آزادی فکر و رائے کے لیے کوئی مانع حائل نہ رہا اور انسان کو اس طرح سب سے پہلے ترک مذہب ہی کے بعد معلوم ہوا کہ وہ خلیفتہ اللہ فی الارض ہے۔

ترقی کا مفہوم کیا ہے، اس سوال کا مطالعہ آپ مذہبی نقطۂ نظر سے بھی کیجیے اور مذہب سے علیحدہ ہو کر بھی؛ آپ کو بالکل دو مختلف جواب ملیں گے۔ مذہب کے نزدیک ترقی کا مفہوم اس دنیا سے تعلق رکھتا ہے جہاں دنیاوی افعال و اعمال کے نتائج سے واسطہ پڑے گا اور عمل کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں گے۔ پھر کیا یہ امر حیرت ناک نہیں کہ جس عالم کے کردار سے مذہب نے جزا و سزا کو متعلق بتایا ہے، اسی کو اندھوں کی طرح بسر کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔

اب ذرا مذہب کی پابندیوں سے ہٹ کر انسانیت کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس میں کتنی وسعت ہے، جدوجہد کا کتنا پھیلاؤ ہے اور اس کے مقاصد کتنے بلند ہیں، سب سے بڑی چیز جس پر انسان فخر کرسکتا ہے، وسعت نظر ہے اور اس کا پتہ عالم اخلاق میں چل سکتا ہے۔ پھر دیکھیے کہ اخلاقی حیثیت کس کی زیادہ بلند ہے۔ ایک مذہب کاپابند، خواہ وہ کتنا ہی بلند نظریہ اخلاق کا رکھتا ہو، دوسرے مذاہب والے کو تحقیر و استحقاق کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہے۔ یہ خیال کہ صرف میں راہ راست پر ہوں اور دوسرا گمراہ ہے، قدرتاً ایک شخص کے جذبٔہ تفوق کو پیدا کر کے دوسرے کو حقیر و ذلیل ٹھہرائے گا اور یہی وہ ایک جذبہ تھا جو ہمیشہ دنیا میں فساد و خوں ریزی کا باعث ہوا۔
یوں تو مذہب نے ہمیشہ یہی دعویٰ کیا ہے کہ وہ دنیا میں امن و سکون پھیلانے آیا ہے لیکن عمل سے وہ اس دعویٰ کو کبھی صحیح ثابت نہ کرسکا اور اس لیے اگر واقعی ترقی کی راہوں پر غور کرنا ہے تو مذہب سے علیحدہ ہو کر غور کرنا چاہیے اور انسانیت کے کلی مفہوم کو سامنے رکھ کر شاہراہ عمل متعین کرنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے