وفاق المدارس اور کارزارِ سیاست

دیوبندیت اپنی تاسیس سے اب تک کی جدوجہد میں سب سے مشکل دور سے گزر رہی ھے جہاں اس کی اعلی ترین قیادت کو یا تو شہید کردیا گیا ھے یا مفاہمت کے نام پر زبان بندی کی جاچکی ھے ، نظریاتی کارکنوں کی اکثریت یا عقوبت خانوں کی زینت بنائی جاچکی ھے یا حالات کے جبر اور قیادت کی عدم دلچسپی کے باعث مایوسی کا شکار نظر آتی ہے ۔

دیوبندیت سے منسوب تقریبا تمام ہی جماعتیں یا تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں یا ایجنسیوں کے کارپردازوں کے رحم و کرم پر ہیں اور عملاً دولخت اور سہ لخت ہوچکی ہیں تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ صاف نظر آتا ھے کہ جس نظریاتی جماعت نے بھی اپنے منشور یا مناصب میں سیاست اور سیاسی لوگوں کو جگہ دی اس کا شیرازہ بکھیر دیا گیا اور اس جماعت کو ایجنسیوں کے ذریعے نشان عبرت بنادیا گیا ۔

پاکستانی کارزار سیاست ایک ایسی بے رحم شطرنج ہے جس میں کھیل کے کوئی اصول نہیں
یہاں ” شاہ ” کو گرانے کیلئے ہر قسم کے پیادے تیار کیے جاتے ہیں ، ہمہ وقت گھیرنے اور بلیک میل کرنے کے لئے جال بنے جاتے ہیں ، سیاسی و مذہبی قیادت کو ذاتی خامیوں کی بنیاد پر بلیک میل کرنے کا خوف ایجنسیوں کا مقبول ہتھکنڈا بن چکا ھے اور اسی خوف کے زیر اثر مہرے تیار کئے جاتے ہیں ۔

ہر جماعت میں ایسے مہرے اہم مناصب پر موجود ہیں جن سے وقتا فوقتا کام لیا جاتا ھے ، سیاست کا یہ بے رحم کھیل جمیعت علماء اسلام جیسی مضبوط جماعت کے کئی حصے بخرے کرچکا ھے
نظریاتی جمیعت تو سامنے کی ایک تازہ مثال ھے
جب ایسی صورتحال ہو اور یہ مطالبہ سامنے آجائے کہ ” خالص تعلیمی و تربیتی ادارے کو سیاسی لوگوں کے زیر قیادت لایا جائے کہ اس کی آواز ایوانوں میں موثر ہوسکے ” تو ” طوفان ” کی سمت کا اندازہ کرلینا چاہئیے اور کمین گاہوں کی تعیین کوئی مخفی امر نہ رہنا چاہئیے ۔

یاد رہے وفاق کی اب تک کی مضبوطی کی واحد وجہ سیاست سے دوری اور سیاسی لوگوں کے زیر اثر نہ ہونا ھے ورنہ کسے نہیں معلوم کہ اس وفاق کو گرانے کیلئے کیسے کیسے مہرے استعمال نہ کئے گئے کیسے کیسے جبہ و دستار کے حاملین اس کھیل میں پیادے بنے ذاتی مفادات کے اسیروں نے کیسی کیسی چالیں نہ چلیں لیکن وفاق کا برگد اپنے پاؤں پر مضبوطی سے کھڑا رہا اب کچھ ” حلقوں ” کی خواہش ھے کہ ” وفاق کی قیادت سیاسی طور پر مضبوط اور بااثر سیاسی علماء کے حوالے کردی جائے تاکہ وفاق کی آواز موثر ہوسکے ” بظاہر بڑا خوش کن اور مفید دکھائی دینے والا یہ اقدام وفاق کے اس برگد کو اندر سے کھوکھلا کر دے گا ، گدھ وفاق المدارس کے اردگرد منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں ، کسے نہیں معلوم
کہ مدارس کے کچھ ذمہ داران کی ڈوریں باقاعدہ ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہیں اور کچھ اونچی آوازوں اور مطالبات کے ساتھ باقاعدہ ” ہلائی ” جارہی ہیں ایجنسیوں کا منصوبہ یہ ہے کہ بالآخر وفاق کو بھی دوسری سیاسی جماعتوں اور اداروں کی طرح متنازعہ اور دولخت کردیا جائے
تاکہ ظاہری اتفاق کی جو اک ڈھال دیوبندیوں کو میسر ھے اسے ایک سیاسی جماعت کے زیر اثر لا کر دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کی نظر میں متنازعہ بنادیا جائے اور ادارے کو میسر اس عالمگیر وسیع ترین اتفاق رائے کو ختم کیا جائے کہ اس اتفاق کی وجہ سے ہی ان کا شورائی نظام اور تعلیمی معیار مضبوط ھے ۔

انتشار کا دھارا اس تعلیمی معیار اور اس شورائی نظام کو بہا لے جائے گا ، درالعلوم دیوبند کی ڈیڑھ صدی پر محیط سیاسی و تعلیمی جدوجہد سے ہی کچھ سیکھ لیا جائے کہ بالآخر تلخ تجربوں کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا ھے کہ دارالعلوم دیوبند کا تعلیمی نظام الگ رہے گا اور جمیعت علماء ہند کی سیاسی جدوجہد الگ جمعیت علماء ہند اور اس کے عہدے داران کا تعلیمی نظام میں دخل نہ ہوگا اور تعلیمی ذمہ داران سیاست سے الگ رہیں گے ۔

یہ ڈیڑھ صدی کے تلخ تجربات کے بعد کیا گیا دانشمندانہ فیصلہ ھے وفاق کو جس ” موثر سیاسی آواز ” کا نعرہ لگاکر سیاسی اثر تلے لانے کی کوشش ہورہی ھے اس موثر سیاسی آواز کی ” متعصب مودی حکومت ” میں ہند کے مدارس کو پاکستان سے زیادہ ضرورت ھے لیکن تلخ نتائج کے بعد کئے جانے والے اس فیصلے پر دارالعلوم دیوبند مضبوطی سے قائم ہے پاکستان میں بھی اس فیصلے پر اتفاق رائے اور جزم کی ضرورت ھے کسے نہیں معلوم کہ وفاق کے معاملات میں اصلاحات کی اشد ضرورت ھے اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ موروثیت جماعتوں اور اداروں کو زنگ آلود کردیتی ھے ان سب کا سدباب ضروری ھے لیکن اس وقت سب سے ضروری امر یہ ھے
کہ وفاق کو کسی بھی قسم کے سیاسی اثر تلے آنے سے بچایا جائے کہ سیاسی اثر تلے لانا وفاق کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا اسلئے تعلیمی و سیاسی پلیٹ فارمز کو الگ الگ رکھنے کی ضرورت ھے کاش کہ آنکھوں والے دیکھ لیں
کہ باطل کیا چاہتا ھے اور اس کیلئے وہ کس حد تک جانے کو تیار ھے ۔

اس لئے دردمندانہ التماس ھے کہ ہم استعمار کی ڈوروں پر ہلنا بند کردیں اور اپنی دستاروں اور ذاتی مفادات کو بزرگوں کے اخلاص کی علامت اور وسیع ترین اتفاق رائے کے حامل اس خالص تعلیمی ادارے پر قربان کردیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے