نئے دور کی عالمی زبان

گلوبلائزیشن کی وجہ سے جہاں اور بہت سے مسائل پیدا ہوئے وہاں ایک اہم مسئلہ ماہرین لسانیات کے مابین بھی کئی سالوں سے زیر بحث رہا ہے اور وہ یہ کہ ایک بستی کی شکل اختیار کر جانے والی دنیا کا آپس میں کمیونیکیشن کا ذریعہ کیا ہو؟ کیا کوئی ایک زبان ایسی ہے جسے دنیا کی تمام قومیں سیکھ سکتی ہوں اور اسے اختیار کرنے پر آمادہ بھی ہو جائیں؟ شاید ماہرین لسانیات کو اس کا جواب نفی میں ملا جس کے بعد انہوں نے ایک ایسی مصنوعی زبان (لینگوا فرنکا) تخلیق کرنے کی کوششیں شروع کر دیں جو ایسے حروف تہجی پر مشتمل ہو جس کا تلفظ کرنا تمام اقوام کے لیے آسان ہو اور اسے تمام زبانیں بولنے والے ایک مشترکہ زبان کے طور پر اختیار کر سکیں ۔ لیکن ایسی کوششوں کو تاحال کوئی کامیابی نہیں ملی اور نہ ہی مستقبل میں اس کے کوئی امکانات نظر آ رہے ہیں۔ دوسری طرف بہت سے ماہرین لسانیات نے "ترجمہ”کو ہی عالمی زبان قرار دیا اور بیسویں صدی کے وسط سے گلوبلائزیشن کا ساتھ دینے کے لیے کمیونیکیشن کے واحد ذریعہ ترجمہ کو اپنانے پر زور دیا۔انہوں نے ترجمہ کاری کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس فن یا علم کو اتنا وسیع کر دیا کہ یہ ایک مستقل علم کی حیثیت اختیار کر گیا۔

اول اول مغربی ممالک نے اس علم کی آبیاری کی یہاں تک کہ علم ترجمہ ایک تنآور درخت بن گیا۔جلدہی عرب ممالک نے بھی اسے اپنے ہاں جگہ دی،جامعات میں باقاعدہ ترجمہ کے شعبے قائم کیےاور فن ترجمہ کے فروغ کے لیے علمی و تحقیقی مجلات کا اجرا کیا،کانفرنسز اور سیمینار منعقد کروائے،مترجمین کی حوصلہ افزائی کے لیے بجٹ کا بڑا حصہ مختص کیا، اس میدان میں نمایاں کام کرنے والوں کو خصوصی انعامات سے نوازا اور ترجمہ کی دنیا میں اپنی حیثیت منوائی۔اس طرح عرب دنیا اور ہمارا پڑوسی ملک بھارت جب اکیسویں صدی میں داخل ہورہے تھے تو گلوبلائزیشن اور معلومات کی برق رفتاری کے ساتھ تبادلے کا ساتھ دینے کے لیے نئے انداز سے سامنے آنے والے اس علم میں نمایاں مقام حاصل کر چکے تھے۔ایک طرف دنیا علم ترجمہ کے بام عروج تک پہنچ چکی تھی تو دوسری طرف پاکستان میں اس صدی کے آغاز تک اس علم کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔

آخرکار پاکستان کو بھی ڈاکٹر انعام الحق غازی کی شکل میں ایک ٹرانسلیشن سکالر میسر آیا جو بڑی جدوجہد سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد کی لیڈر شپ کو ترجمہ کی اہمیت منوانے میں کامیاب ہو ئے اور2007 میں پہلی مرتبہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں ترجمہ کا شعبہ قائم ہوا ۔اس کے بعد گجرات یونیورسٹی اور نمل یونیورسٹی نے بھی اس سلسلہ کو آگے بڑھایا اور ترجمہ میں بی ایس کے پروگرام شروع کیے۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم فل ٹرانسلیشن سٹدیز کا پروگرام دو سال سے بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اور حال ہی میں یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف ٹرانسلیشن نے ترجمہ کے میدان میں کام کرنے والوں یا شوق رکھنے والوں کے لیے شارٹ کورسز کا آغاز بھی کر دیا ہے ۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی جانب سے دو ماہ قبل ترجمہ کے موضوع پر عالمی کانفرنس کے موقع پر ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ کے قیام کا اعلان ہوا۔ اس سے پہلے وزیراعظم پاکستان کے مشیر عرفان صدیقی نے بھی ترجمہ سینٹر کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ امید ہے کہ یہ ادارے جلد اپنا کام شروع کر دیں گے جس سے ترجمہ کے میدان میں آنے والوں کے لیے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس میدان میں کام کرنے والے افراد اور اداروں کو چاہیے کہ "عالمی یوم ترجمہ” کی مناسبت سے تقریبات منعقد کر کے عوام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے افراد کے سامنے ترجمہ کی اہمیت کو واضح کریں۔یوں تو گزشتہ چھبیس سالوں سے 30 ستمبر کو” ترجمہ” کے عالمی دن کے طور پر منایا جا رہا ہے لیکن اس سال کی خصوصیت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے بھی24 مئی 2017 کو منظور ہونے والی ایک قرار داد میں باقاعدہ30 ستمبر کو عالمی یوم ترجمہ قرار دیا گیا ہے۔ قبل ازیں 1953میں قائم ہونے والی مترجمین کی عالمی تنظیم ایف آئی ٹی(فیڈریشن آف انٹرنیشنل ٹرانسلیٹرز) یہ دن 1991 سے مناتی چلی آرہی ہے۔ایف آئی ٹی مترجمین کی بین الاقوامی یونین ہے جس سے55 ممالک کے 80 ہزار سے زائد مترجمین کی نمائندگی کرنے والی سو سے زائد تنظیمیں وابستہ ہیں۔30 ستمبر کا دن خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ انجیل مقدس کے عظیم مترجم سینٹ جیروم کا یوم وفات ہے جنہیں مترجمین کا روحانی پیشوا تصور کیا جاتا ہے۔ دن منانے کا مقصد دنیا بھر میں موجود مترجمین کے ساتھ اظہار یکجہتی، ان کی کوششوں کی حوصلہ افزائی ، نیز ترجمہ کی اہمیت کو اجاگر کرنااور اس فن کو فروغ دینا ہے ۔

30ستمبر کو جبکہ دنیا بھر میں ترجمہ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس امر کی اشد اور فوری ضرورت ہے کہ پاکستان میں بھی ترجمہ کی صنف کو فروغ دیا جائے،اور حکومت کی سرپرستی میں تمام عالمی زبانوں میں ترجمہ کے متعدد مراکز قائم کیے جائیں ،تاکہ اس گلوبل دنیا میں ہم ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ کھڑے ہو سکیں اور اپنے علمی،ثقافتی،اور تہذیبی ورثے کو ترجمے کی صورت میں عالمی زبانوں میں منتقل کر کے دنیا بھر میں پہنچائیں،اسی طرح کے اقدامات سے ہم دنیا کے سامنے پاکستان کے امیج کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

تجزیات آن لائن

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے