پاکستانی سنگھ پریوار

پاکستان کی بہت سی مذہبی جماعتیں آرزومند ہیں کہ وہ ایک پرجوش سماجی و سیاسی تحریک کے روپ میں سامنے آئیں جو رائے عامہ تشکیل دینے، انتظامی امور پر اثر انداز ہونے اور سیاست پر اپنی دھاک بٹھا نے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

بے شک پاکستان کی تقریباََ تمام مذہبی جماعتوں نے معاشرتی سدھار کی ایک تحریک کی صورت میں اپنی شروعات کیں اور پھر آہستہ آہستہ اپنی اساس اوراپنے نظریات کو مرکزی سیاسی دھارے تک وسعت دینے کا روایتی انداز اختیار کیا ۔اس عمل کی حد درجے پیچیدگی کے سبب ان میں سے بہت سی تنظیمیں منزل سے پہلے ہار مان لیتی اور مذہبی یا سیاسی اصلاحاتی عمل میں گم ہو کر رہ جاتی ہیں۔

برِصغیر میں فقط دو تنظیمیں ہی اپنی منزل کو پانے میں کامیاب رہی ہیں۔ پہلی،تحریکِ دیوبند جس نے دارالعلوم دیوبند (۱۸۶۷ء ) میں پرورش پائی اوراصلاحِ مذہب، مسلم شہری حقوق اور برِصغیر کی سیاست پر عمیق اثر ڈالا۔

اوائل میں فرقہ وارانہ سیاست اور بعد ازاں برِّصضیر کی تقسیم نے اس تحریک کے خال و خد کی نئی صورتگری کی۔فی الوقت اگرچہ اس تحریک کا مربوط سیاسی و سماجی تشخص بدل چکا مگر ابھی بھی یہ ملک کے دفاعی، سیاسی اور تعلیمی معاملات میں اپنا اثرو رسوخ قائم رکھے ہوئے ہے۔

اور دوسری کامیاب کتھا انتہا پسند ہندوؤ ں کی قوم پرست تنظیموں پر مبنی خاندان، سنگھ پریوار کی ہے جس نے بتدریج ہندوستان کی مرکزی سیاست میں اپنا اثرو رسوخ قائم کر لیا ہے۔ یہ ایک کامیاب مثال ہے اوربہت سی جنوب ایشائی مذہب پسند جماعتوں کو متأثر کرتی ہے۔ جماعتِ اسلامی نے تنظیم سازی کے عمل کی ابتداء انہیں بنیادوں پر کی مگر جماعت کا اسلامی نکتۂِ نظر عالمی پسِ منظر کا حامل تھا اور اس نے تنظیمی ہئیت مغرب کی بائیں بازو کی تحریکوں سے مستعار لی تھی۔

تاہم جماعۃ الدعوہ پاکستانی سنگھ پریوار کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جماعۃ الدعوہ کے تخلیق کاروں کے ذہن میں کہیں ہندوستانی سنگھ پریوار کا نقشہ موجود ہے جس کے سبب یہ تنظیم بالکل اسی طریق سے آگے بڑھ رہی ہے جسے بھارت میں سنگھ پریوارنے اپنایا۔بالکل جداگانہ عقائدو نظریات کے باوجودجماعۃ الدعوہ اورسنگھ پریوار، ہر دو جماعتوں نے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے مذہب پسندانہ سماجی تحرک کی حکمتِ عملی اپنائی۔

سنگھ پریوار کی تنظیم ، راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) ایک ہندو ریاست کے قیام کی خواہاں ہے اور جماعۃ الدعوہ بھی ایک مذہبی ریاست کو اپنا مطمعِ نظر قرار دیتی ہے۔وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) ہندوؤں میں مذہبی تحرک پیدا کرنے اور آرایس ایس کی معاشرتی سرگرمیوں میں معاونت کرتی ہے ۔ اورجماعۃ الدعوہ کا ادارہ دعوت و اصلاح بھی اسی طرح کی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔

بجرنگ دل ، وشواہندو پریشد سے وابستہ نوجوانوں کی نمائندہ ذیلی عسکری تنظیم ہے اور لشکرِ طیبہ جماعۃ الدعوہ کی بجرنگ دل ہے۔اسی طرح آر ایس ایس کے رفاہی اداروں، سیوا بھارتی اور ہندو سوایم سیوک سنگھ کا تقابل جماعۃالدعوہ کے ذیلی ادارے فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن سے کیا جا سکتا ہے۔ سنگھ پریوار کے ’’بھگت سکولز‘‘ ہیں جن میں سنگھ اخلاقیات پر مبنی تعلیم دی جاتی ہے اور اسی طرح جماعۃ الدعوہ بھی سکول اور مدارسکا ایک نظم چلا رہی ہے۔وہ پہلے سے ہی ذرائع ابلاغ اور تفریحی صنعت (شوبز) کا حصہ ہیں۔

جماعۃ الدعوہ میں ایک سیاسی جماعت کی کمی تھی۔ رواں سال اگست میں تنظیم نے ملی مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دے کر اس کمی کو پورا کردیا۔ممکن ہے کہ ملی مسلم لیگ کو پاکستان کی بھارتیہ جنتا پارٹی تصور کیا جا سکتا ہو؟

جماعۃ الدعوہ کا تنظیمی توسع انتہا پسند ہندو تنظیموں کے ڈھب پر ہے۔جیسا کہ سنگھ پریوار تنظیمیں خود مختار ہیں مگر ایک ہی خاندان کا حصہ ہیں بالکل اسی طرح لشکرِ طیبہ، جماعۃالدعوہ، فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن اور اب ملی مسلم لیگ کسی باہمی ربط سے انکاری ہیں مگر وہ بہر طور بڑے پیمانے پر ایک ہی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔ جماعۃ الدعوہ ایک نظریاتی سرچشمہ بن چکی ہے جو سنگھ پریوار کی راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ

(آرایس ایس) کی طرح اپنی شاخوں کیلئے حکمتِ عملی کی ترتیب اور بیانئے کی تشکیل کا کام سرانجام دیتی ہے۔ جماعۃ الدعوہ کی ایک خامی یہ ہے کہ اپنے نمائیندہ مکتبۂِ فکر کے پیروؤں کی کم تعداد کے سبب اس جماعت کا پھیلاؤ سست روی کا شکار ہے۔

کچھ تجزیہ نگار جماعۃ الدعوہ کا تقابل جماعتِ اسلامی سے کرتے ہیں۔اگرچہ جماعۃالدعوہ کی بالائی قیادت جماعتِ اسلامی کی تنظیمی صفوں سے آئی ہے مگر یہاں تنظیمی ارتقاء مختلف نوعیت کا حامل ہے۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ جماعتِ اسلامی بائیں بازو کی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے سے متأثر تھی مگر بیک وقت اس کے اسلامی جماعتوں بالخصوص مصر کی اخوان المسلمین سے قریبی روابط تھے۔

جماعۃ الدعوہ کی نمو کا تقابل کسی درجے میں مصر کی سلفی تنظیم حزب النور سے کیا جاسکتا ہے۔حزب النور ، مصر میں الاخوان کے متبادل کے طور پر ابھری تھی اور پاکستانی سیاست میں جماعۃ الدعوہ جماعتِ اسلامی کی جگہ لے رہی ہے، کیوں کہ دونوں تنظیموں کی طاقت سندھ اور پنجاب کے شہری علاقوں میں اپنا وجود رکھتی ہے۔

حزب النور اور جماعۃ الدعوہ دونوں جماعتوں کو اپنے متعلقہ ممالک کی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ تاہم اوّل الذکر مصر کی فوجی حکومت کی سیاسی شراکت دار کے طور پر ابھری تھی ، ثانی الذکربڑے پیمانے پردفاعی میدان میں پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے شانہ بشانہ کام کرتی رہی ، اور اب یہ سیاسی ربط تلا ش کر نے کی کوشش کررہی ہے۔

مصر کے برعکس پاکستان میں مختلف نقطہ ہائے نظر کی حامل بہت سی جماعتوں کے وجود کو پاکستان کی مختلف سیاسی اقدار کی طرف اشارہ پر محمول کیا جاسکتا ہے۔یہاں اسٹیبلشمنٹ کو صرف دفاعی حوالے سے معاونین کی ضرورت ہوتی ہے۔ النور اور الدعوہ کے درمیان سب سے بڑا فرق ان کا عالمی حوالے سے باہم جدا نکتۂِ نظر ہے۔مصر میں النور ایک حقیقت پسند اور لچکد ار تنظیم مانی جاتی ہے جبکہ الدعوہ عالمی حوالے سےاپنے بنیاد پرستانہ نکتۂِ نظر اور عسکریت پسندانہ اساس کے ساتھ سیاسی میدان میں آگے بڑھنا چاہتی ہے۔

بنیادی طور پر جماعۃ الدعوہ جنوب ایشیائی خصوصیات کی حامل ہے اور بظاہر توسع کے مقامی یا جنوب ایشیائی طریقِ کار پر عمل پیرا ہے۔ لیکن عالمی حالات کا احاطہ کرتے نظریاتی تصورات اور مقامی حالات کے مرہونِ منت سیاسی عزائم میں توازن پیدا کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جو اسے سنگھ پریوار سے جداگانہ خدوخال عطا کرتا ہے اور اسے جماعتِ اسلامی کے قریب لا کھڑا کرتا ہے جو اسی طرح کے مخمصے کا شکار ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے