نوازشریف۔صرف نظریہ نہیں، شخصیت بھی

مسلم لیگ (ن) کی مرکزی کونسل میں میاں نواز شریف کو پارٹی صدر منتخب کرنے کی تقریب میری دیکھی ہوئی ان تقاریب میں سے تھی جومیرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوسکتیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کے کارکن اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں جمع تھے۔ نواز شریف کی صدارت کے اعلان پر اپنے لیڈر کے لئے ان کی محبت، جذبہ اور جوش دیدنی تھا۔ نعروں کی گونج نے فضائوں میں ارتعاش پیدا کردیا تھا۔ کارکنوں کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ اوپر سے یہاں میاں شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال کی پرجوش اور پرمعنی تقریروں نے سماں باندھ دیا اور جب میاں نواز شریف تقریر کے لئے روسٹرم پر آئے تو خوشی و مسرت کے عالم میں کارکن آپے سے باہر ہوتے نظر آ رہے تھے۔ میاں صاحب نے یہاں جوکچھ کہا وہ الگ کالم کا متقاضی ہے بس یہ ہے کہ کچھ عرصے سے ان سے جو کہا جارہا تھا کہ آپ سازشوں کا ذکر کرتے آ رہے ہیں بتائیں وہ سازشیں کون کر رہا ہے؟ تو میاں صاحب نے اپنی تقریر میں اس طرف بھی کھلے اشارے کردیئے۔ میں بار بار لکھتاچلا آ رہا ہوں کہ میاں کے صبر کا زیادہ امتحان نہ لو کہ اس بہادر شخص نے جتنا صبر کرنا تھا کر لیا۔ اس سے آگے کامرحلہ آیا تو پھر یہ نیام سے باہر آ جائے گا۔ سو اس روز میاں صاحب نے تقریباً وہ سب کچھ کہہ دیا جووہ ایک عرصے سے برداشت کرتے چلے آ رہے تھے۔ اب وہ اس راہ کے سارے مرحلے طے کرنے کے لئے تیار ہیں!
میں نے آج کے کالم میں برادرم احسن اقبال، جنہیں میں نے کسی اور ہی رنگ میں دیکھا ان کے ایک جملے پر بات کرنی ہے۔ انہوں نے اپنی نہایت خوبصورت، پرمغز اور پرجوش تقریر میں کہا کہ پاکستانی عوام میاں صاحب کی شخصیت کے نہیں ان کے نظریے کی بنیاد پران کے ساتھ ہیں۔ یہ جملہ ممکن ہےاس طرح نہ ہو لیکن مفہوم تقریباً یہی تھا جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ واقعی ان کے نظریاتی موقف نے پاکستانی عوام کو ان کا دیوانہ بنا رکھاہے بلکہ جب سے ان پر مقدمات شروع ہوئے ہیں اور ان کے نظریات پہلے سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آئے تو ان جمہوریت پسند دانشوروں کی حمایت بھی انہیں میسر آئی جو ہمیشہ ان کے ناقد رہے ہیں۔ تاہم میرے نزدیک پاکستانی عوام کے دلوں میں میاں صاحب کی محبت محض ان کے نظریے نہیں ان کی وضعدار شخصیت کے حوالے سے بھی ہے۔ میاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا مگر ان کی اخلاقی اقدار وہی ہیں جواس ملک کے بیس کروڑ عوام کی ہیں۔ یہ ایک مشرقی گھرانہ ہےجس کی تربیت میاں محمد شریف مرحوم و مغفور نے کی۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت اس گھرانے کاخاصا ہے۔ آپ ان کے گھرجائیں تو ایک مذہبی گھرانے کا ماحول آپ کو ملے گا۔ ہمارے بہت سے لیڈر ’’برگر کلاسیئے‘‘ ہیں مگر اس گھرانے کا رہن سہن، میل جول، اٹھنا بیٹھنا سب کچھ میرے اور آپ کے گھر جیسا ہی ہے۔ میاں نواز شریف جب لاہور میں ہوں تو اپنے فارغ وقت میں شام کے وقت ’’خالص عوام‘‘ کے ساتھ بیٹھے گپ شپ کررہے ہوتے ہیں۔ چوک دالگراں کے یہ رہائشی ماڈل ٹائون میں ہوں یا کہیں اور، وزیراعظم ہوں یا نہ ہوں انہیں اپنی روایات سے دستبردار ہونا نہیں آتا!
میاں نواز شریف بہت سے ملازموں کے باوجود اپنے والد ماجد کی وہیل چیئر خود چلاتے رہے ہیں۔ اپنی والدہ سے ان کی محبت اور احترام دیکھنے کے قابل ہے۔ میاں صاحب گئے گزرے ملاقاتیوں سے بھی ہاتھ نہیں ملاتے بلکہ دونوںہاتھوں سے مصافحہ کرتے ہیں۔ گھر میں مہمانوں کو بلائیں تو وزیراعظم صاحب خود کھڑے ہو کر انہیں ’’سرو‘‘ کرتے نظر آتے رہے ہیں…. کسی کا دکھ ان تک پہنچ جائے تو اس وقت تک دکھی رہتے ہیں جب تک اس کے دکھ کا مداوا نہ کرلیں۔ اللہ جانے کتنے گھرانوں کے چولہے ان کی توجہ سے جلتے ہیں۔ مریم ہوں یا حسن، حسین ہوں وہ اپنے والد کے دوستوں کا جس طرح احترام کرتے ہیں آپ دیکھ لیں تو اس گھرانے کو ’’شاہی گھرانہ‘‘ قرار دینے والوں سے ممکن ہے آپ کو کہنا پڑے کہ بھائی! اس گھرانے میں تو ایسی کوئی بات نہیں۔ میرے گھر میں کلثوم بھابی آئیں تو میرے گھر والے ان کی سادگی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ آج کسی کے پاس چارپیسے آجائیں یا کوئی چھوٹا موٹا عہدہ مل جائے تو اس کا سر آسمان کو جا لگتا ہے مگر یہاں اللہ تعالیٰ انہیں جتنی عزت دیتا ہے ان کا سر اتنا ہی جھکتا چلا جاتا ہے۔ سو میاں نوازشریف اگر پاکستانی عوام کے دلوں میں بستے ہیں تو صرف اپنے نظریاتی موقف کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے بھی کہ ان کا کلچر وہی ہے جو پاکستانی عوام کا ہے۔ کاش ان کے سیاسی ناقد کبھی اپنے سیاسی نظریے اور اپنے اخلاقی رویوں پر بھی ناقدانہ نظر ڈال سکیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے