ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂِ گل

سیاستدانوں کو اقتدار چاہئے‘ چشمِ ما روشن دلِ ماشاد۔ کیا انہیں ملک بھی چاہئے یا نہیں؟
ڈاکٹر امجد ثاقب نوکر شاہی سے وابستہ رہتے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوتے؟ ایک نیک نام افسر جو سبکدوش ہو کر‘ اپنی یادداشتیں لکھ رہا ہوتا‘ کسی کالج میں پڑھا رہا ہوتا یا تھکے ہوئے اعصاب کے ساتھ کسی ارب پتی ادارے کا مشیر۔ اس محیّرالعقول کارنامے کا وہ خواب بھی دیکھ نہ سکتے‘ جو آزادی کے ماحول میں انہوں نے انجام دیا۔ جس کے لئے ملک اور مالیات کی عالمی تاریخ انہیں یاد رکھے گی۔
سب لوگ امجد ثاقب نہیں ہوتے۔ سب خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ باایں ہمہ کتنے اچھے افسر سول سروس میں ہوں گے‘ جو ایک نئے زمانے کا خواب دیکھتے ہیں‘ ابھی جس کا کوئی نام نہیں۔ ان میں سے کتنوں کو ہم نے اعلیٰ عزائم کے ساتھ مقابلے کا امتحان پاس کرتے‘ والہانہ جذبے کے ساتھ آغازِ کار کرتے اور عزم و ہمت کے ساتھ ہر نئے میدان کے نشیب و فراز کے ادراک کی جستجو میں پایا۔ رفتہ رفتہ وہ تھک جاتے ہیں‘ مرجھانے لگتے ہیں‘ ڈھے پڑتے ہیں۔ پھر صلاحیت کا بہت معمولی حصہ ہی بروئے کار آتا ہے۔
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂِ گل
یہی ہے فصل بہاری‘ یہی ہے بادِ مراد
قائد اعظم نے یہ کہا تھا: سیاست دان آتے جاتے رہیں گے۔ ان کی زیادہ پروا نہ کیجئے بلکہ اصولوں کی۔ آپ ایک مستقل ادارہ ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو آئے تو سرکاری ملازمت کے لئے تحفظ تمام کر دیا۔ ہیرو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس پہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا احتساب نہیں ہوتا۔ اسے روکا نہیں جا سکتا۔ ایک شخصیت پرست معاشرے میں‘ جو علم اور اقدار کا احترام نہیں کرتا‘ افراد فیصلہ کن ہو جاتے ہیں۔ ہوتے ہوتے افسر شاہی کا عالم یہ ہو گیا ہے کہ مزارعوں کی طرح اب وہ وزراء اعلیٰ اور وزیر اعظم کے رحم و کرم پر ہیں۔
خبر آئی ہے کہ گریڈ 21 کے افسر‘ ترقی کے لئے بہت دنوں سے انتظار میں ہیں۔ بورڈ کا اجلاس بار بار ملتوی ہوتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کو اصرار ہے کہ نوازش فقط ان کے پسندیدہ افسروں پہ ہونی چاہئے۔ اس شریف آدمی‘ شاہد خاقان عباسی کی آرزو ہے کہ ان کی کچھ گزارشات بھی قبول کر لی جائیں۔ معلوم نہیں ہے کہ ذاتی یا اصولی۔ ڈھنگ کی ایک سول سروس اور پولیس فورس ہم کیوں نہیں بنا سکے؟ اگر ان تمام خرابیوں کے باوجود‘ پورے معاشرے پر جو اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر ان تمام بھیانک غلطیوں کے باوجود‘ طاقت کے نشے میں‘ عسکری قیادت‘ جن کا ارتکاب کرتی رہی‘ فوج اگر بچ رہی ہے۔ اگر پاکستان آرمی کا شمار آج بھی دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ اگر دنیا کے کسی بھی خطّے میں‘ قیام امن کے لئے اقوام متحدہ اسے ترجیح دیتی ہے تو پولیس اور سول سروس میں یہ کیوں ممکن نہیں؟
ایوب خان سے لے کر‘ جنرل پرویز مشرف تک حماقتیں سرزد ہوئیں۔ ظاہر ہے کہ فوجی نفسیات پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے‘ سیاست‘ صحافت‘ دوسرے فعال طبقات اور رائے عامہ پر بھی۔ اس کے باوجود خود کو بچا لینے میں کیونکر وہ کامیاب رہی؟۔
گہری نگاہ سے‘ عرق ریزی سے قوم کی فکری رہنمائی اس موضوع پر ہونی چاہئے۔ تحقیق کرنے والوں کو اس سوال سے بحث کرنی چاہئے۔ پولیس کے ایک سپاہی یا افسر کی موجودگی میں‘ عام طور پہ ہم خود کو محفوظ نہیں پاتے حالاں کہ وہ فوجی افسر کا عم زاد ہی تو ہے۔ خاکی وردی تحفظ اور امن کا احساس دیتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ فوج کے داخلی و انتظامی طرزِ عمل اور نظام کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کس طرح وہ اپنی اصلاح کرتی‘ کون کون سی احتیاط ملحوظ رکھتی ہے۔ کس طرح اپنے جوانوں اور افسروں میں نہ صرف اعتماد باقی رکھتی بلکہ اپنے ادارے پہ فخر کا احساس تخلیق کر دیتی ہے۔
کراچی کا کھویا ہوا امن اسی نے واپس چھینا ہے۔ بھارت اپنے ایجنٹوں‘ حلیفوں اور سرپرستوں کی مدد سے‘ جسے تمام کر چکا تھا۔ اب بھی 500 ملین ڈالر سالانہ پاکستان میں تخریب اور ”دانشوروں‘‘ کو گمراہ کرنے یا خریدنے پر وہ خرچ کرتا ہے۔ شہر کی سب سے بڑی سیاسی قوّت‘ اس کے اشارۂ ابرو پہ حرکت کیا کرتی۔ سیاسی مخالفین نے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ دلاور صلاح الدین کی شہادت سمیت‘ دوسرے واقعات نے میڈیا کو یرغمال بنا دیا تھا۔ اس کے باوجود کس طرح یہ کارنامہ انجام دیا گیا؟ بلوچستان کی علیحدگی کے لئے‘ دنیا کے کئی ملک اپنی تمام تر قوّت‘ وسائل اور عزم کے ساتھ بروئے کار تھے۔ کئی دوست ممالک بھی تقدیر کا لکھا سمجھ کر مستقبل کے ممکنہ منظر کو قبول کر چکے تھے۔ معلومات کی بنیاد پر عرض ہے کہ چین نے تجارتی راہداری کا منصوبہ ملتوی کر دیا تھا۔ ایک عشرہ پہلے بلوچستان کی علیحدگی کا انہیں خطرہ محسوس ہونے لگا تھا۔ ایران اور عرب ممالک کے ایجنٹ بلوچستان سے گرفتار کئے گئے۔ افغانستان سے درندے سرحد پار کرتے اور قتل و غارت کیا کرتے۔ یورپی ممالک نے علیحدگی پسندوں کو پناہ دی۔ بعض اضلاع میں وہ بھتہ وصول کرنے لگے۔ میڈیا صورتحال کا ادراک نہ کر سکا۔ صرف ایک پہلو یعنی حکومت کی نااہلی اور ناانصافی کو اس نے موضوع بنائے رکھا۔
افغانستان میں امریکی افواج اترنے کے بعد قبائلی پٹی میں ایک خوفناک طوفان اٹھا۔ فی الحال اس کے پیچیدہ مسائل سے بحث ہے اور نہ اس نکتے سے کہ فوجی قیادت نے کون کون سی غلطیاں کیں۔ اس کے باوجود کراچی اور بلوچستان کی طرح خوفناک بم دھماکوں کا تناسب 85 فیصد سے زیادہ کم ہو چکا۔ کس طرح اور کیونکر؟
اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے۔ خود پولیس بھی ایسے ہی کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ جیسے کہ ترک پولیس نے فوجی بغاوت فرو کرنے میں اپنی قوم کی مدد کی۔ فی الحقیقت پاکستانی پولیس ایسا کارنامہ پہلے ہی انجام دے چکی ہے۔ جون 1995ء کے کراچی میں‘ جب آئی بی کے تعاون سے دہشتگردی کا خاتمہ کر دیا گیا؛ تاآنکہ بعدازاں‘ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے قاتلوں سے سمجھوتہ کر لیا۔ اللہ کو پاکستان کی بہتری منظور تھی؛ چنانچہ 22 اگست 2016ء کو درندے نے خود ہی اپنے آپ کو بے نقاب کر دیا۔ بے چارہ ہوا‘ تنہا ہوا اور اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ پورا سبق ہم نے اب بھی نہیں سیکھا۔ الطاف حسین کی جس نے جگہ لی ہے‘ وہ بیک وقت لوٹ مار کرنے والی سیاسی قیادت‘ کنفیوژن کا شکار فوج‘ کراچی میں مقیم امریکی قونصل جنرل‘ بعض برطانوی اداروں اور بالواسطہ طور پر خود الطاف حسین کے ساتھ رابطے میں ہے۔
ترک پولیس نے ارتقا کی جو منازل طے کیں‘ اس کا خاکہ ایک پاکستانی پولیس افسر نے بنایا تھا‘ اقوام متحدہ اورجاپانی پولیس کا بھی وہ باقاعدہ مشیر ہے اور برسوں سے۔
نون لیگ حکومت کرے‘ جس طرح کہ اب بھی کر رہی ہے۔ مگر میاں محمد نواز شریف جس بات پہ اصرار کر رہے ہیں‘ وہ خوفناک ہے۔ اگر ان کی بات مان لی گئی تو انارکی پھیل جائے گی۔ سماجی اور کاروباری‘ چھوٹے بڑے تمام نجی ادارے‘ حتیٰ کہ عام لوگ بھی حکومتی اختیار کے دائرے میں سے نکل جائیں گے۔ پولیس‘ عدالتوں اور سول سروس کی باقی ماندہ حیثیت بھی ختم ہو جائے گی۔ آخر کار فوج کی شوکت و دہشت بھی۔
شریف خاندان یہ ثابت نہیں کر سکا کہ سمندر پار اس کی دولت جائز‘طیّب اور قانونی ہے۔ اسی لئے انہیں وزارت عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا۔ میاں محمد نواز شریف اب انتقام پر تلے ہیں۔ ایسے میں کچھ بھی باقی نہیں بچا کرتا۔ ہوش و حکمت کے آخری چراغ بھی بجھ جایا کرتے ہیں۔ اگلے چند ماہ میں قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ جو کچھ باقی ہے‘ اسے سمیٹا اور سنوارا جائے یا بھارت اور امریکہ سمیت‘ پاکستان کو سکّم اور بھوٹان بنانے کے آرزومندوں کو آزادیٔ عمل بخش دی جائے۔
سیاست الگ‘ واقعہ یہ ہے کہ ریاست خطرے میں ہے۔ المناک یہ ہے کہ حکمران تو کجا‘ اپوزیشن کو اس کا احساس ہے‘ میڈیا اور نہ فعال طبقات کو۔ وہی بات Waiting for Allah
سیاستدانوں کو اقتدار چاہئے‘ چشمِ ما روشن دلِ ماشاد۔ کیا انہیں ملک بھی چاہئے یا نہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے