اِدھر یا اُدھر

بحیثیت قوم ہم ایک بار پھر دوراہے پر ہیں۔ اِدھر جائیں یا اُدھر؟ فوج، حکومت اور عوام….. سب اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں۔ ایک یورپی سفارتکار نے کہا کہ پاکستان خوش قسمت ہے کہ اسے بار بار مواقع ملتے ہیں جبکہ فیصلہ ساز بدقسمت ہیں کہ ہر بار غلط راستے کا انتخاب کرتے رہے۔ کیا اس بار پھر ایسا ہی ہوگا یا اس بار عقل غالب آئے گی؟

خدا بخشے، نوابزادہ نصراللہ خان نے 1988کے الیکشن کے بعد صدر غلام اسحاق خان کو کہا کہ سیدھا راستہ آسان ہوتا ہےاور صاف نظر آ رہا ہوتا ہے۔ ہاں نیت اور مفادات اسے اوجھل کردیں تو کردیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ پیپلزپارٹی کی نشستیں اس کی مخالف آئی جے آئی سے دوگنی تھیں مگر غلام اسحاق سوچ و بچار میں گم تھے کہ اقتدار کس کا حق ہے؟ جس پر بابائے جمہوریت نے زندگی بھر اعداد وشمار میں کھیلنے والے غلام اسحاق کو بتایا کہ پی پی پی کی94نشستیں آئی جے آئی کی 56نشستوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مفادات اور تعصب کی پٹی باندھ لی جائے تو سیدھا راستہ ا ور واضح حقائق بھی نظر نہیں آتے۔

70سال گزر گئے پھر وہی سوال درپیش ہیں۔ جمہوریت رہنی چاہئے یا نہیں؟ پارلیمانی جمہوریت کی بجائے صدارتی نظام آنا چاہئے؟ سیاستدانوں کا احتساب کئے بغیر ملک ٹھیک نہیں ہوگا؟ پہلے احتساب پھر انتخاب!! یہ سوالات سراسر فروعی ہیں۔ جب بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ان سوالات کا واضح جواب دے چکے تو اب ان پر بحث کیوں؟ جناح نے ہمیشہ بادشاہت اور آمریت کی مخالفت کی اور جمہوریت کے حق میں بات کی۔ وہ خود پارلیمانی جمہوریت کا حصہ رہے۔ پاکستان میں انہوں نے پارلیمانی جمہوریت کو رائج کیا۔ اگر کہیں ان کے دل میں (شریف الدین پیرزادہ کی دریافت شدہ ڈائری کے مطابق) صدارتی نظام کی خواہش تھی بھی تو انہوں نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا، اس پر عمل نہیں کیا۔ اس لئے صاف ظاہر ہے کہ وہ پارلیمانی نظام کے قائل ہوچکے تھے۔ اس پر عمل پیرا رہے۔ اس لئے یہ بحث تو بند ہونی چاہئے۔ احتساب کے بغیر کوئی نظام نہیں چلتا۔ احتساب ہوتے رہنا چاہئے مگر احتساب کے لئے انتخاب روکنا غلط۔ 1977میں ہم نے 90دن کو 11سال پر محیط ہوتے دیکھا۔ اب یہ غلطی نہ دہرائی جائے۔

سول حکومت یا مارشل لا؟ یہ سوال آئوٹ آف ڈیٹ ہے۔ اتنازائد المیعاد کہ مارشل لا لگانے والوں کو بھی اس کے نقصانات کا علم ہے۔ امریکہ ہو یا برطانیہ ہر ایک اپنی Deep State کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ ہمیں بھی دنیا سے یہی سیکھنا چاہئے۔ ایسی نیوکلیئر ریاست جس کی پروفیشنل فوج کا دنیا میں نام ہے۔ اسے سویلین آئینی حکومت کے پردوں میں چھپا کر رکھنا چاہئے کہ اغیار کی نظریں ہمارے اثاثوں پر نہ پڑیں اور تمام ڈیلنگ بھی سول حکومت ہی کو کرنی چاہئے۔ یہی دنیا کا چلن ہے اور ہمیں بھی وہی راستہ اختیار کرناچاہئے۔ 70سال پہلے بابائے قوم نے یہی راستہ طے کیا تھا اس سے جب جب انحراف ہوا نقصان ہوا۔ آئین بھی یہی کہتا ہے اور بابائے قوم بھی یہی۔ ان دونوں کے علاوہ پاکستان میں کوئی اور متفق علیہ چیز نہیں ہے کم از کم ان دونوں کو مقدس مان کر ان میں چھیڑچھاڑ نہ کریں۔

شاید بہت سوں کو علم نہ ہو کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول بھی قائداعظم نے ہی طے کردیئے تھے۔ کشمیر پالیسی، اسلامی ممالک سے دوستی، فلسطین کاز کی حمایت اور امریکہ سے دوستی و امداد، یہ سب قائداعظم نے نحیف و نزار اور بیمار ہونے کے باوجود فیصلہ سازی کردی تھی۔ امریکہ سے دوستی کے لئے میرلائق علی کو خصوصی ایلچی بنایا اور اصفہانی کو سفیرمقرر کیا۔ قیام پاکستان سے پہلے ہی کہہ دیا کہ امریکہ ہمیں امداد دے گا اور قیام پاکستان کے بعد باقاعدہ خط لکھ کر امداد طلب کی۔

قائداعظم ایک ویژنری تھے۔ دور تک دیکھنے والے سیاستدان۔ ہم ان کے دیئے ہوئے وژن پر ہی چلتے رہتے تو بھٹکنے کی نوبت نہ آتی۔ افغانستان کے معاملے میں ہم نے دونوں مرتبہ امریکہ سے کمزور ڈیل کی۔ ہمیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا۔ قائداعظم نے امریکہ کے بارے میں جوپالیسی ترتیب دی اس سے پاکستان کو فائدہ ہوا اور جو بعد میں پالیسی بنائی گئی اس سے نقصان ہوا۔ اب بھی قائداعظم کی طرح اصولی پالیسی بنائی جائے مگر قومی مفادات کو مدنظر رکھا جائے۔

قائداعظم کا مخالفوں سے سلوک کیسا تھا؟ ہم نے غداری، نااہلی اور کفر کےفتوے جاری کرنے کا جو سلسلہ بنا رکھا ہے وہ ان جیسا نہیں ہے۔ قائداعظم نے تو خود غفار خان سے ملاقات کی۔ مولانا مودودی اسی دور میں ریڈیو پاکستان پر لیکچر دیتے رہے۔ قائداعظم کی زندگی میں کسی کو نااہل قرار نہیں دیا گیا۔ ان کی وفات کے اگلے ہی سال یعنی 1949میں پہلااحتسابی قانون ’’پروڈا‘‘ لایا گیا اور پھر ایوب کھوڑو، ذوالفقار علی ممدوٹ، حسین شہید سہروردی ا ور عبدالستار پیرزادہ کو نااہل قرار دیا گیا۔ یہ قانون 5سال تک نااہلیاں کرنے کے بعد اسمبلی کی اکثریت نے ختم کردیا۔ وزیراعظم محمد علی بوگرہ اس قدر مجبور ہوئے کہ انہو ںنے اس قانون کے خاتمہ کو موثر بہ ماضی کردیا یوں 5سال میں جتنے لوگ نااہل ہوئے تھے، سب اہل ہو گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب نااہلیاں عدلیہ ہی کے ذریعے ہوئیں مگر ایک انتظامی حکم نے ان نااہلوں کو اہل بنا دیا۔ نام نہاد اصول پرست گورنر جنرل غلام محمد سے برداشت نہ ہوا اور اس نے اسمبلی ہی برخاست کردی۔ واقعات پھر اسی طرح کے ہو رہے ہیں۔ توقع یہی کرنی چاہئے کہ نتیجہ وہی نہ ہو۔ آج کی تاریخ میں سہروردی، کھوڑو اور ممدوٹ سرخرو ہیں جبکہ غلام محمد ملک کا ذکر اچھے الفاظ میں نہیں ہوتا۔

ہمارے لئے دوراہے کا مسئلہ ختم ہونے کو نہیں آتا۔ عرصہ ٔ دراز سے یہ طے نہیں ہوپا رہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری ہے یا نہیں؟ جواب تو سیدھا سادہ ہے کہ دہشت گردی سے ہمارا نقصان ہوا ہے یا نہیں۔ کیا اسے روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے یا نہیں؟ میرے خیال میں ریاست کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے میں شک و شبہ نہیں رہا۔ ہاں البتہ ہم اپنے جہادی اثاثوں کو قربان کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتے۔

کچھ کہتے ہیں کہ گھر کی صفائی ضروری ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ہمارے گھر میں سب ٹھیک ہے، صفائی کی ضرورت ہی نہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم سچ بولیں۔ جنرل جہانگیر کرامت اس جہادی پالیسی کو زائد المیعاد قرار دے چکے ہیں۔ دنیا کو بھی اس پر اعتراض ہے۔ صاف بات ہے کہ ہم ساری دنیا سے لڑ نہیں سکتے۔

قائداعظم محمد علی جناح اور پاکستان کے بانیان نے بین الاقوامی اصولوں کی پابندی کوقومی پالیسی بنایا تھا اور ہم ہر دور میں اس کی پابندی کرتے رہے ہیں۔ دنیاکے اصولوں سے انحراف، نہ ریاست کےلئے اچھا ہوگا اور نہ عوام کے لئے۔ ایک اور دوراہا سیاسی بحران کے حوالے سے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شاہد خاقان عباسی کی کمزور حکومت ایک سال چلے گی؟ اور پھر اس کے نتیجے میں کوئی بڑا فیصلہ نہیں ہوسکا۔ خواجہ آصف باربار یہی کہیں گے کہ ہمیں وقت چاہئے۔ ہم گھر کی صفائی کرنے کو تیار ہیں لیکن وقت دیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ فیصلے ملتوی کروانےسے مسئلے حل نہیں ہوتے۔

مسئلہ حل کرنے کے لئے یکسو ہونا پڑتا ہے، بہادری دکھانی پڑتی ہے۔ جو کمزور حکومت کے بس میں نہیں۔ الیکشن میں تاخیر ملک کے لئے فائدہ مند نہیں بہتر ہوتا کہ فوراً الیکشن کروائے جاتے، جو جیتتا وہ ملک کے بارے میں فیصلے کرتا مگر اب ایک سال کا انتظار دراصل نوازشریف اور مقتدر قوتوں کی لڑائی میں ہی صرف ہوگا وگرنہ عوام کی رائے ظاہر ہو جاتی تو یہ لڑائی دب جاتی اور نئی حکومت معاملات کو آگے لے کر چلتی۔ مجھےاب بھی شبہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی تمام تر محنت کے باوجود اپنی حکومت کو ایک سال تک چلا سکیں گے یا نہیں؟ سب فریقوں کا بھلا جلد از جلد الیکشن میں ہے۔ جمہوریت جب بھی مسائل میں گرفتار ہو، اس کا حل انتخاب ہی ہوتے ہیں۔ اب بھی یہی حل ہے۔

بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ہم مشکل ترین دوراہے پر کھڑے ہیں۔ مونچھوں کو تائو دے کر للکارنے کی پالیسی کامیاب ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ قائداعظم کی طرح عالمی امن اور قومی مفاد کو مدنظر رکھیں، یہی راستہ بہتر اور کارآمدہوگا…..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے