بد اعتمادی کی فضا

امریکی وزیر دفاع‘ جم میٹس کا بیان ہے ” صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی کے مطابق کوئی بھی حتمی قدم اٹھانے سے قبل امریکہ‘ پاکستان کے ساتھ” ایک مرتبہ پھر‘ ‘کام کرنے کی کوشش کرے گا‘‘۔ ساتھ ہی انہوں نے انتباہ بھی کیا کہ” اسلام آباد دہشت گردوں کی مبینہ معاونت سے باز رہے‘‘۔یہ بیان سمجھنے والوں کیلئے بہت کچھ رکھتا ہے۔امریکہ نے سوویت یونین کے ساتھ طویل سردجنگ لڑی لیکن ناکامی اس کا مقدر ٹھہری۔ اسامہ بن لادن آپریشن میں‘ ایبٹ آباد میں خفیہ قیام گاہ کا‘ جب امریکہ کو یقین ہو گیا تو امریکی اعلیٰ قیادت نے اپنے خطرناک ترین دشمن کو مارنے یا زندہ لے جانے پر کافی غوروفکر کیا۔ حتمی فیصلہ یہی ہوا کہ اسامہ بن لادن کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے تاکہ دہشت گردی کا قلع قمع کیا جا سکے۔ قارئین نے فوٹیج میں دیکھا ہو گا کہ امریکی جہاز‘ ایبٹ آباد شہر سے باہر‘ ایک قلعہ نما مکان پر گردش کرتے ہوئے‘ اسامہ کے گرد گھیرا تنگ کر رہے تھے۔یہ آپریشن اتنا خفیہ رکھا گیا کہ پاکستان کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ امریکی فوج کے خصوصی دستے نے ‘ گھر کے اندر اچانک اپنے شکار کو آلیا۔باقی ساری کہانی قارئین نے پڑھ رکھی ہے۔میں نے یہ واقعہ اس لئے دہرایا کہ امریکی قیادت ‘ہم پر کتنا بھروسہ کرتی ہے کہ اس نے‘ پاکستان کو اعتماد میں لینا بھی گوارا نہ کیا۔امریکی تھنک ٹینک کا خیال تھا کہ اگرہم نے پاکستان کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی تو ہمارا منصوبہ‘ مکمل ناکام ہو جائے گا۔ بعد کے واقعات سے ظاہر ہوا کہ امریکیوں نے پاکستان کو ‘ اسامہ بن لادن آپریشن سے کیوں بے خبر رکھا ۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو پاکستان کی نیت پر پہلے دن سے ہی شبہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگی آپریشنز میں بھی‘ پاکستانی اعلیٰ قیادت کو اصل منصوبوں سے بے خبر رکھا جانے لگا۔اکثر اوقات یوں بھی ہوا کہ امریکہ نے‘ کارروائیوں میں مصروف‘ پاکستانی فوج کو دغا دے کر‘ اسے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے بارے میں جان بوجھ کر غلط اطلاعات دینا شروع کر دیں۔ا پنے اتحادیوں کی دغا بازی پر‘ ہم نے کافی نقصانات اٹھائے۔ اسی طرح راولپنڈی میں افغانستان کے استعمال کرنے کے لئے اسلحہ کا جو بڑا ذخیرہ چھپا کر رکھا ہوا تھا‘ اچانک اسے ایک دھماکے سے اڑا دیاگیا۔ خطرناک اسلحے کا یہ ڈپو‘ شہری آبادی کے عین بیچوں بیچ واقع تھا۔ اگر اسلحے کا ڈپو نہ اڑایا جاتا توپاکستان کے دشمن‘ جو افغانستان اور بھارت کے اشاروں پر کام کررہے ہیں‘ہمیں بھی براہ راست ہدف بنا لیتے۔
اسامہ بن لادن آپریشن کے بعد‘پاکستان کی داخلی سیاست میں بد اعتمادی پھیل چکی تھی۔حکمرا ن جماعت پیپلز پارٹی بظاہر امریکیوں کو وفاداری کا یقین دلا رہی تھی۔وہ‘ بھارت کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات میں وسعت پیدا کرنا چاہتی تھی لیکن حقیقت میں پاکستان اور امریکہ دونوں‘ ایک دوسرے پر اعتماد کرنا چھوڑ چکے تھے۔ موجودہ حکومت بھی خود سے پہلے والی حکومت کا طرز عمل اختیار کر رہی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہماری دونوں بڑی سیاسی قوتیں‘ عالمی منظر نامے سے قطع نظر‘ ایک دوسرے پر غالب آنے کے لئے ‘برسر پیکار نظر آتی ہیں۔ صورت حال آج بھی ویسی ہے‘ جیسی پہلے تھی۔پاکستان پیپلز پارٹی‘مسلم لیگ ن پر بھروسہ کرنے تو تیار نہیں اور آصف زرداری ‘ جناب نوازشریف پر اعتماد نہیں کرتے۔عالمی طاقتوں میں اب صرف دو ہی ایسی ہیں ‘جو باقی ساری دنیا میں‘ اپنے اپنے مفادات سے غرض رکھتی ہیں۔ چین اپنی اقتصادی طاقت کے ذریعے زور آزمائی کرتا ہے اور امریکہ‘ نئی چینی پالیسی کا منتخب حصہ اپناتے ہوئے‘اپنی جنگی قوت کے ذریعے دیگر ملکوں کو دبائو میں لا کراپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔
اس وقت ہم ‘بھار ت اور امریکہ دو بڑی طاقتوں کے نشانے پر ہیں۔بھارت کے مذموم عزائم ہمیں اچھی طرح یاد ہیں۔ امریکیوں کے لگائے ہوئے زخم‘ آج بھی رس رہے ہیں ۔ ایک علاقائی اور دوسری عالمی طاقت‘ ہمارے لئے خطرہ ہے۔ایسے دو طرفہ خطرے سے نمٹنے کے لئے‘ قومی اتحاد اور سیاسی فہم و فراست کا ہونا ضروری ہے۔ ہم اتنے بے بس نہیں کہ دو فوجی طاقتوں کے عزائم سے بچ نہ سکیں۔اپنے ملک اور یہاں کے عوام کو دونوں سیاسی قوتیں‘ لوٹنے میں مصروف ہیں۔ ہماری دولت بیرونی دنیا میں جا رہی ہے۔لوٹنے والے بھی بیرون ملک جا رہے ہیں۔فکر کی بات نہیں جب ہمارے پاس کچھ نہ رہا تو یہ نا اہل سیاست دان‘بھاگ نکلیں گے۔ہماری بھوک اور بلبلاہٹ کو دیکھ کر‘ دھرتی ماں مدد کو آجائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے