سر رہ گزر چھلاوا دہشت گرد پکڑا جا سکتا ہے

راہ چلتی خواتین پر چھری سے وار کرنے والے چھلاوا دہشت گرد نے 15کا ہندسہ اپنے نام کر لیا مگر وہ ہنوز سندھ پولیس سے پکڑا نہ جا سکا ہم سمجھتے تھے ہماری پولیس چھلاوا ہے، لیکن کیا خبر تھی کہ اس سے بڑھ کر بھی چھلاوا ہو سکتا ہے، ہماری تجویز ہے کہ سندھ پولیس کا کوئی بانکا سجیلا نوجوان کانسٹیبل جس کا رنگ روپ دلبرانہ ہو اس کا زنانہ گیٹ اپ بنا کر چھلاوے کے علاقہ واردات میں سڑک پر چھوڑ دیا جائے، وہ مسلح ہو اور اس کی حفاظت کے لئے پولیس کی نفری سفید کپڑوں میں اس طرح سے متعین کی جائے کہ چھلاوے کو نظر نہ آ سکے جوں ہی جانے پہچانے بہروپ والا چھلاوا وار کرنے کے لئے آئے اسے اس طرح گولی ماری جائے کہ وہ صرف زخمی ہو، خوبرو حسینہ کے روپ میں پولیس کانسٹیبل بھی چوکنا رہے اور اس کے وار سے پہلے گولی داغ دے، جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے، اس انوکھے دہشت گرد کو بھی انوکھے انداز میں کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے، ورنہ کراچی میں سڑکوں پر صرف کار سوار خواتین باقی رہ جائیں گی، اور جن کے پاس کار نہیں وہ ہی سڑک پر نہیں آ سکیں گی، ہم نے ایک آئیڈیا دے دیا ہے سندھ پولیس اب وہ اس کو چاہے عملی جامہ پہنائے یا نہ پہنائے اس کی مرضی، یہ چھلاوا کہیں اے ڈی خواجہ کے خلاف کوئی سازش تو نہیں؟ بہرحال اب تو اس چھلاوے کے سارے انداز پولیس کو معلوم ہو چکے ہیں، اس لئے اگر پیشہ وارانہ مہارت دکھائی جائے تو اسے قابو کیا جا سکتا ہے، انسانی دماغ میں ہر واردات کا توڑ بھی موجود ہوتا ہے، ظاہر ہے پولیس بھی انسان ہے تو وہ ذرا غور کرے محنت کرے، ڈراما کرے تو چھلاوا پکڑا جا سکتا ہے زندہ یا مردہ۔ بس پولیس کو بہادری دکھانا ہو گی، ہم نے تو ایک حل کا خاکہ پیش کیا ہے، باقی کام پولیس مکمل کرے، لگتا ہے یہ چھلاوا کوئی انتہا پسند مذہبی شخص ہے، اور نفسیاتی مریض بھی جو خواتین کو صرف زخمی کرتا ہے تاکہ خواتین صرف گھر کی زینت بنی رہیں اور چھلاوے کے نظریئے کے مطابق سڑکوں پر نہ نکلیں ۔
٭٭٭٭
مجھے وزیر کیوں بنایا؟
ڈی جی آئی بی کے حوالے سے ایک جعلی فہرست جاری کی گئی، جس میں وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ سمیت 17حکومتی ارکان پر کالعدم تنظیموں سے رابطہ رکھنے کا الزام لگایا گیا ہے اسپیکر کے تحقیق کرنے پر ڈی جی آئی بی نے ایسی کسی فہرست سے لا علمی ظاہر کی اور اسے جعلی قرار دے دیا، مگر ریاض پیرزادہ بار بار اپنی تقریر میں کہتے رہے اگر میں دہشت گرد ہوں تو مجھے وفاقی وزیر کیوں بنایا؟ وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ ایک پیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے عقیدت مندوں کا وسیع حلقہ ہے، یہ فہرست جو بظاہر ڈی جی آئی بی کی جانب سے جاری کی گئی ہے، اس آنریبل وفاقی وزیر کے بچوں کو پیغامات ملے کہ کیا آپ کے بزرگ دہشت گرد ہیں، ریاض پیرزادہ طیش کے عالم میں 17حکومتی ارکان اسمبلی سمیت واک آئوٹ کر گئے، بلاشبہ یہ خط بوگس ہے مگر اس کی تحقیقات کی جائے کہ آخر یہ کس نے مرتب کیا اور کس نے اسے جاری کیا کیونکہ 3وفاقی وزراء اور کئی حکومتی ارکان اسمبلی کے اسماء گرامی اس میں درج ہیں کہ ان کے کالعدم تنظیموں سے روابط ہیں اور یہ بظاہر وزیراعظم ہائوس سے جاری کیا گیا۔ بہرحال یہ ایک گہری سازش ہے، اور اس کے ذریعے، وزیراعظم ڈی جی آئی بی، قومی اسمبلی کو بیک جنبش خط بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی گئی، اس طرح کے واقعات کی اتھاہ تک پہنچنا ضروری ہے اور اس میں ملوث افراد کو عبرتناک سزا دینا ضروری تاکہ آئندہ کسی کو معزز وزراء، ارکان اسمبلی اور ملک کے چیف ایگزیکٹو کو بدنام کرنے کی جرأت نہ ہو، محترم ریاض پیرزادہ کا اس خط پر واک آئوٹ اور غم و غصے کا اظہار اپنی جگہ اہم لیکن اب یہ اسپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق کی ذمہ داری ہے کہ خط کے موجد کو بے نقاب کریں، مگر یہ تب ہی ممکن ہے کہ مکمل تحقیق کی جائے، اور اس معاملے کو صرف آئی بی کی تردید اور اسے جعلی قرار دینے پر مطمئن ہو کر ختم نہ کیا جائے بلکہ منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
٭٭٭٭
ایک سابق وزیراعظم کی بددعا
سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے اسمبلی کے فورم پر کھڑے ہو کر کہا:میری موت سے پہلے ان اسمبلیوں کو موت آ جائے۔ ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے میں قطع و برید پر انہوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، ناموس رسالت ﷺ کا معاملہ اچھا ہوا بروقت طے کر لیا گیا، اور ترمیم واپس لے لی گئی، حلف نامہ کی عبارت حسب سابق بحال کر دی گئی، بصورت دیگر یہ سلسلہ بہت آگے تک جاتا، جمالی صاحب کا ردعمل بحیثیت ایک مسلمان بالکل بجا تھا، آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت وقت سے کلیریکل مسٹیکس کچھ زیادہ ہونے لگی ہیں، ایک جعلی خط کا وزیراعظم کی جانب سے جاری ہونا، پھر یہ حلف نامے کی عبارت میں حلف کا لفظ حذف کر دینا، آخر کون ایسا نالائق کلرک ہے جو بار بار کرتا ہے اس کا پتا چلایا جائے تاکہ آئندہ ایسی غلطیاں جو بہت کچھ غلط کر کے رکھ سکتی ہیں سرزد ہی نہ ہوں یا ان کا ارتکاب ہی نہ کیا جائے، اختلاف کے لئے باہم لڑنے جھگڑنے کے لئے اور بھی کئی موضوعات موجود ہیں، کوئی کمی نہیں، لیکن قومی اسمبلی سے ایک ایسی آئینی ترمیم کا منظور ہونا جس میں لگے ہاتھوں قادیانیت کی خواہش بھی پوری ہو گئی، قومی اسمبلی، سینیٹ کے لئے زلزلے سے کم نہیں، ٹھیک ہے اپنے مفادات کے لئے جب چاہیں آئین پاکستان کو لکھ لکھ کر مٹائیں اور مٹا مٹا کر لکھیں لیکن ایسا کچھ تو نہ کریں کہ آئین کی کتاب قبول کرنے سے بھی انکار کر دے، مسلم امہ کا یہ المیہ چلا آ رہا ہے کہ اقتدار کی خاطر کربلا برپا کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا، یہ ہوس اقتدار نہ جانے عالم اسلام کو کہاں جا کھڑا کرے گی یہ سوچ کر دل دماغ دہل جاتا ہے۔ پاکستان ایک نظریہ ہے جس کا متن ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے، اگر یہاں سے بھی ہوس اقتدار و ذاتی مفادات کا علم بلند ہو گا تو پھر مسلمانی کہاں رہ جائے گی خدا نہ کرے کہ یہ بددعا قبول ہو جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے