بیلوں کی لڑائی میں فصلیں برباد

پاکستان کے وزیر خارجہ‘ خواجہ آصف نے تین دن‘ امریکہ کا مختصر دورہ کیا۔ وقت بہت کم تھا لیکن جہاں تک ممکن ہوا‘ انہوں نے متعلقہ افراد‘ حلقوں اور اداروں کے ساتھ رابطے کئے۔ امریکی اور بین الاقوامی میڈیا سے‘ بے تکلفانہ گفتگو کی اور انہیں بتایا کہ ”پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے‘ اپنے حالیہ دورہ افغانستان کے دوران‘ کابل حکومت اور فوج کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور افغان صدر کو تعاون کی پیش کش کی۔ ان کا یہ دورہ‘ دو طرفہ تعلقات کے ہمہ جہت معاملات کو محیط رہا۔ پاکستانی آرمی چیف نے دورے کے دوران کابل حکومت اور فوجی قیادت کے ساتھ بے تکلفانہ بات چیت کی۔ افغان صدر کو دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے پاکستان کے تعاون کی پیش کش کی۔ انہوں نے مقامی رہنمائوں کے ساتھ وسیع تناظر میں تبادلہ خیال کیا۔ ان مذاکرات کے دوران‘ کابل کے ساتھ منجمد تعلقات میں برف قدرے پگھلی ہے۔ پاک افغان تعلقات میں‘ امریکہ سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ طے پایا کہ چار فریقوں یعنی پاکستان‘ افغان حکومت‘ طالبان اور امریکہ کے مابین‘ 16 اکتوبر کو مسقط میں مذاکرات ہوں گے‘‘۔
واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں امریکی اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا ”پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ ماضی کے برعکس‘ گزشتہ تین چار برسوں سے پاکستان‘ عسکریت پسند گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کر رہا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان نے دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزام کی تردید کی۔ جب یہ سوال پوچھا گیا کہ پاکستان‘ افغان سرحد کی مشترکہ نگرانی کے نظام کی پیش کش کے بعد‘ کیا مشترکہ آپریشن کا بھی خیر مقدم کیا جا سکتا ہے؟ وزیر خارجہ نے جواب دیا کہ ”ہم یہ پیشکش پہلے ہی کر چکے ہیں‘‘۔ بقول اْن کے ”ہم نے تین دن پہلے‘ جب ہمارے آرمی چیف‘ کابل کے دورے پر تھے‘ ان کو یہ پیشکش کی کہ وہ ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کریں۔ ہم ان کو اپنے ساتھ‘ ہیلی کاپٹر پر بٹھائیں گے۔ وہ جہاں جانا چاہیں‘ ہم جائیں گے۔ اگر وہ ہم سے کچھ جاننا چاہتے ہیں کہ ہم‘ مخالف عناصر کو تلاش کریں۔ ہم دونوں‘ دشمن کا سراغ لگائیں گے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں حصہ لیں‘ تو ہم ان کی تجویز کے مطابق‘ مشترکہ اقدامات کریں گے۔ آپ آئیے‘ ہمارے ہیلی کاپٹروں میں ہمارے ساتھ بیٹھیں اور ہم دونوں کسی بھی مقام پر جا سکیں گے۔ وہ خواہ چمن کا مقام ہو‘ کوئٹہ میں جائیں‘ پشاور یا کسی اور جگہ‘‘۔
وزیر خارجہ نے بتایا ”افغان طالبان‘ پاکستان پر آج کل‘ اتنا ہی بھروسہ کرتے ہیں جتنا امریکہ۔ تاہم اس کے باوجود‘ طالبان کے ساتھ‘ امن مذاکرات کے حوالے سے ایک اور کوشش ہو رہی ہے جو مسقط میں چار فریقی ملاقات کے دوران ہو
گی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ”مری مذاکرات کے دوران‘ ملا عمر کی موت کی خبر سے‘ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو سخت دھچکا پہنچا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج صورتحال بہت مختلف ہو سکتی تھی۔ انہوں نے روس کا نام لے کر کہا کہ فی الوقت پاکستان سے زیادہ‘ ماسکو اور خطے کے دیگر ممالک کا اثر و رسوخ ہے‘‘۔ اْن کے الفاظ میں ”جہاں تک افغان طالبان پر ہمارے اثر و رسوخ کا تعلق ہے‘ ہمارے درمیان بداعتمادی کی فضا ہے۔ غالباً خطے کے دیگر ملکوں کا اثر و رسوخ‘ ہم سے زیادہ ہے۔ لیکن ہم پھر بھی اس سلسلے میں‘ 16 اکتوبر سے شروع ہونے والے‘ مسقط مذاکرات میں بے تکلفی سے بات چیت کریں گے۔ چار فریقی انتظامات ایک بار پھر بروئے کار ہوں گے۔ یہ آپریشن کا حصہ ہو گا۔ اب بھی بہرحال یہ ایسی چیز ہے کہ جس کے بارے میں‘ ہماری امید ہے کہ یہ کارگر ثابت ہو گی۔ ضرورت اس امر کی ہو گی کہ ہم نے تین چار روز قبل‘ کابل اور اسلام آباد کے مابین‘ جو دو طرفہ روابط بحال کئے ہیں‘ امریکہ اس عمل میں ہماری مدد کرے‘‘۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں برف پگھل رہی ہے۔ امریکہ کی بطور سہولت کار‘ ہمیں ضرورت ہے۔ جب ہم اپنے گھر کو درست کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ بلکہ پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان پر تمام سیاسی اور فوجی قیادت متفق ہے اور ‘ہاؤس ان آرڈر‘ لانے کے لئے‘ اس منصوبے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے‘‘۔ امریکہ کے تقریباً تمام بڑے نیوز چینلز اور اخبارات کے نمائندے اس بریفنگ میں موجود تھے‘ جس میں پاکستان کے خفیہ ادارے کے طالبان سے مبینہ رابطوں‘ پاک چین اقتصادی راہداری اور ملکی سیاست سمیت متعدد امور پر سوالات اٹھائے گئے۔
میں نے وزیر خارجہ کے دورے پر امریکی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں کی چند جھلکیاں پیش کی ہیں۔ خطے کے مابین چار فریقوں کے باہمی تعلقات میں کسی تیز رفتار پیش رفت کی امید نہیں کی جا سکتی۔ چاروں فریقوں یعنی امریکہ‘ پاکستان‘ افغانستان اور طالبان کے مابین ہمہ پہلو اور متضاد توقعات موجود ہیں۔ اس پس منظر میں زیادہ امید افزا مذاکرات کی امید نہیں کرنا چاہئے۔ امریکی میڈیا کی رپورٹنگ میں ان تلخیوں کا ذکر نظر انداز کیا گیا جو امریکہ‘ پاکستان اور افغانستان کے سہ طرفہ تعلقات میں پائی جاتی ہیں۔ بھارت‘ امریکہ سے مختلف تعلقات رکھتا ہے جبکہ ہمارے تعلقات کچھ اور ہیں۔ پاک افغان تعلقات میں بھی صورت حال زیادہ امید افزا نہیں۔ پاکستان اور افغانستان باہمی طور پر ایک دوسرے سے جو توقعات رکھتے ہیں‘ وہ جلد پوری نہیں ہو سکتیں۔ دوسری طرف افغانستان او ر امریکہ کی امیدیں بالکل مختلف ہیں۔ امریکہ‘ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو طول دے کر‘ وہاں کے معدنی ذخائر سے فائدے اٹھانا چاہتا ہے اور اس نے افغانستان میں سرمایہ کاری کر کے جانی اور مالی نقصانات اٹھائے۔ حقیقت میں امریکہ نے افغانستان میں روس کو پسپا کرنے پر‘ جو جانی اور مالی قیمت ادا کی‘ وہ سرد جنگ سے نجات پانے کے لئے کوئی بڑی قیمت نہیں تھی۔ اگر امریکہ اپنے جنگی فوائد کو افغانستان اور پاکستان جیسے غریب ملکوں سے پورا کرنا چاہتا ہے تو ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ چاروں فریق علاقے میں سوویت یونین کی جارحیت کے متاثرین ہیں خصوصاً بڑا خسارہ پاکستان اور افغانستان کو اٹھانا پڑا۔ اصل جنگ سوویت یونین اور امریکہ کی تھی۔ دونوں فریق پشتو محاور ے کے مطابق ”بیل آپس میں لڑتے ہیں اور فصلیں کسانوں کی برباد ہوتی ہیں‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے