غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے

غلامی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موت بھی قبول ہے۔۔۔۔!!

دین اسلام میں عقیدہ توحیدکے بعد دوسرا اہم اور بنیادی عقیدہ ختم نبوت کاہے، پہلی امتوں کے لیے اس بات پر ایمان لانا لازم تھا کہ ان کے انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد اور نبی ورسول آئیں گے اور اس امت کے لیے اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی اور نبی یا رسول نہیں آئے گا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی پیدا ہوگا وہ امتی کہلائے گا،در حقیقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت اس امت پر پروردگار کریم کا احسان عظیم ہے کہ اس عقیدے نے اس امت کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا ہے، دنیا ئے کفر شروع سے ہی اس عقیدہ میں دراڑیں ڈالنے میں مصروف ہے تاکہ دین اسلام کی عالمگیریت اور مقبولیت میں رکاوٹ کھڑی کی جاسکے اور کسی طرح اس کے ماننے والوں کے ایمان کو متزلزل کیا جاسکے، ان سازشوں کا سلسلہ دور نبوت میں سلیمہ کذاب سے شروع ہوا اور فتنہ قادیانیت تک آن پہنچا لیکن ہر دور میں قدرت نے ان سازشوں کو ناکام کیا ہے اور ان شاء اللہ تعالی قیامت تک یہ سازشیں ناکام ہوتی رہیں گی اور دین اسلام اور ختم نبوت کا پرچم سدا بلند رہے گا۔برصغیر میں ختم نبوت کے خلاف فتنہ قادیانیت کا آغاز تقسیم ہند سے قبل بھارت کے ایک قصبہ ’’قادیان‘‘ سے ہوا،اس حوالے سے اگر تاریخ پر قلم اٹھائی جائے تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں مگر ہم پاکستان میں اس بارے تاریخی واقعات کا مختصر جائزہ لیں گے۔

پاکستان میں قادیانیت کے خلاف تحریک کا آغاز مئی 1974ء کو ہوا جب پورے ملک میں ہر شخص ختم نبوت کا وکیل نظر آیا اور تمام مکتبہ فکر کے علماء کرام نے ایک جگہ اکٹھے ہوکراتفاق رائے سے مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا صدرعلامہ سید محمد یوسف بنوریؒ اور سیکرٹری جنرل علامہ محمود احمد رضویؒ کو منتخب کیا علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں تحریک چلی اس تحریک میں انکے ہمراہ مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا عبدالستار خان نیازیؒ، مولانا سید مودودیؒ، مفتی محمودؒ، آغا شورش کاشمیری، نوابزادہ نصراللہ خان، مظفر علی شمسی سمیت جید علماءاکرام اور اہم راہنما شامل تھے میرے مرحوم والد چوہدری ولیؒ محمد لدھیانوی بھی تحریک میں گوجرانوالہ چیپٹر کا اہم حصہ تھے اور تحریک کے دوران وہ دو بار جیل گئے، تحریک کی طرف سے بھرپور احتجاج اور سول نافرمانی سے حکومت تحریک کے آگے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہوئی اور مسلئے کے قومی اسمبلی میں حل کا عندیہ دیا گیا۔

قومی اسمبلی میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی نمایندگی مولانا شاہ احمد نورانیؒ،مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبدالحقؒ، پروفیسر غفور احمد، چودھری ظہور الٰہی مرحوم کررہے تھے، ان عاشقان رسول نے مرزا ناصر پر 11 دن اور مرزائیت کی لاہوری شاخ کے امیر پر 7 گھنٹے مسلسل بحث کی جس کے بعد 7 ستمبر 1974ء کوقومی اسمبلی نے متفقہ طورپرقادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قائدایوان کی حیثیت سے خصوصی خطاب کیا، عبدالحفیظ پیرزادہ نے اس سلسلے میں آئینی ترمیم کا تاریخی بل پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔اس روز بھی حزب اقتدار وحزب اختلاف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں ایک ساتھ تھے۔اپنے والد مرحوم اللہ انکو جوار رحمت میں اعلی مقام اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ عطا فرمائے مجھے آنکھوں دیکھے واقعات سنایا کرتے تھے۔

لگ بھگ43 سال 27 دن بعد جس جذبہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ اباّ حضور سے جو سنتے تھے اسی جذبے عشق مصطفی کا عملی مظاہرہ اور تجدید عہد میں نے آنکھوں سے دیکھی اور کانوں سے سنی جب قومی اسمبلی میں موجود حکومت اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا ہر فرد محمد کا سپاہی بن کر کھڑا ہوگیا اور سیاسی وابستگی اور مفادات سے بالا اس شعر کی عملی شکل بن گیا۔۔

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو دین نا مکمل ہے

معاملے پر وفاقی وزیراکرم خان درانی،غلام احمد بلور،شاہ محمود قریشی ، میاں عبدالمنان،علی محمد خان،نعیمہ کشور خان،صاحبزادہ طارق اللہ سمیت کئی ارکان سپیکر اورڈپٹی اسپیکر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ختم نبوت پر ایمان ہمارےعقیدے کی اہم ترین بنیاد ہے اس پر سوئی برابر بھی مصلحت ناقابل برداشت ہے۔ بدھ سے پہلے بھی قومی اسمبلی کے ایوان کے اندر اور باہر اس معاملے پر آوازیں اٹھتی رہیں۔مجھے اس معاملے کے سیاسی پہلوؤں کی نسبت آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت کے روشن پہلو زیادہ نمایاں اور سنہرے نظر آئے ہیں۔حلف نامے کی بحالی پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق،تحریک انصاف کے راہنما شاہ محمود قریشی کا کردار قابل تعریف ہے۔آخر میں یہی کہوں گا کہ ”حلف نامے“ کے الفاظ کو اقرار نامے میں تبدیل کرنا اگر کلیریکل غلطی تھی تو یہ کیوں ہوئی؟ذمہ داروں سے پوچھا جانا چاہیے؟ اور اگر یہ سازش تھی تو وہ کس کے ایما پرہوئی؟ ایسے سازشیوں کو بے نقاب کیا جانا ضروری ہے تا کہ آئندہ ایسے مذموم واقعات کا اعادہ ممکن نہ رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے