حکایات مثنوی مولانا رومیؒ

مولانا رومیؒ کا نام کس نے نہیں سنا اور ان کی مثنوی سے کون واقف نہیں ہے۔ ہم سے زیادہ تو مغربی دنیا میں لوگ ان کے کلام سے واقف ہیں۔ یہ چودھویں صدی کی بات ہے کہ اہل مغرب نے اسلام اور اسلامی فلسفہ، تصوف کے بارے میں دلچسپی لینا شروع کی اور خاص طور پر فارسی زبان کی اعلیٰ کتب کا اپنی زبانوں (خاص کر انگریزی، فرانسیسی اور جرمن ) میں ترجمہ کرنا شروع کردیا۔ اس طرح ایک جانب تو وہ ہمارے مذہب و فلسفہ سے واقفیت حاصل کرنے لگے اور دوسری جانب اسلام کے اعلیٰ اصولوں و قوانین کی قدر بھی کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں کئی دانشوروں نے اسلام قبول کرلیا اور اپنے ممالک میں اپنے ہم زبانوں کو اِسلام کے سنہرے اُصولوں کے بارے میں بتلایا۔ یہ سلسلہ عمر خیامؒ کی رباعیات سے شروع ہوا، پھر طوسیؒ، عطارؒ، سعدیؒ اور رومیؒ وغیرہ کے کلام کے ترجمے ہوئے۔ مغرب نے مولانا رومیؒ کا صوفیانہ تخیل بہت خوشی سے اپنایا اور جرمن دانشور اَنے مری شِمل نے ان کے کلام کا انگریزی اور جرمن زبانوں میں ترجمہ کرکے لوگوں کو مسحور کردیا۔
مولانا جلال الدین رومیؒ 6 ربیع الاوّل 604 ہجری کو بلخ میں پیدا ہوئے یہ اس وقت فارس کا حصّہ تھا۔ آپ کے والد کا نام شیخ بہاء الدین تھا۔ مولانا کا اصل نام محمد جلال الدین تھا اور عرفیت مولانا ئے روم تھی۔ مثنوی کو اکثر الہامی کتاب کہا جاتا ہے وہ اس وجہ سے کہ مولانا جب وجد میں آتے تھے تو ان کی زبان پر بے ساختہ اشعار آتے جاتے تھے اور ان کے شاگرداُن کو لکھ لیا کرتے تھے۔ آپ کی روحانیت اور عشق اللہ و عشق رسولؐ کا یہ عالم تھا کہ جب عبادت کرتے تھے تو بالکل غافل ہوجایا کرتے تھے۔ آپ نے خود ایک شعر میں فرمایا ہے (ترجمہ)
جب میں نماز ادا کرتا ہوں خدا کی قسم مجھے

یہ معلوم نہیں رہتا کہ رکوع پورا ہوگیا ہے یا امام کون ہے؟
آپ کا انتقال 5 جمادی الثانی 672 ہجری کو قونیہ (ترکی) میں ہوا۔ قونیہ ترکی کے مشرق میں ہے اور یہاں مسلمانوں کی آمد سے پہلے رومی آبادی رہتی تھی اور اس وجہ سے اس کو روم کہا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے مولانا کا لقب رومیؒ ہوگیا۔
دیکھئے کلام مجید میں اللہ رب العزّت نے لاتعداد مرتبہ ان نعمتوں اور معجزات کا ذکر کیا ہے جو اس نے ہم کو عطا کئے ہیں۔ یہاں تک کہ رسول اللہؐ کی انگلی کے اشارے پر چاند کے دو ٹکڑے ہوجانا، حضرت ابراہیم ؑ کیلئے جلائی گئی آگ کا گلستان بن جانا، حضرت عیسیٰ ؑکا کھٹولے میں بات چیت کرنا، برص و جزام کے مریضوں کو صحتیاب کرنا، مٹی کے پرندے میں جان ڈالنا، پرندوں کے ٹکڑے کرنا اور پھر زندہ کرنا، مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرنا۔ ایسا ہی ایک معجزہ مولانا رومیؒ نے اپنی مثنوی میں بیان کیا ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔

’’کہا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں ایک درویش شیخ نے ایک نابینا کے گھر میں کلام مجید کا ایک نسخہ دیکھا وہ اس کے ہاں مہمان بن کر ٹھہر گیااور کئی دن یہ دونوں ساتھ رہے۔ اس نے دل میں سوچا کہ یہ قرآن کس لئے یہاں رکھا ہے چونکہ یہ نیک بندہ تو نابینا ہے۔ جب وہ یہ سوچ رہا تھا تو وہ اور پریشان ہوا (اس کی جستجو بڑھی) کہ اس گھر میں سوائے اس کے کوئی اور نہیں ہے اور پھر بھی اس نے قرآن رکھا ہوا ہے۔ میں اتنا بداخلاق نہیں ہوں کہ اس سے اس کی وجہ دریافت کروں۔ نہیں مجھے بے صبرا نہیں ہونا چاہئے اور صبر کرنا چاہئے اور ممکن ہے کہ صبر کرنے سے مجھے میری جستجو کا جواب مل جائے۔ اس نے صبر کیا مگر پھر بھی سخت شش وپنج میں تھا مگر آخر کار اس کے صبر کا پھل اس کو بہت اچھا ملا اور یہ معمہ اس طرح حل ہوا۔مہمان نے صبر کیا اور یکدم اس پر یہ عقدہ کھل گیا۔ آدھی رات کو اس کو قرآن کی تلاوت کی آواز آئی، وہ بستر سے اچھل پڑا اور خدا کا معجزہ دیکھا۔ کہ نابینا شخص قرآن کی تلاوت بالکل درست کررہا تھا۔ وہ سخت تذبذب میں ہوا اور نابینا شخص سے پوچھا۔ الحمداللہ، اے نابینا برادر تم کس طرح تلاوت کررہے ہو، تم کس طرح تحریر دیکھ رہے ہو۔ تم ان لکیروں پر انگلی پھیر رہے ہو جو تم پڑھ رہے ہو تمھاری حرکت کرتی انگلی اس کی شاہد ہے کہ تم حروف پر انگلی پھیر کر پڑھ رہے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ اے مہمان تم اَپنے بے علم بدن (روح) سے جدا ہو کیا تمھیں یہ قدرت کا معجزہ نظر نہیں آرہا؟ میں نے اللہ رب العزّت سے التجا کی کہ اے پروردگار میں قرآن پڑھنے کا اسی طرح خواہشمند ہوں جس طرح میں جینے کا خواہشمند ہوں، مجھے یہ حفظ یاد نہیں ہے کہ میں یہ تلاوت کرسکوں۔ اے رب العزّت مجھے تلاوت کرتے وقت میری بینائی عطا فرما دے کہ میں بہ آسانی قرآن مجید اُٹھا کر پڑھ سکوں۔ اللہ رب العزّت کی جانب سے ندا آئی کہ اے صاحب ایمان شخص کہ تجھے ہر تکلیف و مشکل میں مجھ پر مکمل بھروسہ ہے اور ہمیشہ مجھے بہت خلوص و التجا سے یاد کرتا ہے جب بھی تو کلام مجید پڑھنے کا ارادہ کرے گا یا دوسری تحریروں سے مقابلہ کرنا چاہے گا اس وقت میں (اللہ) تیری بصیرت بحال کردوں گاکہ تو نیک بندہ تلاوت کرسکے۔ یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے پورا کیا اور وہ رب العالمین، وہ پروردگار، وہ قادر مطلق ہمیشہ میری بینائی بحال کردیتا ہے جوں ہی میں کلام مجید پڑھنا چاہتا ہوں یہ بالکل اسی طرح سمجھو جس طرح چراغ روشن ہوتے ہی اندھیرا غائب ہوجاتا ہےـ ۔ اس طرح ایک ولی اللہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے کسی کام پر اعتراض نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام کسی نہ کسی مصلحت سے ہوتا ہے اور اگر کوئی کام یا بات بُری لگے تو اس نے فرمایا ہے کہ ہر برائی کے بعد اچھائی ہے۔ مثلاً اگر تمہارا انگور کا باغ جل جائے تو وہ تمھیں انگور دیدے گا اور غم و اندوہ کے درمیان ایک جشن کا ذریعہ بنا دے گا۔ ایک معذور بغیر ہاتھوں والے کو وہ ایک ہاتھ دیدیتا ہے اگر وہ شخص میرے لئے رنجیدہ ہے۔

اس کو وہ ایک مدہوش شخص کی طرح خوش کردیتا ہے۔ جذبے یا احساس کا اس طرح اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم نہ ہی کوئی اعتراض کرینگے یا دل میں کوئی بات لائینگے کیونکہ اگر کوئی چیز ہم سے لے لی جاتی ہے تو اللہ رب العزت اس سے بہتر عطا کردیتا ہے۔ مثلاً بغیر آگ کے اللہ تعالیٰ ہمیں گرمی دیدیتا ہے اور میں خوش ہوں مگن ہوں اگر اللہ تعالیٰ آگ کو بجھادے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ وہ ہمیں بغیر لیمپ کے روشنی دیتا ہے اگر تمھارا لیمپ تم سے لے بھی لیا جائے تو شکوہ ، شکایت، رونے دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
دیکھئے یہ معجزہ یا کرامت اللہ رب العزّت کیلئے کوئی بڑی بات نہیں ہم نے کلام مجید میں اس کی کرامات کی ہزاروں باتیں پڑھی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ سورۃ رحمٰن میں ان تمام احسانات و کرامات کو بتا کر اس ناشکرے انسان سے پوچھتا ہے کہ وہ اسکی کن کن نعمتوں سے انکار کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بنی نوع انسان کبھی بھی اللہ رب العزت کی مہربانیوں اور عنایتوں کا شکر اَدا نہیں کرسکتا۔

(نوٹ) ملک میں گندی سیاست زوروں پر ہے۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ عمران خان نے شروع کیا ہے۔ نواز شریف صاحب کی نااہلی سے پہلے اور نااہلی کے بعد خود انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے جس نامناسب زبان و الفاظ کا استعمال کیا ہے وہ قابل مذمت اور نامناسب ہے۔ بدقسمتی سے میاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے مردشناسی کا ہنر عطا نہیں کیا۔ JIT میں شرکت سے پہلے جس طرح ان کے ساتھیوں نے عدلیہ کی بے عزتی کی وہ سخت قابل مذمت ہے۔ نااہلی کے بعد ان لوگوں کو ہی جو اُن کو اس مقام پر پہنچا گئے وزارات کے عہدوں سے نوازا گیا۔ ان کم عقلوں کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ معزز جج صاحبان علم و قانون ہیں۔ پورا ملک اور پوری دنیا ان کے فیصلوں کو کرید کرید کر پرکھتی ہے۔ میاں صاحب کیلئے مناسب یہ تھا کہ بچوں کو یہاں نہ لاتے وہ وہیں رہتے اور وہاں کے قانون ہی ان پر لاگو ہونے دیتے۔ عدلیہ نے بہت برداشت کا مظاہرہ کیا ہے ن کی نرمی کو ان کی کمزوری سے منسوب کیا جانا بیوقوفی ہے۔ میاں صاحب کبھی آپ نے سنجیدگی سے یہ بھی سوچا کہ آپ تین بار کیوں نکالے گئے؟ میاں صاحب، خوشامدیوں اور موقع پرستوں سے علیحدہ بیٹھ کر سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی عزت دی اور آپ نے اس کو برقرارنہیں رکھا۔ اللہ پاک آپ کی رہنمائی فرمائے اور عزّت و وقعت عطا فرمائے۔ اللہ پاک آپ کی بیگم صاحبہ کو جلد از جلد مکمل صحتیابی عطا فرمائے اور عمر دراز کرے۔ آمین۔ ثم آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے