سر رہ گزر وزیر داخلہ کا بیان فقہی ہے

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے:جہاد کا فتویٰ ریاست کا حق ہے اسلام میں اگرجہاد فرض ہو جائے تو اس کا فتویٰ کوئی مفتی اپنی حیثیت میں جاری نہیں کر سکتا تاوقتیکہ اسلامی ریاست اس کا حکم جاری نہ کرے، وفاقی وزیر نے اپنی گفتگو میں کہا ختم نبوت کے پیرے میں تبدیلی کجا ایسا سوچ بھی نہیں سکتے، وہ ایک سچے مسلمان ہیں، اور اسلامی شعائر پر سمجھوتہ ان کی ذات سے ہرگز متوقع نہیں وہ دین اسلام کا مطالعہ رکھتے ہیں، اور ان کے اسلامی معتقدات شک و شبہ سے بالاتر ہیں، پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے اگراس نے ترمیم کثرت رائے سے واپس لے لی ہے، تو اس کے بعد اس حساس معاملے کو طول دینا وطن عزیز کے مفاد میں نہیں، اس لئے ہماری ان مہربانوں سے بھی درخواست ہے جو سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں کہ وہ اب مطمئن رہیں اور کوئی ایسی بات کریں جس سے شکوے شکایتیں اور احتجاجی جنگ کا خاتمہ ہو، وفاقی وزارت داخلہ اہم ترین ہے، اور اس کے وزیر موصوف پر قیاس نہ کیا جائے کہ وہ وزیر باتدبیر ہیں، اور سلجھے ہوئے پڑھے لکھے انسان ہیں، اس نوع کے لوگ آبگینہ صفت ہوتے ہیں انہیں ٹھیس نہ پہنچائی جائے، یہ کسی بھی پارٹی میں ہوتے قابل قدر ہوتے۔ اسمبلی میں سیدالکونین ﷺ کی ختمیت نبوت پر جس والہانہ انداز میں گفتگو کی اس سے عشق رسول ﷺ کی خوشبو آتی تھی، ہم ان کالموں میں بارہا تحریر کر چکے ہیں کہ جہاد کا حکم صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ حکومت ہی دے سکتا ہے، البتہ نماز، حج، زکوٰۃ، روزہ جیسی فرض عبادات کیلئے ہر مسلمان کو اجازت ہے کہ اپنی مرضی سے خدا کے حکم پر ادا کرے، مگر جہاد کا تعلق ریاست سے ہے جس کا حکم بالواسطہ ہے۔
٭٭٭٭
اگر وی آئی پی کلچر ختم، کوچۂ اقتدار ویران
ہم بڑے یقین کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ سیاستدان جو کوئے اقتدار میں قدم رکھنے کیلئے ہوس کے پاپڑ بیلتے ہیں، وطن عزیز سے وی آئی پی اور ڈبل وی کلچر کا خاتمہ ہوتے ہی نو دولتی نا اہلوں کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا، ایک بہت بڑے فلسفی طبیب کے شاگرد کو اس کی بیٹی سے پیار ہو گیا، یہ وہ شاگرد تھا جس سے استاذ کو توقع تھی کہ وہ اس کی جگہ لے گا مگر جب سے عشق کا مرض لگا، رنگ پیلا اور لیکچر میں دلچسپی ماند پڑ گئی استاد گرامی کو فکر لاحق ہوئی کہ مستقبل کا ایک اسکالر ضائع ہو جائے گا، اسے بچانے کیلئے بیٹی کو تیز جلاب دیا، لڑکی جو پیکر حسن و شباب تھی ڈی ہائیڈریٹ ہو گئی، گلاب رخسار پچک گئے ساری رعنائی دلکشی جاتی رہی، تب استاذ نے شاگرد کو اس کا دیدار کرایا تو شاگرد نے منہ دوسری طرف پھیر لیا اور استاذ سے کہا آپ اپنا لیکچر شروع کریں، مگر استاذ نے کہا بیٹا یہ تمہاری وہی محبوبہ ہے جس سے تم نے عشق کیا، اب اگر حسن نہ رہا تو تیرا عشق بھی رخصت ہو گیا، گویا تمہیں اس کے ظاہری حسن سے پیار تھا، وہ نہ رہا تیرا عشق بھی نہ رہا، اور تم اپنے پیار میں جھوٹے نکلے، سچا پیار رنگ روپ نہیں دیکھتا، ہمارے ہاں لیلائے اقتدار کو اس قدر ہار سنگار سے آراستہ کیا گیا ہے، کہ اس کے عاشق اس پر مرتے ہیں، یہ میک اپ اتار لیا جائے، یہ مراعات، عیش و نشاط، پروٹوکول اور وی آئی پی لائف اسٹائل ختم کر دیا جائے تو یہ کسی نائی کی دکان پر کام کر لیں گے لیکن اقتدار بیگم کا رخ نہیں کریں گے، عمر بن عبدالعزیز کے پاس مسلمانوں کے اہم افراد کے کتنے ہی وفد گئے کہ حکمرانی قبول کر لیں امت کی حالت پتلی ہے، آخر بڑی مشکل سے راضی ہوئے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انہیں ایک ایک فرد کا کڑا حساب دینا ہو گا، اس لئے کہ وہ قیامت پر یقین رکھتے تھے۔
٭٭٭٭
یہ جو چند وزیر ہوتے ہیں خطیب بینظیر ہوتے ہیں
ایک دوست نے ملازم رکھا کہ گھر کے کام کاج کرے، اسے الگ ایک کمرہ دیا، اس میں کال بیل بھی لگوا دی کہ جب ضرورت ہو بلا لیا جائے، ایک روز بہت بیلیں کیں، اور آخر ہمارا دوست خود اس کے کمرے میں چلا گیا، کیا دیکھتا ہے کہ حضرت ملازم ایک بڑے سے کاغذ پر پینٹنگ کر رہا ہے، اور دنیا و مافیہا سے بے خبر محو تصویر کشی ہے، مالک نے پوچھا تمہیں تو گھر کے کام کاج کیلئے رکھا اور تم تصویر ہی بنانے میں جُت گئے ہو، ملازم نے مسکراتے ہوئے فرمایا:جناب میری مہارت تصویر کشی ہے، فارغ ہوا تو گھر کے کام بھی کر دوں گا، ہم نے اپنے ملک کی خدمت کے مختلف شعبوں کیلئے وزیروں کی ایک فوج بھرتی کی، اور وہ صبح صبح اپنی وزارتوں کے کام کاج چھوڑ مختلف عدالتوں کے باہر دوائیاں بیچنے والے عطائیوں کی طرح مجمع لگا کر عدالتوں کی کارکردگی اپنی پارٹی کے ملزموں کی پاکدامنی پر ایسی فصیح و بلیغ تقریر کرتے ہیں کہ سحبان بن وائل (قدیم عرب لیجنڈ خطیب) بھی انہیں سن کر خطابت چھوڑ دے، ہم نواز شریف سے براستہ شاہد خاقان عباسی گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس وقت جہاں کہیں بھی ہیں ان خطیب وزیروں کو ان کی وزارت کے کاموں پر لگائیں ان کو ان کے ویران اجاڑ حلقے یاد دلائیں کہ؎
جو عوام ان کو تنخواہیں دیتے ہیں
وہ عوام انہیں بہت یاد کرتے ہیں
ہم ان کے نام نہیں لیتے کہ یہ بے نامی بے کامی وزراء کرام ہیں، اور گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب نے نواز شریف کو ان کے بارے میں آگاہ بھی کیا تھا کہ
سب کی سنیں ان کی نہ سنیں
ان کی سنی تو سُن ہو جائیں گے
٭٭٭٭
سوشل میڈیا کو مقتل نہ بنائیں!
….Oفلم نامعلوم افراد:رکن پنجاب اسمبلی سعدیہ سہیل نے مذکورہ فلم کے خلاف تحریک التوائے کار جمع کرا دی۔
انہوں نے کہا سنسر بورڈ نے بے حیائی کو فروغ دینے کیلئے پالیسی اپنا لی۔ سنسر بورڈ پر ایک فلم بنائی جا سکتی ہے، کہ اب تک اس نے کیسی کیسی ’’حیا پرور‘‘ فلمیں پاس کر دیں، سعدیہ سہیل خان صاحبہ کے جلسوں کو بھی سنسر کیا کریں کیونکہ لشکر انصاف کا مقدمۃ الجیش حسینائوں پر مشتمل ہوتا ہے، بہرحال نامعلوم افراد جیسی فلم اگر لالی وڈ کو بالی وڈ بنانا ہے تو لالی وڈ جیسا ہے ویسا ہی بھلا۔
….Oسوشل میڈیا پر قتل کے فتوے۔
کسی بھی فرد کو اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ از خود کسی انسان کو قتل کرے، یہ اسلام کے قانون کو ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے، وہ دین جو ایک انسان چاہے وہ کافر ہو یا مسلمان کو قتل کرنا پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے کیسے کسی کو اپنی ذات کے کٹہرے میں کھڑا کر کے سزائے موت دے سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے