قبائلی عوام کے از خود ٹھیکیدار

خبرہی ایسی ہے کہ آپ بھی اچھل پڑیں گے ، ہم تو سن کر اتنا اچھلے کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے، بالکل اس شخص کی طرح جس کے سارے جسم میں کھجلی ہو رہی ہو اور اس کے ہاتھ نہ ہوں لیکن ہم سوچ رہے ہیں کہ ’’ تحفظات والی ’’ سرکار ‘‘ یعنی حضرت مولانا فضل الرحمن اور ’’ مفادات والی سرکار ‘‘ جناب اچکزئی کتنا کتنا اچھلے ہوں گے ۔ خبر یہ ہے کہ قبائلی علاقہ جات عرف ’’ علاقہ غیر ‘‘ عرف ایشیائی افریقہ میں پولیس کا نظام رائج کیا جا رہا ہے، پولٹیکل حکام اس کے سربراہ ہوں گے اور انھی کے ذریعے یہ بابرکت نظام نافذ کیا جائے گا۔
اسے کہتے ہیں ’’بستی ابھی بسی نہیں ہے اور وہ ‘‘ پہلے آگئے ۔ مبارک ہو دونوں سرکاروں کو چونکہ اس علاقے میں انسانوں کا نظام ’’ بتدریج ‘‘ جاری کیا جا ئے گا ۔اس لیے پولیس کا نظام رائج ہونے کے بعد پولیس یونہی بیکار اور بیروزگار تو نہیں بیٹھنے دی جائے گی اس لیے دوسرے درجے میں جرائم کا مضبوط نظام بھی رائج کر دیا جائے گا بلکہ باہر سے کچھ کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ پولیس خود اپنے لیے ’’ کام ‘‘ بھی ڈھونڈ لے گی ۔ اور جب پولیس ’’ کام ‘‘سے لگ جائے گی تو عدالتی نظام اور سیاسی نظام کو سر سبز رکھنے کے لیے کرپشن وغیرہ کا نظام بھی رائج کیا جائے گا یوں جو کبھی انسان نہیں تھے انسان بننے سے پہلے ہی پاکستانی بن جائیں گے یعنی ’’ چوزہ ‘‘پید ا ہونے سے پہلے ہی کھانے کے لائق ہو جائے گا ۔
کوئٹہ کے ایک سیمینار میں ایک شخص نے ہمیں ایک چٹ دی جس میں لکھا تھا کہ ہم نے 2013میں ایک کالم ’’پشتون لیڈر شپ ‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا جس میں ہم نے پشتون لیڈر شپ کے لیے اسفند یار ولی آفتاب شیر پاؤ اور محمود اچکزئی میں سب سے موزوں لیڈر محمود خان اچکزئی کو قرار دیا تھا ۔ لیکن اب محمود خان اچکزئی کے خلاف لکھ رہے ہیں ۔چائے کے وقفے میں اس شخص سے ملاقات ہوئی تو ہم نے اسے بتایا کہ مشہور لطیفے کے مطابق ہم کسی کے نوکر نہیں ہیں بلکہ ’’ بینگن ‘‘ کے طر ف دار ہیں اور وہ بینگن یہ بدبخت خدامارا پشتون ہے، جسے ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق استعمال کر رہا ہے، اسے سیخ میں پرو کر کھا رہا ہے، کوئی اسے ترکاری بنا کر ہڑپ کر رہا ہے اور کوئی اسے ’’ بگھار ‘‘ کر نوش جان کر رہا ہے ۔

محمود خان اچکزئی کے ہم ذاتی طور پر نہ مخالف نہ طر ف دار ہیں، قبائلی علاقے کے انضمام کے سلسلے میں انھوں نے جو کردار ادا کیا ہے ہم اسے درست نہیں سمجھتے ہیں۔ صدیوں سے جانور بنائے گئے ایک بہت بڑی تعداد پر ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کس پارٹی یا فرد کا فائدہ ہوتا ہے اور کس پارٹی یا فرد کو نقصان، بات انسانیت اور آدمیت کی ہے کہ اس اکیسویں صدی میں بھی عین ہمارے پہلوؤں میں انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب بھی ’’ انسان ‘‘ کے درجے تک نہیں پہنچی ہے ۔ علاقہ غیر یا قبائلی علاقے میں رہنے والے اسی فیصد انسان جانوروں سے بھی بدتر حالت میں ہیں کیونکہ جانور بھی بہر حال پیٹ بھر کر کھاتے تو ہیں ۔
اس نے کہا کہ آپ محمود خان اچکزئی سے ایک مرتبہ ملیں تو سہی ان کے پاس اس کے لیے دلائل اور جوازات موجود ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ ہمیں دلائل اور جوازات کو چاٹنا نہیں ہے، صرف ایک پشتو کہاوت کے مطابق
زما لالے ئے مڑ کڑو پو ٹو پک ووکہ پہ لوڑ
میرے محبوب کو ماردیا، مجھے اب اس سے کیا کہ بندوق سے مارا یا لاٹھی سے مارا ۔ ایک موقع ملا تھا کہ ہمارے ان مظلوم مجبور محکوم اور مقہور بھائیوں کوجیل سے رہا کیا جائے۔اب شاید ایسا موقع کبھی نہ آئے۔یہ بتدریج اصلاحات وغیرہ کا دکھاوا چلتا رہے گا، وہ لوگ سسک سسک کر مرتے رہیں گے، گھٹ گھٹ کر جیتے رہیں گے اور لوگ حلوے مانڈے کھاتے رہیں گے، باتوں کے بتنگڑ بناتے رہیں گے اور اسلام آباد کے ائیر کنڈیشنڈ بنگلوں، پارلیمنٹ ہاؤس کے ایوانوں میں باتوں کے طوطے مینے اڑاتے رہیں گے، صرف یہ ہی نہیں کہ قبائل کے انسان نما حیوان ’’ زندہ مردے ‘‘ بنے ہوئے ہیں بلکہ اس منحوس سرزمین کی وجہ سے باقی صوبہ بلکہ پورا پاکستان ایک عذاب میں مبتلا ہے، بیچارے عوام کو تو نان شبینہ کے پیچھے دوڑنے سے فرصت نہیں لیکن ان کے اوپر مسلط ایک ابلیسی ٹولہ نہ صرف خود ہر طرح کے جرائم کرتا ہے بلکہ دنیا بھر کے بدترین غنڈے، بدمعاش، قاتل، اغوا کار، منشیات فروش، کار چور وغیرہ بھی اپنی سرپرستی میں پالتے ہیں .
جس میں یہاں کے بنائے ہوئے انگریزوں کے ظالمانہ قوانین پولیٹکل حکام اور سرکاری نمایندے بھی ان کے ساجھے دار ہوتے ہیں۔ ایک اغوا برائے تاوان کے کیس میں کھائی ہوتی رقم اوپر سے نیچے تک پہنچتی ہے، بھلا کوئی اپنی اتنی دودھیل گائے ذبح کرنے دے گا ؟ہماری معلومات سنی سنائی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی ہوئی ہیں کہ جہاں ایک مراعات یافتہ گروہ کے پاس دولت کے ڈھیر، تعیشات کی جنتیں ہیں اور اس کے پہلو میں اسی جیسا ایک فرد سارا سال جنگلی نباتات پر گزارہ کرتا رہے۔ اورکچھ بھی نہ سہی کم از کم ان زنجیروں سے چھٹکارا پاکر وہ مزدوری یا بھیک مانگنے کے لیے تو آزاد ہو جاتے۔
فاٹا کے خیبر پختونخوا سے انضمام کے خلاف بولنے والے اپنے دلائل اور جوازات اپنے پاس رکھیں ، صرف اتنا بتادیں کہ قبائلی عوام نے کب آپ کو اپنا وکیل چنا ہے یا کسی آسمانی نوشتے کی بنیاد پر تقریباً ایک کروڑ عوام کی زندگی کے مالک بنے ہوئے ہیں، ان کی آوازوں سے تو آسمان پھٹنے کو ہے کہ ہمیں رہائی دو ، ہمیں رہائی دو اور آپ بیج میں خود ہی اپنے آپ کو ان کا مالک و مختار بنائے ہوئے ہیں۔ کیوں ؟ اس کے پیچھے اصل بات کیا ہے ؟ آپ تو نہیں بتائیں گے لیکن یہ پبلک سب جانتی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے