شکست و ریخت

فرمایا: کلّم راع و کلّم مسئول۔ تم میں سے ہر شخص (کسی نہ کسی دائرۂِ کار میں) حاکم ہے اور ہر ایک جواب دہ!
کیا ابھی کچھ اور شکست و ریخت اس قوم کا مقدر ہے؟ کیا کبھی کچھ اور حادثے رونما ہوںگے؟۔ ادارے اور لوگ ہیں‘ جنہوں نے کچھ سبق سیکھ لیا ہے۔ گروہ اور لیڈر ہیں‘ جو اپنی قدیم روش پر گامزن رہنے پر تلے ہیں۔ کیا ہم کسی معجزے کے انتظار میں ہیں؟
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پرتعجب ہے‘ فرمایا:نون لیگ ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رہی ہے۔ کیا یہ اس کااپنا کارنامہ ہے؟۔ ایک آدھ نہیں‘ اس کے درجنوں لیڈر اشارے کے انتظار میں تھے۔ یہ اشارہ دیا نہ گیا۔ یہی دانائی اور تحمل ہے۔ عدالتوںنے نرمی اختیار کی اورمہلت دی۔ اس پر مذاق اڑانے اور ڈرانے کی کوشش کی گئی۔ جج کیوںخوف زدہ ہوں گے؟ معاشرے کی تائید انہیں حاصل ہے ۔ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی سروے کریں کہ قوم کو عدالتوں پر اعتماد ہے یا نہیں؟ نتائج سے ملک کو آگاہ کریں یا نہ کریں‘ شریف خاندان کو مطلع کر دیں۔ہرچند نوشتۂ دیوار پڑھنے پر وہ ہر گز آمادہ نہیں۔
حقیقت مگر یہی ہے کہ لکھا ہوا ٹل نہیں سکتا۔ خود وزیراعظم اس حقیقت سے خوب واقف ہیں کہ شریف خاندان بیرون ملک اپنی جائیداد کا جواز پیش نہیں کر سکتا۔ سنی سنانی نہیں‘ جناب شاہد خاقان عباسی خود اپنے دوستوں سے اس کا اظہار کر چکے۔ وزیراعظم عرصۂِ امتحان میں ہیں۔ قدرت نے ایک سنہری موقع انہیںعطا کیا ہے ۔عوامی بیداری نے جو لہر پیدا کر دی ہے‘ وہ اس کے مقابل کھڑے نہ ہوں۔ تاریخ میں جب طوفان اٹھتے ہیں توکوئی ان کی راہ نہیں روک سکتا۔
ایسے ہی امتحان میں جسٹس جاوید اقبال مبتلا ہوئے ہیں۔ خود انہوں نے اس کا انتخاب کیا ہے۔ چاہتے تو انکار کر سکتے تھے۔ اب ایک پل صراط سے انہیں گزرنا ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں‘ جب تک اس کا باطن آشکار نہ ہوجائے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ سپہ سالار اور جسٹس ثاقب نثار‘ چیف جسٹس بنائے گئے تو نون لیگ نے اعلان کیا تھا کہ طوفان ٹل گیا۔ ملک و ملّت پر کچھ ہی بیتے مگر ان کیلئے موسم بہار کا آغاز ہو چکا۔
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
جسٹس ثاقب نثار نے یہ کیا کہ اس بنچ کاحصہ بننے سے انکار کر دیا‘ جسے شریف خاندان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا۔ جنرل قمر باجوہ نے سول ملٹری مراسم کو بہتر بنانے کی‘ پوری کوشش کی۔ وہ اس کیلئے پرجوش اور مخلص نظر آئے۔ نتیجہ کیا نکلا‘ چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ انہیں "Rejected” کہنا پڑا۔ اس کے باوجود اصلاح کی کوشش انہوں نے جاری رکھی۔ ڈان لیکس اور دوسرے حوالوں سے وزیراعظم سے وہ کہتے رہے کہ ان کا ایک دائرۂ کار ہے۔ اپنے جوانوں اور افسروںسے زندگی نذر کرنے کا وہ مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کی مشکلات کو ملحوظ رکھاجائے۔ وعدے پورے کیے جائیں۔ وزیراعظم کا اندازِ فکر یہ تھا کہ جنرل کو افواج کی قیادت سونپ کر‘ ان پہ احسان کیا گیا ہے۔ایک مرحلے پر‘ ایک بالکل جائز مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے‘ جس پر عملدرآمد کا وعدہ کر چکے تھے‘ میاں صاحب مکّرم نے ارشاد کیا ”یہ میری عزت کا سوال ہے‘‘۔ ملک اور معاشرے لیڈروں کی عزت اور انا پہ قربان نہیں ہوتے۔ اگر انہیں زندہ رہنا اور ثمربار ہونا ہو تو وہ قوانین‘ اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری کرتے ہیں‘ افراد کی ناز برداری نہیں۔
جسٹس جاوید اقبال سے امید وابستہ کرنے کا جواز ہے۔ ان سے کبھی کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے کی توقع نہیں رکھی گئی مگراندیشہ بھی کبھی نہ پالا گیا۔ ان پر کسی کا کوئی احسان نہیں۔ نہایت اعلیٰ مناصب پر وہ فائز رہے ہیں۔ اپنے وقار کا اکثر انہوں نے خیال رکھا ہے۔ کسی پارٹی اور حکومت نہیں‘ وہ اپنے ضمیر‘ اپنی قوم اور سب سے بڑھ کر اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ کوئی دن آتا ہے کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اور یہ فیصلہ انہیں خود لکھنا ہے۔
تو اپنی سر نوشت کو خود اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھّی ہے‘ خامۂِ حق نے تری جبیں
کوئی انقلاب آفریں اقدام نہیں بلکہ انصاف اور صرف انصاف۔ سیاسی جماعتوں کی پرواہ نہیںبلکہ سچائی کی جستجو۔ ایک جج کی حیثیت سے وہ خوب جانتے ہیں کہ بہترین طور پر یہ عمل کس طرح انجام پاتا ہے۔ فیصل آباد کے قریب ‘ایک چھوٹے سے گائوں میں‘ ایک فقیر جیتا ہے۔ ایک بار اس نے کہا تھا: بندوں سے معاملہ ہو تو خود کو نظرانداز کر دیناچاہئے اورجب خالق سے واسطہ ہو تو تمام مخلوق کو۔
اپنے لیڈروں سے ہم کچھ زیادہ امید نہیں پال سکتے۔ پاکستان کا تو ذکر ہی کیا‘ زمانہ ایسا آیا ہے کہ ساری دنیا میںکوئی شہسوار دکھائی نہیں دیتا۔مغرب بھی آج مفلس ہے۔ قیادت کا جہاں تک تعلق ہے۔ امریکہ بھی آج اتنا ہی بے مہار اور بے سمت ہے‘جتنا کہ تیسری دنیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ذاتی دوست شوارڈز نے‘ موصوف کی خود نوشت لکھنے میںجو ان کے مددگار تھے‘ امکان ظاہر کیا کہ روس سے خاموش مراسم پر‘ موصوف کو مستعفی ہونا پڑے گا۔ بچ نکلنے کا‘ ان کیلئے یہی ایک راستہ رہ جائے گا۔
شریف خاندان کے بارے میں تو کیا کہیے کہ اس کے ہر فرزند اور دختر کا موقف ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ بعض نے تو خود بھی اپنی رائے ایک سے زیادہ بار بدلی۔ پیر کی شام بونیر میں عمران خان کے خطاب سے بھی مایوسی ہوئی۔ بیک وقت نواز شریف‘آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو پر وہ برستے رہے۔ اتنی سی بات ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ دوسروں کی خامیوں پر نہیں‘ زندگی اپنی خوبیوں پہ بسر کی جاتی ہے۔ ملک کو بہترین انداز میں چلانے کی‘ انہوں نے کیا تیاری کی ہے کہ اہلِ نظر اور اہلِ ذوق لپک کر ان کی مدد کو آئیں۔ملک کے بنیادی مسائل سے نمٹنے کیلئے ان کالائحہ عمل کیا ہے؟۔ حریفوں پر چیخنے چلّانے سے نہیں‘ عرق ریزی سے زندگی ثروت مند ہوتی ہے۔
یہ غالباً 1973ء کی ایک شام تھی۔ملتان میں ایک تقریب برپا تھی۔ پروفیسر کرّار حسین صدارت کر رہے تھے‘ جنہیں استادالاساتذہ کہا جاتا۔ ملک بھر کے ادیب اور شاعر جمع تھے۔ دوسری چیزوں کے علاوہ ثریا ملتانیکر اور اساطیری گلوکارہ اقبال بانو کی گائیکی سے سامعین کو محظوظ ہونا تھا۔ اتنے میں میلی سی چادر میں لپٹا ہارمونیم لیے‘ ایک شخص نمودار ہوا۔ تقریب کے مہتمم اصغر ندیم سیّد سے اس نے فرمائش کی: خواجہ غلام فرید کی ایک کافی سنانے کی مجھے بھی اجازت دیجئے۔ سامعین کو خوش نہ آئے تو اٹھ کر چلا جائوں گا۔ کہاں حرف وبیاں اورموسیقی کی ادا شناس اقبال بانو‘ کہاں سرائیکی لہجے میں مشکل سے اردو بولنے والا یہ دیہاتی۔ ازراہِ کرم اجازت مرحمت کر دی گئی۔ پھر یہ ہوا کہ ظلمتِ شب تمام ہونے کوآئی۔ صبح کاذب کے بطن سے صبح صادق کا نور پھوٹ رہا تھا اور سامعین سراپا سماعت تھے۔ اس آدمی کا نام پٹھانے خان تھا۔ تصنع سے بھری فنون کی دنیا میں سراسر بے ساختگی۔ عشروں یہ آواز کانوں میں رس گھولتی رہی۔ریاض پہلے کیاجاتا ہے‘ اظہار بعد میں۔
بلبلِ شوریدہ نغمہ ہے ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
ہمارے سیاسی اکابر کا حال ملازمت کے متلاشیوں جیسا ہے۔ ہنر کیلئے جگر سوزی نہیں کرتے‘ سفارش ڈھونڈتے اور سایہ مانگتے ہیں۔ عجب حال ہمارا ہواہے۔ سیکھتے اور غور نہیں کرتے‘ بس تمنا پالتے ہیں‘ فقط آرزومند رہتے اور پھر خود ترسی میں جیتے ہیں۔”مجھے کیوں نکالا‘ مجھے کیوں نکالا‘‘۔ اقتدار کے آرزومندوں اب کا عالم اور بھی بدتر ہوا۔ اختیار کی بھوک شاید روٹی کی بھوک سے بھی زیادہ ظالم ہوتی ہے۔
سوچنے سمجھنے اور غورکرنے کی جنہیں فرصت نہیں ہوتی۔ جو فقط لمحۂِ موجود میں جیتے ہیں‘ زندگی ان پہ کبھی مہربان نہیں ہوتی۔
فرمایا: کلّم راع و کلّم مسئول۔ تم میں سے ہر شخص (کسی نہ کسی دائرۂِ کار میں) حاکم ہے اور ہر ایک جواب دہ!
پس تحریر:حاضر باش مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کوآسودہ رکھنے کیلئے فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ ایک لیگی لیڈر کے مطابق تازہ منصوبہ یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر کیلئے عمران خان کی حمایت اگر پوری ہو گئی تو انہیں اپوزیشن بنچوں پر بٹھا دیا جائے گا…رزق کے غلام؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے