آزادکشمیر میں خوفناک ٹریفک حادثات:630 دنوں میں494 افراد لقمہ اجل بن گئے: دانش ارشاد کی رپورٹ

آزاد کشمیر میں 2016 سے اب تک 494 افراد ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بنے۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے آزاد کشمیر میں 234 خطرناک مقامات کی نشاندہی کے باوجود خفاظتی اقدامات نہیں کئے جا سکے۔

حکومت اور ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ حادثات کے ذمہ دار ڈرائیورز کی جلد بازی اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ مرکزی شاہرات کی بہتری کی مد میں کشمیر کونسل آزاد کشمیر کے داخلی پوائنٹس پر مال بردار اور پبلک ٹرانسپورٹ سے ٹیکس کی مد میں سالانہ اربوں روپے جمع کرتی ہے لیکن اس رقم سے شاہرات کی مرمت کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے۔

وزیر مواصلات چوہدری عزیز کا کہنا ہے کہ حکومت نے مالی سال 2017-18 کیلئے سڑکوں کی تعمیر اور پروٹیکشن وال بنانے کیلئے 9 ارب روپے کا بجٹ مختص کر رکھے ہیں۔

ڈی آئی جی ٹریفک پولیس آزاد کشمیر ڈاکٹر لیاقت کا کہنا ہے کہ حادثات کی بڑی وجہ ٹریفک قوانین کی خلافورزیوں پر کم جرمانے کا ہونا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آزاد کشمیر میں 2016 سے اب تک ٹریفک حادثات میں494 افراد جانبحق ہوئے۔ جن میں راولاکوٹ میں 71 ، باغ میں 24 ، کوٹلی میں 29،میرپور میں 32، بھمبر میں 5 ، حویلی میں30 اور سدھنوتی میں 51 افراد لقمہ اجل بنے۔ نیلم میں 2014 سے اب تک 71جبکہ مظفرآباد میں 2014 سے ابتک 182 افراد ٹریفک حادثات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جن‌‌میں 139 افراد گاڑیوں جبکہ 42 افراد موٹرسائیکل حادثات کا شکار ہوئے ۔

خیال رہے کہ یہ اعداد و شمار ضلعی انتظامیہ سے حاصل کئے گئے ہیں اور مذکورہ تعداد کی انشورنش کلیم کیلئے ڈپٹی کمشنر آفس میں عرضی دی گئی۔ بے شمار کیسز ایسے ہیں جن کا ریکارڈ انتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔

آزاد کشمیر میں ٹریفک کے بڑھتے حادثات پر وزیر مواصلات آزاد کشمیر چوہدری محمد عزیز کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل حادثات کی شرح زیادہ ہے سکولوں اور کالجز کے منچلے احتیاط کئے بغیر موٹر سائیکل چلاتے ہیں جس وجہ سے حادثات اور اموات کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی ڈرائیورز جلدی پہنچنے میں احتیاط کئے بغیر گاڑی چلاتے ہیں ان کو عام افراد کی جانوں کی پرواہ نہیں ہوتی وہ جلدی پہنچناچاہتے ہیں اور اس جلدی میں وہ حادثہ کا شکار ہو جاتے ہیں اور قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں مواصلات کیلئے 9 ارب روپے کا بجٹ مختص کر رکھا ہے جس سے شاہرات کی بہتری اور پروٹیکشن کے اقدامات کریں گے۔

آزاد کشمیر کے داخلی پوائنٹس پر کشمیر کونسل مرکزی شاہرات کے حفاظتی اقدامات کیلئے مال بردار اور پبلک ٹرانسپورٹ سے ٹیکس کی مد میں سالانہ اربوں روپے جمع کرتی ہے لیکن اس رقم سے شاہرات کی بہتری اور حفاظت کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے۔اس بارے میں بات کرتے ہوئے کشمیر کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری فنانس کا کہنا ہے کہ یہ رقم آزاد حکومت کو دے دی جاتی ہے کیونکہ شاہرات کا محکمہ حکومت کے پاس ہے ۔

ڈی آئی جی ٹریفک پولیس آزاد کشمیر کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں حادثات کی بڑی وجہ روڈ سیفٹی فیچرز پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ٹریفک پولیس نے آزاد کشمیر میں 234 خطرناک مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں حفاظتی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ جن میں گوئیں نالہ روڈ پر فلور مل کے سامنے والی جگہ ہے اور کچھ لنک روڈز بھی ہیں ان تمام مقامات کی فہرست وزارت مواصلات کو دئے جانے کے باوجود ابھی تک کوئی اقدامات نہ کئے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ اب گوئیں نالہ روڈ کو ایشین ڈیویلپمنٹ بنک کے تعاون سے محفوظ بنانے کے اقدامات کئے جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں ٹریفک پولیس کی نفری کم ہونے کی وجہ سے قوانین پر عمل درآمدکروانے میں مشکل پیش آتی ہے ۔ مرکزی شاہرات پر ٹریفک اہلکار تو موجود رہتے ہیں لیکن لنک روڈ پر اہلکار کا ہونا مشکل ہوتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سب سے بڑا مسئلہ اوور لوڈنگ کا ہے ۔ ایک عام گاڑی میں قانون کے مطابق ڈرائیور سمیت 13 افراد کو سوار ہونے کی اجازت ہے لیکن اس کی خلاف وزری معمول بن چکی ہے اور ڈرائیور سمیت 20 افراد ایک گاڑی میں سوار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بڑی سے بڑی خلاف ورزی پر ایک ہزار تک کا جرمانہ ہوتا ہے جس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

انہوں نے سعودی عرب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں صرف اوور اسپیڈ پر 500 ریال (تقریبا 18 ہزار پاکستانی روپے) جرمانہ ہے ایک مرتبہ وہ جرمانہ ادا کرنے والا دوبارہ ایسی خلاف ورزی کی سوچتا بھی نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ بڑھانے کیلئے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ اس خوف سے قوانین کی پاسداری کی جائے اور حادثات کا خطرہ کم ہو سکے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب ڈرائیونگ لائسنس کڑی شرائط پر جاری کیا جاتا ہے اورلائسنس جاری کرنے کیلئے سخت ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس بارے میں غفلت پائی جاتی تھی اور تعلق کی بنا پر ڈرائیونگ لائسنس جاری کر دیا جاتا تھا تاہم اب ایسا نہیں ہو رہا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے