1990کے بعد پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں:اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب عبداللہ حسین ہارون سے خصوصی گفتگو

بھٹو نے شملہ معاہدے میں واضح کردیا تھا کہ ان کا کشمیر ان کے پاس اور ہمارا ہمارے پاس رہے گا، ضیاءالحق کو آزاد کشمیر میں یک طرفہ طور پر استصواب رائے کا مشورہ دیا
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب عبداللہ حسین ہارون سے خصوصی گفتگو

[pullquote]

اہم نکات

[/pullquote]

٭غلام نبی فائی کے معاملے میں کچھ زیادہ کہہ کر ہم مزید مصیبت اپنے سر لیتے

٭بھٹو کے دور میں امریکا سے اختیار کی گئی لاتعلقی کا ہم نے شدید نقصان اٹھایا

٭امریکا ہمیں صرف اتنا دیتا ہے کہ ہم ناک پانی سے باہر رکھ کر سانس لیتے رہیں

٭ڈرون حملے حکومت کی اجازت اور ہماری غلطیوں کی وجہ سے ہورہے تھے

٭امریکا نے پورے یورپ کو عدم استحکام کا شکار کیا

٭امریکا جب تک راج کررہا ہے، اقوام متحدہ میں اصلاحات نہیں لائی جاسکتیں

٭جنرل عمر نے حمودالرحمن کمیشن میں اعتراف کیا کہ انھیں الیکشن کنٹرول کرنے کے لیے پچاس کروڑ دیے گئے

٭برطانیہ اور فرانس کے پاس سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت نہیں ہونی چاہیے

٭اقتصادی تعاون تنظیم کا قیام ہماری خارجہ پالیسی کی بڑی کام یابی تھی

٭حسین حقانی نے دو ٹکے لے کر فوج اور جمہوریت کا ٹکراو دکھا دیا

٭مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات عرب اسپرنگ کا نتیجہ ہیں

٭زرداری صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ انھوں نے کیوں حقانی کو سفیر بنایا

تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنما سر عبداﷲ ہارون کے سب سے چھوٹے صاحب زادے سعید ہارون کے گھر 21اکتوبر 1950کو عبداﷲ حسین ہارون کی پیدایش ہوئی۔ ان کا خاندان کاروبار، سیاست اور سماجی خدمات کے حوالے سے پاکستان کے نمایاں ترین خاندانوں میں سے ایک ہے۔ سر عبداﷲ ہارون کو بانی پاکستان کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے، 1938 میں انہوں نے قیام پاکستان کے لیے سندھ میں قرارداد پیش کی۔ ان کے خاندان کا مسلم لیگ سے گہرا رشتہ تھا۔

ان کے خاندان کے کئی افراد تحریک پاکستان میں نمایاں رہے اور قیام پاکستان کے بعد مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کیا۔ سر عبداﷲ ہارون کے بیٹے اور حسین ہارون کے والد، سعید ہارون مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے کمانڈر اور قائد اعظم محمد علی جناح کے اے ڈی سی بھی رہے۔ حسین ہارون نے کراچی گرامر اسکول اور جامعہ کراچی سے تعلیم حاصل کی۔ سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا آغاز دور نوجوانی ہی میں ہوچکا تھا جب انہوں نے 1970کے انتخابات میں مسلم لیگ پاکستان کے الیکشن کوآرڈی نیٹر کی ذمے داری نبھائی۔ 1979سے 1985تک کونسلر، 1980سے 1982تک کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ٹرسٹی رہے۔ بعد ازاں 1985کے انتخابات میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1985میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر اور 1986سے 1988تک قائد حزب اختلاف رہے۔ اس کے علاوہ کئی تعلیمی و سماجی اداروں سے بھی منسلک ہیں۔

2008میں انہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب مقرر کیا گیا۔ ساڑھے چاربرس تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران پاکستان میں ڈرون حملے، ممبئی حملے اور ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی جیسے بڑے واقعات ہوئے۔ حسین ہارون کا کہنا ہے کہ ان

عبداللہ حسین ہارون

کی سفارتی کاوشوں کی وجہ سے کئی نازک مراحل پر پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف کوئی قرارداد پیش نہیں کی جاسکی۔

2010میں انہوں نے پاکستان میں آنے والے سیلاب کے بعد 2ارب ڈالر کی امداد جمع کی اور سیلاب کی تباہ کاریاں عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے کوششیں کی۔ کہتے ہیں کہ انہی کی کوششیں تھی کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون تین مرتبہ پاکستان کا دورہ کرنے آئے۔

2011میں سلامتی کونسل کے غیر مستقل ارکان کی دو نشستیں خالی ہوئی تو ان میں سے ایک کے لیے پاکستان نے بھی کوششوں کا آغاز کیا۔ حسین ہارون کہتے ہیں امریکا پاکستان کی رکنیت کے حق میں نہیں تھا اس کے باوجود پاکستان نے 193میں سے 129ووٹ حاصل کیے اور بھاری اکثریت سے یہ نشست حاصل کی اور انسانی حقوق کمیشن میں بھی پاکستان کو رکنیت ملی، اسے بڑی کام یابی قرار دیتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے امن مشن میں پاکستانی افواج کا کردار انتہائی اہم ہے، ان کے لیے تنخواہوں میں اضافے کے لیے حسین ہارون نے کوششیں کیں جس میں انھیں کام یابی حاصل ہوئی۔ علاوہ ازیں انہوں نے شام میں جنگ رکوانے کے لیے سلامتی کونسل میں کاوشیں کی۔ کئی بین الاقوامی فورمز، جامعات اور دفاعی و امور خارجہ سے متعلق اداروں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

طویل مدت سے حسین ہارون عملی سیاست سے دور ہیں، مستقبل میں بھی اس طرف آنے کا ارادہ نہیں۔ گذشتہ دنوں ان سے ہونے والی نشست میں بھی زیادہ تر خارجہ پالیسی اور اور دنیا کے بدلتے ہوئے حالات پر گفتگو ہوئی، جس کا احوال یہاں پیش کیا جارہا ہے۔

آپ کئی انٹرویوز میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں بتدریج تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ اس بارے میں کچھ بتائیں؟

حسین ہارون: ستر سال پہلے جب اقوام متحدہ نے کشمیر میں رائےشماری کی پیش کش کی تو آپ اسے آگے نہیں بڑھا سکے، اب کیا کریں گے۔ بس اب یہ معاملہ چل بھی رہا ہے اور نہیں بھی۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے شملہ معاہدے میں واضح کردیا تھا کہ ان کا کشمیر ان کے پاس اور ہمارا ہمارے پاس رہے گا۔ اس میں مزید کیا گنجایش رہ گئی۔

اس سلسلے میں جنرل ضیاءالحق کو آپ نے ایک تجویز دی تھی، وہ کیا تھی؟

حسین عبداﷲ:اس دور میں اسٹریٹجک ڈیبتھ پر ضیاءالحق کی زیادہ توجہ تھی۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ بھائی میرے! آپ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق آزاد کشمیر میں رائے دہی کا انعقاد کردیں۔ ان سے پوچھیں کہ آزادی چاہتے ہیں، انڈیا یا پاکستان۔ میرا خیال ہے اس وقت نوّے نناوے فیصد کشمیری پاکستان کی حمایت کرتے۔ تجویز یہ تھی کہ پوری دنیا سے مبصرین کو بلوا کر شفاف رائے دہی کا انعقاد کیا جاتا۔ اس کے نتائج سے یہ واضح ہوجاتا کہ کشمیر کا یہ حصہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے۔ اس طرح ہندوستان پر بھی دباو¿ بڑھتا۔ انھیں اگر مجبوراً ایسا کرنا پڑتا تو فیصلہ پاکستان کے حق میں آتا۔ ہمارے پاس اس کا قانونی جواز تھا۔ لیکن ضیاءالحق اس وقت اسلامی انقلاب میں زیادہ دل چسپی رکھتے تھے۔ میرے خیال میں اس وقت یہ ہوجاتا تو یہ عمل نتیجہ خیز ثابت ہوتا۔

اس وقت اقوام متحدہ میں کشمیر سے متعلق پاکستان جس طرح اپنا مقدمہ پیش کررہا ہے اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

حسین ہارون: اقوام متحدہ کی قرار داد میں پہلے سعودی عرب اور ایک افریقی ملک دل چسپی لیتے تھے، لیکن میرے خیال میں اب وہ بھی دل چسپی نہیں لیتے۔ جو کچھ ہونا چاہیے وہ ہو نہیں رہا۔ آپ آواز اٹھاتے رہیں۔ پہلی بات کوئی خاص کارروائی نہیں ہورہی۔ آپ کی حکومت کے پاس بڑے عرصے سے کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں تھا۔ حکومت نے اور نہ ہی نواز شریف نے اس معاملے پر توجہ دی ، جب کہ وہ خود بھی کشمیری ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں کی گئی جس سے دنیا متوجہ ہوتی۔

کشمیر میں اٹھنے والی حالیہ تحریک کے بعد، کیا آپ کے خیال میں ہم نے اس معاملے کو بہتر انداز میں دنیا کے سامنے لانے کا موقع ضایع نہیں کردیا؟

حسین ہارون: ہندستان نے کشمیر میں بہت ظلم و ستم کیا لیکن ہم اسے دنیا کے سامنے نہیں لاسکے، اس کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

 

آپ جس دور میں اقوام متحدہ میں تھے، غلام نبی فائی کے خلاف کارروائی بھی اسی دور میں ہوئی۔ کیا ہمارا سفارتی ردّ عمل درست تھا؟

حسین ہارون: ہم اس معاملے میں کیا کرسکتے تھے۔ وہ جو کچھ کررہے تھے، اس کے لیے انہیں پکڑا گیا۔ ہم کچھ زیادہ کہہ کر مزید مصیبت اپنے سر لیتے۔ میرے ہاں تو کئی بار آکر میر واعظ فاروق ٹھہرتے تھے، ان سے کئی بار بات ہوئی۔ لیکن میرا خیال یہی ہے کہ کشمیر پر پاکستان نے کبھی سہی طرح توجہ نہیں دی۔

آپ پاک امریکا تعلقات کے لیے ”دوستی“ کے لفظ کو بے معنی قرار دیتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟

حسین ہارون: جب امریکا نے سیٹو اور سینٹو بنایا، جان فاسٹر ڈیلس اس وقت سیکریٹری اسٹیٹ تھے، ان کی ڈومینو تھیوری تھی کہ جب ایک گرے گا تو قطار میں کھڑے سبھی گر جائیں گے۔ پاکستان کو اس زمانے میں اہمیت دی گئی۔ اس وقت کسی حد تک دوستی تھی۔ دیکھیے، لیاقت علی خان ایک ماہ امریکا میں گزار کر آئے تو انھیں یہاں قتل کردیا گیا۔ اس کے بعد کوئی اس طرح وہاں گیا ہی نہیں۔ ایوب خان گئے تو کینڈی نے بہت اچھا سلوک کیا۔ جس کے بعد جان کینیڈی کو قتل کردیا گیا۔ اب سوال آتا ہے سیٹو سینٹو چلا۔

65کی جنگ میں ایوب خان نے اسلحہ ختم ہونے کی بات کی اور بعد میں کہا گیا کہ اسلحہ لے کر بحری جہاز امریکا سے آرہا ہے لیکن وہ آج تک نہیں آیا۔ امریکا نے جو خفیہ دستاویز عام کی ہیں اس میں بتایا گیا ہے کہ وہ بحری جہاز مصر کی حکومت کو کہہ کر نہر سوئز پر رکوا دیا گیا تھا۔ ہم پہلے سمجھتے تھے یہ ہندوستان کا کام ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔

71کی جنگ میں ساتواں بیڑہ آنے کا شور اٹھا لیکن وہ نہیں آیا۔ ان باتوں سے تو واضح ہوگیا کہ دوستی کوئی نہیں۔ بھٹو کے وقت میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی۔ او آئی سی کے چیدہ چیدہ بڑے لیڈر سب مارے گئے۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اس کے نتائج کیا ہوئے۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا ، تو اس کے باوجود کہ ہم نے بھٹو کے دور میں امریکا سے جو لاتعلقی اختیار کی اس کا شدید نقصان اٹھایا تھا، لیکن ہم پھر ان کی مدد کے لیے تیار ہوگئے۔

ضیاءالحق کی بے پناہ مدد سے روس کو ہم نے امریکا کے ساتھ مل کر شکست دی۔ روس نکل گیا تو پھر امریکا نے ویرانے میں ہمارا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ہم نے ایٹمی تجربات کیے تو امریکی پھر ناراض ہوگئے اور اقتصادی پابندیاں بھی لگائیں۔ نوگیارہ کے بعد جب وہ افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہوئے تو پھر ہمارے پاس آگئے۔ مشرف کے دورمیں وہ ایک بار پھر ہمارے ہوگئے۔ وہاں طالبان کمزور ہوئے تو وہ دوبارہ ہمارے پیچھے پڑ گئے۔

امریکا ہمیں صرف اتنا دیتا ہے کہ ہم ناک پانی سے باہر رکھ کر سانس لیتے رہیں۔ اب ہندوستان سے ان کی محبت بے پناہ ہوگئی ہے تو افغانستان میں بھی ہمارا کردار محدود کیا جارہا ہے، جس کے بعد ہم چین اور روس کا سہارالے رہے ہیں کیوں کہ اب ان سے تو کسی بھلائی کی توقع نہیں۔ یہ جو چھچھورے قسم کے لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو 40بلین دیے ، ایسا نہیں ہوا۔ نو گیارہ کے بعد سات بلین کی بات کی ، ان میں سے پانچ بلین تو ہم نے انہی پر خرچ کردیے، جس میں ری امبرسمنٹ اور سی ایس ڈی کے اخراجات شامل تھے۔ دو بلین اس کے علاوہ دیا۔

دوسری طرف جب سیسی نے 56فی صد ووٹ لے کر منتخب ہونے والے مرسی کی حکومت ختم کی تو پہلے سعودی عرب سے بارہ بلین دلوائے اس کے بعد چار بلین ڈالر امریکا نے دیے، یعنی دو دن میں 16بلین دیے گئے۔ ہمیں سات سال لٹکاتے رہے۔ ہمیں یہ کہتے رہے کہ آپ اس پر خوش رہیں، دوبلین کی حیثیت کیا ہے کہ اس پر خوش رہیں۔

اقوام متحدہ میں تعیناتی کے دوران ہی آپ نے امریکا کی خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے اسے ”متکبرانہ“ قرار دیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد یہ کیا رُخ اختیار کرے گی؟

حسین ہارون: برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد پچاس ساٹھ برس بڑی کوشش کی کہ دنیا کی بہتری کے لیے کچھ قواعد و ضوابط بن جائیں۔ عالمی بہتری کے لیے قوانین بنائے جائیں، اس میں جینیوا کنوینشن، عالمی عدالت انصاف کا قیام جیسے اقدامات ہوئے۔ اس وقت مسلسل کوشش یہ تھی کہ جن حالات سے دنیا پہلے گزر چکی تھی وہ دوبارہ پیدا نہ ہوں۔ اس کے لیے انہوں نے کمیونزم کو بھی خطرہ سمجھ کر اسے شکست دی۔ اب یہ ذمے داری ڈونلڈ ٹرمپ کے کاندھوں پر ہے جو ایک واہیات آدمی ہے۔ اپنے ملک میں اس نے نسل پرستی کو ہوا دی۔ بہت سی ایسے باتیں ہوئی ہیں جس سے کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ وہ روز کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتا ہے۔

دیکھیے! دنیا میں قیام امن کے لیے مغرب نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ لیکن دوسری جانب ٹرمپ نے آتے ہی نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ(نیفٹا) کو ختم کرنے کا اعلان کیا، میکسکو اور کینڈا کے معاملے میں بیانات دیے جبکہ امریکا کے دائیں بائیں یہ بہت اہم ممالک ہیں۔ کہہ دیا کہ چین، جو دنیا کی سب سے بڑی ابھرتی ہوئی طاقت ہے، کے ساتھ ہماری نہیں بنے گی۔ شمالی کوریا کو دھمکیاں دینا شروع کیں۔ اینجلا مرکل کو گرانے کی باتیں کی۔

انگریزوں نےیورپ سے نکلنے(برکسٹ) کا ہزار سالہ تاریخ میں جو سب سے احمقانہ فیصلہ کیا اس میں ٹرمپ نے ان کی حمایت کی۔ ایران کے خلاف نفرت انگیزی اور عربوں کی حمایت کی۔ قطر والے معاملے میں خود عربوں کو لڑا دیا اور اس کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکال سکے۔ ان میں سے کوئی فیصلہ دنیا کی بہتری کا باعث نہیں بن سکا۔ ادھر سیسی اور سعودی عرب کے شہزادے کو اپنے دام میں لے رکھا ہے۔ آپس میں لڑانے کی پالیسی ہے۔ ایران، عراق اور ترکی کے لیے مصیبت کھڑی کرنے کے لیے کردستان کی حمایت بھی جاری ہے۔ بس ہر طرف تباہی نظر آتی ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بغیر بھی ہم جی نہیں سکتے اور ساتھ بھی۔ ہمیں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت تھی۔ ان حالات میں یہاں نواز شریف تھے، جو کئی برسوں سے وزیر خارجہ نہیں لگا سکے۔ چلیں اب انہیں خیال آگیا ہے۔ دنیا میں اب جنگی صورت حال بڑھ رہی ہے۔

امریکا ہر خود کفیل ملک کے سامنے کھڑا ہے۔ مسلمانوں کا تو خیر بہت برا حشر کیا ہے۔ ادھر چین کو قابو کرنے کے لیے انڈیا کو چابی دی گئی۔ چین نے سی پیک کے ذریعے جب ون بیلٹ ون روڈ منصوبے پر کام شروع کیا تو وہ پاکستان سے بھی ناراض ہوگئے۔ اب بلوچستان بنانے کے لیے بھی نکلے ہیں اور یہ ان کا پرانا ارادہ تھا۔ جب تک ہم نے اپنی ڈوریں ان کے ہاتھ میں دیے رکھیں، یہ نہیں ہوسکا اب وہ جب چاہیں گے کر گزریں گے۔

2004سے 2010تک پاکستان میں ڈرون حملوں میں تیزی آئی۔ اقوام متحدہ میں اس معاملے کو کیوں نہیں اٹھایا گیا؟

حسین ہارون: میں نے حکومت سے مسلسل رابطہ کیا کہ یہ معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھانے کی اجازت دی جائے ، لیکن یہ لوگ یہ کرنہیں سکتے تھے۔ حکومت پاکستان نے زرداری صاحب کے وقت میں اس بات کی باقاعدہ اجازت دے رکھی تھی، ڈرون حملے حکومت کی اجازت اور ہماری غلطیوں کی وجہ سے ہورہے تھے۔ ہم نے خود ان کے لیے اپنے راستے کھولے۔ انہوں نے ایبٹ آباد میں بھی اسی لیے کارروائی کی کہ ہم اپنے راستے ان کے لیے کھول چکے تھے۔

سلامتی کونسل میں مشرق وسطی پر بات کرتے ہوئے آپ نے یہ کہا تھا کہ کوئی بھی تبدیلی یا انقلاب بیرونی مدد کے بغیر نہیں آتا۔ 2010میں ”عرب بہار“ کا آغاز ہوا۔ اس صورت حال اور خطے میں آج کے حالات کا کیا باہمی ربط دیکھتے ہیں؟

حسین ہارون: عرب اسپرنگ میں امریکا کی باقاعدہ مدد شامل تھی۔ لیبیا کبھی موجودہ حالات کا شکار نہ ہوتا اور قذافی کبھی نہیں جاتا۔ انہوں نے یمن سے ”طالبان“ لیے اور انہیں بن غازی میں اتارا گیا۔ انھیں تربیت فراہم کی، طرابلس میں بھی یہی ہوا۔ نیٹو اوپر سے بم برساتی رہی جس کی وجہ سے بالآخر وہ حکومت ختم ہوئی۔ مصر میں تو یہ طے کرچکے تھے کہ یہاں ایک مرتبہ انتخابات ہوجائیں، جمہوریت کے غبارے سے ہوا نکل جائے تو پھر آمر کو لے آئیں گے۔

میں نے شام کے معاملے میں کہا تھا کہ کئی سو سال بعد اس علاقے میں حالات معمول کی طرف آرہے ہیں، اس معاملے کو نہ چھیڑیں اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ پانچ سو سال اور جنگ کی طرف چلے جائیں گے۔ لیکن انہوں نے یہ بات نہیں سنی، پہلے شامیوں کو پیسے دیے، جب کارروائیاں ہوئیں اور شامی جب واویلا کرتے ہوئے نکلے امریکا نے ان کے لیے اپنے دروازے بند کردیے۔ میں یہ تسلیم کرتا ہون کہ بظاہر بشار الاسد بہت ظالم ہے۔ لیکن ان کی وجہ سے ہزاروں شامی بچے اور عورتیں جو پناہ کی تلاش میں نکلے تھے، دربدر ہوئے ، سمندر کی نذر ہوگئے۔ ایسا طوفان کھڑا ہوا کہ اینجلا مرکل کے دس فیصد ووٹر صرف اس لیے کم ہوگئے کہ اس نے پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھولے۔ اس سب کے ذمے دار یہ لوگ ہیں۔ یہ صورت حال عرب اسپرنگ کی پیدا کردہ ہے۔ امریکا نے پورے یورپ کو عدم استحکام کا شکار کیا۔ لیبیا میں جو مال اور اسلحہ دیا گیا وہ سینیگال سے لے کر ایتھوپیا تک گیا۔ جس کی وجہ سے سب صحارن افریقا تباہی کا شکار ہوا۔

ہماری خارجہ پالیسی میں چین کو حاصل ہونے والی مرکزیت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

حسین ہارون: ہماری چین سے متعلق پالیسی اچھی ہے۔ یہ مسئلہ ہے کہ موجودہ اور سابقہ حکومت نے ان معاہدوں میں پیسے بنائے ہیں۔ جس طرح قطر کے ساتھ گیس کے معاہدے میں مال بنایا گیا ہے۔ زرداری صاحب اور موجودہ حکومت نے جو بجلی کی بڑی بڑی ڈیلز کیں جس میں ہم مہنگی بجلی بنا رہے ہیں، ان سے آج تک انہیں پیسے ملتے ہیں۔

آپ نے تقریباً ساڑھے چار برس اقوام متحدہ میں گزارے۔ اس ادارے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ محض ایک ”ڈبیٹنگ کلب“ بن چکا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا اقوام متحدہ عالمی تنازعات حل کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟

حسین ہارون: اس میں بہت سی باتیں سمجھنے کی ہیں۔ ’ڈیبیٹنگ کلب“ اور بہت کچھ کہنے کو کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ ایک ڈبیٹنگ کلب نہ ہوتا تو بات کرنے کے لیے کوئی اور فورم ہے؟ پھر یہ ادارہ قیام امن کے لیے مذاکرات کرنے کی غرض سے بنایا گیا۔ وہاں اپنی حالیہ تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ کی دھمکیاں دی ہیں۔ اب کیا کرسکتے ہیں۔ امریکا بہت مالی وسائل فراہم کرتا ہے، وہ دنیا کے 23فی صد اثاثوں پر بیٹھا ہوا ہے۔

اگر وہ یو این کے 22فی صد اخراجات اٹھاتا ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ چین نے تو کہا ہے کہ ہم اخراجات اٹھانے کو تیار ہیں لیکن پھر ہم اسے اٹھا کر بیجنگ لے جائیں گے۔ امریکا جب تک راج کررہا ہے، اقوام متحدہ میں اصلاحات نہیں لائی جاسکتیں۔ اسے برطانیہ اور فرانس کا ساتھ حاصل ہے اور یہ دونوں ملکوں کی وہ طاقت باقی نہیں رہی، ان کے پاس کیا بچا ہے۔ میرے خیال میں تو ان کے پاس سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت نہیں ہونی چاہیے۔ کہنے کو تو پانچ مستقل ارکان ہیں لیکن سب کچھ امریکا چلا رہا ہے۔

اب رہی بات کے اسے صرف ڈبیٹنگ کلب کہا جائے تو اقوام متحدہ کے کوئی سو ادارے ہیں۔ دنیا کے سمندری و فضائی حدود کی قانون سازی سمیت کئے اہم امور پر وہاں کام ہوا۔ جنگیں روکنے میں ان کی کام یابی آپ کہتے ہیں کم ہے۔ جنگ ہے جوش کا معاملہ اور اقوام متحدہ میں ہوش کی بات ہوتی ہے۔

پاکستان کی سیاسی قیادت میں، آپ کے خیال میں، کون بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی کا بہتر فہم رکھتا ہے؟

حسین ہارون: قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کے دور تک آپ انگریز کے غلا م تھے۔ پاکستان نے نہر سوئز کے معاملے میں مصر کے خلاف ووٹ دیا۔ امریکا کو بڈا بیر کا ہوائی اڈہ دیا۔ ایوب خان کے دور میں اقتصادی تعاون تنظیم(آرسی ڈی) کا آغاز ہوا تھا وہ ایک اچھا اقدام تھا۔ وہ ہماری خارجہ پالیسی کی بڑی کام یابی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں او آئی سی کا کردار اہم ہوا۔ یہ دونوں ادارے ناکارہ ہوچکے ہیں۔ ضیاءالحق کے دور میں تزویراتی گہرائی کی پالیسی تھی جو انتہائی بے وقوفی پر مبنی تھی۔ سارک میں ہم کچھ حاصل نہیں کرسکے۔

ان ادوار کے بعد آپ کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں رہی۔ بے نظیر، نواز شریف ہوں یا مشرف، ان کے ادوار میں ہماری خارجہ پالیسی محض اتنی تھی کہ جب مار پڑتی تھی تو ہم ”بچاو بچاو“ کا شور کرتے تھے، اسے پالیسی تو نہیں کہا جاسکتا۔ 2010 میں روس کے ساتھ میں نے رابطے شروع کیے۔ بات کچھ آگے بڑھی۔ یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی بھارت صاف کہتا ہے کہ وہ ہمیں کشمیر کبھی نہیں دے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ شملہ معاہدے کے مطابق بھٹو صاحب کی پالیسی مان لیں اور جس کے پاس جو حصہ ہے وہ وہیں رہے۔ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔

ہم نے ٹھوس بنیادوں پر کبھی خارجہ پالیسی مرتب نہیں کی اور نہ اس کی منصوبہ بندی کی۔ 1990کے بعد سے بربادی ہی ہے، پالیسی کوئی نہیں۔ جہاں تک خارجہ پالیسی کو سمجھنے کی صلاحیت ہے تو بے نظیر کسی حد تک ان امور کو سمجھتی تھیں لیکن زدراری صاحب اور نواز شریف نہیں سمجھتے۔ بھٹو صاحب یقیناً اس حوالے سے بڑا فہم رکھتے تھے لیکن اپنا سر نہیں بچا سکے۔

آپ اکثر پاکستان میں قائم جمہوری نظام پر تنقید کرتے ہیں۔ ریاست کا کوئی نہ کوئی نظام ہوتا ہے، آپ کے نزدیک وہ کیا ہونا چاہیے؟

حسین ہارون: پاکستان میں سمجھا جاتا ہے کہ الیکشن ہونے کا نام جمہوریت ہے۔ 70ءکی بات ہے موجودہ کینیڈین وزیر اعظم کے والد پیئر ٹروڈور کراچی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے بھٹو سے کہا تھا کہ ابھی آپ منتخب ہوئے ہیں لیکن آپ کو اقتدار نہیں ملا، کینیڈا میں آج میں منتخب ہوتا ہوں تو کل مجھے اقتدار مل جاتا ہے، آپ کو منتخب ہوئے سال ہوچکا اور آپ کو معلوم نہیں کہ اقتدار ملے گا بھی یا نہیں۔ پھر انہوں نے بھٹو کو کہا تھا کہ تیسری دنیا میں یہ ضروری نہیں کہ ووٹ لینے والے کو اقتدار بھی ملے۔

صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں جعلی انتخابات ہوتے ہیں۔ کون سا انتخاب ہے جس پر اعتراض نہیں ہوئے۔ 70کے انتخابات کو قدرے شفاف تسلیم کیا جاتا ہے لیکن جنرل عمر نے حمودالرحمن کمیشن میں بیان دیا تھا کہ اُس دور میں انھیں الیکشن کنٹرول کرنے کے لیے پچاس کروڑ دیے گئے تھے۔ لیکن الیکشن کنٹرول نہیں ہوسکا، لوگوں نے پیسے لیے اور ووٹ مجیب کو دیا۔ اس کے بعد فوج نے آپریشن کردیا۔ بات واضح ہے کہ پیسے بھی خرچ ہوئے، بات بھی نہیں بنی، کارروائی کرنا پڑی اور ملک بھی دولخت ہوگیا۔

بھٹو صاحب جو پارلیمانی جمہوریت لے کر آئے اورا اسے سمجھتے تھے، انہوں نے بلوچستان پر فوج کشی کی۔ بات یہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت برطانیہ میں چلتی ہے۔ ہندوستان میں کچھ چلی ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ جمہوریت وہ ہے جو یونان نے بنائی تھی جنگ لڑنے کے لیے۔ انہوں نے فوج کو نظام میں شامل کیا تھا۔ برطانیہ میں نظام تبدیل ہوتا رہا۔ میگنا کارٹا کے بعد طے ہوا کہ بادشاہ اشراف کو اقتدار دے گا اور اسے کے بعد کئی ارتقائی مراحل طے ہوئے۔

یہاں جمہوریت کچھ بھٹو سمجھتے تھے، یا کسی حد تک ان کی بیٹی۔ بھٹو کے داماد اور نواز شریف اس جمہوریت کو سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ نواز شریف کی پالیسی یہ ہے کہ ان کا کنٹرول نظام پر کیسے مضبوط ہو، جمہوریت کنٹرولڈ نہیں ہوتی۔

تو پھر کیا مارشل لا ہونا چاہیے؟

حسین ہارون: آپ عجیب بات کررہے ہیں۔ مجھے یہ بتائیے امریکا کتنی بڑی جمہوریت ہے وہ کیوں مشکل وقت میں فوجیوں کو لا کر عہدوں پر بٹھاتے ہیں۔ ٹرمپ نے چار اہم عہدوں پر فوجیوں کو نہیں رکھا؟ رونالڈ ریگن نے ایک جنرل الیگزینڈر ہیگ کو سیکریٹری اسٹیٹ بنایا۔ آئزن ہاور خود الیکشن جیتے۔ کولن پاول کو آگے بڑھنے موقعہ دیا جارہا تھا لیکن وہ خود آگے نہیں بڑھے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ملک فوج کے بغیر نہیں چل سکتا ہے۔ مل کر چلنا ہوتا ہے، کسی کو نکال کر فوج لانے کی بات نہیں ہے۔ ملک کے نظام کے کئی شعبے ہوتے ہے ان کے اپنے تقاضے ہیں۔ جس ملک کی فوج مضبوط نہیں ہوتی ان کا کیا حال ہوتا ہے۔

جاپان کے پاس فوج نہیں تھی، شمالی کوریا نے ان کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ افغانستان کے پاس فوج نہیں تھی، اب بنائی جارہی ہے۔ عراق کی فوج ختم ہوئی اب بنائی جارہی ہے۔ امریکا نے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے مرسی کو ہٹا کر سیسی کو لا بٹھایا۔ جمہوریت کا نام لے کر بیووقوف بنانے والی باتیں نہیں کرنی چاہییں۔ سندھ میں مہاجر سندھی تقسیم کا ڈھونگ رچا کر تباہی لائی گئی۔ حسین حقانی نے دو ٹکے لے کر فوج اور جمہوریت کا ٹکراو دکھا دیا کہ جمہوری لوگ تو سارے بے کار ہیں فوج پر وار کریں وہ سیاست داں خود باز آجائیں گے۔ آپ کی جمہوریت کیا ہے، آصف زرداری اور نواز شریف۔ ان لوگوں نے ارب ہا روپے کی کرپشن کی ہے ۔

ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا نظام ہو جو باہمی مشاورت سے چلے۔ کسی غلط فہمی میں مت رہیے۔ جب بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کیے جائیں گے تو کون کھڑا ہوگا، سیاستدان؟ ہمیں مسلسل بیووقوف بنایا جارہا ہے۔

آپ اقوام متحدہ میں تھے اور حسین حقانی اسی دور میں سفیر بھی رہے۔ دونوں کا تقرر تو ایک ہی حکومت نے کیا تھا۔

حسین ہارون: کچھ عرصہ وہ اس دور میں سفیر رہے۔ میں ان سے کم ملتا تھا کیوں کہ مجھے ان کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا علم تھا۔ یہ تو زدراری صاحب سے پوچھنا چاہیے تھا کہ انہیں کیوں سفیر لگایا تھا۔ چھوڑیں ، آگے بڑھیں۔

آپ کی اقوام متحدہ میں تقرری کی اصل وجہ زرداری صاحب سے دوستی بتائی جاتی ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

حسین ہارون: میرا خیال ہے کہ زرداری صاحب کے قریبی لوگوں نے مجھے یہاں سے ہٹانے کی بہت کوشش کی، کیوں کہ ایک زمانے میں میرا ان پر کچھ اثر تھا۔ وہ لوگ اس میں کام یاب ہوگئے۔ اب مجھے حب علی میں بھیجا یا بغض معاویہ میں وہ آپ طے کریں۔ میرا ساڑھے چار سال کی کارکردگی اور کام یابیاں بھی آپ کے سامنے ہے۔

 

 آپ کے دادا عبداﷲ ہارون تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما تھے۔ آج تک پاکستان کے قیام کی بنیاد پر بحث ہوتی ہے، آپ کو اپنے بزرگوں سے بھی اس بارے میں پتا چلا ہوگا۔ آپ کی رائے کیا ہے؟

حسین ہارون: پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا، جو بات شروع میں سرسید احمد خان نے اٹھائی تھی۔ میرے دادا بھی اسی نظریے کے حامی تھے اور 1938میں اسے کراچی میں پیش کیا۔ چند برس قبل ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات پر جو رپورٹس سامنے آئیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بنانے کی بنیادیں کیا تھیں اور آج بھی وہ دو قومی نظریہ ختم نہیں ہوا۔ اب یہاں چور زیادہ ہوگئے تو ملک کی بنیاد اپنی جگہ قائم رہے گی۔ پاکستان بنانے والے خاندانوں کو مارا گیا۔ ہمارے خاندان کو بھٹو صاحب نے ختم کرنے کی کوشش کی، ہماری جائیدادیں چھین لیں۔ ہم جیسے لوگ جو پاکستان کے حامی تھے ان کو دیوار سے لگایا گیا۔

جہاں تک سوال ہے اسلامی ملک ہے یا نہیں تو 1906میں جو پہلا اجلاس نواب سلیم اللہ خان نے منعقد کروایا وہ مسلم ایجوکیشن کانفرنس کے عنوان سے ہوا تھا۔ 1907میں سیاسی جماعت سامنے آئی۔ انگریز نے جب ہندو اکثریت کی بات کی تو ہم نے بھی کہا کہ ہم سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ اس لیے پاکستان اسلام کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا۔

مجھے جمال میاں فرنگی محل اور یوسف ہارون نے خود بتایا کہ 1946میں دہلی میں ہونے والے کنوینشن میں یہ حضرات موجود تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ راجہ صاحب محمودآباد قائد اعظم کے پاس آئے اور کہا کہ باہر سڑکوں پر نعرے لگ رہے ہیں ”پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ“۔ راجہ صاحب کے بہت قریبی لوگوں میں سے تھے۔ قائد اعظم نے یہ سن کر انھیں کہا، خاموش راجہ صاحب۔ آپ کیا چاہتے ہیں کہ میری قوم 72فرقوں کے ہاتھوں یرغمال ہوجائے، اگر ایسا ہوا تو یہ ملک ایک دن باقی نہیں رہے گا۔

بشکریہ : روزنامہ 92 نیوز سنڈے میگزین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے