شریف فیملی ۔ انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا

بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہئے بلکہ انصاف ہوتا نظر آنا بھی ضروری ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت یہ تاثر عوام تک نہیں پہنچ رہا۔ لگتا یہی ہے کہ پوری شریف فیملی کو نشانے پر رکھ لیا گیا ہے۔ نوازشریف، مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز، میاں صاحب کے داماد کیپٹن صفدر، ان کے سمدھی اسحاق ڈار سب کے سب کٹہرے میں کھڑے ہیں اور ان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا جارہا ہے وہ بھی کسی موقر ادارے کے شایان شان نہیں۔ مقدموں کی ابتدا سے لے کر اب تک بہت سے واقعات سامنے آئے جن کے حوالے سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا اور اس کا کوئی تسلی بخش جواب تاحال سامنے نہیں آسکا۔
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ کئی ’’اشتہاری‘‘ دندناتے پھر رہے ہیں۔ عمران خان ہوں یا طاہر القادری ان کا عدالت کے ساتھ سلوک اور عدالت کا ان کے ساتھ سلوک تاحال خاصا برادرانہ نوعیت کا ہے۔ اسی طرح حسن نواز کو تو انٹرپول سے پاکستان لانے کی باتیں ہورہی ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف جن پر غداری کا مقدمہ ہے وہ بیرون ملک شام کی محفلوں میں بلے لوٹ رہے ہیں۔ یہ سب کیا ہے۔ کیا کسی کو کہیں بھی انصاف ہوتا نظر آرہا ہے؟ نوازشریف کو محض اقامہ پر نااہل قرار دے دیا گیا۔ پہلے دو ججوں نے اور پھر پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر۔ اور ابھی نیب نے فرد جرم عائد کرنی ہے، نیب کی عدالت میں سیکورٹی ایجنسی کے ایک افسر ڈیڑھ گھنٹہ جج صاحب سےملاقات کرتے ہیں۔ کس سلسلے میں؟ خدارا اگر آپ نے شریف فیملی کو ٹارگٹ کر ہی لیا ہے تو پھر یہ کام تھوڑے بہت سلیقے سے کریں، اتنی بدسلیقگی ماضی میں کبھی نظر نہیں آئی جتنی اس بار نظر آرہی ہے۔
اور یہ جو میڈیا پر بعض غیر معزز لوگ انتہائی معزز لوگوں کے حوالے سے جو زبان استعمال کرتے نظر آتے ہیں کیا یہ ان کی اپنی زبان ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں نے ان چند لوگوں کے حوالے سے ’’حوالدار میڈیا‘‘ کہنا شروع کردیا ہے۔ کیا یہ کوئی اچھی بات ہے، بالکل نہیں، اور کچھ لوگ موجودہ صورت حال کے حوالے سے ہماری پاک فوج کو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کرنے لگے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو نہ پاکستان دوست سمجھتا ہوں اور نہ جمہوریت دوست۔ ان کی باتوں سے ہمارے ازلی دشمن بھارت ہی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، کسی اور کو نہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کے کچھ لوگ نوازشریف اور ان کی فیملی کی عزت و تکریم کے در پے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پورا ادارہ ان کا ہم نوا ہے، تاہم ضروری ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ جس کا ڈسپلن مشہور ہے کے ذمہ دار اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں اور عوام کے دلوں میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے جو ناپسندیدگی کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسے ناکام بنایا جاسکے!
میں نے ابھی گز گز بھر لمبی زبانوں کا ذکر کیا تھا، گزشتہ روز شیدا ٹلی نے جو زبان استعمال کی وہ کوئی شریف آدمی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اپنے محسن نوازشریف کے بارے میںجو کچھ کہا پہلے سوچا یہاں درج کردوں مگر میرے قلم سے کبھی ایسے الفاظ نہ ادا ہوئے اور نہ میں کبھی کسی کی بدتہذیبی پر مشتمل ایسے الفاظ نقل کر سکا۔ شیدا ٹلی صاحب کو چاہئے کہ وہ بوڑھی طوائف کی طرح BEHAVE نہ کریں، جو اپنی کھولی کے سامنے کیلے کے چھلکےپھینک دیتی ہے، جس پر سے پھسلنے والے اسے گندی گالیاں دیں تاکہ جس تشفی کے لئے وہ ترس رہی ہے وہ کم از کم زبانی کلامی پوری ہوسکے۔ برادر عزیز شیدا ٹلی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا والے شاید انہیں ایک معزز سیاست دان کے طور پر اپنے پروگراموں میں مدعو کرتے ہیں جبکہ انہیں ناظرین کی تفریح طبع کے لئے بلایا جاتا ہے۔ ٹلی صاحب کے ساتھ معاملہ دراصل یہ ہوگیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں اور یوں وہ
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
کے اصول پر احترام کے لفظ کے معنی ہی بھول گئے ہیں اور یوں انہوں نے گالی گلوچ میں نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام کوششیں صرف کرنا شروع کررکھی ہیں۔
اور اب دوبارہ اس طرف آتے ہیں کہ انصاف ہوتا نظر آنا چاہئے جو کہ نہ صرف یہ کہ نظر نہیں آرہا بلکہ دنیا بھر کے ممتاز قانون دان اور انٹرنیشنل پریس اس ’’انصاف‘‘ پر انگلیاں اٹھا رہا ہے جو شریف فیملی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ عمران خان کسی پیشی پر عدالت نہیں جاتے اور ملک کا وزیراعظم سپریم کورٹ اور نیب کے سامنے بھی پیش ہو جاتا ہے، عمران خان سب اداروں کو بلیک میل کررہے ہیں اور خود سے اختلاف رکھنے والے سیاست دانوں کے خلاف گندی زبان استعمال کرتے ہیں جبکہ نوازشریف نے اپنی زبان کو کبھی پلید نہیں ہونے دیا۔ ایک بہت بڑامعاشرتی مسئلہ یہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ عمران خان کے پیروکار سوشل میڈیا پر ہماری تمام تہذیبی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ایک پوری بریگیڈ ہے جو صرف یہی کام کرتی ہے، انصاف کی عدم حصولی کے بعد یہ اخلاقی بحران دوسرا مسئلہ ہے جس کی طرف عمران خان کے سر پر ہاتھ رکھنے والوں کو ضرور سوچنا چاہئے۔
انصاف سب کے ساتھ ہو، پھر کسی کو کوئی گلہ نہیں رہے گا، مگر انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہئے، جو نظر نہیں آرہا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے