آزادکشمیر،گلگت بلتستان اورحفیظ پیرزادہ کی تھکن

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تعمیر و ترقی اور اپنے وسائل سے محرومی دہائیوں سے اس نظام کا حصہ چلی آ رہی ہے ۔ تقسیم بر صغیر (تقسیم کشمیر)کے کچھ عرصے بعد ہی اپریل1949 میں معاہدہ کراچی ہوا جس میں گلگت بلتستان کا انتظام حکومت پاکستان کو دے دیا گیا اور آزاد کشمیر میں ایک نیم خود مختار حکومت قائم ہو گئی۔گلگت بلتستان کی آزاد کشمیر سے نفرت و بے زاری کا بنیادی محرک یہ معاہدہ رہا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے ان کی غیر موجودگی میں یکطرفہ فیصلہ کیا گیا اور وہ اب تک ہمارے گناہوں کی سزا جھیلتے رہے ۔ چلیں دل کی تسلی کے لئے وہ کسی کوالزام دے کر اپنا کلیجہ تو ٹھنڈا کر ہی سکتے ہیں پر ہمیں(آزاد کشمیر) تو وہ سہولت بھی میسر نہیں ہے۔

معاہدہ کراچی میں آزاد کشمیر کے نظم و نسق کے لئے بھی ذمہ داریوں کی تقسیم ہوئی تو اس میں آزاد کشمیر کا اندرونی نظم و نسق آزاد کشمیر حکومت کے اپنے اختیار میں تھا ۔ پاکستان کا آئین ارتقا کے مراحل طے کر رہا تھا اور ہم بھی ان کی دیکھا دیکھی ہنس کی چال چل رہے تھے ۔ ہمیں بھی آئینی ارتقا کا شوق چرایا اور پچاس کی دہائی میں ایک کے بعد ایک رولز آف بزنس نے سارے بزنس کا تیا پائنچہ کرکے رکھ دیا ۔1973 میں پاکستان کا آئین بنا تو ہمیں بھی 1974 میں آئین دیا گیا۔ جس طرح پاکستان کے قومی ترانے کے خالق نے شاہکار تخلیق کرنے کے بعد اپنی تھکن آزاد کشمیر کا قومی ترانہ لکھ کر نکالی اسی طرح پاکستان کے آئین کے خالق عبدالحفیظ پیرزادہ نے اپنی تھکن آزادکشمیر کا عبوری آئین بنا کر نکالی اور اس پر مستزاد ہمارے رہنماوں کی ایکسٹرا وفاداریاں ۔’’ کہ جہاں دس کی مانگ کی گئی ہم نے بڑھ چڑھ کر سو پیش کیا‘‘۔

آئین بنتے ہی آزاد جموں و کشمیر کونسل کا وجود عمل میں آ گیا اور اختیارات کی تقسیم کی گئی ۔ اس تقسیم میں ریاست کے 52 سبجیکٹس میں سے باون آزاد جموں و کشمیر کونسل کے پاس ہیں۔ جس میں آزاد کشمیر کا اندرونی نظم و نسق چلانے کے لئے بھی قانون سازی کے سبھی اختیارات شامل ہیں۔ کونسل کے نصف اراکین وہ ہیں جن کے الیکٹورل کالج کا حصہ آزاد کشمیر کا کوئی فرد نہیں ہے۔( یعنی ان کا اس نشست پر بیٹھنے کے لئے آزاد کشمیر کی عوامی حمایت درکار نہیں ہے ) آزاد کشمیر کے لئے کسی بھی چھوٹی بڑی قانون سازی کا اختیار آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے پاس نہیں بلکہ کونسل جیسی روٹھی محبوبہ کے پاس ہے جو کسی بات پر ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتی ۔یعنی آزاد کشمیر کے خطے کے سب کے سب ڈی فیکٹو اختیارات پاکستان کے پاس ہیں ۔ ڈی فیکٹو کو اگر لغت میں تلاش کیا جائے تو اس کا مطلب نظر آتا ہے ۔(in fact, whether by right or not.)
اور اس تعریف میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔

اسی طرح گلگت بلتستان 2009 تک شمالی علاقہ جات کی حیثیت سے پاکستان کے زیر اختیار رہا ۔جبکہ گلگت بلتستان کے عوام نے اپنی مدد اپ کے تحت ڈوگروں کے ساتھ جنگ لڑ کریکم نومبر1947کو گلگت بلتستان کو آزادکروایا لیکن نصف صدی سے زائد عرصہ تک ان کو آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کو ضیا الحق کے دور میں کسی طور دیکھا گیا اور اپنے مارشل لا کے دوران جنرل ضیا الحق نے اس کو ای زون قراردیا گیا بعد ازاں مشرف دور میں بلدیاتی سطح پر کچھ اصلاحات لائی گئیں۔(واضح رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر نے آئینی دھارے میں لانے کی کوشش کی تھی تاہم قانونی پیچیدگیوں کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا) 2009 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آرڈیننس کے تحت ایک نظام دیا گیا اور شمالی علاقہ جات سے گلگت بلتستان تک کی پہچان ملی۔ آزاد کشمیر کونسل کی طرح کی ایک کونسل گلگت کو بھی دے دی جو کشمیر کونسل کی طرح مختار کل ہے۔

دونوں انتظامی خطوں کو کونسل عطا کئے جانے کے اس حاتم طائیانہ عمل کو دیکھ کر ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ کسی گاوں میں ایک کفن چور تھا ’’قعدہ‘‘ گاوں کے لوگ اس سے بہت تنگ تھے کچھ عرصہ بعد وہ مر گیا تو اس کے بیٹے نے قبروں سے مردے نکال کر کھانا شروع کر دیے تو لوگ کہنے لگے قعدہ چنگا سی ۔ اب کونسلز کے اختیارات کی لپیٹ میں آکر یہاں کے عوام کہتے ہیں قعدہ چنگا سی ۔

خیر چھوڑئے قعدے کو ہم کونسلز کی بات کر رہے تھے تو کونسلز کے اختیارات اور ہماری وفا کے تقاضوں نے کچھ اس طرح بے دست و پا کیا ہے کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ، مثلا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان دونوں معاشی و فلاحی منصوبہ بندی کے اداروں جیسے ایکنک، کونسل آف کامن انٹرسٹ اور این ایف سی ایوارڈ کا حصہ نہیں ہیں جہاں و ہ اپنے خطے کی اقتصادی فلاح کے لئے آواز اٹھا سکیں ۔ مزید برآں گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول بھی معطل کر دیا گیا ہے ۔ یعنی کوئی باہر کا شخص وہاں زمین خرید کر ، سٹیٹ سبجیکٹ حاصل کر کے ، گلگت کے برائے نام کوٹے کا حصہ دار بن سکتا ہے ۔

موجودہ دہائی میں جب پاکستان کے صوبے بھی اندرونی خود مختاری اور اپنے وسائل پر اپنے اختیار کی بات کر رہے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں۔ اگر ان جیسے اختیارات کا مطالبہ گلگت بلتستان یا کشمیر سے آئے تومتنازعہ ہونے کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور وفاداری مشکوک ٹھہرتی ہے ۔ یعنی بلوچستان مانگے تو حقوق۔ سندھ مانگے تو نارض سندھی بھائی ، کے پی کے مانگے تو روٹھے پختوں اور میں کروں تو کیریکٹر ڈھیلا ہے ۔

اگر آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو صوبوں جتنے اختیارات نہ بھی ملیں ، صرف اندرونی انتظامی نظم و نسق کے متعلق قانون سازی کا اختیار دے دیا جائے تو دونوں خطوں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن پالیسی ساز اداروں کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی ۔ اپنے وسائل پر اپنا اختیار نہ ہونے کی وجہ سے دونوں خطوں کے عوام کے ذہنوں میں مسلسل لاوا پک رہا ہے جو مستقبل میں خطرناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے ۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گلگت بلتستان کو ماڈل ویلفئیر سٹیٹ بنایا جاتا تا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو ترغیب ملتی کجا کہ یہاں کے لوگوں کی وفا کا بار بار آزمائش کی کسوٹی سے گذارا جائے۔ ابھی اتنی دیر نہیں ہوئی کہ اصلاح اور غلطیوں کے ازالے کی گنجائش باقی نہ ہو ۔ لیکن جتنی جلدی غلطیوں کا ادراک ہو اتنا بہتر ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے