ن کا اقتصادی انصاف ہوتا نظر آرہا ہے

جب جنگ بلکہ جہاد میں مصروف آرمی چیف کو ملک کی معیشت کی طرف بھی متوجہ ہونا پڑے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نااہل شریف کے سمدھی شریف ملکی معیشت کے ساتھ کیاہاتھ کرگئے ہیں۔ یوں تو اقتصادی صورتحال پر معلومات کے ڈھیر لگے ہیں۔ اخباری مضامین سے لے کر مختلف نجی ٹی وی چینلز پر اقتصادی ماہرین تاریک اقتصادی صورتحال پر حسب ِ ضرورت روشنی ڈال کر عوام کوبتا رہے ہیں کہ ن لیگی نحوست ہماری اکانومی کو کہاں تک گھسیٹ لائی ہے جبکہ نااہل شریف نام نہاد ترقی کے ترانے سنانے سے باز نہ آتے تھےبہرحال اپنے آرمی چیف کے ان چیدہ چیدہ محتاط جملوں پر غور فرمائیں۔’’قرضے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ کشکول توڑنا ہے تو ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح بڑھانا ہوگی۔‘‘’’سکیورٹی بہتر کردی، اب اکانومی مضبوط بنائی جائے۔‘‘’’سلامتی اور معیشت جڑواں۔ تجارتی توازن بہتر نہیں۔‘‘’’جاری کھاتوں کا خسارہ حد سے زیادہ، اقتصادی صورتحال قومی سلامتی سے جڑی ہے۔‘‘’’قومی سلامتی اور معاشی استحکام میں توازن یقینی بنانا ہوگا۔ کرنٹ اکائونٹس خسارہ موافق نہیں۔ پاکستان کو اسٹریٹجک چیلنجز کا سامنا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے سیاسی و معاشی استحکام آئے گا۔‘‘ ’’سکیورٹی مضبوط کردی، قرضے آسمان پر، معیشت درست کی جائے۔‘‘کراچی میںمعیشت اور سلامتی پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے جو کہاوہ اسحاق ڈار جیسے فنکار کی سمجھ میں کیوں نہیں آیاحالانکہ معیشت کے حوالہ سے یہ باتیں بنیادی حقائق ہیں۔ کوئی راکٹ سائنس نہیں جسے سمجھنے کےلئے کسی اقتصادی جادوگر یا جینئس کی ضرورت ہو تو پھرہوا کیا؟ سمدھی ڈارلنگ کرتا کیارہا؟ کہ یہ کچھ توکسی ایم اے اردویا ایم اے فارسی سے بھی کرایا جاسکتا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ڈار اپنی اور سمدھی شریف کی اکانومی مضبوط کرتا رہا جو یقیناً اتنی مضبوط ہوگئی کہ پورا خاندان عدالتی طور پر پرِکاہ سے بھی زیادہ کمزور پڑ گیا۔ نواز شریف ڈار اینڈ کمپنی کا مسئلہ بلکہ یوں کہئے کہ ان دونوں خاندانوں کا اصل المیہ کیا ہے؟ ان کی آمدنیوں اور بے تحاشا اثاثوں میں اتناہی فرق ہے جتنا پاتال اور ساتویں آسمان میں۔ اسی لئے سادہ لوحوں کو ان کے ساتھ انصاف ہوتانظر نہیں آ رہا حالانکہ یہ لوگ اپنی آمدنیوںاور اثاثوںکے درمیان تناسب میں پندرہ، بیس، پچیس، تیس فیصد کی ڈنڈی بھی مارجائیں تو ان مصنوعی معززین کی جان چھٹ جائے لیکن ان کی واردات اتنی خوفناک ہے کہ کوئی ریلیف دینا بھی چاہے تو دے نہیں سکتا اور اس طرح کے شریفانہ ’’سفید کالر‘‘جرائم پکڑنے کا طریقہ بھی یہی ہے ورنہ کمیشن کک بیک دینے والے تو گواہی دینے سے رہے۔ بات بہت سادہ ہے جو ان کے بینی فشریز کو بہرحال سمجھ نہیں آئےگی اور وہ یہ کہ اگرگامے نے گزشتہ 30سال میں 30ارب کمایا جو ریکارڈ پر آیا، اس پر ٹیکس بھی دیئے گئے لیکن اثاثے اس کے 300ارب سے بھی زیادہ ہیں تو پوچھنا تو پڑے گا کہ یہ معجزہ کیسے ہوا؟ مانا جائیداد کی قیمتیں بڑھتی ہیں لیکن کتنی اور پھرخرید کی دستاویزات مثلاً میں نے 20سال پہلے کروڑ روپے کی پراپرٹی خریدی جو آج 20کروڑ کی ہے تویہ بتاناچنداں مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کروڑ کہاں سے آیا تھا؟ اس وقت اس پراپرٹی کے اردگرد پراپرٹی کی کیا قیمت تھی اور اب کتنی ہے کہ اگر سب کی قیمت بڑھی تو میری کا بڑھنا بھی نیچرل اور قابل فہم۔ اگر میں کہوں بچوں کی ہے کیونکہ ان کے نام پر ہے تو فطری سوال یہ ہوگا نابالغ بچوں کے پاس اتنی بڑی بڑی رقوم کہاں سے آئیں اصل بات یہ کہ وارداتیئے ’’پھڑےگئے نیں‘‘ سچا تو کیا کوئی جھوٹا جواب بھی نہیں، مضبوط تو کیا کوئی کمز وردلیل بھی نہیں لیکن ’’چوٹ‘‘ چاہے اپنی حماقت کی وجہ سے ہی لگے، اس کی تکلیف تو بہرحال ایک حقیقت ہوتی ہے اور کونفیڈنس انہیں لے ڈوبا یا ستارے ہی گردش میں تھے کہ پکڑے جکڑے گئے لیکن پھر بھی ڈھٹائی دیکھو کہ اب بھی صفحہ ٔ اول کی خبر ہے کہ ’’اسحاق ڈار مستعفی ہورہے ہیں نہ ہی وزیراعظم نے ایسا کرنے کا مشورہ دیا ہے‘‘ظاہر ہے جس کا باس آخری وقت تک ڈٹا رہا، وہ بھی ایویں تو نہیں جائے گا ’’کبوتر با کبوتر باز باباز‘‘ لیکن یہ تو شکرے ہیں شکرے جن کی چونچوںکو انسانی خون اور ملکی خزانے کی لت لگی ہے۔مختصرا ً یہ کہ ن لیگ کی جعلی مصنوعی معیشت کے رنگین غبارے سے کسی بھی وقت ہوا نکل کر یہ پوچھ سکتی ہے ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ غیرملکی قرضے 75ارب ڈالر سے بڑھ کر82ارب ڈالر تک پہنچ گئے جبکہ ملکی بنکوں سے بھی حکومت نے 15ارب ڈالر قرضے حاصل کر رکھے ہیں۔ آئندہ چند ماہ میں پاکستان نے صرف سود کی مد میں عالمی مالیاتی اداروں کو اتنی ادائیگی کرنی ہے کہ بیچارہ ’’روپیہ‘‘ بری طرح لڑکھڑا جائے گا جس کے نتیجہ میںآنے والا مہنگائی کا سونامی لوگوں کو گزشتہ انتخابی مہم میںبار بار کہی گئی میری یہ بات یاد دلائے گا کہ اگر ن لیگ اقتدار میں آگئی تو پاکستانی عوام کی چیخیں بلکہ چانگڑیں مریخ پر سنائی دیں گی۔ ن لیگ کے چار سوا چار سالہ دور ِ حکومت میں پاکستان کا سالانہ تجارتی خسارہ 20ارب ڈالر سے بڑھ کر 32ارب ڈالر ہوچکا جبکہ غیرملکی قرضوںکا حجم 52ارب ڈالر سے بڑھ کر 82ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔گھبرائو نہیں اقتصادی انصاف دور سے دکھائی دےگا بلکہ ابھی سے ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے