جیلیں بھرو تحریک اور لاپتا افراد

دینِ اسلام ، انسان پر ذمہ داریاں عائد کرتا ہے، دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد مسلمانوں پر دوطرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، انفرادی ذمہ داریاں اور اجتماعی ذمہ داریاں۔

جب تک انسان ان دونوں ذمہ داریوں کو بخوبی انجام نہیں دیتا وہ حقیقی مسلمان نہیں کہلا سکتا، اپنی اہمیت کے اعتبار سے ساری ذمہ داریاں بھی یکساں نہیں ہیں، کچھ ذمہ داریاں اہم ہیں تو کچھ مہم، ان اہم ذمہ داریوں میں سے ایک مظلوم کا دفاع کرنا بھی ہے-

اگر انسانی معاشرے میں کسی انسان پر ظلم اور ستم ہورہا ہو، ظلم کرنے والا چاہے کوئی بھی ہو ، ظالم کے خلاف اور مظلوم انسان کے دفاع میں آواز بلند کرنا ہر مسلمان پرواجب ہے ۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ مظلوم مسلمان ہو یا غیر مسلم، اگر وہ مسلمان ہو تو پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس فقہ،مسلک یا مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے، وہ خواہ شیعہ ہو یاسنی بریلوی ہو یا …

نیز مظلوم کا دفاع کرنا ضروری ہونے میں اسلام جغرافیائی، لسانی، رنگ، حسب ونسب کی تفریق اور امتیازات کا بھی قائل نہیں ہے ،بلکہ اسلام کی عالی تعلیمات کے مطابق مظلوم کا ہر حال میں دفاع کرنا ضروری ہے خواہ مظلوم واقع ہونے والا انسان مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا ۔

اس سلسلے میں بانی اسلام حضرت محمد (ص) کے اس ارشاد گرامی پر توجہ دینا ضروری ہے کہ آنحضرت( ص) نے فرمایا : جو مسلمانوں کے امور کے بارے میں اہتمام کئے بغیر صبح کرے وہ مسلمان نہیں –

ہمارا ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا – بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح (رح) اور ان کے فداکار و مخلص ہمفکر افراد نے ہندووں اور انگریزوں کے ریاستی ظلم وجبر سے مسلمانوں کو نکال کر اسلامی مملکت میں اسلام کے زرین اصول اور قوانین کے زیر سایہ مسلمانوں کو سکھ کی زندگی فراہم کرنے کے لئے شب وروز محنت اور کوشش کرکے پاکستان کو وجود بخشا –

مسلمانوں کو ہندووں اور انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی رحلت کے بعد اقتدار پر آنے والے حکمرانوں نے پاکستانی مسلمانوں کو دوبارہ غلامانہ اور ظلم وستم کی تاریک دنیا میں بے بس ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے، زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں حکمران ظالم تر اور عوام مظلوم سے مظلوم تر ہوتے جارہے ہیں، روز بروز ہمارے ملک میں انصاف ناپید اور ظلم وناانصافی عام ہو رہی ہے،آئے روز ہمارے ملک میں طبقاتی تفریق کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے، امیر امیرتر اور غریب لوگ غریب تر ہوتے جارہے ہیں، تمام شعبہ ہائے زندگی میں انصاف ناپید دکهائی دیتا ہے ، تمام اداروں میں قابلیت کا معیار دفن ہوکر رشوت اور سفارش ہی اصلی معیار کے طور پر متعارف ہیں – جس کا افسوسناک نتیجہ نکل رہا ہے-

مثال کے طور پر تعلیمی میدان میں جو ذہین وباصلاحیت طلباء اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی چھوڑ دیتے ہیں ،چونکہ انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے ، وہ یہی سوچتے ہیں کہ پڑھ کر کیا کرنا ہے، فارغ التحصیل ہونے کے بعد کہیں ملازمت تو ملنی نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اب ملازمت اور روزگار ملنے کا معیار قابلیت اور باصلاحیت ہونا نہیں رہا، اور رشوت کے پیسے ہیں نہیں یا دین اجازت نہیں دیتا، اسی طرح بڑی سفارش بھی ہمارے پاس نہیں , یوں وہ اپنی آئندہ کی زندگی سے مایوس ہوکر تعلیم کو خیرباد کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیا یہ ذہین طلبامظلوم نہیں؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ناانصافی کی حکمرانی کا سبب کیا ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ آج وطن عزیز میں جگہ جگہ ناانصافی کا بول بالا ہونے کی اساسی وجہ سرکاری اداروں اور پوسٹوں پر ناہل اور کرپٹ افراد کا وجود ہے۔

بدون تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں اعلی حکام سے لے کر نیچے چھوٹے موٹے ملازمین تک اکثریت تعلیم و تجربے کے بجائے رشوت اور سفارش کے بل بوتے پر اداروں میں گھسی ہوئی ہے، ایسے گھس بیٹھیوں سے معاشرتی عدل وانصاف کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی البتہ اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ ہمیں اس ظلم عظیم پر خاموشی کے بت بنے رہنا چاہیے بلکہ باشعور اور پڑھے لکھے طبقوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو اس حوالے سے شعور دیں ، اداروں میں بھرتی کے لئے بنائے ہوئے اس ظلم پر مبنی غلط معیار کو ختم کرکے ہر جگہ قابلیت کو معیار بنانے کے لئے آواز بلند کرنے کی ترغیب دلائیں-

یقین کیجئے جس دن سرکاری اداروں میں قابلیت اور صلاحیت کے معیار پر افراد کو پہنچانے میں عوام کامیاب ہوئے ہماری قوم کی تقدیر سنور جائے گی، ظلم کا خاتمہ ہوگا، لوگوں کو انصاف ملے گا اور ہماری عوام کو عزت وسکون کی زندگی میسر آئے گی-

اگر آج وطن عزیز پاکستان داخلی اور خارجی دشمنوں کےنرغے میں پھنسا ہوا ہے تو یہ سب ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسوں کا نتیجہ ہے اور غلط پالیسیاں مرتب کرنے کا سبب ان کی جہالت ہے –

آج ہم دیکھتے ہیں کہ ملک پر چند اشرافیہ خاندان کا قبضہ ہے، جو باری باری آتے ہیں، ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں ،عیش ونوش کرتے ہیں، بینک بیلنس بناتے ہیں پھر دوسرا آتا ہے وہ بھی پہلے والے کی سیرت پر چلتے ہے، سب اپنی اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔

مگر بے چارے عوام ان چند اشرافیہ خاندانوں کی مدح سرائی کرنے، ان کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرکے رونق بخشنے اور انہیں ووٹ دینے کے بعداپنی غربت سے بھرپور زندگی گزارنے پر مجبور ہیں –

اس کے عوض میں ہمارے حکمرانوں نے پاکستانی قوم کو کیا دیا؟ دہشتگردی، فلاکت وغربت، عدم مساوات و فرقہ واریت ، نفاق، عریانیت، فحاشی،فسادات، بے روزگاری ،خودکشی، طالبان، داعش القائدہ و…

آج ہمارے حکمرانوں کی بے بصیرتی اور ان کی غلط منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے- عوام، امن و امان کو ترس رہے ہیں – غریب لوگ دووقت کی روٹی کے لئے فکر مند رہتے ہیں- نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب پاکستان کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کے غریب طبقوں کو پاکستانی فضا میں چلنے پھرنے سے بھی ڈر لگتا ہے –

شہروں میں آزادانہ رفت وآمد سےبھی خوف محسوس ہوتا ہے، کوئی پتہ نہیں کہ کس کو کب طالبان یا حکومتی ایجنسیاں اغوا کرلیں۔ سرکاری ایجنسیوں نے بھی دہشت گردوں کی طرح دہشت گردی شروع کر دی ہے، آج پاکستان کے بہت سارے غریب والدین اپنے بیٹوں کے اچانک لاپتہ ہونے پر مغموم ہیں-

والدین کی فریاد کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہورہی،اب کچھ مخلص وزندہ ضمیر افراد نے مظلوم والدین کی مدد کے لئے جیلیں بھرو تحریک کا آغازکیا ہے، اس سلسلے میں کراچی کے ایک شجاع عالم دین علامہ حسن ظفر صاحب احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس کو اپنی گرفتاری دے چکے ہیں –

انہوں نے میدان میں آکر حکومت وقت سے یہ مطالبہ کیا ہےکہ حکومت لاپتہ غریبوں کو بازیاب کرائے، انہیں غائب کرکے رکھنے کے بجائے عدالت میں پیش کرے، انہیں قانون اور انصاف کے دائرے میں لاکر قانون کے مطابق ان کے بارے میں فیصلہ کرے، بصورت دیگر خود ہمیں بھی گرفتار کرکے ان مظلوم و لاپتہ افراد کے پاس لے جایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ اب ہم میں مزید غریب والدین کی فریاد سننے کی سکت نہیں رہی، ہماری قوت برداشت جواب دے چکی ہے- چنانچہ مولانا حسن ظفر نے سب سے پہلے دن دہاڑے کھلے عام اپنی گرفتاری پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ جیل بھرو تحریک فقط نعرہ بازی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں مظلوموں کے دفاع کے لئے اٹھایا جانے والا قدم ہے۔

ان کے ساتھ اور ان کے بعد بھی بہت سوں نے اپنی گرفتاری پیش کردی ہے اور یہ سلسلہ بڑھتا جارہا ہے ، لیکن افسوس؛ ہم پاکستانی مسلمانوں کی یہ کمزوری شروع سے چلتی آرہی ہے کہ ملک میں جب بھی اس طرح عوام کے نفع میں غریب اور کمزور طبقوں کے دفاع میں کوئی تحریک یا مہم چلتی ہے توہم اس کے اہداف اور مقاصد کو دیکھ کر ساتھ دینے اور نہ دینے کا فیصلہ کرنے کے بجائے ہم اسے فرقہ واریت کا رنگ چڑھا کر متنازعہ بنانے کی کوشیش کرتے ہیں۔

ہماری نگاہ سب سے پہلے اس تحریک کو وجود میں لانے والے افراد کی طرف ہوتی ہے ہم دیکھتے ہیں ان افراد کا تعلق کس مسلک سے ہے اس کے بعد ہی اس تحریک کا ساتھ دینے اور نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں-

یعنی انہیں اگر اپنا ہم مسلک پائیں تو ساتھ دیتے ہیں اگر وہ ہم مکتب وہم مذہب نہ ہوں تو خواہ ان کا اقدام حق اور حقیقت پرمبنی ہی کیوں نہ ہو ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے –

ہماری اسی غلط روش اور سوچ کی وجہ سے ہم مختلف مظالم کے شکار ہوتے رہتے ہیں، جبکہ عقل سلیم اور دین کا حکم یہ ہے کہ حق اور باطل کا معیار افراد نہیں تم افراد کو دیکھنے کے بجائے یہ دیکھو کہ ان کا یہ اقدام اسلامی اور قرآنی اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں اگر ہے تو ان کا ساتھ دو نہ ہونے کی صورت میں ساتھ نہ دو –

پاکستان کی زمین پر حالیہ جیل بهرو تحریک کے نام پر جو مہم چل رہی ہے یہ کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ انسانی آزادی کی بحالی اور بے گناہ اسیروں کی نجات اور عرصہ دراز سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اٹھی ہوئی ایک تحریک ہے اور لاپتہ افراد صرف ایک خاص فرقے یا گروہ سے تعلق رکھنے والے پانچ دس نفر نہیں بلکہ مختلف مکاتب فکر کے بہت سارے افراد لاپتہ ہیں-

پس ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ جس لباس میں بھی ہو، جس مکتب سے تعلق رکھتا ہو اور جس شعبہ زندگی سے منسلک ہو وہ جیل بھرو تحریک کی حمایت کرے ،مظلوم اسیروں کی بازیابی کے لئے اس تحریک کا ساتھ دے-

لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے اظہار ہمدردی کرے، اس لیے کہ «من اصبح و لایهتم بامور المسلمین فلیس بمسلم»، جو صبح کرے اس حال میں کہ مسلمانوں کے امور کے سلسلے میں کوئی اہتمام نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔

جیل بھرو تحریک والوں کے ساتھ تعاون کریں چونکہ اسلام یہی ہے کہ «کونا للمظلوم عونا و للظالم خصما» مظلوم کے لیے مددگار اورظالم کے لیے دشمن بنو۔ بے شک جیل بھرو تحریک مظلوموں کے دفاع میں اٹھی ہوئی تحریک ہے ، ہم سب کو مل کر اس تحریک کو کامیاب بنانا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے