انّاللہ و انّا الیہ راجعون

مہذب سماج، نظم اجتماعی کی یوں تشکیل کرتا ہے کہ اختیارات ریاست کے حوالے کر دیتا اور ریاست قانون سازی سے اختیارات کی تقسیم کرتی اور شہریوں کے حقوق کی نگہبانی کی ترکیب بنا لیتی ہے۔ یوں سماج ،طاقت کی بے قاعدگی اور اس سے جڑے فسادات سے کہیں بچ پاتا ہے۔

جب قانون کی راہ سے کچھ بن نہیں پڑتا تو قانون کی نظریں اپنی طرف موڑنے کو لوگ احتجاج کی راہ بھی اپناتے ہیں۔ احتجاج، اگر قانون کی پھری نظروں کو اپنی طرف موڑنے کا باعث بنے تو محمود اور اگر قانون کو ہی ہاتھ میں لے لینے کے ارمان کا حامل ہو تو بہرطور مذموم ہے۔

اہل احتجاج کی فتح اس میں ہے کہ وہ کہیں رک گئے قانون کو حرکت دلا سکیں نہ یہ کہ وہ چلتے قانون کو بھی روک کر رکھ دیں یا اپنے ہاتھ میں لے کر دکھا دیں۔
گزشتہ دنوں دھر کی دھرتی پر عوام و انتظامیہ باہم دگر برسرپیکار ہو گئے۔ اس قضیے نے بالآخرایک اور احتجاج کا رنگ پکڑا۔ لوکل قیادت کی فوری فراہمی کی بدولت احتجاجی سلسلہ بڑھا اور ہجیرہ بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

ہوا یوں تھا کہ دھر والے اپنے کچھ مطالبات منوانے چلے تھے کہ معاملہ انتظامیہ سے ان بن تک جا پہنچا۔ یہ اَن بَن آگے بڑھی توکچھ افراد کو درد و زخم سہنے پڑے جن میں پولیس اہل کار بھی تھے اور سویلین بھی۔ گرتے خون کے سرخ رنگ نے وردی کی تفریق مٹا کر واضح کر دیا کہ دونوں طرف انسانی لہو بے وجہ بہادیا گیا۔ مطالبات کی نوعیت کیا تھی؟ معاملہ باہمی لڑائی اور خون ریزی تک کیونکر پہنچا؟

احتجاج کے بطن سے یکایک اس خونی فساد کا جنم کیونکر ہوا؟

یہ سب سوالات بہت اہم ہیں اور اپنے جواب میں شفاف تحقیق چاہتے ہیں۔ اربابِ حل و عقد کو چاہیے کہ اس معاملے کی تحقیقات کروائیں اور عوامی احتجاج کو خونی کھیل میں بدل دینے والوں کا حساب چکتا کریں۔ تب تک ہمارے پاس اس عالَم ِناپائیدار میں یہی زخم و خوں کا دکھ سہے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ خونِ انسانی کی ایسی ارزانی پر جگر کڑھتا اور دل دکھتا ہے۔

یہ سانحہ ہی کچھ کم نہ تھا کہ اس پر اخلاق و مروت کو کچل دینے کا سانحہ بھی رقم کر دیا جاتا۔ اہل احتجاج کا قافلہ ہجیرہ کے مقام پر لنگرانداز ہوا تو بہ قائمی ہوش و حواس اخلاق و مروت کی ایسی پستی میں جا گرا جہاں عالم جنون میں بھی گرنے کا حوصلہ شاید ہی کوئی کر پائے۔ سچ یہ ہے کہ اخلاقی اقدار پر ایسے وار کم ازکم کشمیر کی تاریخ میں کسی کو کہیں دیکھنے کو نہ ملے ہوں گے۔

جب سے، یہاں احتجاجی جلوس سے مخاطب ہونے والے ، ایک محترم قائد کا خطاب سن رکھا ہے دکھی بھی ہوں اور شرمندہ بھی۔ میں جس سماج سے وابستہ ہوں یہاں کی اب تک کی روایات میں اہم تر روایت یہ رہی ہے کہ یہاں لوگ خواتین کو سرعام رسوا کرنے کی روایت سے قریبا نا آشنا ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے خطّہ اس انقلاب سے بھی جا گزرا کہ چوک میں مجمع لگا کر ایک خاتون پولیس آفیسر کی کردار کشی کی گئی۔ یوں ان محترم قائد نے خطے کی روایت کو بدلنے کا سہرا اپنے نام کر لیا۔ جس جرات سے وہ ایک خاتون کی کردار کشی کر گزرے اس پر ضرور انہیں تبریک کا نذرانہ پیش کرنا چاہیے۔قائدِ محترم کا کہنا بجا تھا کہ "یہ خطے کا تاریخی احتجاج ہے، اس کی مثال دنیا میں نہیں ڈھونڈی جا سکتی”۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ احتجاج،محض تاریخی ہی نہیں بلکہ تاریخ ساز بھی تھا کہ اس میں خطے کی اب تک کی تاریخ بدل کر ایک نئی تاریخ کی طرح ڈال دی۔

یہ خاتون ایس ایچ او اس اعزاز کی حامل ہیں کہ یہ پہلی کشمیری خاتون ہیں جو اس منصب پر فائز ہوئیں۔ مجھے خبر ہوئی تو لازم جانا کہ اس کشمیر کی ہونہار بیٹی کو خراج تحسین پیش کروں۔ ہمارا سماج ابھی قبیلہ پرستی کے ہالے سے نجات نہ پا سکا۔ میں علوی خاندان سے ہوں جبکہ میڈم کا تعلق سدھن خاندان سے ہے۔ اعترافِ عظمت مگر خاندانی تعصبات میں جکڑی جانے کے لائق کوئی شے نہیں۔ یہی سبب ہے کہ کشمیر میں پہلی بار اس منصب پر اک سدھن بیٹی فائز ہوئی تو مجھے دادو اعتراف میں کسی بخل و تعصب کی حاجت پیش نہ آئی۔یہ اعزاز اگر سدھن خاندان کے نام رہا تو مجھے میرا قبیلہ اسے تسلیم کرنے میں مانع نہیں بن سکتا۔ میرا یہی خیال تھا اور شاید اب بھی یہی ہے کہ وہ یہاں اپنی اہلیت کے بل پر پہنچ پائی ہیں۔ امید تھی کہ وہ خطے میں خواتین کی کمر مضبوط کرنے کا باعث بنیں گی۔ گھروں میں چپکائی گئی خواتین ان کی خدمات کھلی آنکھوں سے دیکھیں گی اور بلند تر اہداف کی خاطر جینے کو شعار کریں گی۔

محترم قائد نے مگر بھرے مجمع میں انکشاف فرمایا کہ "محترمہ، یہاں کسی اہلیت کے طفیل نہیں بلکہ معاذاللہ عصمت فروشی کے عوض پہنچی ہیں”۔ یہ سطریں لکھتے وقت بخدا شرمندگی سے میرا پسینہ چھوٹ رہا ہےمگر حیرت اس جری زبان پر ہے جس پر ایسا انکشاف جاری ہوا اور آفرین ان کانوں پر جو یہ سب مکمل یکسوئی سے سن گزرے۔ جسے یہ سب سننے کا حوصلہ دستیاب ہے، وہ سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی قائد کی ویڈیوملاحظہ کر سکتا ہے۔قائد کے جیالوں نے قائد کی ان جراتوں کے چرچے سوشل میڈیا پر بھی کر چھوڑے ہیں۔ میری بساط سے البتہ باہر ہے کہ یہاں قائدِ محترم کے ولولہ انگیز خطاب میں سے کچھ مزید اقوالِ حکمت بھی قارئین کی نذر کرسکوں۔یہ انہی جیسے جرات مندوں کا حوصلہ ہے جو یہ سب بہت آسانی سے کہہ گزرتے ہیں۔ خطے میں اب تک سدھن خاندان ایک غیور خاندان کے طور پر اپنا تشخص قائم کیے ہوئے ہے۔ پہلی بار قائد کے ہاتھوں یوں ہوا کہ سرعام یوں اس غیور خاندان کی ایک بیٹی کی عزت پرہلّابول دیا گیا اوراسے معاذاللہ کتیا تک سے بھی تشبیہ دی گئی۔اور سامعین نےقائدِ محترم کو اس شرمناک جرات کا اظہار کرنے پروہیں نقد داد سے بھی نوازا۔لاحول ولاقوّۃ الاباللہ۔

ہمارا سماج اپنے تشخص میں مذہب کوایک ناگزیرعنصر جانتا ومانتاہے۔ مذہب جن بڑے گناہوں سے اولادِ آدم کو خبردار کرتا ہے، ان میں ایک بڑا گناہ کسی پر بدکاری کی تہمت جھڑنا بھی ہے۔ بدکاری کی تہمت جھڑنا خدا کی نظر میں کس درجہ بڑی جسارت ہے اس کا اندازہ خدا کے ان الفاظ اور اس لہجے سے کیا جا سکتا، دیکھیے ایسوں پر خدا کس طرح اپنی پھٹکار برساتا اور سخت عذاب سے پیشگی مطلع کرتا ہے:
” جو لوگ پاک دامن، بھولی بھالی، مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں، اُن پر دنیا اور آخرت، دونوں میں لعنت کی گئی اور اُن کے لیے بڑا عذاب ہے۔ اُس دن جب اُن کی زبانیں اور اُن کے ہاتھ پاؤں اُن کے مقابلے میں اُن کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ وہ جس بدلے کے مستحق ہیں، اُس دن اللہ اُنھیں پورا دے دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے، وہ (تمام حقائق کو) کھول دینے والا ہے” (النور:23تا25)۔

ہمارے محترم قائداگر یہ سمجھتے ہیں کہ ایس ایچ اوصاحبہ کی سلیکشن میرٹ کے خلاف ہے تو ان کے لیے عدلیہ کے دروازے کھلے ہیں، وہ قانون کی راہ سے انہیں ان کے منصب سے سبکدوش کروانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ انہیں میڈم کوکسی مبینہ بدچلنی کی سزا دلوانا مطلوب ہے، تو بھی براہین پیش کرنے کا مقام چوک نہیں عدالت ہی ہے۔ مگر یوں ڈھٹائی کے ساتھ چوک چوراہوں میں ایک غیور خاندان کی بیٹی کی عزت پر ایسےشرمناک وارکی حمایت کسی درجے میں بھی نہیں کی جا سکتی ۔ ایسی جسارت کی حمایت اخلاق و مروت کے کسی قاعدے سے ممکن ہے اور نہ ہی خدا کا دین اس کی لمحے بھر کے لیے کوئی تائید کر سکتاہے۔سماج میں ایسے چلن کا فروغ اخلاقی نظام کو تلپٹ کرنے کے مترادف ہے۔ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی ہم سب کا اخلاقی و دینی فریضہ ہے۔ کئی بار توجہ دلا چکاہوں، یہاں بارِدگر عرض کیے دیتا ہوں کہ انسان کا اصل جوہر اس کا اخلاقی وجود ہی توہے۔ اخلاقی وجود کے تحلیل ہو جانے کے بعد کسی انسانی صورت میں کوئی انسان تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کہ جو خود میں بصیرت کی کوئی رمق پاتے ہیں، ان پر لازم ہے کہ اخلاقی وجود کو یوں تحلیل ہونے سے بہرقیمت بچائے رکھیں۔ اخلاقی اقدار پر حملہ آور اہل جوش کے تجاوزات سے قوم کو باخبر رکھیں۔ خدا کرے کہ اب قوم کی سماعتوں کا ٹیسٹ بھی کہیں بدل پائے۔ کیونکہ جب تک قوم اخلاقی گراوٹ کے حامل پُرجوش خطابات سے دلچسپیاں برقرار رکھے گی ایسے مقررین بھی اُبھر اُبھرکرآتے رہا کریں گے۔

ناحق تشدد کے شکار افراد کی حمایت ہم سب کا اخلاقی فریضہ ہے، خواہ ان کا تعلق پولیس سے ہو یا عوام سے۔ انتظامیہ اگر ستم ڈھانے کی روش پر اتر آئے گی تو ہم اپنی راہیں قانون و اخلاق کے درمیان ہی تلاش کر لیں گے۔ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری یہ تلاش رائگاں نہ جائے گی۔ اس سب کی آڑ میں مگر یہاں کی تہذیبی اقدار پر شب خون مارنے کی حوصلہ افزائی کسی صورت نہیں کی جا سکتی۔انتظامیہ اتنی خود سر نہیں ہو سکتی کہ اس سے عوام کی جانوں کو خطرات لاحق ہو جائیں۔ ایس ایچ او صاحبہ اپنے منصب کے ساتھ ہم سب کے لیے قابلِ احترام ہیں۔ ان سے اگر کہیں اختیارات کے استعمال میں تجاوز ہو رہا ہو گا تو ممکن نہیں کہ توجہ دلانے پر وہ عوام سے مقابلے پر اتر آئیں گی۔وہ یہاں کی بیٹی ہونے کے ناتے یہاں کے لوگوں کے احترام میں کسی اور بیٹی سے پیچھے نہیں رہ سکتیں۔وہ اپنے سے جڑی عوامی امنگوں کو خاک میں ملانے کی جسارت نہیں کر سکتیں۔ وہ جب سے یہاں اپنے منصب پر ہیں ان کی کئی کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔ہم امید کرتے ہیں کہ وہ یہاں کی پولیس انتظامیہ کو عوام دوست بنانے میں مزیدکردار ادا کریں گی۔ہم پُرامید ہیں کہ قوم کی بیٹی قوم کا اعتماد مجروح نہ ہونے دے گی۔کسی موقع پر عوامی امنگوں کو ٹھیس پہنچے گی تو وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کس طرح اپنی اس بیٹی تک اپنی امنگوں کو پہنچانا ہے۔ قوم ابھی یوں چوکوں میں اپنی بیٹی کا تماشا لگانے کی شرمناک راہ کا انتخاب نہیں کر سکتی۔قوم کے جن چند افراد نے ایسی راہ کا انتخاب کر ڈالا ہے ہم پر لازم ہے کہ انہیں ان کی غلط روش پر ٹوکیں ۔ جن محترم قائد نے اس روش کی بنیاد ڈالی ہے عمائدین انہیں اس روش سے باز رہنے کی تلقین کریں۔یوں بہتان تراشی اور کردار کشی کی رسم چل پڑی تو جان لیجیے پھر چراغ سب کے بجھیں گے یہ ہوا کسی کی نہیں۔ آج اگر ایک خاتون آفیسرالزامات کی زد میں ہے تو کسی کو خوش گماں نہ رہنا چاہیے کہ کل کسی اور کی بیٹی بھی ایسی جسارتوں کا ہدف بنائی جا سکتی ہے۔ہمیں خطے کی خواتین پر واضح کرنا ہو گا کہ وہ جس میدان میں بھی ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہیں ضرور کریں ،یہاں کے مرد، اُن کی ناموس کے محافظ ہیں ۔یہ جسارت افسوس ناک بھی ہے اور شرمناک بھی کہ خواتین عزتوں پر ہلّا بولنے والوں کے شر سے بچنے کو پولیس کا محکمہ جوائین کرنے سے ہی گریزکریں۔ہر خاتون جبین کوثر کا سا حوصلہ نہیں رکھتی کہ وہ یہ سب وار جرات سے سہہ دکھائے۔کئی سنجیدہ لوگوں نے بجا تبصرہ فرمایا کہ ” قائدِ محترم نے برسرِچوک یہاں کی بیٹی کی یوں کردار کشی کر کے خود اپنی ہی اخلاقی ساکھ کو تباہ کر ڈالا”۔ شنید ہے کہ شریکِ احتجاج کچھ سنجیدہ قائدین نے بھی قائدِ محترم کی روش سے برات و ناگواری کا اظہار کیا ہے۔اِن مہذب شرکاءِ احتجاج کا عمل گواہ ہے کہ احتجاج کا عمل تہذیب و اخلاق کی کسی پستی میں اترے بغیر بھی بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ ان مہذب عمائدین ِاحتجاج کو مبارکباد نہ دینا بھی ناانصافی سے کم نہیں۔ یہ سب، دلیل اس بات کی ہے کہ سماج میں قابلِ ذکر اخلاقی شعور ابھی موجود ہے۔ایسے باشعور افراد ابھی زندہ ہیں جو اختلاف کو کسی کی تذلیل کا ذریعہ بنانا سنگین جرم سمجھتے ہیں۔جو عورت کی یوں تذلیل کو ایک شرمناک جرم سمجھتے ہیں۔اُن میں یہ اخلاقی جرات موجود ہے کہ وہ اخلاقی حدود سے متجاوز کسی قائدِ گرامی قدر سے اظہارِبرات بھی کر سکتے ہیں۔سماج میں، ایسے لوگوں کا دم یقیناًغنیمت ہے۔کالم کی یہ چند سطریں سماج کے انہی باشعور افراد کے نام۔ میری حیرت یہاں خود حیرت میں ڈوب جاتی ہے، جب اسی خطاب میں قائد کا یہ فرمان بھی سننے کوملتا ہے کہ "ایس ایچ او کو میں اپنی بہن سمجھتا ہوں۔ انّاللہ و انّا الیہ راجعون۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے