اہل مظفرآباد کی نیلم اورجہلم سے بے وفائی

میرا بچپن ،لڑکپن اور جوانی(جو تھوڑی بہت آئی تھی) مظفر آباد کی گلیوں میں گھومتے پھرتے اور کھیلتے کودتے گزری ہے۔ اس لحاظ سے مظفرآباد سے ایک جذباتی وابستگی اور دلی لگاؤ ہے۔ اگرچہ مظفرآباد میرا آبائی شہر نہیں مگر آبائی ضلع یہی رہا ہے اور گھر سے قریب ترین شہر ہونے کی وجہ سے مظفرآباد دوسرا نہیں بلکہ پہلا گھر ہی محسوس ہوتا ہے۔ مظفرآباد میں رہتے ہوئے کبھی گھر سے دوری کا احساس تک نہیں ہوا۔ہوتا بھی کیسے ،اگر دریا ئے نیلم کے ساتھ ساتھ سفر کرنا میسر ہو تو آبائی گاؤں اور شہر کے درمیان کل ملا کر 75کلومیٹر کا ہی تو فاصلے ہے ۔اس شہر کی خوبصورتی کی تعریف اپنی زبان سے اچھی نہیں لگتی مگر ایک مرتبہ ایک غیر ملکی دوست کو لیکر جب پیر چناسی گیا تو رات بھر تاروں اور برقی روشنیوں کے بعد صبح جب بادلوں کے اوپر سے اس کی نظر نیچے پھیلے مظفر آباد کے درمیان بہتے اور پھر’’ جپھی ‘‘ ڈالتے دریائے نیلم اور دریائے جہلم پر پڑی تو کہا ’’جلال، تم مجھے جنت میں لے آئے! ‘‘

مشکل وقت میں جب یہاں کے بسنے والوں تک نے مظفرآباد کا ساتھ چھوڑ دیا، یہاں بہنے والے دریا اسی روانی اور خوبصورتی ے ساتھ بہتے رہے۔ ان دونوں دریاوں نے مل کر مظفرآباد شہر کو’’ مظفر آباد‘‘ بنایااور شہر کے عین وسط میں معانقہ کر کے شہر کے حسن کو چار چاند لگا دیے۔پینے اور نہانے دھونے کے لئے لوگوں کو پانی مہیا کیا۔گرمیوں میں اس شہر کے درجہ حرارت کو ایک حد تک برقرار رکھا۔شہر بھر کی غلاظتوں اور لوگوں کے’’ کرتوتوں‘‘ تک کو اپنے ساتھ بہا لے گئے ۔ کرپشن کی کئی داستانیں ان دریاؤں میں غرق ہو گئیں اور کئی سفید پوشوں کی پردہ پوشی کی۔ ہزاروں لوگوں کے روزگار اور جان و مال کی حفاظت کا ذریعہ بنے اور جب کوئی بیرونی طاقت یہاں کی خواتین کی عزتوں پر حملہ آور ہوئی تو دونوں دریاوں نے مل کر ا ن خواتین کو اپنے دامن میں سمو لیااور ان کی عزتوں کو بچا لیا۔

اس شہر کی جغرافیائی اہمیت، خوبصورتی اور حسن ایک طرف لیکن جب سے ہوش سنبھالا ہے اس شہر کو بحرانوں سے دوچار دیکھا ہے۔ دریائے نیلم اور جہلم نے یہ بحران مظفر آباد کے ساتھ مشترکہ طور پر دیکھے، جھیلے اور نمٹائے ہیں۔کشمیر کی تقسیم سے قبل مظفرآباد ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے ایک متنوع شہر تھا جہاں مسلمان، ہندو اور سکھ اکھٹے رہا کرتے تھے۔ تقسیم کے وقت ہندوں اور سکھوں کومار بھگانے کے لئے ہم نے اپنے قبائلی بھائیوں کی مدد حاصل کی جنہوں نے حسب استطاعت کچھ کو کاٹا، کچھ کو بھگایا اور کچھ کو مسلمان کر دیا۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ عزتیں بچانے کے لئے ہندوں اور سکھوں کے ساتھ ساتھ کئی مسلمان دوشیزاؤں نے بھی دریائے نیلم اور دریائے جہلم میں چھلانگیں لگا کر اپنی جانیں قربان اور عزتیں محفوظ کیں۔

کبھی غصہ آیا تو دونوں دریاوں کا پارہ چڑھ گیا مگر پھر صدیوں کا تعلق آڑے آیا اور شہر کو بہا لے جانے کے ارادے سے چڑھے دریا محض اپنی حدود میں مداخلت کرکے کناروں پر ہوئی تجاوزات پر غصہ نکالنے تک محدود رہے ا۔شہر کی گندگی اور غلاظت کو اپنے ساتھ بہا لے گئے مگر شہر کو کوئی بڑا نقصان پہنچانے سے ہمیشہ گریز ہی کیا۔ 1992کا سیلاب ہو یا 2010کا، یا پھر 2005کا تباہ کن زلزلہ، مظفر آباد کئی مرتبہ بسا اور کوئی مرتبہ اجڑا ہے ۔ اس کے اجڑنے میں کردار ہمیشہ یہاں کے بسنے والوں کا رہا ہے مگر وہ اس کوقدرت کے کھاتے میں ڈال کر خود بری الذمہ ہوتے تھے۔ جب جب یہ شہر اجڑا تو دوبارہ بسنے میں ایک اہم کردار ان دو دریاؤں کا بھی رہا ہے۔2005 کے زلزلے میں جب یہ شہر ایک قبرستان میں تبدیل ہو گیا تھا تو یہ دریا ہی تھے جنہوں نے یہاں پانی کی سطح کو برقرار رکھ کر زندگی کا وجود برقرار رکھنے کے حالات پیدا کئے اور ہزارں ٹن ملبہ اور کچرا اپنے ساتھ بہا لے جا کر اس کھنڈر کو دوبارہ شہر بنانے کی راہ ہموار کی۔

ان دریاؤں نے یہاں کے لوگوں میں کتنی ہی محبتیں بانٹیں ہوں ، مظفرآبادیوں کو ان کی اہمیت و افادیت کا کبھی احساس نہیں ہوا۔ نیلم اور جہلم نے لوگوں کو جتنا فائدہ پہنچایا ہو بدلے میں لوگوں نے انہیں نقصان ہی پہنچایا ہے۔ شہر بھر کی صفائی کا باعث بننے والے دریا میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں ٹن کچرا اور شہر بھر کی سیوریج لائنیں ڈال کر اس کے پانی کو آلودہ، زہریلا اور بدبودار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بے وفائی کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہو گی کہ جب ان دریاوں کا رخ موڑنے کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی تو مظفرآباد کے بسنے والوں نے پرواہ تک نہیں کی کہ صدیوں کا ساتھ ٹوٹے گا تو نتائج کیا نکلیں گے۔ مہربانی ان لوگوں کی جنہوں نے دریا کا رخ موڑ کر بجلی پیدا کر کے دوسرے علاقوں کو روشن کرنے کا منصوبہ بنایاتھا انہوں نے ہی احساس کرتے ہوئے از خود وعدہ کیا تھا کہ پانی کی سطح برقرار رکھنے کے لے شہر میں دریا کی خالی جگہوں پر کچھ جھیل نما جوہڑبنائے جائیں گے تاکہ کشتی رانی اور مچھلیاں پکڑنے کے ذریعے یہاں بسنے والوں کی دل بہلائی کا ساماں ہو سکے ۔ان کے کرتوت جوہڑوں کہ تہہ میں پوشیدہ رہیں، تعفن بے شک پھیلے مگر نظر نہیں آنے چاہیے اور ان کی توجہ ممکنہ ماحولیاتی تباہی کی طرف نہ جا سکے۔

آج اطلاع ملی ہے کہ ان دو میں سے ایک دریا دریائے نیلم کا رخ موڑ دیا گیا ہے۔ فی الحال عارضی اور آزمائشی بنیادوں پر ہی سہی مگر آئندہ چند ماہ میں یہ راستہ مستقل بنیادوں پر تبدیل کر دیا جائے گا۔ دوسرے دریا، دریائے جہلم کا راستہ بدلنے کی تیاریاں بھی جاری ہیں چند سالوں میں یہ دریا بھی مظفرآباد کی حدود میں زمین کی سطح پر بہنے کے بجائے زیر زمین سفر کرے گا اور اس شہر کو ویران کر کے ملک بھر میں روشنیاں تقسیم کرے گا۔ مظفرآباد شہر سے آنے والے اطلاعات کے مطابق لوگ پانی خشک ہونے کے نتیجے میں مرنے اور سامنے آنے والی مچھلیاں پکڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ کچھ با اثر لوگ تیاری کر رہے ہیں کہ دریا کا رخ تبدیل ہونے کے بعد جو علاقے خالی ہوں گے ان پر قبضہ کیسے کیا جائے۔ جھیلیں بننے اور ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے دیگر منصوبوں پر کام کرنے کے ذمہ دار کہاں ہیں کسی کو کوئی پتا نہیں۔

فالٹ لائن پر ہونے کی وجہ سے ماہرین مظفرآباد کے ایک بار پھر اجڑنے پر متفق اور پر یقین ہیں ۔ماحولیاتی بگاڑ پیدا کرنے والی سرگرمیوں کے تسلسل نے اس تباہی کے قبل از وقت آنے کے امکانات میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان تمام مسائل سے مظفر آباد کے شہریوں، سیاسی قیادت، سول سوسائٹی اور آزاد کشمیر کی حکومت کی لاتعلقی اور بے اعتنائی بذات خود کسی بڑے المیے سے کم نہیں۔ جو قوم اپنی تباہی پر متفق ہو چکی ہو دنیا کی کوئی طاقت اسے بچا نہیں سکتی۔ عین اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں اطلاع آئی ہے کہ حکومت آزاد کشمیر نے مظفر آباد کے نواح میں ماحولیاتی حساسیت کے حامل کامسر نالے سے بجری، کرش اور پتھروں کی نکاسی پر عائد پابندی ماحولیاتی تحفظ کے ذمہ داری اداروں کی مخالفت کے باوجود ختم کر دی ہے۔ سینکڑوں سال بعد جب ماہرین ارضیات مظفرآباد کی تباہی کی وجوہات پر تحقیق کر رہے ہوں گے یا کوئی تاریخ دان تاریخ لکھے گا تو اسے لوگو ں کو یہ حقیقت بتانا پڑے گی کہ جب مظفرآباد نامی شہر میں بہنے والے دریاؤں کا رخ تبدیل کیا جا رہا تھا، وہاں بسنے والے لوگ پانی خشک ہونے پر مچھلیاں پکڑنے اور زمینوں پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔

مچھلیاں پکڑنے میں مگن مظفرآبادیو ،جب جب آپ لوگوں پر کوئی برا وقت آیا ہے ان دریاوں نے تمہارا ساتھ دیا مگر جواب میں تم نے اس شہر کو بے وفائی، بے اعتنائی اور لا تعلقی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ ماضی میں بھی تمہاری جان و مال اور عزت آبروپر حملے ہوتے رہے ہیں اور قدرتی آفتیں تمہارا پیچھا کرتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ لیکن اگلی بار کسی بحران سے نکلنے کسی تباہی سے بچانے یا کسی حملہ آور سے تحفظ دینے کے لیے دریائے نیلم اور دریائے جہلم تمہارے ساتھ نہیں ہوں گے۔ اس شہر اور اس کے دریاوں کے ساتھ بے وفائی کا بدلہ تمہیں ضرور ملے گا ۔ یہ مکافات عمل ہے قدرت کے ساتھ کھلی جنگ ہمیشہ مہنگی پڑتی ہے۔ بس اتنا ضرور سوچنا کے اگلی بار جب کوئی تبائی آئی تو کچرا کہاں بہاو گے اور اگر باہر سے جب کوئی تمہاری عزتوں پر حملہ آور ہو گا تو چھلانگیں لگانے کہاں جاو گے؟​

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے